یہ بات سچ ہے کہ قوم کی ترقّی اور خوشحالی کا
دارومدارتعلیم پر ہوتا ہے لیکن تعلیم سے بھی اہم معاملات ہیں جن کا لحاظ
رکھنا تعلیم سے بھی زیادہ ضروری ہے وہ ہے اسلام قبول کرنا اور پھر اللہ کا
فرماں بردار بن کرزندگی بسر کرنا اور اللہ کے بنائے ہوئے بنائے ہوئے رشتے
ناطوں کا احترام عدل وانصاف کرنا اور صرف اور صرف اللہ کی عبادت کرنا
کیونکہ اللہ نے ہمیں اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے جہاں تک تعلیم کا
تعلّق ہے وہ ایک زیور ہے روشنی ہے ایک پاور ہے اور ان چیزوں کا غلط استعمال
بھی کیا جاسکتا ہےعلم ایک طاقت ہے جس کو بجائے اپنوں کے لیے استعمال کرنے
کے غیروں کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے اور اپنوں کو نفع پہچانے کی
بجائے نقصان بھی پہچایا جاسکتا ہےاگر اپنوں کو نفع پہچائیں گے تو پھر تو
ٹھیک ہے اگر اپنوں کو نقصان پہچانا ہے تو تعلیم کا ثواب ہونے کی بجائے گناہ
ہوگا کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مسلمان تو وہ ہے جس کی
زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان ہر قسم کے نقصان سے محفوظ رہیں بلکہ جو لوگ
مستحق ہوں اور حق دار ہوں ان کو فائدہ پہچانا نیکی کاکام ہے یعنی بھوکے کو
کھانا کھلانا ننگے کو کپڑا دینا مقروض کو قرض سے نجات دلانا مظلوم کو ظالم
کے چنگل سے چھڑانا-
بیمار کا علاج کرانا غلام کو آزاد کرانا ایسی تعلیم کا کیا فائدہ جس سے
انسان حقوق اللہ حقوق العباد پورے ناکرسکے اور اللہ کے دین پر ناخود چل سکے
نااپنے اہل وعیال کوچلاسکے نا اللہ کے دین کو دنیا میں عام اور غالب کرنے
کے لیے جہاد کرسکے سب سے اہم بات یہ ہے کہ تعلیم سے زیادہ اہم ہے عقلمندی
اور سمجھداری صرف تعلیم کی ڈگریاں حاصل کرنے سے انسان عقلمند اور دانش ور
نہیں بن سکتا سمجھ دار انسان وہ ہے جو اسلام کو قبول کرے اور اسلام سے
محبّت کرے اور اسلام کو ساری دنیا پر غالب اور نافذ کرنے کے لیے اپنی تمام
صلاحیّتوں کو بروئے کار لے آئے اور اللہ کے دین کا وفادار رہے ایسی تعلیم
کا کیا فائدہ جواس بات پر ابھارے کہ اہل اسلام میری تعلیمی دگریوں کی قدر
ہی نہیں کرتے انہی تعلیمی صلاحیّتوں کے ساتھ اسلام کے علاوہ دوسرے مذاہب
اور مکاتب فکر والے مجھے زیادہ تنخواہ دیتے ہیں اور زیادہ مراعات دیتے ہیں
لہٰذا جو لوگ تعلیم کی قدر کرتے ہیں وہ میرے منظور نظر ہیں اور میں زیادہ
ان کو پسند کرتا ہوں اور اہل اسلام میری ڈگریوں کی قدر نہیں کرتے اس لیے
میں ان کے اسلام کی قدر نہیں کرتا - یہ بات سب مسلمانوں کو ذہن نشین کرلینی
چاہیے کہ ہر تعلیم اسلامی نہیں ہوتی کیونکہ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی اپنے
مذاہب کی تعلیم حاصل کرتے ہیں -
اور اپنے مذاہب کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں ایسے لوگ تعلیم یافتہ ہونے کے
