نفسِ ذکیہ - قسط۔ ٢٢

دلاور بھی بڑا اداس تھا اور سیما بھی۔۔۔ کتنی محنت کی تھی انہوں نے یہ ڈانس کمپیٹیشن جیتنے کے لئے مگر سب رائیگاں گیا۔ وہ دونوں ہی منہ بنا بنا کر ہر روز باقی تمام جوڑوں کی برائیاں کر رہے تھے۔
’’میری تو ٹانگیں ہی سو ج گئیں ڈانس کر کر کے اور۔۔۔‘‘ سیما نے رونی سی صورت بنا کر کہا۔
’’سہی بات ہے!‘‘ دلاور نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔ وہ بھی بڑا دلبر داشتہ ہوا ہوا تھا۔
’’یہ دیکھو اس کو۔۔۔ کتنا برا ڈانس کیا تھا انہوں نے۔۔۔‘‘ انہوں نے اس ایونٹ کی ویڈیو لگا رکھی تھی۔ انہوں نے ایک جوڑے کے ڈانس کی برائیاں کرنی شروع کر دیں۔
’’بہت غصہ آ رہا ہے مجھے تو۔۔۔‘‘ سیما نے اکتا کر کہا۔ وہ دلاور کے ہاں ہی موجود تھی۔
’’اچھا چھوڑو اب۔۔۔ جو ہوا سو ہوا۔۔۔‘‘ دلاور اداس سا ہو کر بولا۔
’’کب جا رہے ہیں وہ دونوں خبیث امریکہ۔۔۔‘‘ سیما نے جیتنے والے جوڑے کو جلن کے مارے گالی دی۔

’’کل کی ہی تو فلائٹ ہے‘‘۔ دلاور نے بتایا۔
’’کل کی!!!‘‘ سیما آنکھیں پھاڑ کر بولی۔ حسد سے اس کے دل پر سانپ لوٹ رہے تھے ۔
’’ہاں‘‘۔
’’ہم بھی چلتے ہیں نا!!!!‘‘ سیما نے اینٹھ کر کہا۔ ’’جیتنا تو ہمیں ہی چائیے تھا‘‘۔ جو لڑکی جیتی تھی اس سے سیما ویسے ہی خار کھاتی تھی۔
’’۔۔۔ اور وہ کمینی پہنچ گئی امریکہ‘‘۔ سیما بڑبڑائی۔
’’چلو نا دلاور ہم بھی گھومنے چلتے ہیں نا! ہمارے ساتھ کتنی نا انصافی ہوئی ہے۔۔۔‘‘ سیما نے مگر مچھ کے آنسو بہانے شروع کر دئیے۔

’’اچھا جان! اب بس بھی کرو۔۔۔ دیکھتے ہیں۔‘‘ دلاور نے کہا اور کچھ سوچنے لگا۔ اس کا اور کام ہی کیا تھا۔ عیش و عشرت میں غرق رہنے کی لت گئی تھی۔ عقل پر تالے لگے ہوئے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے اس کا دماغ ہی سن رہتا ہو، ہر قسم کی سوجھ بوجھ سے قاصر ہو۔ اس نے سیما کے ساتھ مل کر امریکہ جانے کی پلاننگ شروع کر دی۔

۔۔۔۔۔۔۔

مغرب سے کچھ دیر پہلے ڈاکٹر ذیشان کچھ اسٹاف ممبران کو لے کر ’’روشن ‘‘ کے باغیچے میں بنے ایک خاص حصے کی طرف بڑھنے لگے۔ میں اور دو تین اور مریض بھی ان کے ساتھ ہی تھے۔ گارڈن کا یہ حصہ ’’روشن‘‘ کی مین بلڈنگ کے بالکل پیچھے بنا تھا۔ جیسے سب سے چھپا کر بنایا گیا ہو۔ یا اس لئے سب کی نظروں سے بچ کر بنایا گیا ہو تا کہ ہر کوئی وہاں بلا ضرورت اس میں داخل نہ ہو سکے۔ جیسے ہی ہم بلڈنگ کے پیچھے پہنچے تو لکڑیوں کی بنی ایک جالی نما دیوار پر لکھا نظر آیا کہ ’’یہاں داخلہ منع ہے۔‘‘ یہ لکڑیوں کی باڑ یا دیوار گارڈن کے اس حصے کو باقی حصے سے جدا کرنے کے لئے بنائی گئی تھی۔ اسی باڑ میں لکڑی ہی کا ایک جالی نما دروازہ بھی تھا۔ ڈاکٹر ذیشان سب کے آگے آگے تھے۔ انہوں نے آگے بڑھ کر وہ دروازہ کھول دیا۔

