اللہ تبارک تعالیٰ زمان و مکان
کی حدود و قیود سے پاک ذات ہے۔ماضی حال و مستقبل ہم سورج کے نیچے رہنے
والوں کے لیے مختلف معنی رکھتے ہیں لیکن اس ازلی وابدی علیم و خبیر ذات کے
لیےوقت کی ایسی کوئی تقسیم نہیں ۔جوگزر گيا، جو گزر رہا ہے اور جو آنےوالا
ہےسب اسی کا منصوبہ ، اسی کی قدرت اور اسی کا علم و حکم ہے اور اس کی نگاہ
عظیم الشان کے بالکل سامنے ہے۔اسی کامل علم وخبر رکھنے والی ہستی نےقرآن
حکیم میں تاریخ اور مستقبل کے بہت سے مناظر پیش کیے ہیں جن میں سے ہر ایک
ہمارے لیے سامان عبرت و درس نصیحت رکھتا ہے۔انھی مناظر میں سے ایک منظر
قیامت کے دن قبروں کا کھولا جانا اور اگلے پچھلے تمام انسانوں کا بیک وقت
جمع کیا جاناہے۔یہ مرحلہ ہم پر بھی گزرنا ہے اورعنقریب ہم بھی اسی منظرنامے
کا ایک حصہ ہوں گے اس لیے چلیے یہ منظر قرآن کی روشنی میں اپنی آنکھوں سے
دیکھ لیتے ہیں۔
قرآن ہمیں یہ بتلاتا ہے کہ حشر کے دن پیش آنے والے واقعات و مراحل ان حقائق
کا علم رکھنے والے مومنین کی تو توقعات اور علم کے عین مطابق ہوں گےلیکن
ایمان نہ رکھنے والوں اور ان لوگوں کے لیے جو ان باتوں سے آگاہ نہیں ہیں یہ
سب کچھ بہت ہی حیرت ناک ہو گا۔آئیے ہم جان لیتے ہیں کہ کل کو ہمارے ساتھ
کیا پیش آنا ہے تاکہ ہم ان سچائیوں سے اندھیرے میں نہ رہیں اور شاید یہی
جاننا اور ماننا ہمارے دل و دماغ میں رچ بس جائے اور ہم اس بڑے دن کی کچھ
تیاری ہی کر لیں۔
نادان لو گ یہ سمجھتے ہیں کہ نظام کائنات کو درہم برہم کر کے نیا نظام
نافذ وجاری کرنا اور پہلے انسان سے لے کر آخری انسان تک اربوں کی تعداد میں
انسانوں کو بیک وقت زندہ کرنا بڑا ہی دشوار کام ہو گا۔ اور بات یقینا صحیح
ہےبشرطیکہ اگر یہ سب کرنے کا دعوی کوئی اور ہستی کرے تو۔ لیکن جب قادر مطلق
حکیم یہ ارشاد فرمائے تو پھر اس کی عظیم الشان خلاقی، علم، طاقت اور قدرت
دیکھ کردل و دماغ ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں
رہتا کیونکہ وہ تو عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ہے ۔ جو چاہے کر گزرے اور
کچھ بھی کرنے کے لیے اسے کونسی تیاری کرنا ہے یا وسائل اکٹھے کرنا ہیں۔
وہاں تو ایک حکم کی دیر ہے"کن" اور پھر جو حکم جاری ہو وہ عمل میں آ جاتا
ہے "فیکون"۔
یہی بات قرآن عظیم میں بھی بتلائي گئی ہے کہ قیامت کا برپا کرنا اللہ کے
لیے کچھ بھی مشکل نہیں۔بس حکم کی دیر ہے اور آنکھ کے جھپکنے سے بھی کم وقت
میں حشر برپا ہو جائے گا اور اللہ کے لیے تمام انسانوں کا زندہ کرنا یا کسی
ایک کوزندہ کرنا یکساں ہے۔بس آوازہءحشر کا بلند ہونا ہوگا کہ اول تا آخر سب
کےسب بیک وقت نکل آئيں گے:
چند آیات ملاحظہ ہوں:
سورة الأنعام ( 6 )
وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ بِالْحَقِّ وَيَوْمَ
يَقُولُ كُن فَيَكُونُ قَوْلُهُ الْحَقُّ وَلَهُ الْمُلْكُ يَوْمَ يُنفَخُ
فِي الصُّوَرِ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ وَهُوَ الْحَكِيمُ
الْخَبِيرُ {73}
وہی ہے جس نے آسمان و زمین کو بر حق پیدا کیا ہے۔اور جس دن وہ کہے گا کہ