باوجود انتہا پسند ہوتے ہیں اپنے غلط دین کو چھوڑ کر صحیح دین کو اختیار
کرنے کی دعوت کو ہی ٹھکرا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر ایک انسان کا دوسرے
انسان سے انسانیت کا رشتہ ہے اور انسانیت کا رشتہ مذہب سے بالا تر ہونا
چاہیے وغیرہ وغیرہ یہ ان کی باتیں ہوتی ہیں سچّے مذہب کی دعوت کو ردّ کرنے
کے لیے اس کے لیے ان کے پاس بڑے بڑے دلائل ہوتے ہیں خاص طور پر وہ یہ طریقہ
استعمال کرتے ہیں اپنے دیوتاوں کی خوبیاں اور تعریفیں اور چمتکار بیان کرتے
ہیں اور نام استعمال کرتے ہیں مسلمانوں کے اولیاء کرام کا اور مسلمان یہ سن
کر بے حد متاثر ہو جاتے ہیں کہ یہ تو ہمارے اولیاء اللہ سے بہت محبّت اور
عقیدت رکھتے ہیں یوں وہ اپنے مذہب کی دعوت دے دیتے ہیں اور ہمارے بھولے
بھالے مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارے مذہبی رہنماوں کی تعریف کر ہے ہیں
ان کو یہ پتا نہیں ہوتا کہ انھوں نے سارے کا سارا جھوٹ کا پلندہ سنایا ہے
اور اپنے مذہب کا ایک طریقہ ہمارے اندر اتار دیا ہے وہ لوگ بڑے بڑے دلائل
جانتے ہیں اور تعلیم یافتہ ہوتے ہیں اور ایک ہی جھٹکے میں اسلام کی دعوت
دینے والوں کو چاروں خانے چت کر دیتے ہیں اور ایسی پر کشش دلیلوں کے ساتھ
اور کہاوتوں اور کہانیوں اور دلفریب اداوں کے ساتھ اپنے مذہب کی دعوت دیتے
ہیں -
کہ مسلمان محو اور مگن ہو کر اس کے رنگ میں رنگ جاتا ہیں اور ان سے مرعوب
ہو کر غیر مسلموں کی باتوں میں آ جاتا ہے اور غیر مسلم اس بات پر مسلمانوں
کو مائل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں کہ اسلامی طریقے سے آپ کو کوئی تعلیم
حاصل ہونے والی نہیں ہے اس لیے ہمارے جدید طریقوں کو اپناو اور اپنے مذہب
کو فائدہ پہچاواور اسلام میں سب سے اہم بات ہے طریقے کی اسلام میں عبادت کا
طریقہ ہی ایسا بیان ہوا ہے جس سے دوسرے تمام طریقوں سے زیادہ تعلیم حاصل
ہوتی ہے مثال کے طور پر باقاعدگی سے نماز پڑھنا انسان کو بہت کچھ سکھاتا ہے
جو سکول کالج اور یونیورسٹیاں نہیں سکھا سکتیں اور سکول کالج اور
یونیورسٹیاں مسجد ضرار کا کام کر رہی ہیں جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ
علیہ وسلم کو کھڑا ہونے سے منع کر دیا گیا تھا اور بعد میں گرانے کا حکم دے
دیا تھا یہ سکول کالج یونیورسٹیاں مسجد ضرار ہیں ان کو ختم کرنا حکمرانوں
کا فرض ہے لیکن میں اور میرے جیسے اسلام کے وفادر لوگ ان بے شمار لا تعداد
مساجد ضرار سے مسلسل نقصان اٹھا رہے ہیں جس کی نشان دہی اللہ نے کی تھی کہ
مسجد ضرار سے مسلمانوں کونقصان پہنچایا جائے گا -
اور ہم ایک طرح سے ان کی قید میں ہیں جیسے پہلے وقتوں میں زر خرید خلاموں
کو اپنی مہر اور نشانی لگا کر چھوڑ دیا جاتا تھا وہ جہاں بھی جاتا تھا اپنے