’’اللہ تعالی نے دنیا کی کوئی چیز بلا وجہ نہیں بنائی۔‘‘
’’ہر شہ میں ایک حکمت ۔۔۔ایک راز پوشیدہ ہے۔ بس اسے مسخر کرنے والا چائیے۔۔۔‘‘ میں بغور ڈاکٹر ذیشان کی باتیں سن رہا تھا۔ ویسے تو میرا دماغ سن ہی رہتا تھا۔ مگر یہ ان کی شخصیت کا اثر تھا کہ کوئی جادو، میں جب بھی ان کی ساتھ ہوتا ایک پرسرار سی انرجی میرے اندر آ جاتی۔۔۔
’’پھول پودوں اور جڑی بوٹیاں بھی اللہ نے ہمارے لئے مسخر کر دیں ہیں۔ ہم انسانوں کے لئے۔۔۔‘‘ انہوں نے اپنی بات کی وضاحت کی۔
’’یہ زیتون کا درخت ہے۔‘‘ انہوں نے ایک درخت کی طرف اشارہ کیا۔وہ ایک درمیانے سے قد کا درخت تھا۔
’’ویسے تو کراچی کی فضا میں یہ دوخت نہیں لگتا مگر میں نے برکت کے لئے لگا دیا ہے۔۔۔ قرآنِ مجید میں اس درخت کو مبارک درخت کہا گیا ہے اور اس کے پھل کی تو بار بار تعریف ہوئی ہے۔ بلکہ ایک سورۃ میں تو اللہ پاک نے اس کی قسم بھی کھائی ہے۔ والتین والزیتون۔ و طورِ سینین۔ و ہذالبلدالا مین۔۔۔‘‘ انہوں نے سورۃ تین کی کچھ آیات تلاوت کیں۔
’’اسی طرح عجوہ کھجور جو مدینہ مکرمہ میں بڑی لگتی ہیں۔ ان کے بارے میں حدیپ شریف ہے کہ جس نے عجوہ کھجور کھائی جادو اس پر اثر نہیں کرتا۔ یہ اس کا روحانی فائدہ ہے۔۔۔‘‘
’’یہ ہینگ کی بوٹیاں لگیں ہیں۔ اس کے دھویں سے شیاطین اور جنات بھاگتے ہیں۔ اور یہ حرمل کا پودا ہے۔ یہ نظر بد کے لئے نہایت مفید ہے۔‘‘ ذاکٹر ذیشان کے ایک کونے میں لگے سارے چھوٹے چھوٹے پودوں میں سے دو کے بارے میں کہا۔
ایک طرف کو گلاب کے پھول لگے تھے۔ ’’گیندے کا پھول کبھی نہ لگانا۔۔۔ شیاطین گیندے کے پھول کی طرف آتے ہیں۔‘‘
’’۔۔۔اور زرقوم کا درخت بھی۔۔۔ اس پر تو قرآنِ مجید میڈ لعنت کی گئی ہے۔‘‘ انہوں نے ادھوری بات مکمل کی۔ پھر آگے بڑھ کر ہیگ اور حرمل کی کچھ بوٹیاں توڑ لیں اور زیتون کے بھی کچھ پتے جھاڑ کر اٹھا لئے۔ میں حیرت سے یہ ساری باتیں سن رہا تھا۔
’’چلو اب مغرب ہو رہی ہے۔ نماز پڑھ کر پھر ان تینوں کو اور وہ جو ایک ہفتے پہلے مریض آئے تھے سب کو دھونی والے کمرے میں لے آنا‘‘۔ ڈاکٹر ذیشان نے جلدی سے کہا اور باغ کے اس حصے سے نکل آئے۔ شاید وہ مغرب سے پہلے پہلے درختوں سے دور ہونا چاہتے تھے۔