حشر ہو جائے اُسی دن وہ ہو جائے گا۔ اُس کا ارشاد عین حق ہے۔ اور جس روز
صور پھونکا جائے گا اُس روز بادشاہی اُسی کی ہو گی، وہ غیب اور شہادت ہر
چیز کا عالم ہے اور دانا اور با خبر ہے۔
سورة النحل ( 16 )
۔۔۔ وَمَا أَمْرُ السَّاعَةِ إِلاَّ كَلَمْحِ الْبَصَرِ أَوْ هُوَ أَقْرَبُ
إِنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ {77}
اور قیامت کے برپا ہونے کامعاملہ کچھ دیر نہ لےگا مگر بس اتنی کہ جس میں
آدمی کی آنکھ جھپک جائے، بلکہ اس سے بھی کچھ کم ۔ حقیقت یہ ہے اللہ سب کچھ
کر سکتا ہے۔
سورة الروم ( 30 )
وَمِنْ آيَاتِهِ أَن تَقُومَ السَّمَاء وَالْأَرْضُ بِأَمْرِهِ ثُمَّ إِذَا
دَعَاكُمْ دَعْوَةً مِّنَ الْأَرْضِ إِذَا أَنتُمْ تَخْرُجُونَ {25}
اور اُس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ آسمان اور زمین اس کے حکم سے قائم ہیں۔
پھر جونہی کہ اُس نے تمہیں زمین سے پکارا، بس ایک ہی پکار میں اچانک تم
نِکل آؤ گے۔
سورة الإسراء ( 17 )
يَوْمَ يَدْعُوكُمْ فَتَسْتَجِيبُونَ بِحَمْدِهِ وَتَظُنُّونَ إِن
لَّبِثْتُمْ إِلاَّ قَلِيلاً {52}
جس روز وہ تمہیں پکارے گا تو تم اس کی حمد کرتے ہوئے اس کی پکار کے جواب
میں نکل آؤ گے اور تمہارا گمان اُس وقت یہ ہو گا کہ ہم بس تھوڑی دیرہی اِس
حالت میں پڑےرہے ہیں ۔
سورة النازعات ( 79 )
يَقُولُونَ أَئِنَّا لَمَرْدُودُونَ فِي الْحَافِرَةِ {10} أَئِذَا كُنَّا
عِظَامًا نَّخِرَةً {11} قَالُوا تِلْكَ إِذًا كَرَّةٌ خَاسِرَةٌ {12}
فَإِنَّمَا هِيَ زَجْرَةٌ وَاحِدَةٌ {13} فَإِذَا هُم بِالسَّاهِرَةِ {14}
یہ لوگ کہتے ہیں“کیا واقعی ہم پلٹا کر پھر واپس لائے جائیں گے؟ کیا جب ہم
کھوکھلی بوسیدہ ہڈیاں بن چکے ہوں گے؟” “ کہنے لگے یہ واپسی تو پھر بڑے
گھاٹےکی ہو گی۔”حالانکہ یہ بس اتنا کام ہے کہ ایک زور کی ڈانٹ پڑے گي اور
یکایک یہ کھلے میدان میں موجود ہوں گے۔
سورة يس ( 36 )
إِن كَانَتْ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً فَإِذَا هُمْ جَمِيعٌ لَّدَيْنَا
مُحْضَرُونَ {53}
ایک ہی زور کی آواز ہوگی اور سب کے سب ہمارے سامنے حاضر کر دیے جائیں گے۔
سورة لقمان (31 )
مَّا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ وَاحِدَةٍ إِنَّ اللَّهَ
سَمِيعٌ بَصِيرٌ {28}
تم سارے انسانوں کو پیدا کرنا اور پھر دوبارہ جِلا اُٹھانا تو (اُس کے
لیے)بس ایسا ہے جیسے ایک متنفس کو (پیدا کرنا اور جِلا اُٹھانا)۔ حقیقت یہ
ہے کہ اللہ سب کچھ سُننے اور دیکھنے والا ہے ۔
یہ تو تھا اس کا بیان کہ حشر برپا کرنا اللہ کے لیے بے حد آسان ہےاور اب
ذرا وہ منظر دیکھیے کہ جب قبریں کھل رہی ہیں اور انسان زندہ ہو کر فوج در
فوج بکھری ہوئي ٹڈیوں کی طرح قبروں سے نکل رہے ہیں۔اور یہ نہ بھولیے گا کہ
ہماری قبر بھی اسی منظر نامے میں کہیں کھلے گي اور اسی قرآنی نظارے میں
کہیں ہمیں بھی دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور پھر رب کے سامنے ہی جا کر
ٹھہرنا ہوگا:
سورة الإنفطار ( 82 )
وَإِذَا الْقُبُورُ بُعْثِرَتْ {4} عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ
