(منگل وار،۲۰۱۷ء۔۰۵۔۲۴)
’جناب میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑ کر عرض کرتا ہوں کہ آپ میرے ساتھ کچھ تعاون
فرمائیں۔ میں ایک ریٹائرڈ کرنل ہوں۔ رینجرز سے میں دو سال پہلے ریٹائر ہوا
تھا۔ کچھ ماہ پہلے ایک اخبار میں ایک بڑا سا اشتہار پڑھا کہ ایک فیکٹری کے
مالک کو ایک مینیجنگ ڈائریکٹر کی ضرورت ہے۔ میں نے مناسب سمجھا کہ پتہ کروں
کی تنخواہ کتنی ہے۔ اشتہار میں بھی ایک لاکھ ماہوار تنخواہ لکھی تھی۔ لیکن
اپنے دل کی تسلی کے لئے میں نے اسپیشلی فون کر کے پتہ کیا کہ کام کے گھنٹے
کتنے ہیں اور تنخواہ پر منتھ کتنی ہے۔ تنخواہ فی ماہ ایک لاکھ ہی بتائی گئی
بلکہ اس کی یقین دہانی کروائی گئی۔میں وہاں چلا گیا۔ ابھی مجھے وہاں گئے دو
ماہ ہی ہوئے تھے کہ فیکٹری نے خسارے کی گھنٹی بجا دی۔میں اس فیکٹری میں
اپنا کام جاری رکھنا چاہتا تھا۔مالک نے میرے ارادے بھانپ کر کہا کہ اگر کچھ
رقم ہے تو اس کام میں لگا لو، تا کہ ڈوبتی کشتی کو سہارا مل جائے۔ باقی کا
حساب کتاب ہم بعد میں کرتے رہیں گے۔ میں نے کسی قسم کی لکھت پڑت کے بغیر
مبلغ پچاس لاکھ روپے اس کے حوالے کر دیئے۔ اس نے مجھے اتنا اعتماد میں لے
لیا ہوا تھا‘۔
تمام دفتر والے یہ کہانی ہمہ تن گوش ہو کر سن رہے تھے ۔ ان کے جتنے کان اس
ایکٹوٹی میں مشغول تھے، اتنی ہی ان کی آنکھیں اس ریٹائرڈ کرنل کا چہرہ
دیکھنے میں مصروف تھیں۔ اس کا چہرہ کسی فوجی آفیسر کا رعب داب رکھنے کی
بجائے ایک مجبور بلکہ معذور انسان کا سا معصوم پن لئے ہوئے تھا۔ انسان اندر
سے تو ایک ہی ہے باہر سے ضرور اس کے ہزاروں روپ ہیں۔
اسے کہانی سناتے ہوئے اپنے مرد یا فوجی یا سابقہ کرنل ہونے کا بھی کوئی
احساس نہیں رہا تھا۔ اور واقعی وہ اس وقت سوائے ایک مجبور انسان کے اور کچھ
نہ تھا۔ اس کے بات بات پے آنسو بھی پھوٹ پڑتے ۔ اور وہ آنسو سفید رنگ کے
ایک ’صافے‘ کے ساتھ صاف کر لیتا۔ بار بار اس کی زبان تھرا جاتی۔ وہ بات
کرتے کرتے رک جاتا جیسے وہ کوئی عورت ہو اور دوسروں کر رو رو کے اپنی سچائی
کا یقین دلانا چاہتی ہو۔
سننے والے بار بار اس کی بات پر افسوس کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے سچے ہوئے پر
بھی شکوک کا شکار ہو رہے تھے کہ کہیں یہ بوڑھا شخص کوئی چال ہی نہ چل رہا
ہو۔لیکن سچی بات میں کچھ مہک ایسی ہوتی ہے جو اس شک کی باس پر چھا جاتی ہے۔
اس شخص کی باتیں اس ماحول کو ایک طلسم کی طرح اپنی لپیٹ میں لئے جا رہی
تھیں۔ ہر سننے والا اس کے نقصان اور فیکٹری کے مالک کے مکر پر حیران ہو رہا
تھا کہ اتنا بڑا افسر ، اتنے پارسا کے ہاتھوں لُٹ گیا۔
دنیا کے کتنے رنگ ہیں یہ کسی کو سمجھ نہیں آ سکتی۔ جہاں کسی بات کی ذراسی
بھی توقع نہیں ہوتی، وہاں بھی سب کچھ ہو جاتا ہے۔
ہر رستے کے اپنے لٹیرے ہوتے ہیں۔کاروبار میں غبن، دھوکہ دہی، فراڈ تو عام
سی باتیں ہیں اور پھر جہاں اعتماد ہو وہاں دھوکہ اکثر ہو جاتا ہے۔ دراصل یہ
کرنل ،فوج کا تجربہ تو بہت رکھتا تھا لیکن ’اوتھیلو‘ کی طرح اسے شہری زندگی
