اب غور طلب امر یہ ہے کہ جب لفظِ
سنّت بھی، لغوی اور شرعی تقسیم کے ساتھ خود حسنہ اور سیّئہ کی دو قسموں پر
حدیث سے ثابت ہوگیا تو لفظِ بدعت کو اسی اصول پر حسنہ اور سیّئہ کی دو
اقسام پر تسلیم کرنے میں کون سا امر مانع رہ گیا۔ سوائے ضد، ہٹ دھرمی یا
جہالت اور لا علمی کے۔ پھر اس اصول کی تصریح سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ
نے اپنے مبارک ارشاد سے فرما دی ہے جسے امام بخاری نے ’’الجامع الصحیح‘‘
میں روایت کیا ہے۔
خرجت مع عمر بن الخطاب رضي الله عنه ليلة في رمضان إلي المسجد فإذا الناس
أوزاع متفرقون يصلي الرجل لنفسه و يصلي الرجل فيصلي بصلاته الرهط، فقال عمر
: إني أري لو جمعت هؤلاء علي قارئ واحد لکان أمثل ثم عزم فجمعهم علي أبي بن
کعب ثم خرجت معه ليلة أُخري والناس يصلون بصلوة قارئهم، قال عمر : نعم
البدعة هذه والتي ينامون عنها أفضل من التي يقومون يريد آخر الليل و کان
الناس يقومون أوّله.
’’میں حضرت عمر کے ساتھ رمضان کی ایک رات مسجد کی طرف نکلا تو لوگ متفرق
تھے ایک آدمی تنہا نماز پڑھ رہا تھا اور ایک آدمی گروہ کے ساتھ۔ حضرت عمر
رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے خیال میں انہیں ایک قاری کے پیچھے جمع
کردیا جائے تو اچھا ہوگا، پس آپ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پیچھے
سب کو جمع کردیا۔ پھر میں دوسری رات کو ان کے ساتھ نکلا تو دیکھا کہ لوگ
اپنے قاری کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
یہ کتنی اچھی بدعت ہے اور رات کا وہ حصہ جس میں لوگ سو جاتے اس سے بہتر وہ
حصہ ہے جس میں وہ قیام کرتے ہیں مراد رات کا آخری حصہ تھا جبکہ لوگ پہلے
حصے میں قیام کرتے تھے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، 2 : 707، کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان، رقم
: 1906
آپ نے غور فرمایا کہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے نماز تراویح کے بعد
باجماعت اہتمام کو ’’بدعت‘‘ بھی کہا اور ’’نعمۃ‘‘ یعنی ’’حسنۃ‘‘ بھی کہا۔
وجہ یہی تھی کہ یہ کام اپنی ظاہری حالت اور ہیئت کے حوالے سے نیا تھا۔ جو
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اختیار نہیں فرمایا تھا اس لئے اسے ’’بدعۃً‘‘
کہا۔ مگر باعثِ خیر اور مبنی بر مصلحت تھا اس لئے اسے ’’نعمۃ یعنی حسنۃ ‘‘
قرار دیدیا۔
سو بدعت کی اس تقسیم کی بنیاد بعد کے آئمہ و محدثین اور علماء و فقہاء
اسلام نے ہرگز نہیں رکھی۔ بلکہ انہوں نے ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم اور سنّتِ خلفائے راشدین کی ہی تشریح و توضیح کی ہے۔ اور اسے خاص علمی
نظم کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔
ہماری بد قسمت یہ ہے کہ کئی مدعیانِ علم رائے تصور اور عقیدۂ و نظریہ پہلے
قائم کر لیتے ہیں اور قرآن و حدیث کا مطالعہ اس کے تابع ہو کر کرتے ہیں اس
لئے نفسِ مسئلہ کی صحیح معرفت نصیب نہیں ہوتی۔ اگر اہل علم دامنِ ذہن کو
خالی رکھ کر یعنی اسے پہلے سے Engage کئے بغیر پہلی خیرات ہی قرآن و حدیث
اور آثارِ صحابہ سے لیں تو تصورات یکسر بدل جائیں گے۔ اگر یہ بات سمجھ میں
آجائے تو کم از کم مسلمانوں پر ’’فتاوائے بدعت‘‘ کی بوچھاڑ کم ہو جائے گی۔
جو یقینًا مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب ہونے میں مدد دے گی۔
جاری ہے۔۔۔۔ |