ہم آگے کی سمت بڑ ھ رہے تھے ۔
مجھے اندازہ ہو چکا تھا کہ اندر داخل ہوتے ہی مجھے جس تبدیلی کا احساس ہوا
تھا وہ کیا تھی۔ میری چال میں بہت اعتماد تھا۔ شاید یہ آئینے کا اثر تھا کہ
اب مجھے یقین آنے لگا تھا کہ ربِّ کعبہ نے مجھے سرفراز کر کے میرے بخت کو
ہمیشہ کے لیے جگا دیا ہے ۔ میری زندگی کے شب و روز اور اس میں پیش آنے والے
مسائل اب میرے لیے خواب و خیال ہو چکے تھے ۔ پچھلی دنیا کی محرومیاں ، صبر
اور محنتیں کبھی اس طرح بھی رنگ لائیں گی، مجھے اس کا قطعاً اندازہ نہیں
تھا۔ قرآنِ کریم اور احادیث میں ا گلی دنیا کا بہت کچھ تعارف پڑ ھا تھا،
مگر جو آنکھ دیکھتی، کان سنتے اور حواس محسوس کرسکتے ہیں وہ الفاظ سے شعور
تک بہت کم منتقل ہوتا ہے ۔ آج جب یہ سب حقائق سامنے ہیں تو یقین نہیں آتا
کہ میں ۔ ۔ ۔ مجھے یہ اندازہ تو زندگی ہی میں ہو چکا تھا کہ آخرت کی بازی
میں جیت جاؤں گا۔ مگر اس جیت کا مطلب اتنا شاندار ہو گا، اس کا مجھے بالکل
بھی اندازہ نہیں تھا۔
’’تمھیں ابھی پورا ندازہ نہیں ہوا ہے ۔‘‘، صالح پتہ نہیں کس طرح میرے
خیالات پڑ ھ رہا تھا۔ اس کے جملے نے مجھے چونکا دیا۔ اس نے اپنی بات جاری
رکھی:
’’اصل زندگی تو ابھی شروع ہی نہیں ہوئی۔ ابھی تو تم حشر کے عارضی مرحلے میں
ہو۔ اصل زندگی تو درحقیقت جنت میں شروع ہو گی۔ اُس وقت خدا کا بدلہ دیکھنا۔
اُس وقت خدا کو داد دینا۔ سرِ دست تو آگے دیکھو، ہم کہاں کھڑ ے ہیں ۔‘‘
اس کی بات سے مجھے احساس ہوا کہ میں اپنے ماحول سے بالکل لاتعلق ہوکر چل
رہا تھا۔ میں نے نظر اٹھا کر دیکھا۔ ہم اس وقت ایک وسیع و عریض اور سرسبز و
شاداب میدان میں تھے ۔ آسمان پر سورج چمک رہا تھا۔ اس میں روشنی تھی پر
دھوپ نہ تھی۔ آسمان پر کہیں بادل نہ تھے ، مگر زمین پر ہر جگہ سایہ تھا۔
زمین سبز تھی۔ شاید اسی کے اثر سے آسمان نیلگوں کے بجائے سبزی مائل ہورہا
تھا۔ میدان کے وسط میں ایک فلک بوس پہاڑ تھا۔ محاورۃً نہیں ، حقیقتاً فلک
بوس۔ کیونکہ اس کی چوٹی جہاں سے ہم کھڑ ے دیکھ رہے تھے ، آسمان میں پیوست
لگ رہی تھی۔ فضا میں ہر طرف بھینی بھینی خوشبو مہک رہی تھی۔ یہ خوشبو ہر
اعتبار سے بالکل نئی مگر انتہائی مسحورکن تھی۔ ہماری سماعت ہمیں ان نغموں
کا احساس دلا رہی تھی جو کانوں میں رس گھولنے والی موسیقی کے ساتھ چار سو
بکھرے ہوئے تھے ۔ مجھے یہ لگ رہا تھا کہ یہ خوشبو اور یہ موسیقی میری ناک