کا تجربہ نہ تھا۔ وہ شہری زندگی کی حساسیت سے بے خبر ایک پارسا جو دراصل
’پا رسہ ‘ تھا کی پر ہیز گاری کا شکار ہو گیا تھا۔
جب اس بزرگ صورت نے فیکٹری کی ڈوبتی کشتی کو بچانے کے لئے سہارا مانگا تو
اس کرنل نے فوراً اپنے پرس کی ڈوریاں ڈھیلی کر دیں۔ اور ایک بہت بڑی رقم لا
کر اس بزرگ صورت کے قدموں پر ڈھیر کر دی۔اور اس نے اس ڈھیر میں اپنی مکاری
کا بم رکھ کر دھماکا کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی دو ماہ ہی گزرے تھے کہ اس بزرگ صورت نے فیکٹری بند کرنے کا اعلان کر
دیا ۔ ریٹائرڈ کرنل کو پریشانی ہوئی کہ اس کے پچاس لاکھ کا کیا بنے گا۔ادھر
وہ بزرگ صورت کسی قسم کی بات سننے یا کوئی یقین دہانی کروانے کی ضرورت
محسوس نہیں کر رہا تھا۔ کرنل کا ہر نئے دن کے سورج کے ساتھ دل تاریک ہوتا
جا رہا تھا۔ اس کی راتیں تاریکی کی بجائے دن کی کھلی روشنی میں ڈھل رہی
تھیں جس میں نیند آنکھوں میں داخل ہونے کی بجائے ادھر ، ادھر ایک ڈرے ہوئے
پرندے کی طرح منڈلاتی رہتی ہے لیکن اپنی مقررہ جگہ میں داخل نہیں ہوتی۔
آخر ایک دو ہفتے ہی اس گو مگو کی کیفیت میں گزرے تھے کہ فیکٹری کے دروازوں
پر تالے لگنے شروع ہو گئے۔ اور پھر مالک نے فیکٹری مکمل طور پر بند کرنے کا
اعلان کر دیا ۔جب کرنل نے اپنا حساب مانگا تو اس نے صاف صاف کہہ دیا ’کون
سی رقم، رقم دینے کا کوئی ثبوت، کوئی گواہ، کوئی اشٹام؟‘ بے چارے کرنل کے
پاس کچھ بھی تو نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔
کرنل نے لاکھ منت ترلے ڈالے، کچھ دھمکیاں بھی دیں، عدالت میں گھسیٹنے کی
بات بھی کی ۔ لیکن اس بزرگ صورت نے کہا ’ جاؤ ، بچو ، تم جیسے تو میں اپنی
انگلیوں پر نچاتا ہوں‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’ میرے پاس کوئی بھی ثبوت نہیں ۔ ایک کاغذ کا پرزہ نہیں ، کوئی گواہ نہیں ،
لیکن میرا خدا جانتا ہے کہ میں بالکل سچا ہوں۔‘
حاضر سروس کرنل نے اس ریٹائرڈ کرنل کے ساتھ پورا پورا تعاون کرنے کا وعدہ
کیا اور ایک حاجی صاحب کو بلا یا۔اور اس حاجی صاحب سے کہا کہ اس شخص کا یہ
مسئلہ ہے اس کے ساتھ مکمل تعاون کرو۔ اس حاجی نے کہا کہ میں حاجی ہوں ہی
اسی کام کا ۔ میری زندگی کا مشن ہی اس طرح کے پریشان حال لوگوں کی اعانت
کرنا ہے۔ اس نے کہانی کے اہم واقعات پھر سے سنے۔ اور اس مجبوری کی تصویر
بنے کرنل صاحب سے کہا کہ آپ میری گاڑی میں بیٹھیں۔ ہم ابھی اس بزرگ صورت
لیکن بد سیرت شخص کا پیچھا کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔
وہ حاجی آٹھ گن مینوں کے ساتھ اس ریٹائرڈ کرنل کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر لے
گیا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’یہی ہے وہ شخص جس نے مجھے دھوکہ دیا ہے۔‘
حاجی: اسلام علیکم ، جناب !
بزرگ صورت: (اپنے داہنے ہاتھ میں ایک تسبیح پکڑے ہوئے اور دانے پے دانا
پھینکتے ہوئے) وعلیکم اسلام !
