کیا اعتکاف کی نیت کے مخصوص الفاظ ہیں؟

تمام عملوں کا دارومدار نیت پرہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إنما الأعمالُ بالنياتِ، وإنما لكلِّ امرئٍ ما نوى، فمن كانت هجرتُه إلى دنيا يصيُبها، أو إلى امرأةٍ ينكحها، فهجرتُه إلى ما هاجر إليه(صحيح البخاري:1)
ترجمہ:تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔ پس جس کی ہجرت ( ترک وطن ) دولت دنیا حاصل کرنے کے لیے ہو یا کسی عورت سے شادی کی غرض ہو۔ پس اس کی ہجرت ان ہی چیزوں کے لیے ہو گی جن کے حاصل کرنے کی نیت سے اس نے ہجرت کی ہے۔
اس حدیث کی روشنی میں اعتکاف کے لئے بھی نیت کرنی چاہئے اور نیت بھی خالص ہونی چاہئے جو ریاونمود سے پاک ہو۔ کچھ لوگ اعتکاف کی نیت کے لئے زبان سے مخصوص الفاظ بولتے ہیں ، وہ اس طرح کے ہوتے ہیں ۔
1- نویت سنۃ الاعتکاف(میں نے مسنون اعتکاف کی نیت کی)۔
2- ﺑﺴﻢ ﺍﻟﻠﻪ ﺩﺧﻠﺖ ﻭ ﻋﻠﻴﻪ ﺗﻮﻛﻠﺖ ﻭ ﻧﻮﻳﺖ ﺳﻨﺔ ﺍﻻﻋﺘﻜﺎﻑ( اللہ کے نام سے داخل ہوا اور اس پر بھروسہ کرتا ہوں اور سنت اعتکاف کی نیت کرتا ہوں )۔
اس قسم کے الفاظ قرآن و حدیث میں کہیں وارد نہیں ہے ، انہیں لوگوں نے اپنے من سے گھڑکر عوام میں پھیلا دیا ہے ۔ جیساکہ میں نے اوپر حدیث بیان کی کہ تمام عملوں کا دارومدار نیت پر ہے اس حدیث کے لحاظ سے ہرعمل کے لئے نیت کرنی چاہئے اور نیت خالص ہونی چاہئے تاکہ اللہ کی طرف سے درجہ قبولیت عطا ہو۔ یہاں جاننا یہ ہے کہ جب ہرعمل کے لئے نیت کرنےکا حکم ہے تو نیت کس چیز کا نام ہے ؟
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مجموع الفتاوی میں نیت کے متعلق ذکر کرتے ہیں :
النية هي القصد والإرادة والقصد والإرادة محلهما القلب دون اللسان باتفاق العقلاء۔
ترجمہ: نیت دل کے ارادے اور قصد کو کہتے ہیں،قصد و ارادہ کا مقام دل ہے زبان نہیں ،اس پر تمام عقلاء کا اتفاق ہے۔
آگے لکھتے ہیں :
فلو نوى بقلبه صحت نيته عند الأئمة الأربعة وسائر أئمة المسلمين من الأولين والآخرين۔
ترجمہ: اگر کسی نے دل سے نیت کرلی تو اس کی نیت چاروں ائمہ (امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمدبن حنبل) اور مسلمانوں کے اگلے پچھلے تمام اماموں کے نزدیک صحیح ہے ۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ نیت دل کے ارادہ کا نام ہے ، نیت کے کوئی مخصوص الفاظ نہیں ہیں ، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سمیت بقیہ تینوں ائمہ کا بھی یہی مسلک ہے، اس لئے جو لوگ نماز کے لئے روزہ اوراعتکاف کے لئے مخصوص الفاظ میں زبان سے بول کر نیت کرتے ہیں وہ بدعت کا ارتکاب کرتے ہیں ،اس بدعت سے بچنا چاہئے کیونکہ بدعت دین میں نئی ایجاد کا نام ہے جس کے متعلق نبی ﷺ کے فرامین ہیں :
(1)من عملَ عملا ليسَ عليهِ أمرُنا فهو ردٌّ(صحيح مسلم:1718)
ترجمہ: جس نے ایسا عمل کیا جو میرا حکم نہیں ہے وہ مردود ہے ۔
(2)إنَّ أصدقَ الحديثِ كتابُ اللَّهِ ، وأحسنَ الْهديِ هديُ محمَّدٍ وشرَّ الأمورِ محدثاتُها وَكلَّ محدثةٍ بدعةٌ وَكلَّ بدعةٍ ضلالةٌ وَكلَّ ضلالةٍ في النَّارِ (صحيح النسائي:1577)
ترجمہ: یقینا سب سے سچی بات اللہ کی کتاب ہے، بہترین طریقہ محمد ﷺ کا طریقہ ہے،کاموں میں سے بد ترین کام وہ ہیں جنہیں ایجاد کرلیا گایا ہو اور ہرنو ایجاد شدہ کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے ۔
نبی ﷺ کے فرامین کی روشنی میں ذرا اندازہ لگائیں کہ دین میں نیا کام ایجاد کرنا کتنا بھیانک ہےاور اس کی سزا کس قدر خطرناک ہے؟ ۔
سمجھنے کا ایک نقطہ یہ بھی ہے کہ ہرعمل کے لئے نیت ہونی چاہئے اور شریعت میں لاکھوں ،کروڑوں اعمال ہیں ، کس کی مجال ہے کہ ہر عمل کے لئے مخصوص الفاظ گھڑے ؟ اور کس کی مجال ہے کہ ہرعمل کے لئے نیت کے مخصوص الفاظ یاد کرے اور عمل کرنے سے پہلے اسے پڑھے ؟ یہ ممکن ہی نہیں ہے ۔
اللہ تعالی ہمیں نبی ﷺ کی سنت پر عمل کرنے کی توفیق دے اور دین کے نام سے بدعت گھڑنے یا بدعت پر عمل کرنے سے بچائے ۔ آمین

Maqubool Ahmad
About the Author: Maqubool Ahmad Read More Articles by Maqubool Ahmad: 320 Articles with 350435 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.