مالک کی کی ملکیّت قرار پاتا تھا وہ جس سے امید کرتا تھا کہ یہ بندہ مجھے
آزادی دلائے گا وہ ہی پکڑکر اسے اس کے آقا کے حوالے کر دیتا تھا کہ یہ آپ
کا غلام آپ سے فرارا ہو رہا تھا یہی حال میرے جیسے اسلام پسندوں کا ہے کہ
جن کو انہی غلاموں کی طرح محدود سے انداز میں کھلا رکھا گیا ہے اور جو لوگ
سکول کالج اور یونیورسٹیوں میں تعلیم اور ڈگریاں حاصل کرتے ہیں وہ اہل
اسلام کے آقا بن بیٹھتے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر قسمتوں کے مالک بن بیٹھتے
ہیں میں یہاں یہ بات واضع کر دینا چاہتا ہوں کہ اللہ کا حکم ہے علم حاصل
کرو مگر یہ حکم نہیں دیا کہ سکول کالج یا یونیورسٹی میں علم حاصل کرو جیسے
اہل حدیث کہتے ہیں کہ قرآن پڑھو مگر اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ ختم دلانے
کے لیے قرآن پڑھو اور قل ساتے چالسویں کرانے کے لیے اللہ نے قرآن پڑھنے کا
حکم نہیں دیا اللہ نے کہ جو یہ کہتا ہے کہ یہ خود ساختہ رسمیں ہیں ان کے
بارے میں اتنی سختی نہیں ہے کہ اس مسئلے کی بنا پر مسجدیں ہی الگ الگ بنا
لی جائیں اور ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگا نے شروع ہو جائیں ان سب چھوٹی
چھوٹی باتوں کو بنیاد بنا کر ملک دشمن اور اسلام دشمن قوتیں فرقہ پرستی کو
ہوا دیتے ہیں اور اپنے ناپاک عزائم پورا کر رہے ہیں -
ان کو فوج اپنی قید میں رکھ کر اس جرم سے باز کریں اور جرائم سے روکنے کے
طریقے فوجی پولیس سے زیادہ جانتے ہیں -
تعلیم حاصل کرنے کے لیے تو گھر مسجد بازار کارخانے اور کھتیاں باغات اور
بکریوں کے غلّے ہی کافی ہیں ان کے علاوہ دوسرے ادارے بنانا ضروری ہی نہیں
ہیں گھر مسجد بازار کارخانہ اور کھیت کھلیان باغات اور سفر میں ہر قسم کی
تعلیم حاصل ہو سکتی ہے اور پھر بھی کسر باقی ہو تو جہاد میں انسان کو ہر
قسم کی تعلیم و تربیّت حاصل ہو سکتی ہے -
گھر
گھر میں ماں باپ کا گھر چچاوں کے گھر پھوپھیوں کے گھر مامووں اور خالاوں کے
گھر بھی شامل ہیں اور اگر انسان نے ایک سے زیادہ شادیاں کی ہیں تو چار
بیویوں کے چار گھر بھی اس میں شامل ہیں ان تمام جگہوں پر ہر طرح کی تعلیم
حاصل ہوسکتی ہے-
مسجد
مسجد میں انسان کو زیادہ سے زیادہ وقت گزارانا چاہیے ان میں بہت سے معاملات
میں تعلیم حاصل ہو سکتی ہے کیونکہ مسجد میں ہر طرح کے تعلیم یافتہ سمجھدار
لوگ بھی نماز پڑھنے آتے ہیں ان سے بھی بہت ساری باتوں کی تعلیم حاصل ہوجاتی
ہے اور ایک دوسرے کے حالات نام مقام کام اور عہدے کا بھی علم ہو جاتا ہے
اور کون کھانے کی قلّت کا شکار ہے کس کے پاس پہناوا نہیں ہے کون مقروض ہے
اور کون محتاج ہے اور کون کس سے حسد رکھتا ہے کون کس پر ظلم کرتا ہے اور اس
بات کا بھی پتہ چل جاتا ہے کہ ان کی اصلاح کے لیے ہم نے کیا کردار ادا کرنا