حاجی: جناب کیا حال ہے؟
بزرگ صورت: اﷲ کا فضل ہے۔ کیسے آنا ہوا ؟
حاجی: اس غریب کی رقم آپ واپس کیوں نہیں کر رہے؟
بزرگ صورت: کون سی رقم، انہوں نے مجھے کوئی رقم نہیں دی ۔ کوئی ثبوت ہے تو
دکھائیں۔
حاجی: بزرگو ہمارے پاس ثبوت تو کوئی نہیں ہے لیکن آپ سے گزارش ہے کہ آپ اس
غریب کی ساری عمر کی کمائی اسے لٹا دیں۔ اس نے بڑی مشقت سے بنائی ہے۔
بزرگ صورت: ایسی باتوں سے تو کوئی بھی دعویٰ کر سکتا ہے۔ اتنی بڑی رقم کوئی
بغیر کوئی اشٹام یا گواہ بنا ئے کسی کو دیتا ہے۔ آپ تو خواہ مخواہ لڑائی کی
باتیں کرتے ہو۔ میں کوئی بچہ نہیں ہوں کہ آپ جیسوں کی باتوں میں آ جاؤں۔
جائیں اپنا کام کریں۔
حاجی (اپنے ساتھیوں سے ): تم لوگ اس بوڑھے کو پکڑ کے گاڑی میں پھینکو ۔ اب
باقی بات تھانے جا کر ہو گی۔
وہ لوگ بڑی مشکل سے اسے اٹھا کر تھانے لائے۔ تھانے دار بھی جیسے اس بزرگ
صورت کا چاہنے والا یا عقیدت مند تھا۔ اس نے بھی کوئی خاص دلچسپی نہ لی۔
لیکن چوں کہ اس معاملے میں رینجر والے براہِ راست شامل تھے، اس نے اپنی
عافیت اسی میں سمجھی کہ جو زیادہ طاقتور ہے اس کی بات مان لی جائے۔ اس بزرگ
صورت کو بہتیرا سمجھایا بجھایا گیا لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا ۔ کچھ مار پیٹ
بھی کی گئی لیکن جیسے اس کی کھال بہت مضبوط تھی اور اس پر اس ساری کاروائی
کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔
حاجی صاحب کی پریشانی غصے میں ڈھلتی جا رہی تھی۔اس نے سوچا کہ یہ بوڑھا بہت
تجربہ کار ہے، ایسے نہیں مانے گا۔اس نے بوڑھے کو مذید سختی سے سمجھانے کی
کوشش کی لیکن اس بزرگ صورت کے مان جانے کا کوئی امکان پیدا نہ ہوا۔
آخر حاجی صاحب بھی حاجی صاحب تھے اس سے ملتے جلتے کئی ایک کیس ڈیل کر چکے
تھے۔ وہ فوراً آئی جی کے دفتر پہنچے، ایک چٹھی ٹائپ کروائی، اس پر کچھ سائن
کروائے ۔ اور دو گھنٹوں بعد اس بوڑھے کے پاس مقامی تھانے میں واپس پہنچ
گئے۔ اس بوڑھے کو وہ چٹھی دکھائی گئی کہ اسے پڑھ لو ، وہ اس کے ڈتھ وارنٹ
تھے۔ حاجی صاحب اسے فائر کر کے جان سے مار دینے کے احکامات لے آئے تھے۔
بوڑھا اب کچھ پریشان ہو گیا۔ محسوس ہوا کہ ا معاملہ طے ہو جائے گا۔ وہ رقم
واپس دینے کی باتیں حیلوں بہانوں سے ٹالے جا رہا تھا۔ وہ بتانے لگا کہ رقم
تو ساری ڈوب گئی ہے۔ کسی نے اس کے ساتھ فراڈ کر لیا ہے۔ وہ تو خودبھی کسی
اور کے ہاتھوں دھوکہ کھا گیا ہے۔ یہ اس کی دوسری چال تھی ۔ وہ شکل وصورت سے
دھوکہ کھانے والا لگتا ہی نہ تھا۔ فطرت نے اس کے چہرے کی تمام معصومیت کے
باوجود اس کے ماتھے پر اس کا کردار کندہ کر دیا ہوا تھا جسے ایسے معاملات
ہینڈل کرنے والے پڑھ سکتے تھے۔ ُؒ
شام کا اندھیرا گہرا ہو رہا تھا۔ راوی کے کنارے ایک سنسان سی جگہ پر کچھ
لوگ اپنی گاڑیوں سے باہر نکل رہے تھے۔ ان میں رینجر کا ایک چھوٹا سا دستہ،