اور کان کے راستے سے نہیں بلکہ براہِ راست میرے اعصاب تک پہنچ رہی ہے ۔ اس
کی تاثیر میں مہک و آہنگ اور سکون و سرور کے عناصر اس خوبصورت تناسب سے
یکجا تھے کہ مجھے اپنا وجود تحلیل ہوتا محسوس ہورہا تھا۔
میں ایک جگہ رک کر کھڑ ا ہو گیا اور آنکھیں بند کر کے اس ماحول میں گم ہو
گیا۔ صالح نے میرا انہماک دیکھ کر کہا:
’’اس پہاڑ کا نام اعراف ہے ۔ آؤ اس کے گرد چکر لگاتے ہیں ۔ میں ساتھ ساتھ
تمھیں یہاں کی ساری تفصیلات سے آگاہ کرتا رہوں گا۔‘‘
میں جواب دیے بغیر سحر زدہ انداز میں صالح کے ساتھ ہولیا۔ ہم نے دائیں طرف
سے اپنا سفر شرو ع کیا۔ ہم کچھ دور ہی چلے تھے کہ پہاڑ کے ایک حصے پر امت
آدم لکھا ہوا نظر آیا۔ میں نے صالح سے پوچھا:
’’کیا یہاں آدم علیہ السلام ہیں ؟‘‘
’’
نہیں ۔ سارے نبی پہاڑ کے اوپر بلند حصے پر موجود ہیں ۔ تم دیکھو گے کہ ہر
تھوڑ ی دیر بعد اسی طرح کسی نہ کسی نبی اور اس کی امت کا نام لکھا ہوا نظر
آئے گا۔ ہر امت کے نجات یافتہ لوگ۔ ۔ ۔ تمھاری طرح کے نجات یافتہ لوگ۔ ۔ ۔
یہاں آ کر جمع ہوں گے ۔‘‘، اس نے جواب دیا۔
’’کیا مجھے امت محمدیہ کے کیمپ میں جانا ہو گا؟‘‘، اس پر میں نے اشتیاق سے
پوچھا۔
صالح نے نفی میں سر ہلایا اور بولا:
’’ان مقامات پر نجات یافتہ لوگ کھڑ ے ہوں گے اور روز حشر کے اختتام پر یہیں
سے جنت میں جائیں گے ۔ تمھیں پہاڑ کے اوپر جانا ہو گا۔ وہاں سارے نبی اور
ان کی امتوں میں سے وہ لوگ جمع ہیں جنہوں نے نبیوں کے اتباع میں لوگوں پر
حق کی شہادت دی۔ یہ لوگ یہیں سے انسانوں کے بارے میں خدا کا فیصلہ دیکھتے
رہیں گے ۔اسی جگہ سے انہیں انسانوں پر گواہی دینے کے لیے بلایا جائے گا۔ ہر
نامراد شخص جہنم میں اور ہر کامیاب شخص پہاڑ کے نیچے اپنے اپنے نبی کے کیمپ
میں آتا جائے گا۔ پھر ہر امت گروہ در گروہ یہیں سے جنت میں جائے گی۔ یہ وہ
مقام ہے جہاں سے حشر میں ہونے والے ہر فیصلے کو براہِ راست دیکھا جا سکتا
ہے ۔ جنت و جہنم بھی یہاں سے نظر آتی ہیں ۔‘‘
ہم یہ گفتگو کر رہے تھے اور ایک ایک کر کے تمام نبیوں کی امت کے مقامات سے
گزرتے جا رہے تھے ۔ اس وقت تک ہر جگہ بہت کم لوگ تھے ۔ میں نے صالح سے کہا:
’’شایدا بھی تمام لوگ نہیں آئے ۔‘‘
اس نے کہا:
’’نہیں یہ بات نہیں ۔ دیگر نبیوں کی امت میں سے نجات یافتہ لوگ ہیں ہی بہت
کم۔ زیادہ تر لوگ بنی اسرائیل میں سے ہیں اور سب سے زیادہ امتِ محمدیہ میں
سے ہیں ۔ یہ دونوں کیمپ ابھی تک نہیں آئے ۔ لیکن سرِ دست وہاں بھی زیادہ