ہے اور امر بالمعروف اور نہی عنالمنکر کا فریضہ کیسے ادا کرنا ہے-
بازار
بازار میں انسان تجارت کرتا ہے خریدوفروخت کرتا ہے لین دین کرتا ہے اور
مختلف چیزوں کی بوریوں تھیلوں اور سواریوں کو لانے لے جانے کے بے شمار کام
کرنے ہوتے ہیں جو سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں فضول بیٹھے رہنے سے
ممکن نہیں ہیں اور اس کا اللہ نے بھی حکم دیا ہے کہ پریکٹیکل تجارت کرتے
ہوئے بھی تعلیم حاصل ہو سکتی ہے اور شاپنگ مال ہو یا منڈی ہو یا ہوٹل ہو
شوروم ہو یا سپر سٹور یہ ساری جگہیں بازار میں داخل اور شامل ہیں اور بازار
میں آنے جانے کے لیے سواریاں استعمال کرنا یہ سب چیزیں تعلیم کے لیے کافی
ہیں اور دوسرے بہت سے معاملات کی تعلیم کے لیے کھلا میدان ہے بازار میں
چیزوں کے وزن اور مقدار اور قیمت اور منافع اور مزدوری وغیرہ لکھنا پڑھنا
پریکٹیکلی سیکھنے کو ملتا ہے اور باپ اور برے بھائی اپنی نگرانی میں یہ سب
بآسانی سکھا سکتے ہیں لاگت کیا تھی بار برداری پر کتنا خرچ ہوا کس مزدور کو
کتنی مزدوری دینی ہے کام کے مطابق حساب کتاب کرنا نقد و ادھار کے بارے میں
لکھنا اور لین دین کے گواہوں کے بارے میں لکھنا یہ بہت سارے معاملات ہیں جن
سے بہت سی تعلیم حاصل ہوسکتی ہے مگر ہمارے دانشور لوگوں کو بلیک میل کر کر
کے سکولوں میں پیسے اور وقت ضائع کرنے اور مسجد ضرار کو فعال بنانے کے لیے
بھیجنے پر زور دیتے ہیں -
کارخانہ
کارخانہ جہاں اسلامی افواج کے لیے ہتھیار تیارہوتے ہیں کپڑے تیار ہوتے ہیں
برتن تیار ہوتے ہیں اور بہت سی مصنوعات تیار ہوتی ہیں جیسا کہ فرنیچر
گاڑیاں زینیں اور کھیتی باڑی کے لیے حلّیں اور تھریشر وغیرہ ان چیزوں کی
تیاری میں بہت ساری تعلیم حاصل ہوتی ہے اور ہنر حاصل ہوتے ہیں جن کو 10 15
سال تعلیم کے نام پر غلامی کے بعد آدمی صحیح طور پر سیکھ ہی نہیں سکتا کہ
اس نے ڈگریوں کا بھار اٹھایا ہوتا اور مطلوبہ ملازمت نا ملنے پر نوجوان خود
کشی پر اتر آتے ہیں اور ہنر سیکھنا بھی تو تعلیم ہے اور موجودہ جدید دور
میں کمپیوٹر موبائل اور بہت سی الیکٹرونس مصنوعات بنانے کے کارخانے
فیکٹریاں اور ملّیں ہیں یہاں کام کرنے اور سیکھنے سے بھی تعلیم حاصل ہو
سکتی ہے اور اگر دوسری بہت سی سہولتوں کے ساتھ ساتھ تعلیم کی بھی سہولت دے
دیں اگر کارخانے دار فیکٹریوں اور ملّوں والے تو ایسا ہو سکتا ہے بصورت
دیگر باقاعدگی سے نماز پڑھنے سے بھی بہت ساری تعلیم حاصل ہو جاتی ہے-
جہاد
جب اتنے سارے کام ہیں جن سے انسان کمائی بھی کر سکتا ہے اور تعلیم بھی حاصل
کرسکتا ہے تو پھر سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کا صرف اور صرف یہ کام رہ
جاتا ہے کہ وہ ہے غیر مسلموں والا کلچر سکھانا اور 10 سے پندرہ سال تک
بچّوں کو قیدی بنا کے رکھنا اور ان کو اسلام مخالف باتیں سکھاتے رہنا جو