پولیس کے چند سپاہی، ایک حاجی صاحب اور ایک وہی بزرگ صورت شخص جس پر پچاس
لاکھ کے غبن کا الزام تھا۔اسے گھسیٹ کر نیچے اتارا گیا ، اور ایک طرف چند
قدم چلنے کو کہا گیا۔ وہ بات سمجھ گیا۔ وہ حاجی صاحب کی ٹانگوں سے لپٹ گیا۔
معافی مانگے لگ پڑا اور پھر رونے اور واسطے ڈالنے کی حد تک آگیا۔ حاجی صاحب
نے اپنے لوگوں کو حکم دیا کہ اسے پرے پھینک کر گولیاں مار دو۔ یہ الفاظ
سنتے ہی اس کی جان پر بن گئی۔ وہ پیسے لوٹانے کی بات کرنے لگ پڑا :
’ مجھے نہ ماریں، میں پیسے لوتا دیتا ہوں ، خدا کے واسطے نہ ماریں میں ابھی
وہ رقم واپس کر دوں گا ‘۔
مقصد بڑی حد تک حل ہو چکا تھا۔ اسے مارنا تو مقصد تھا ہی نہیں ، مقصد تو بس
اسے ڈرانا اور منا نا تھا ۔ وہ اب مان گیا تھا کہ واپس فیکٹری جا کر اس
کرنل کی رقم واپس کر دے گا ۔ کہاں وہ یہ بھی نہیں مان رہا تھا کہ اس نے رقم
لی بھی ہے، اور کہاں وہ اس رقم کی واپسی کی بات ہاتھ جوڑجوڑ کر کر رہا تھا۔
اسے واپس گاڑی میں لادا گیا ۔ سلوک اس کے ساتھ بڑا بے رحمانہ کیا گیا تھا
لیکن وہ کسی طور اپنی ضد چھوڑ نہیں رہا تھا۔ اب وہ راہ راست پر آ چکا تھا۔
اسے اپنی موت سامنے نظر آ رہی تھی اور شاید موت کا ڈر ہی انسان کی اصلاح کر
سکتا ہے ۔ اسی لئے قرآن نے یہ ڈر بار بار استعمال کیا ہے۔ لیکن انسان واقعی
اس وقت ڈرتا ہے جب موت اس کے سامنے آ کر کھڑی ہی ہو جائے۔ جیسا کہ اس بزرگ
صورت کے ساتھ ہو اتھا ۔
کچھ وقت بعد وہ اس کی فیکٹری کی آفس میں بیٹھے تھے۔ بوڑھا آدمی رقم گن رہا
تھا۔ چالیس لاکھ گننے کے بعد اس نے گنتی سٹاپ کر دی۔ وہ اس سے آگے نہیں
جانا چاہتا تھا۔اس نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ باقی کے دس لاکھ وہ اگلے مہینے
ادا کر دے گا۔ اس وقت اس کے پاس اتنی ہی رقم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چالیس لاکھ ، اس ریٹائرڈ کرنل کے لئے پچاس لاکھ سے بھی زیادہ محسوس ہو رہے
تھے۔ وہ اتنا خوش تھا جیسے اسے دوبارہ زندگی مل گئی ہو۔ اس کا چہرہ ایسے
کھل اٹھا جیسے کوئی مرجھایا گلاب پھر سے کھِل اٹھے اگرچہ مرجھائے گلاب
دوبارہ کھلتے تو نہیں۔ لیکن اس کی کھوئی ہوئی دولت اسے دوبارہ مل چکی تھی ۔
اسے یقین نہیں آرہا تھا۔ کہ اتنے کرپٹ معاشرے میں ایسے بزرگ صورت لوگ اور
ایسے حاجی بھی ہو سکتے ہیں۔
رقم واپس ملنے کی خوشی میں اسے نے کچھ پیسے حاجی صاحب کو بطور انعام دینے
کی پیشکش کی جو حاجی صاحب نے فوراً ٹھکرا دی اور کہا کہ وہ ایسا کبھی سوچ
بھی نہیں سکتا ۔ اس سٹیشن پر موجود ہر شخص کے لئے ایک انتہائی پر تکلف
کھانے کا اعلان و اہتمام کیا گیاجو اس خوش قسمت کرنل صاحب کی طرف سے پیش
کیا گیا ۔ سب نے مل کر کھانا کھایا۔ اور پھر ایک گاڑی میں کرنل صاحب کو ان
کی رہائش گاہ تک بحفاظت پہنچایا گیا ۔ اس کے دل سے حاجی صاحب کے لئے بغیر
لفظوں کے دعائیں نکل رہی تھیں۔۔۔ |