لوگ نہیں ہیں ۔ لیکن تھوڑ ی دیر میں ہوجائیں گے ۔ آؤ اب اوپر چلتے ہیں ۔
اِس پہاڑ کا چکر تو بہت طویل ہوجائے گا۔‘‘
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مجھے بلند مقامات پر چڑ ھنے کا ہمیشہ سے شوق رہا ہے ۔ لیکن شاید یہ میری
زندگی کی سب سے عجیب بلندی تھی۔ یہ بظاہر بہت بلند اور آسمان تک اونچی تھی۔
مگر یہاں سے ہم زمین کو اس طرح دیکھ رہے تھے جیسے چند منزل ہی اوپر کھڑے
ہوں ۔ نیچے سے جو جگہ ایک چوٹی لگتی تھی وہ ایک ہموار سطح مرتفع تھی۔ تاہم
اس ہموار زمین پر تھوڑ ے تھوڑ ے فاصلے پر بلند و بالا قلعہ نما تعمیرات بنی
ہوئی تھیں ۔ تاہم ان کے اردگرد کوئی دیوار تھی اور نہ ان میں دروازے ہی
موجود تھے ۔ اس لیے باہر سے بھی اندر کا نظارہ کیا جا سکتا تھا۔ یہاں ہر
طرف شاہانہ انداز کے خدم و حشم تھے ۔ عالیشان تخت پر تاج پہنے ہوئے انتہائی
باوقار ہستیاں بیٹھی ہوئی تھیں ۔ ان کے اردگرد اسی شان کے لوگ شاہانہ
نشستوں پر براجمان تھے ۔ میں نے صالح سے ان بلند تعمیرات کے متعلق پوچھا تو
اس نے کہا:
’’یہ مختلف انبیا کی عارضی قیام گاہیں ہیں ۔ انھی کی بنا پر اس پہاڑ کو
اعراف کہا جاتا ہے ۔ تم تو جانتے ہو کہ اعراف کا مطلب بلندیوں کا مجموعہ ہے
۔‘‘
میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ وہ گفتگو کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے بولا:
’’تخت پر بیٹھے ہوئے حضرات انبیائے کرام ہیں ۔ اور ان کے اردگرد بیٹھے لوگ
ان کی امت کے شہدا اور صدیقین ہیں ۔ صدیقین وہ لوگ ہیں جنہوں نے نبیوں کی
زندگی میں ان کا ساتھ دیا اور شہدا وہ لوگ ہیں جنہوں نے انبیا کے بعد ان کی
دعوت کو آگے پہنچایا۔ یہ سب وہ لوگ تھے جو دنیا میں خدا کے لیے جیے اور اسی
کے لیے مرے ۔ اسی کے صلے میں یہ لوگ آج اس عزت و سرفرازی سے ہمکنار ہوئے
ہیں جس کا مشاہدہ تم اس وقت کر رہے ہو۔‘‘
’’کیا یہ ممکن ہے کہ انبیا علیھم السلام سے میری ملاقات ہو سکے ؟‘‘، میں نے
پوچھا۔
’’سب سے ملاقات کا وقت تو نہیں لیکن کچھ سے ضرور مل سکتے ہیں ۔‘‘
اس نے جواب دیا اور پھر ایک ایک کر کے خدا کے جلیل القدر پیغمبروں سے میری
ملاقات کرانی شروع کی۔ وہ پیغمبر جو میرے لیے عظمتوں کا نشان تھے ، میں ان
سے مل رہا تھا۔ آدم، نوح، ہود، صالح، اسحاق، یعقوب، یوسف، شعیب، موسیٰ،
ہارون، یونس، داؤد، سلیمان، زکریا، یحییٰ، عیسیٰ اور کئی پیغمبر وہ تھے جن