استاد اتنا وقت لیتے ہیں ان کو اسلام نےصرف اتنا وقت دیا ہے کہ 13 سالوں
میں چند دن یا چند مہینے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے احکامات خود
بتائے اور یہ بھی سکھایا کہ ان پر کیسے عمل کرنا ہے اور ان قیدیوں کو ایسے
رکھا کہ ان کو وہ اپنا بتّوں والا کلچر سکھانے کی جرآت نہیں کر سکے وہ اگر
چاہتے تو ہندووں کی طرح تعلیم کے بہانے بت پرستی سکھا دیتے مسلمانوں کو مگر
انہیں پتا تھا کہ اگر ہم نے ایسا کیا تو یہ ہمارے سر تن سے جدا کر دیں گے
کیونکہ صحابہ میں ان کے سامنے بحث ہوتی تھی کہ ان کے سر تن سے جدا کر دینے
چاہئیں اور بعض صحابہ نے خراج لے کرچھوڑ دینے کی بات کی انھوں نے یہ نہیں
سکھایا کہ بت بنا کر کہا ہو کہ یہ ٹانگ ہے یہ پیٹ ہے یہ گردن ہے یہ چہرہ ہے
یہ آنکھیں اور کان ہیں اس کے علاوہ جہاد میں بہت سے تعلیم حاصل کرنے کے
مواقع ہیں ان سب ضروری کاموں اور اللہ ے حکموں کو نظرانداز کرکے تعلیم سے
کیا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے اللہ نے تو حکم فرمایا ہے کہ کھیل بھی اگر
کھیلنا ہے تو جہادی کھیل کھیلو یا شکار کھیلو یا شادی بیاہ اور بیویوں سے
لطف اندوزہونے والا کھیل کھیلو اور وہ تمھارے ساتھ کھیلیں-
سارے مذاہب والوں کے لیے حساب کتاب نفع نقصان جمع تفریق 2جمع 2 چار ہوتا ہے
یہ نہیں کہ کافروں کے لیے 2جمع 2 پانچ ہوتا ہے اسی طرح ا ب پ ت بھی سارے
مذاہب کی ایک ہی ہوتی ہے اس لیے سوائے کلچر بگاڑنے کے سکولوں کالچوں اور
یونیوسٹیوں کا کوئی کام نہیں ہے اور کروڑوں اربوں روپے کے اخراجات ہیں
جوسالانہ فضول خرچ الگ ہیں یہ جو ناجائز بوجھ جو امت مسلمہ نے کافروں کے
دباو میں آکر اٹھا رکھا ہے تاکہ مسلمانوں کو جہاد جیسے اہم فریضے کو ادا
کرنے کے لیے فرست ہی نا ملے اور ہم انہیں شکست سے دوچار کردیں اور نا یہ
اسلام کا دفاع کرنے کے لیے اسلحہ سازی ہی کر سکیں جہاد کے شعبہ میں انسان
کو زبردست تعلیم حاصل ہوتی ہے جہاد تو مسلمانوں کو اس قدر تعلیم یافتہ بنا
دیتا ہے کہ نومسلموں کو اسلام اور مسلمانوں کے معیار پر پورا اترنے کے لیے
بہت سے امتحانی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے تب جا کر وہ با اعتماد باکردار
مسلمان مجاہد بن سکتا ہے اور مسلمانوں کے عہدے حاصل کر سکتے ہیں اور پھر
بحی ان کی نگرانی کا حکم ہے کہ وہ مسلمانوں کو نقسان پہنچانے کے لیے
اورعہدے حاصل کرنے اور مسلمانوں کی جڑیں کاٹنے کے لیے تو بظاہر مسلمان نہیں
ہو گئے بلکہ وہ ایماندار اور اللہ کے دین کے وفادار اور اسلام کی حرمتوں کے
لیے مر مٹنے والے مسلمان ہو چکے ہیں اور ان کے والدین عزیزواقارب یا محکمے
والے ان کی قیمت ادا کرکے واپس لے جائیں گے تب بھی وہ اسلام پر قائم رہیں
گے بلکہ اپنے دیگر اہل خانہ کو بھی اسلام میں داخل کر لیں گے یعنی جہاد میں