وَأَخَّرَتْ {5}
اور جب قبریں کھول دی جائيں گی، اُس وقت ہر شخص کو اُس کا اگلا پچھلا سب
کیا دھرا معلوم ہو جائے گا۔
سورة النبأ ( 78 )
إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ كَانَ مِيقَاتًا {17} يَوْمَ يُنفَخُ فِي الصُّورِ
فَتَأْتُونَ أَفْوَاجًا {18}
بےشک فیصلے کا دن ایک مقرّر وقت ہے۔ جس روز صور میں پُھونک مار دی جائے گی،
تم فوج در فوج نکل آؤ گے۔
سورة ق ( 50 )
وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنَادِ الْمُنَادِ مِن مَّكَانٍ قَرِيبٍ {41} يَوْمَ
يَسْمَعُونَ الصَّيْحَةَ بِالْحَقِّ ذَلِكَ يَوْمُ الْخُرُوجِ {42} إِنَّا
نَحْنُ نُحْيِي وَنُمِيتُ وَإِلَيْنَا الْمَصِيرُ {43} يَوْمَ تَشَقَّقُ
الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِرَاعًا ذَلِكَ حَشْرٌ عَلَيْنَا يَسِيرٌ {44}
اور سنو، جس دن منادی کرنے والا (ہر شخص کے)قریب ہی سے پکارے گا، جس دن سب
لوگ آوازہ حشر کو ٹھیک ٹھیک سُن رہے ہوں گے، وہ زمین سے مُردوں کے نکلنے کا
دن ہو گا۔ ہم ہی زندگی بخشتے ہیں اور ہم ہی موت دیتے ہیں، اور ہماری طرف ہی
اُس دن سب کو پلٹنا ہے جب زمین پھٹے گی اور لوگ اس کے اندر سے نکل کے تیز
تیز بھاگے جا رہے ہوں گے۔ یہ حشر ہمارے لیے بہت آسان ہے۔
سورة القمر (54 )
……يَوْمَ يَدْعُ الدَّاعِ إِلَى شَيْءٍ نُّكُرٍ {6} خُشَّعًا أَبْصَارُهُمْ
يَخْرُجُونَ مِنَ الْأَجْدَاثِ كَأَنَّهُمْ جَرَادٌ مُّنتَشِرٌ {7}
مُّهْطِعِينَ إِلَى الدَّاعِ يَقُولُ الْكَافِرُونَ هَذَا يَوْمٌ عَسِرٌ
{8}
جس روز پکارنے والا ایک سخت ناگوار چیز کی طرف پکارے گا، لوگ سہمی ہوئی
نگاہوں کے ساتھ اپنی قبروں سے اِس طرح نکلیں گے گویا وہ بکھری ہوئی ٹِڈیاں
ہیں۔ پکارنے والے کی طرف دوڑے جا رہے ہوں گے اور وہی منکرین(جو دنیا میں اس
کا انکار کرتے تھے) اُس وقت کہیں گے کہ یہ دن تو بڑا کٹھن ہے۔
اس موقع پرکافر لوگوں کا حال یہ ہوگا:
سورة المعارج ( 70 )
يَوْمَ يَخْرُجُونَ مِنَ الْأَجْدَاثِ سِرَاعًا كَأَنَّهُمْ إِلَى نُصُبٍ
يُوفِضُونَ {43} خَاشِعَةً أَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ ذَلِكَ
الْيَوْمُ الَّذِي كَانُوا يُوعَدُونَ {44}
جس دن یہ (کافر) اپنی قبروں سے نکل کر اِس طرح دَوڑے جا رہے ہوں گے جیسے
اپنے بُتوں کے استھانوں کی طرف دوڑ رہے ہوں، اِن کی نگاہیں جھکی ہوئی ہوں
گی، ذلّت اِن پر چھا رہی ہو گی۔ وہ دن ہے جس کا اِن سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔
سورة يس ( 36 )
وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَإِذَا هُم مِّنَ الْأَجْدَاثِ إِلَى رَبِّهِمْ
يَنسِلُونَ {51} قَالُوا يَا وَيْلَنَا مَن بَعَثَنَا مِن مَّرْقَدِنَا
هَذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمَنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُونَ {52}
پھر ایک صُورپُھونکا جائے گا اور یکایک یہ اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے لیے
اپنی قبروں سے نِکل پڑيں گے۔ گھبرا کر کہیں گے:"ارے، یہ کس نے ہميں ہماری