کے نام سے میں آج پہلی دفعہ واقف ہوا تھا۔ سب نے گلے لگا کر اور میری
پیشانی پر بوسہ دے کر میرا استقبال کیا۔ مجھے مبارکباد دی۔
اس دوران میں صالح نے مجھ سے کہا:
’’انبیا تو بہت ہیں اور جنت کی بستی میں ان سے ملنے کا وقت بھی بہت ہو گا،
لیکن اب آخر میں ابو الانبیا سے مل لو۔ اس کے بعد ہمیں پیغمبر عربی کے حضور
پیش ہونا ہو گا۔ تمھیں وہاں پہنچنے میں تاخیر ہورہی ہے ۔‘‘
ہم سیدنا ابراہیم کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے چل پڑ ے ۔ میں نے دور سے
انھیں دیکھا۔ ابھی تک جتنے لوگ میں نے دیکھے تھے وہ ان میں سب سے زیادہ
بلند اور اعلیٰ مقام کے مالک نظر آئے ، مگر ان کے اردگرد بیٹھے ہوئے لوگوں
کی تعداد انتہائی کم تھی۔ اس کا سبب مجھے صالح سے دریافت کرنے کی ضرورت
نہیں تھی۔ ابو الانبیا کی نسل میں جتنے زیادہ اہل ایمان پیدا ہوئے ، آپ کے
معاصرین میں آپ پر اتنے ہی کم لوگ ایمان لائے ۔
میں دھیرے دھیرے چلتا ہوا سیدنا ابراہیم کے قریب پہنچا۔ مجھے دیکھ کر ان کے
چہرے پر مسکراہٹ آئی۔ وہ میرا نام لے کر بولے :
’’عبد اللہ! تمھارا آنا مبارک ہو۔‘‘
میں نے آگے بڑ ھ کر ان کے ہاتھوں پر بوسہ دیا۔ انہوں نے جواب میں میری
پیشانی کا بوسہ لیا اور آخرت کی اس عظیم کامیابی پر مجھے مبارکباد دی۔ کچھ
گفتگو کے بعد ہم آگے روانہ ہوگئے ، مگر مجھے دوران گفتگو یہ احساس ہوا تھا
کہ سیدنا ابراہیم ایک نوعیت کے تفکر میں مبتلا ہیں ۔ راستے میں صالح سے میں
نے اس کی وجہ پوچھی تو وہ بولا:
’’تمھیں نہیں معلوم اس وقت حشر کے میدان میں کیا قیامت برپا ہے ۔ اس وقت ہر
نبی پریشان ہے کہ انسانیت کا کیا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب کی شدت اتنی
زیادہ ہے کہ ان انبیا میں سے کوئی بھی نہیں چاہتا کہ اس کی امت عذاب الٰہی
کا سامنا کرے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو معاف کر دیں ۔ مگر
سرِ دست اس کا کوئی امکان نہیں ۔ ایسی کوئی دعا کی جا سکتی ہے اور نہ اس کی
اجازت ہے ۔ لوگ سیکڑ وں برس سے خوار و خراب ہورہے ہیں اور سرِدست حساب کتاب
شروع ہونے کا بھی کوئی امکان نہیں ہے ۔‘‘
’’سیکڑ وں برس؟ کیا مطلب! ہمیں تو اندر آئے ہوئے بمشکل ایک دو گھنٹے گزرے
ہوں گے ۔‘‘، میں نے چونک کر تعجب سے کہا۔
’’یہ تم سمجھ رہے ہو۔ آج کا دن کامیاب لوگوں کے لیے گھنٹوں کا ہے اور باہر
موجود لوگوں کے لیے انتہائی سختی و مصیبت کا ایک بے حد طویل دن ہے ۔ باہر