مسلمانوں کو ایسی اعلٰی اور عالیشان تعلیم وتربیّت حاصل ہو جاتی ہے یہ سب
لشکر کی نقل وحمل اور نماز اور رسد وکمک سفر اور پڑاو میں ہی مجاہدوں کو
سیکھنے کو ملتا ہے اور دوران جہاد اسلحہ کی تیاری اور کھولنا جوڑنا استعمال
و تجربات سے بھی بہت سی تعلیمات حاصل ہوتی ہیں ان اصولوں کے مطابق مسلمانوں
اور خاص طور پر پاکستان کو کروڑوں کی تعداد میں فوج حاصل ہوسکتی ہے اور
ضرورت بھی اس بات کی ہے جیسے نماز ہر ایک پر فرض ہے جہاد بھی ہر ایک پر فرض
ہے کم از کم پاکستان کی 5 کروڑ اسلحہ اور جدید ٹریننگ سے لیس فوج ہونی
چاہیے تاکہ ہم دوسرے مسلمان ملکوں کی مدد کرنے قابل تو ہو جائیں اور جو
انسان اسلامی فوج میں شامل ہو وہی اللہ کے ہاں مسلمان ہے اور مسلم معاشرے
میں بھی اسے ہی مسلمان سمجھا جانا چاہیے جو لوگ جہاد اور مجاہدین یعنی
اسلامی فوج سے پیار نہیں کرتے ان کو صحیح مسلمان نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ
اللہ کاحکم یہی ہے جو جہاد میں شامل نہیں اس کا ایمان مکمل نہیں ایسا قرآن
وحدیث میں لکھا ہے اور جو لوگ حوالہ دیتے ہیں ڈاکٹر ذاکر نائک کا تو وہ تو
ہندوستان میں رہتے ہیں اس لیے ان کو مصلحت سے کام لینا پڑتا ہے اس لیے
ہمارے ملک پاکستان میں اور پھر جنگ سے متعلق ان کا فتویٰ ناقبل قبول ہے اور
مقامی یعنی ہندوستانی مسلمانوں کے لیے قابل قبول ہے اس لیے کہ ہندوستان غیر
مسلموں کا ملک ہے -
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کافر قیدیوں سے
مسلمانوں کے بچّوں کو آزادی کی قیمت پر تعلیم حاصل کرنے کا معاہدہ کیا اس
سے تعلیم کا نہایت اہم ہونے کا ثبوت ملتا ہے اور اس کا بہت زیادہ پرچار کیا
جاتا ہے لیکن اس حدیث سے سب سے زیادہ جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اس
وقت سارے کے سارے مسلمان مجاہد تھے یوں کہہ لیجیے کہ اسلام کی فوج تھے اور
جہاد کے ذریعے انھوں فتح حاصل کرکے کافروں کو قیدی بنایا تھا اور ان کے
ساتھ اللہ کے حکم کے مطابق انسانی حقوق کی بہترین مثال قائم کی کہ ان پر
تشدد کرنے کی بجائے آپشن دی کہ اگر تم اللہ کے نبی صلی اللی علیہ وسلم کی
فرماں برداری کرتے ہوئے مسلمانوں کے بچّوں کو تعلیم دو گے تو اسے خراج کے
بغیر رہا کر دیا جائے گا تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کا بچّہ
بچّہ اسلامی فوج میں شامل ہو جائے اور جو کروڑوں کی تعداد میں بے دین اور
بے نماز قوم کے خزانے ہڑپ کیے ہوئے ہیں سویلین بے ایمان رہ رہے ہیں فوج ان
کو اپنا قیدی بنا کر ان سے تعلیم کے ساتھ ساتھ ان سے کپڑے دھلانا مکان
تعمیر کرانا اسلحہ اورسواریوں کی صاف صفائی کروانا اور چھوٹے موٹے گھریلو
کام کاج کے علاوہ وہ جو اپنا اپنا ہنر جس کے وہ ماہر ہیں وہ ان کو اپنے
بثّوں کو سکھانے کا حکم دینا اور ساتھ ساتھ ان کو اپنے ساتھ بٹھا کر کھا نا
