تحریر: ارم فاطمہ، لاہور
یاسرکے والد حسن عبداﷲ شہرکی معروف سماجی شخصیت اور کامیاب بزنس مین تھے۔
کئی اسکول ان کی زیرسرپرستی چل رہے تھے۔ ساتھ ساتھ وہ غریب اور نادار بچوں
کو وظیفہ بھی دیا کرتے تھے تاکہ وہ تعلیم حاصل کر کے ایک اچھی زندگی بسر کر
سکیں۔ یاسر ان کا اکلوتا بیٹا تھا۔ وہ جتنے شفیق اور رحم دل تھے وہ اتنا ہی
مغرور اور بدتمیز تھا۔ وہ بہت ذہین طالب علم تھا مگراور بچوں کواپنے سے
کمترسمجھتا اور ان سے دوستی نہیں کرتا تھا۔ کئی مرتبہ اپنے ابو کے ساتھ وہ
کچھ خریدنے یا آئس کریم کھانے جاتا اور کوئی غریب بچہ بھیک مانگنے یا اپنے
میلے کپڑے سے ان کی گاڑی صاف کرنے لگتا تو غصے سے ڈانٹنے لگتا جبکہ حسن
عبداﷲ نہ صرف اس بچے کو پیسے دیتے بلکہ آئس کریم بھی خرید کر دیتے اور یاسر
کو سمجھاتے کہ یہ بھی انسان ہیں ان سے نرمی سے بات کیا کرومگروہ ایک کان سے
سن کر دوسرے کان سے نکال دیتا۔
اس دن اسے کلاس میں شدید کوفت ہوئی جب ٹیچر نے کلاس میں داخل ہونے والے ایک
نئے بچے کواس کے ساتھ بٹھادیا۔ اس کے کپڑے صاف ستھرے تھے بس کپڑوں کا رنگ
اڑ چکا تھا۔ یاسر کو اس کے ساتھ بیٹھنا برا لگ رہا تھا مگر وہ خاموش رہا۔
اس کا نام محمد تھا۔بہت جلد اس نے کلاس کے سبھی بچوں سے دوستی کرلی مگر وہ
جب بھی یاسر سے بات کرنے کی کوشش کرتا وہ اسے جھڑک دیتا۔
ایک دن یاسر اسکول سے نکل کر اپنی گاڑی کی طرف جانے کے لیے سڑک پار کرنے
لگا تو دوسری سمت سے آنے والی تیز رفتار موٹر سائیکل اسے ٹکر مارنے ہی لگی
تھی کہ پیچھے آتے محمد نے اسے دھکا دے کراسے موٹر سائیکل کی زد میں آنے سے
بچالیا اور خود وہ ٹکرا کر سڑک پر گر گیا۔اس کا سر پھٹ گیا۔ حسن عبداﷲ اس
سے ملنے اسپتال گئے اس کا بہت خیال رکھا مگر یاسر اب بھی اس سے زیادہ بات
نہیں کر رہا تھا جانے وہ شرمندہ تھا یا پھر ابھی بھی اس کے دل میں محمد کے
لیے دوستی کا جذبہ نہیں پیدا ہوا تھا۔ اسکول میں سالانہ فنکشن تھا۔اس کے
مہمان خصوصی حسن عبداﷲ تھے۔جب انہیں اسٹیج پر بلا کر اظہار خیال کرنے کی
دعوت دی۔
وہ کہنے لگے! میرے عزیز بچو! علم سے بڑی دولت کوئی نہیں۔ اس کے لئے لگن اور
محنت آپ کوزندگی میں بہت کامیابی دے گی۔علم بانٹنا اور پھیلانا بہت بڑی
نیکی ہے۔ مجھے آپ سے بس یہ کہنا ہے کہ جہاں تک ہو سکے علم دوسروں تک
پہچائیں۔ آپ اپنی کتابیں ردی میں دینے کی بجائے کسی غریب کودے کر اس کی مدد
کر سکتے ہیں۔ اپنے فارغ وقت میں کسی ایسے بچے کو جو سکول نہ جا سکتا ہو
پڑھا سکتے ہیں۔اس طرح وہ بچے جو بھیک مانگتے یا سڑکوں پہ کام کرتے ہیں پڑھ
لکھ کر بہتر کام کر سکتے ہیں۔
آپ جانتے ہیں میرے والدین بہت غریب تھے۔ مجھے پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ میں
سکول کے باہر کھڑا ہو کرحسرت سے دیکھتا رہتا کہ کاش میں پڑھ سکتا۔پھر ایک
دن میں نے دیکھا ایک بچہ میرے پاس آیا اور اپنی کتابیں مجھے دیں اور کہنے
لگا روز شام کو پارک میں آنا میں تمہیں پڑھاؤں گا۔ یہ اس کی نیکی تھی کہ آج
میں اس مقام پر ہوں اس لئے میں بھی یہ چاہوں گا کہ آپ لوگ بھی علم کی روشنی
گھرگھرپھیلائیں تا کہ کوئی معصوم بچہ علم سے محروم نہ رہے۔
پورا ہال تالیوں سے گونج رہا تھا۔یاسر جسے آج پہلی بار پتا چلا کہ اس کے
ابو نے زندگی میں کامیاب ہونے کے لئے کتنی محنت کی، اس سوچ میں ڈوبا ہوا
تھا کہ اسے اس نیکی میں اپنے والد سے آگے نکلنا ہے اور اس نے پہلی باردل سے
مسکراتے ہوئے محمد کوگلے لگالیا کیونکہ وہ جان چکا تھا کہ سب انسان برابر
ہیں اور سب سے اچھا انسان وہ ہے جو نیکی میں آگے ہے۔
|