صدیاں گزر گئی ہیں ۔ مگر تم ابھی یہ بات نہیں سمجھو گے ۔‘‘، اس نے وضاحت
کرتے ہوئے جواب دیا۔
میں اس کی بات کو ہضم نہیں کرسکا، مگر ظاہر ہے میں جس دنیا میں تھا وہاں سب
کچھ ممکن تھا۔ اور نجانے اور کتنی تعجب انگیز باتیں میرے سامنے آنے والی
تھیں ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
صحابہ کرام اور مہاجرین و انصار حلقہ بنائے ادب و احترام سے بیٹھے تھے ۔
اُمتِ محمدیہ کے اولین و آخرین کی بھی ایک بڑ ی تعداد موجود تھی۔ شمعِ
رسالت کے ان پروانوں کے بیچ رسالتمآب سر جھکائے تشریف فرما تھے ۔ بظاہر ہر
چیز بالکل ٹھیک تھی، مگر میں محسوس کرسکتا تھا کہ یہاں بھی اسی نوعیت کا
تفکر پھیلا ہوا تھا جسے میں سیدنا ابرہیم کے چہرے پر پیچھے دیکھ کر آیا
تھا۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت بارگاہ احدیت میں دعا کر رہے ہیں ۔
ہمیں بیٹھ کر انتظار کرنا چاہیے ۔‘‘، صالح پچھلی نشستوں کی طرف بڑ ھتے ہوئے
بولا۔
ہم پچھلی نشستوں پر براجمان ہوگئے ۔ یہاں سے یہ اندازہ کرنا مشکل تھا کہ
آگے کیا ہورہا ہے ۔ میں نے صالح سے دریافت کیا:
’’یہ حساب کتاب کب شروع ہو گا؟‘‘
’’مجھے کیا معلوم۔ کسی کو بھی معلوم نہیں ۔‘‘، اس نے جواب دیا۔
اس کی بات سن کر میں خاموش ہو گیا اور نشست کی پشت سے سر ٹکا کر آنکھیں بند
کر کے بیٹھ گیا۔ نہ جانے کتنا وقت گزرا تھا کہ صالح کی آواز میرے کان میں
آئی:
’’تمھیں رسول اللہ نے طلب کیا ہے ۔‘‘
اس کی آواز اور چہرے پر قدرے حیرت کے آثار تھے ۔ میں مسکراتا ہوا اسے جواب
دیے بغیر اٹھ گیا۔ لوگوں کے بیچ سے گزرتے ہوئے ہم دونوں بارگاہِ رسالتمآب
میں حاضر ہوئے ۔ سلام اور دست بوسی کے بعد حضور نے فرمایا:
’’مرحبا عبد اللہ! تم سے مل کر خوشی ہوئی۔ ۔ ۔ بیٹھ جاؤ۔‘‘
میں وہیں حضور کے قدموں میں بیٹھ گیا۔ آپ نے مسکرا کر مجھے دیکھا اور
فرمایا:
’’جس وقت پروردگار عالم کے حضور میری یہ دعا قبول ہوئی کہ حساب کتاب شروع
ہوجائے ، تم نے بھی ایک دعا کی تھی۔ میری دعا قبول ہوئی اور قبولیت کی اس
گھڑ ی میں تمھاری دعا بھی سن لی گئی ہے ۔ تم دوبارہ حشر کے میدان میں جانا
چاہتے ہو؟ جاؤ، تمھیں اجازت مل گئی ہے ۔ حساب کتاب کچھ دیر بعد شروع ہو گا۔
تم اس وقت تک لوگوں کے احوال دیکھ سکتے ہو۔‘‘
سرکار دو عالم ایک وقفے کے بعد دوبارہ گویا ہوئے :
’’لیکن دیکھو باہر بہت سخت ماحول ہے ۔ صالح گرچہ تمھارے ساتھ ہو گا، مگر
