الماری اس قدر بھاری تھی‘‘کہ سلمان اور ماڈل چاچا نے شرفو
کو بھی مدد کے لیے ساتھ بلا لیا‘‘،،،تب جا کر وہ الماری ٹس سے مس ہوئی‘‘،،،کوئی
فائدہ تم لوگوں کو قیمہ روٹی کھلانے کا‘‘شرفو نے مصنوئی ناراضگی سے کہا‘‘،،،سلمان
نے اپنی سانسوں پر قابو پاتے ہوئے‘‘شرفو کو پانی لانے کا اشارہ کیا‘‘،،،ماڈل
چاچا کی حالت بھی غیر تھی‘‘،،،سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں‘‘،،،سلمان نے
سیلنگ فین کو دیکھتے ہوئے کہا‘‘،،،شاید وہ اللہ کو دیکھنا چاہتا تھا‘‘
پھر سر نیچے کر کے ہنس دیا‘‘
کسے ڈھونڈتے ہو سلمان
اوپر تو صرف ہے آسمان
نیچے آسمان والے کا یہ جہان
دل میں ہی ہو گا تیرے‘‘،،،خدا کا مکان
ماڈل چاچا نے عجیب سی نظروں سے سلمان کو دیکھا‘‘،،،آہستہ سے بولا‘‘شکوہ کر
رہے ہو‘‘یا شکایت‘‘؟؟؟وہ بھی اس سے جو دلوں کے حال جانتا ہے‘‘،،،جس نے لوح
قلم میں سب کچھ محفوظ کر رکھا ہے‘‘،،،چاچا ماڈل بہت ہی سنجیدہ ہو رہا
تھا‘‘،،،
نہیں چاچا‘‘،،،کوئی شکوہ نہیں،،،شکایت نہیں‘‘بس پتا نہیں‘‘بس پتا
نہیں‘‘،،،الماری میں پتھر بھر رکھے ہیں‘‘،،،کم بخت ہل کے ہی نہیں
دیتی‘‘،،،چاچا ماڈل ہنس کے بولا‘‘،،،شکر کرو بھاری ہے‘‘،،،ورنہ ہمیں کون
بلاتا‘‘،،،جس کی الماری ہے‘‘وہ خود ہی ادھر ادھر کر لیتا‘‘،،،سلمان نے ہاتھ
جھاڑے‘‘،،،چاچا پھر قسمت ہم کیوں نہیں ہلا سکتے‘‘،،،وہ تو ہاتھ کی لکیروں
میں چھپی ہوتی ہے‘‘،،،بالکل نازک سی‘‘ہوا کی طرح ہلکی پھلکی‘‘،،،چاچا نے
ہنس کر کہا‘‘،،،یار‘‘میرا بچہ‘‘میری جان ‘‘،،،پانی پی‘‘،،،تیری باتیں میرے
سر پر سے گزر جاتی ہیں‘‘،،،سلمان نے پانی کا گلاس بھر کے چاچا ماڈل کی طرف
بڑھا دیا‘‘،،،اپنے ہاتھ دھوؤ ‘‘‘سامنے روزی کھڑی تھی‘‘،،،ویسی ہی‘‘سنجیدہ
سی‘‘گہری آنکھوں والی‘‘،،،
میڈم!ہم کوئی چوڑے تو نہیں ہیں‘‘،،،سلمان نے قدرے دکھ اور افسوس سے دونوں
ہاتھ روزی کے سامنے پھیلا دئیے‘
روزی نے سلمان کی بات کا جواب نہیں دیا‘‘بس اس کی ہتھلیوں پر نظریں جما
دی‘‘چاچا یہ سب حیرت سے دیکھنے لگا‘‘،،،تمہارے ہاتھ ہی مزدوروں والے نہیں
ہیں‘‘پھر اس الماری کو کیوں دوش دے رہے ہو‘‘،،،
اچھا مزدوروں والے ہاتھ کیسے ہوتے ہیں‘‘،،،سلمان نے بجھے ہوئے لہجے میں
کہا‘‘روزی نے کچھ بولا نہیں‘‘بس چاچا ماڈل کے ہاتھ پکڑ کے سامنے کر
دئیے‘‘،،،ایسےہوتے ہیں‘‘،،،(جاری)
|