کچھ لمحے

بیٹا تم نے کام میں مصروف ہو کر اپنی ماں کو ہی بھلا دیا تمہارے پاس اپنی ماں کی مغفرت کے لیے بھی زرا سا وقت نھیں ہے دو گھڑی نماز پڑھ کے اپنی ماں کی مغفرت کی دعا کر کے اس کی روح کو سکون پہنچا دیا کرو،

مغفرت

وہ ان کی زندگی کا بھیانک دن تھا جب وہ بری طرح سے ٹوٹیں۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے ان کی پوتی ان سے پوچھ رہی تھی کہ دادی آپ نے اتنا کچھ بنا کر رکھا ہے کھاتی کیوںنہےں؟ وہ کیا بتاتیں کہ انہوں نے کیا کھو دیا۔ انہوں نے اپنی زندگی۔اپنا بیٹا کھو دیا ہے۔

جلال کے والدین ہمیشہ اسے یہ کہتے رہے کہ آگے بڑھو اور سب کچھ حاصل کر لو۔ مگر کبھی کبھی بچے کسی بات کو غلط انداز میں لیں تو ایسا ہی ہوتا ہے جیسا جلال نے کیا۔ جلال نے بھی خوب محنت کر کے سب کچھ حاصل کر لیا مگر۔ پیچھے سب کچھ بھول گیا۔

گھر بظاہر تو بھرا ہوا تھا مگر۔مگر اندر دل سے خالی۔ بچے بھی روز ابو کا انتظار ہی کرتے رہ جاتے اور بیوی۔۔ اس نے بھی کبھی کوئی شکایت نھی کی۔ جلال کی امی جلال کی شادی ہونے کے بعد بھی اس کے لیے خود کھانا بناتی تھیں۔ مگر جلال نے کبھی گھر میں کھانا نہےں کھایا ہاں ڈٰھیر ضرورکر دیا تھا۔

ابھی دادی کچن کی الماریوں کو دیکھ ہی تھی، مٹر، چاول، طرح طرح کی سبزیاں اور پکوان صرف انہوں نے اپنے لاڈلے کے لیے بنائے تھے مگر اس کے پاس ٹائم نہیں تھا۔ دنیا کے جھمیلوں میں وہ اپنوں کو بھول گیا تھا۔ سب دکھی اور حیران تھے کہ ایسا بھی ہوتا ہے۔ ہاں ایسا تب ہوتا ہے جب والدین بچوں سے بہت سی امیدیں کر لیتے ہیں، اور آگے بڑھنے والا سبق بچوں کو کسی اور ہی دنیا کی سیر کرادیتا ہے۔

ایک دن اچانک دادی بھی چل بسیں، دل میں دکھوں کا بوجھ لے کر، کسی کو یقین نھیں آرہا تھا، ہاں عورت ایسی ہی ہوتی ہے، بچپن سے لے کر مرتے دم تک تک شکوہنہےں کرتی وہ ہمیشہ ہر زیادتی کو چپکے سے سہ جاتی ہے۔

دادی کی وفات کو کچھ ہی عرصہ گزرا تھا۔ بچے کھیل میں مصروف تھے۔ بھاگ دوڑ کرسارے گھر میں شور مچارہے تھے۔ ایک دن عجیب بات ہوئی، کھیل میں مصروف بچوں کو ایک انجانا سا احساس ہوا کہ انہوں نے اپنی دادی کودیکھا ہے، بچے سہم گئے اور گھر میں خاموشی چھا گئی۔

اسی طرح ایک دن ثمینہ کو بھی کسی کے ہونے کا احساس ہوا، ان کو ایک پل کو لگا کہ ان کی ساس ان کے آس پاس ہی ہیں، انہوں نے جلال کو بتایا تو انہوں نے اس کو ان کا وہم قرار دے کر خاموش کرادیا۔

اب دن پھر سے نارمل ہوگئے تھے ہاں دل کچھ خالی ہوگئے تھے کیون کہ دعا کے لیے ہر وقت اٹھنے والے ہاتھ جو ان میں موجود نہےں تھے۔اس بات کا اندازہ ان کے زندہ رہنے پہ نہےں ہوتا۔جب وہ ہم سے جدا ہوتے ہیں تب ہم کو ہمارے ہاتھ خالی محسوس ہوتے ہیں۔

ایک دن چائے پینے کے دوران ایک عجیب بات ہوئی کہ جلال کو پہلی بار اپنی کاروباری زندگی میں کسی کے نہ ہونے کا ملال ہوا اور اس وقت وہ شدت سے اپنی ماں کو یاد کر رہے تھا اور سوچ رہا تھا کہ میری ماں نے میرے لیے کتنی ہی راتیں جاگ کر میرا انتظار کیا ہے ،اس کو اپنا آپ بالکل اچھانہےں لگا۔اپنے آپ سے الجھن ہوئی۔

ایک ایسی ہی طوفانی رات جب جلال آفس میں ہی تھا تو اس کو لگا کہ س کے علاوہ بھی کوئی ہے۔ اس نے آواز دی مگر کوئی جواب نہ آیا ، ایک ہیولہ ضرور نظر آیا جو ان کی ماں سے ملتا تھا۔

اسں نے پکارا امی، اس کو آواز آئی کہ بیٹا تم نے کام میں مصروف ہو کر اپنی ماں کو ہی بھلا دیا تمہارے پاس اپنی ماں کی مغفرت کے لیے بھی زرا سا وقت نھیں ہے دو گھڑی نماز پڑھ کے اپنی ماں کی مغفرت کی دعا کر کے اس کی روح کو سکون پہنچا دیا کرو، میں نے آج تک تم سے کچھ نھیں مانگا مگر میری بے چین روح تم سے کچھ مانگنے پہ مجبور کر رہی ہے، وہ کچھ دعائیںہیں جو تم مجھے دے سکتے ہو۔

جلال اب زارو قطار رو رہا تھے اور کہہ رہا تھے کہ ماں میں نے آپ کو زندگی میں بہت مایوس کیا تھا مگر اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں آپ کو مایوس نہیں کرونگا یہ میرا آپ سے وعدہ ہے۔

اس دن سے لے کر آج تک جلال ہر نماز میں اپنی ماں کے لیے دعا کرتاہے اور گھر پہ بھی توجہ دیتاہے، ثمینہ اور بچے ان کی اس تبدیلی سے بہت خوش ہیں-
 

Rao Anil Ur Rehman
About the Author: Rao Anil Ur Rehman Read More Articles by Rao Anil Ur Rehman: 88 Articles with 209708 views Learn-Earn-Return.. View More