خواب گاہ سے اُٹھا کھڑا کیا؟"_______یہ وہی چیز ہے جس کا خدائے رحمان نے
وعدہ کیا تھا اور رسُولوں کی بات سچی تھی۔"
ذیل کی آیت سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ قبرسے اٹھتے ہی ہر فرد کے ذمہ دار دونوں
فرشتے اس شخص کےنامہء اعمال کے ساتھ اس کے پاس حاضر ہو جائیں گے اور اس کی
زندگی کے پورے ریکارڈ کے ساتھ اسے خدا کی عدالت میں لے جائیں گے۔(واللہ
اعلم)
سورة ق ( 50 )
وَجَاءتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّعَهَا سَائِقٌ وَشَهِيدٌ {21}
ہر شخص اِس حال میں آ گیاکہ اُس کے ساتھ ایک ہانک کر لانے والا ہے اور ایک
گواہی دینے والا۔
اور یوں آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک آنےوالے آخری فرد تک سارے
انسانوں کو بیک وقت زندہ کر دیا جائے گا اور اگلے پچھلے سارے انسانوں کو
گھیر کراللہ کے سامنے پیش کرنے کے لیے اس طرح جمع کیا جائے گا کہ کوئي ایک
بھی نہ چھوٹے گا:
سورة الكهف (18 )
وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَّمُوجُ فِي بَعْضٍ وَّنُفِخَ فِي
الصُّورِ فَجَمَعْنَاهُمْ جَمْعًا {99}
اور اس روز ہم لوگوں کو چھوڑ دیں گے کہ (سمندر کی موجوں کی طرح) ایک دوسرے
سے گتھم گتھا ہوں اور صور پھونکا جائے گا اور ہم سب انسانوں کو ایک ساتھ
جمع کریں گے۔
سورة الكهف ( 18 )
وَيَوْمَ نُسَيِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَى الْأَرْضَ بَارِزَةً
وَحَشَرْنَاهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ أَحَدًا {47} وَعُرِضُوا عَلَى
رَبِّكَ صَفًّا لَّقَدْ جِئْتُمُونَا كَمَا خَلَقْنَاكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ
بَلْ زَعَمْتُمْ أَلَّن نَّجْعَلَ لَكُم مَّوْعِدًا {48}
اُس دن جب کہ ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور تم زمین کو بالکل برہنہ پاؤ گے،
اور ہم تمام انسانو ں کو اس طرح گھیر کر جمع کریں گے کہ (اگلوں پچھلوں میں
سے)ایک بھی نہ چھوٹے گا، اور سب کے سب تمہارے رب کے حضور صف در صف پیش کیے
جائیں گے______لو دیکھ لو ،آ گئے نا تم ہمارے پاس اُسی طرح جیسا ہم نے تم
کو پہلی بار پیدا کیا تھا۔ تم نے تویہ سمجھا تھا کہ ہم نے تمہارے لیے کوئی
وعدے کا وقت مقررہی نہیں کیاہے۔
اورکہا جائےگا کہ:
سورة المرسلات ( 77 )
هَذَا يَوْمُ الْفَصْلِ جَمَعْنَاكُمْ وَالْأَوَّلِينَ {38} فَإِن كَانَ
لَكُمْ كَيْدٌ فَكِيدُونِ {39} وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِّلْمُكَذِّبِينَ {40}
یہ فیصلے کا دن ہے۔ ہم نے تمہیں اور تم سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو جمع کر
دیا ہے۔ اب اگر کوئی چال تم چل سکتے ہو تو میرے مقابلے میں چل دیکھو۔ تباہی
ہے اُس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔
آپ اس پر غور فرمائیے کہ ہم اپنی زندگی کے کس مرحلے کو وقوع پذیر ہونے سے
روک سکتےہیں ۔ہماری پیدائش ہو، بچپن، لڑکپن، جوانی، بڑھاپا اور پھر موت۔ ان
میں سے کونسا مرحلہ ہمارے بس میں ہے؟ برزخ، قیامت کا برپا ہونا ، قبروں کا
کھلنا، پھر زندہ کر کے اٹھایا جانا، اللہ کے سامنے حاضری اور جوابدہی اور