پھر بھی تم یہ پیتے جاؤ۔ یہ مشروب تمھیں باہر کے آلام سے محفوظ کر دے گا۔‘‘
یہ کہہ کر حضور نے پاس رکھا سنہرے رنگ کا جگمگاتا ہوا ایک گلاس میری سمت بڑ
ھادیا۔ میں نے دونوں ہاتھ آگے بڑ ھا کر یہ گلاس حضور کے ہاتھوں سے لیا اور
اپنے ہونٹوں سے لگالیا۔
گلاس ہونٹوں سے لگاتے ہی ایک عجیب واقعہ ہوا۔ میں گرچہ بالکل پیاسا نہیں
تھا اور نہ کسی تکلیف اور بے چینی ہی میں تھا، مگر جو تسکین مجھے ملی وہ
شاید صدیوں کے کسی پیاسے کو بھی پانی کا پہلا گھونٹ پینے پر نہیں ملتی ہو
گی۔ اس مشروب کا ایک گھونٹ حلق سے اتارتے ہی لذت، سیرابی، آسودگی، مٹھاس
اور ٹھنڈک کے الفاظ اپنے ایسے مفاہیم کے ساتھ مجھ پر واضح ہوئے جس کا تجربہ
مجھے تو کیا، کسی دوسرے انسان کو بھی کبھی نہیں ہوا ہو گا۔ اس مشروب کا ایک
ایک قطرہ میری زبان سے حلق، حلق سے سینے اور سینے سے معدہ تک اترتا رہا اور
میری رگ رگ کو سیرابی اور سرشاری کی کیفیت سے دوچار کرتا گیا۔ میرا دل تو
چاہا کہ ایک ہی گھونٹ میں پورا گلاس پی جاؤں ، مگر جس ہستی کے سامنے بیٹھا
تھا، اس کا ادب اس بات میں مانع ہوا۔ میں نے آہستگی سے سوال کیا:
’’یا رسول اللہ یہ کیا ہے ؟‘‘
آپ مسکراتے ہوئے گویا ہوئے :
’’یہ نئی زندگی اور نئی دنیا کا پہلا تعارف ہے ۔ یہ جام کوثر ہے ۔ اسے پینے
کے بعد حشر میں گرمی اور پیاس تمھیں نہیں ستائے گی۔‘‘
یہ الفاظ سنتے ہی مجھے سمجھ میں آ گیا کہ مجھ پر اس مشروب کا یہ غیر معمولی
اثر کیوں ہوا تھا؟ یہ جنت کی نہر کوثر کا پانی تھا اور بلاشبہ ان تمام
خصائص کا حامل تھا جن کا ذکر میں ہمیشہ سنتا رہا تھا۔ اس لمحے مجھے یہ بھی
اندازہ ہوا کہ جنت کی نعمتیں کیا ہوں گی۔ پچھلی دنیا میں کھانے پینے کی لذت
دو چیزوں میں پوشیدہ تھی۔ ایک یہ کہ انسان کو شدید بھوک اور پیاس لگی ہو
اور دوسرے اسے کھانے پینے کے لیے بہت لذیذ شے مل جائے ۔ مگر جنت کی ہر شے
اپنی ذات میں انتہائی لذید ہونے کے ساتھ انسان کو بغیر بھوک اور پیاس کے وہ
لذت اور تسکین بھی فراہم کرے گی، جو صرف ایک انتہائی بھوکے اور پیاسے شخص
ہی کو مل سکتی ہے ۔ اب مجھے معلوم ہو گیا کہ جنت میں نہ بھوک ہو گی اور نہ
پیاس، مگر اس کے باوجود انسان جتنا چاہے گا شوق سے کھائے گا اور اس کی کوئی
سیری ایسی نہیں ہو گی جو اسے گرانی اور بھاری پن میں مبتلا کر دے۔
۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جاری ہے....... |