همت انسان

ہمتِ انسان
کبھی کبھی انسان اپنی زندگی کے اس موڑ پر کھڑا ہوتا ہے جہاں اسکو سمجھ نہیں آتا کہ آگے کس طرف جانا ہے؟ اسکی منزل کیا ہے؟ اسکا دل چاہتا ہے. وہ سب کچھ پالے سب ہنرز اسکے اندر آجائے لیکن پھر کبھی ہرچیز سے اسکا دل اچاٹ ہوجاتا ہے.ہر طرف سےوہ بھاگ جانا چاہتا ہے جو کچھ کر رہاہو اسے چھوڑدینا چاہتاہے. تب یہ دنیا بھی چھوڑ دینے کو جی چاہتا ہے.اس وقت خود کو وہ بہت تنہا اور اکیلامحسوس کرتا ہے. اس کو لگنے لگتا ہے یہ دنیاہی جھوٹی ہے یہاں اس دنیا میں سب مطلبی ہیں.سب اپنا اپنا مفاد چاہتے ہیں. دوست، بہن، بھائی، عزیزواقارب سب مفاد پرست لگتے ہیں.تب خود کو خود ہی سنبھالنا پڑتا ہے.ہر راستہ جب بند نظر آئےخود کو خود ہی ہمت دینی ہوتی ہے.اور یہ ہمت اگر ہمیں مل سکتی ہے تو صرف اور صرف اللہ تعالٰی کی ذات سے اور اس پر پختہ ایمان سے مل سکتی ہے.جب ہر طرف اندھیرا چھا جاتا ہے تب بھی روشنی کی ایک کرن باقی ہوتی ہےاور وہ اللہ تعالٰی کی ذات ہوتی ہے.آپ کا ایمان ہوتا ہے، اگر آپ یہی سب بھول جاؤگےکھو دو گے تو پھر واقعی آپ کے پاس کچھ نہیں بچ پاتا پھر اصل میں آپ اپنا راستہ بھی کھو دیتے ہو. اپنی منزل سے دور ہو جاتے ہو.
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سرِ آدم ہے ضمیرِ کن فکاں ہے زندگی

اگر زندگی میں ایسا مقام آئے جب کچھ سمجھ نہ آئے تب پتہ چلتا ہے کس میں کتنی ہمت ہے، کون کیا کر سکتا ہے. جب سب راستے بھٹک کر بھی اپنی منزل پالو تب آپ سے زیادہ کامیاب شخص کون ہوسکتا ہے. جس کی راہ میں اتنی مشکلات تھی، راستہ بھٹک چکا تھا. لیکن صرف ہمت تھی اور حوصلہ تھا اور سب سے بڑھ کر ایمان تھا. وہ شخص ہی حقیقت میں اپنی منزل تک پہنچ سکتا ہے. جب ہر چیز سے دل اچاٹ ہو لیکن کچھ کرنے کا جزبہ کم نہ ہو تو کیوں نہیں وہ شخص کامیاب ہوگا.

لیکن یہ جوش یہ جذبہ یونہی نہیں آجاتا اس کیلئے بہت محنت کی ضرورت ہوتی ہے، بہت کچھ سہنا پڑتا ہے، نفرتیں، حقارت، اگنورنس ، حسد اور بھی بہت کچھ. بہت کچھ کھونا پڑتا ہے، تب جا کر یہ جوش پیدا ہوتا جو ہمیں اپنی منزل پانے سے نہیں روک سکتا.

وہ لوگ جو ایمان رکھتے ہیں ہمت نہیں ہارتے وہ لوگ تواپنی منزل پا لیتے ہیں لیکن افسوس! وہ لوگ جو ہمت ہی چھوڑ دیتے ہیں خود کو سنبھال نہیں پاتے وہ اپنی منزل کو بھی کھودیتے ہیں. آگے بڑھنے کا جذبہ ہی ختم ہو جاتا ہے، اور ہمارے ملک میں ایسے لوگوں کی تعداد ذیادہ ہے جو اپنی منزل کو چھوڑ دیتے ہیں. تھوڑی سی مشکلات آتی ہیں اور وہ تھک جاتے ہیں. ایسے لوگ پھرکہاں اپنی منزل پا سکے گے اور ان کا ملک ترقی کر سکے گا. جب چھوٹی چھوٹی مشکلات ہی ہمیں ہرا دے گی، ہمارا ایمان ختم کر دے گی ، ان مشکلات کو ختم کرنے کی بجائے، ان کا حل ڈھونڈنے کی بجائے، جب ملک سے لوگ بھاگنے لگے گے تو کیا واقعی ملک ترقی کر سکتا ہے. بڑی بڑی محفلوں میں ، دوسرے ملکوں میں بیٹھ کر خود کے ملک کی برائیاں کرنا کہ''ہمارے ملک کا کچھ نہیں ہو سکتا'' تو پھر واقعی جان لیجئے ک ہمارے ملک کا کچھ نہیں ہو سکتا اور وہ اس لیےنہیں کہ یہاں کے حکمران اچھے نہیں ہے وہ اس لیے کہ یہاں کی عوام میں وہ جوش جذبہ نہیں ہے، ہمت نہیں رہی، وہ باتیں کرنا جانتی ہے، دوسرے ملکوں کی تقلید کرنا بھی جانتی ہے، لیکن مشکلات کو سہنا نہیں جانتی ، اپنی منزلوں کیلئے کوشش کرنا نہیں جانتی ہے، اپنے ملک کی ترقی کیلئے کچھ کرنا نہیں جانتی. اگر آج ہم میں سے ہر کوئی باتیں کرنے کی بجائے اپنے ملک کیلئے کام کرنے لگ جائے تو یہ حکمران چاہے اچھے ہو یا برے تو ہمارا ملک ضرور ترقی کر لے گا، ہم اپنی منزل پا لیں گے. لیکن اگرمشکلات سے گبھرا جائے گے تو کبھی منزل نہیں پا سکے گے. اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس Motivation نہیں ہے، ہمیں تھوڑی سی مشکل آتی ہے اور ہم اپنی ہمت چھوڑ دیتے ہیں کچھ کرنے کے قابل نہیں رہتے، یہاں تک کہ اکثر اپنی منزل کے قریب ہو کر بھی ہم اسے کھو دیتے ہیں.................

Kashaf tahir
About the Author: Kashaf tahir Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.