پھرجنت یا دوزخ۔ یہ سب انہی مراحل اور منازل کا تسلسل ہی تو ہے۔اسی لیے تو
اقبال نے کہا تھا:
مختلف ہر منزل ہستی کی رسم وراہ ہے
آخرت بھی زندگی کی ایک جولاں گاہ ہے
بتلائیے کہ ہمارا اختیار ان مراحل ومنازل میں سے پہلے کس مرحلے ومنزل پر
چلتا ہے جو آگے چل سکے گا اور ہم اپنے دوبارہ زندہ کیے جانے، فیصلے کے دن
کو برپا ، اور اللہ کے سامنے پیشی اور اس کے فیصلے کو ٹال سکیں گے؟حقیقت تو
یہ ہے کہ ان معاملات میں تو ہم محض بے بس ہیں ۔ وَأَنتُمْ دَاخِرُونَ (اور
تم (خدا کے مقابلے میں)بے بس ہو )۔یہ سب کچھ توہونا ہی ہےاور ہمیں زندگي کی
یہ تمام منازل بہرحال طے کرنی ہیں۔ ہماری خیر اسی میں ہے کہ اللہ اور اللہ
کے رسولﷺ کے بتلائے طریقوں کے مطابق زندگی گزار کر اس بڑے دن کی کچھ تیاری
کر لیں کہ یہی ہمارا کل ہے:
سورة الحشر ( 59 )
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا
قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۔۔۔{18}
اے لوگو جوایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو، اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے
لیے کیا سامان کیا ہے۔
اورقیامت کادن تو بہرصورت آنا ہی آنا ہے جس کے ٹلنے کی کوئی صورت نہیں
کیونکہ یہی اللہ کا وعدہ ہے:
سورة النحل ( 16 )
وَأَقْسَمُواْ بِاللهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لاَ يَبْعَثُ اللهُ مَن
يَمُوتُ بَلَى وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا وَلـكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ
يَعْلَمُونَ {38}
یہ لوگ اللہ کے نام سے کڑی کڑی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ "اللہ کسی مرنے
والے کو پھر سے زندہ کر کے نہ اٹھائے گا۔" اٹھائے گا کیوں نہیں، یہ تو ایک
وعدہ ہے جسے پورا کرنا اس نے اپنے اوپر واجب کر لیا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے
نہیں ہیں۔
سورة الأنبياء ( 21 )
يَوْمَ نَطْوِي السَّمَاء كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ كَمَا بَدَأْنَا
أَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ
{104}
وہ دن جبکہ آسمان کو ہم یوں لپیٹ کر رکھ دیں گے جیسے طومار میں اوراق لپیٹ
دیے جاتے ہیں۔ جس طرح پہلے ہم نے تخلیق کی ابتدا کی تھی اُسی طرح ہم پھر
اُس کا اعادہ کریں گے۔ یہ ایک وعدہ ہے ہمارے ذمے، اور یہ کام ہمیں بہرحال
کرنا ہے۔
پھر وہاں سے نہ فرار ممکن نہ ہوگا، نہ کوئی پناہ گاہ ہو گي اور نہ ہی کوئی
مدد کرنےوالا:
سورة الإنفطار ( 82 )
وَمَا هُمْ عَنْهَا بِغَائِبِينَ {16}
اوروہ اُس سے ہرگز غائب نہ ہو سکیں گے۔
سورة الشورى (42)
اسْتَجِيبُوا لِرَبِّكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا مَرَدَّ
لَهُ مِنَ اللَّهِ مَا لَكُم مِّن مَّلْجَأٍ يَوْمَئِذٍ وَمَا لَكُم مِّن
نَّكِيرٍ {47}
مان لو اپنے رب کی بات قبل اس کے کہ وہ دن آئے جس کے ٹلنے کی کوئی صورت
اللہ کی طرف سے نہیں ہے۔ اُس دن تمہارے لیے کوئی جائے پناہ نہ ہو گی اور نہ