کھلانا اور نماز پڑھوانہ اور دوسرے دینی معاملات پر عمل کی دعوت دینا کہ جس
سے وہ برائی چھوڑ کر نیکی پر چلنے کے عادی بن جائیں اور پھر جو کام ان کو
دیا جائے اس کی انجام دہی پر ان کو رہا کر دیا جائے تاکہ وہ سمجھیں کہ جان
بچی سو لاکھوں پائے اور پھر ان کے دل کے کسی خانے میں اپنی دعوت اور اسلام
کی حقانیّت کی دھاک بٹھانے میں ضرور کامیاب ہو جائیں گے اور وہ آپ کا رہن
سہن دیکھ کر اس بات کی تمنّا کریں گے کہ ہمارے بچّے بھی اسلام کے فوجی اور
مجاہد بنیں اور وہ بھی ان کی طرح نماز پڑھنے والے ہوں اور برے اور دین سے
جاہل لوگوں کو قیدی بنا کر ان سے اپنے بچّوں کو تعلیم دلائیں اور ان سے
جھاڑو پونچھا اور دوسرے کام کاج کروائیں اور اخراجات بھی ناہونے کے برابر
ہوں اور ان لوگوں کو بھی سرزنش ہو جائے جو اربوں کھربوں روپے قرضوں کی صورت
میں ہڑپ کیے ہوئے ہیں اور وہ اللہ کے ڈر سے وہ سارے گھپلے اور قرضے واپس
کرنے پر فوج کا ساتھ بھی دیں اور اپنے جیسے دوسرے پرانے پاپیوں کی نشان دہی
بھی کریں اس طرح سے سنّت نبوی پر عمل کرنے سے جو را کے اور دوسرے غیر ملکوں
کے ایجنٹ موجود ہیں وہ بھی اسلامی تہذیب سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہیں گے
مگر ہمارے دانشور حدیث سے انگریزوں والے نظام تعلیم رائج کرنے کے لیے
ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں او میرے بھائی حدیث پر عمل کرنے کا صحیح طریقہ یہ
ہے کہ تمام کے تمام مسلمان اور ان کے بچّے فوج میں شامل ہوں جو جہاد سے
پیچھے رہے اور باقی فرائض سے اور واجبات سے پیچھے رہے اس کا ایمان ہی مکمل
نہیں ہے -
اس کا ایمان مکمل کرنے کے لیے اس کو قیدی بنانا چاہیے اور اس سے اس کے ہر
کے ہنر کی تعلیم حاصل کرنےکے ساتھ ساتھ اپنی صفوں میں شامل کرنے قابل بنانا
چاہیے اور جب صحیح طریقہ بیان کیا جاتا ہے حدیث پر عمل کرنے کا تو ہمارے
دانشور یہ کہہ کر حدیث کو غلط معنی پہنا دیتے ہیں کہ فوج کو سیاست سے محفوط
رکھنا چاہیے ورنہ فوج میں بھی کرپشن ہو جائے گی ان کی سوچ کس طرف کو جاتی
ہے اس بات کا آسانی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ملک دشمن اور اسلام
دشمن پالیسیوں کو ہی رائج کرنے کی بات پر اڑے رہیں گے جب تک پاکستانی فوج
پانچ کروڑ کی تعداد کا حدف حاصل نہیں کر لیتی مگر جو لوگ کروڑوں بچّوں اور
جوانوں کو تعلیم کے نام پر قیدی اور غلام بنا چکے ہیں ان کو اسلام کا قیدی
اور غلام بنانے کی کیا ضرورت ہے مگر اسلامی فوج اپنے قیدیوں کو شرافت ہی
سکھائے گی اورقانون عدل وانصاف ہی سکھائے گی اور موجودہ انگریزوں والے نظام
تعلیم کے حامی اپنے قیدیوں اور غلاموں کو کرپشن ہی سکھائیں اور پھر کرپشن
بڑھے گی یا کم ہوگی عقل مندوں کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے- |