کوئی تمہارے حال کو بدلنے کی کوشش کرنےوالا ہو گا۔
اور وہاں پچھتاوا اور معافی مانگنا بھی لاحاصل ہوگا:
سورة الفجر ( 89 )
وَجِيءَ يَوْمَئِذٍ بِجَهَنَّمَ يَوْمَئِذٍ يَتَذَكَّرُ الْإِنسَانُ
وَأَنَّى لَهُ الذِّكْرَى {23} يَقُولُ يَا لَيْتَنِي قَدَّمْتُ لِحَيَاتِي
{24} فَيَوْمَئِذٍ لَّا يُعَذِّبُ عَذَابَهُ أَحَدٌ {25} وَلَا يُوثِقُ
وَثَاقَهُ أَحَدٌ {26}
اور جہنم اُس روز سامنے لے آئی جائے گی،اُس دن انسان کو سمجھ آئے گی اور اس
وقت اس کے سمجھنے کا کیا حاصل؟ وہ کہے گا کہ کاش میں نے اپنی اس زندگی کے
لیے کچھ پیشگی سامان کیا ہوتا!پھر اُس دن اللہ جو عذاب دے گا ویسا عذاب
دینے والا کوئی نہیں اور اللہ جیسا باندھے گا ویسا باندھنے والا کوئی نہیں
۔
سورة الروم ( 30 )
فَيَوْمَئِذٍ لَّا يَنفَعُ الَّذِينَ ظَلَمُوا مَعْذِرَتُهُمْ وَلَا هُمْ
يُسْتَعْتَبُونَ {57}
پس وہ دن ہو گا جس میں ظالموں کو ان کی معذرت کوئی نفع نہ دے گی اور نہ ان
سے معافی مانگنے کے لیے کہا جائے گا۔
سورة التحريم (66)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَعْتَذِرُوا الْيَوْمَ إِنَّمَا
تُجْزَوْنَ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ {7}
(اُس وقت کہا جائے گا کہ)اے کافرو، آج معذرتیں پیش نہ کرو، تمہیں تو ویسا
ہی بدلہ دیا جا رہا ہے جیسے تم عمل کر رہے تھے۔
یہ منظر بھی دیکھ لیجیےجب کافروں کو جہنم میں ڈال کر بھلا دیا جائے گا:
سورة الجاثية ( 45 )
وَقِيلَ الْيَوْمَ نَنسَاكُمْ كَمَا نَسِيتُمْ لِقَاء يَوْمِكُمْ هَذَا
وَمَأْوَاكُمْ النَّارُ وَمَا لَكُم مِّن نَّاصِرِينَ {34} ذَلِكُم
بِأَنَّكُمُ اتَّخَذْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا وَغَرَّتْكُمُ الْحَيَاةُ
الدُّنْيَا فَالْيَوْمَ لَا يُخْرَجُونَ مِنْهَا وَلَا هُمْ
يُسْتَعْتَبُونَ {35}
اور ان سے کہہ دیا جائےگاکہ آج ہم بھی اُسی طرح تمہیں بھلائے دیتے ہیں جس
طرح تم اِس دن کو ملاقات کو بُھول گئے تھے۔ تمہارا ٹھکانا اب دوزخ ہے اور
کوئی تمہاری مدد کرنے والا نہیں ہے ۔یہ تمہارا انجام اس لیے ہوا ہے کہ تم
نے اللہ کی آیات کا مذاق بنا لیا تھا اور تمہیں دنیا کی زندگی نے دھوکے میں
ڈال دیا تھا۔ لہذا آج نہ یہ لوگ دوزخ سے نکالے جائیں گے اور نہ ان سے کہا
جائےگا کہ معافی مانگ کر اپنے رب کو راضی کر و۔
اور کافر پکار اٹھے گا:
سورة النبأ ( 78 )
إِنَّا أَنذَرْنَاكُمْ عَذَابًا قَرِيبًا يَوْمَ يَنظُرُ الْمَرْءُ مَا
قَدَّمَتْ يَدَاهُ وَيَقُولُ الْكَافِرُ يَا لَيْتَنِي كُنتُ تُرَابًا {40}
ہم نے تم لوگوں کو اُس عذاب سے ڈرا دیا ہے جو قریب آلگا ہے۔جس روز آدمی وہ
سب کچھ دیکھ لے گا جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے،اور کافر پکار اُٹھے گا
کہ کاش میں خاک ہوتا۔
اللہ سے دعا کیجیےکہ اللہ ہمیں نعمت ایمان عطا فرمائے،ایمان والی زندگي اور
ایمان پر ہی موت عطا فرمائے۔زندگی کی ساری منزلیں اور مراحل اپنی اطاعت میں
گزارنے کی توفیق عطا فرمائے، ہمارے لیےہر مرحلہ آسان فرمائےاور ہمارے ساتھ
دنیا و آخرت میں اپنی خاص رحمت سے معاملہ فرمائے۔(آمین) |