کچھ ہی دیر میں مغرب کی آذان ہونے لگی۔ ’’روشن‘‘ ہی میں بنی ایک چھوٹی سی خوبصورت مسجد میں ہم سب جمع ہونے لگے۔ میں نماز کا پابند تو نہ تھا مگر یہاں کا ماحول ہی کچھ ایسا تھا کہ سب مل کر ضرور پانچوں نمازیں ادا کرتے تھے۔ مرد حضرات نے آگے سے صفیں بنانا شروع کیں اور عورتوں آخر سے۔۔۔ بالکل جیسے رسول اللہ ﷺ مسجد نبوی میں نماز پڑھایا کرتے تھے۔ اس دن امامت ڈاکٹر ذیشان نے خود ہی کروائی اور پھر ہم سب سے خطاب کرنے لگے۔

’’انسان یہ سمجھتا ہے کہ صرف وہی کچھ موجود ہے جو اسے نظر آ رہا ہے۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ بہت کچھ ایسا ہے جو انسان پر اثر انداز ہے مگر وہ غیر مرئی ہے۔ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ کہتے ہیں اس زمین پر اتنے شیاطین ہیں کہ اگر محافظ فرشتے ساتھ نہ ہوں تو وہ انسان کی بوٹی بوٹی نوچ لیں۔ وہ کوئی موقع نہیں گواتا کہ انسان کو نقصان پہنچائے اس نے اللہ سے بر ملا کہا کہ میں ان کے آگے سے آؤ ں گا اور پیچھے سے آؤں گا اور دائیں سے اور بائیں سے اور انہیں ضرور گمراہ کر کے چھوڑوں گا۔ ‘‘

’’خاص طور پر کمزور لوگ یا وہ لوگ جو کسی آزمائش میں یا پریشانی میں مبتلا ہو جائیں ۔۔۔ وہ لوگ تو اس کا خاص ٹارگٹ ہوتے ہیں۔ جب بندے کسی مشکل میں ہوتا ہے کام نہیں بن رہا۔۔۔ تو وہ اسے غلط راستے سجھاتا ہے تا کہ اسے بہکا دے۔ یا کوئی اور رنج و غم آ گیا زندگی میں ۔۔۔ بندہ جزباتی طور پر کمزور ہو گیاتو وہ یک دم اس پر حاوی ہو جاتا ہے۔ بہت سے ایسے کیسز آئے، جب بہت اچھے اور نیک لوگ کسی بڑے مشکل میں گرفتار ہوئے اور دکھ اور مایوسی میں نماز روزہ سب چھوڑ دیا۔ ایک آدمی تھا اس کے بیٹے کا انتقال ہو گیا ۔ اس نے رب تعالی سے یک دم بغاوت کر دی۔۔۔ ایک نیک آدمی تھا۔نماز روزہ ، سب کچھ چھوڑ دیا۔ یہ شیطان کا کام تھا۔‘‘

’’یہ اثرات لوگوں کو بڑی بڑی بیماریوں میں مبتلا کر دیتے ہیں اور انسان کو چھو کر اسے پاگل تک کر دیتے ہیں۔ ‘‘ سورۃ بقرہ آیت 275

’’چلیں پھر!آج دھونی کا دن ہے۔ آپ تمام افراد پر دم کیا جائے گا اور ہینگ اورحرمل کے سفوف کی دھونی ہو گی۔‘‘ ڈاکٹر ذیشان نے یہ کہہ کر بات ختم کی ، دعا کرائی اور اٹھ کر مسجد سے ہی متصل ایک درسرے کمرے میں چلے گئے۔

’’روشن‘‘ کے اسٹاف کے تین چار افراد سات افراد کو لے کر دھونی والے کمرے میں داخل ہوئے۔ مغرب کا وقت گزرگیا تھا۔ اندھیرا ہو چکا تھا ۔ دھونی والے کمرے میں مدھم مدھم سی روشنی موجود تھی۔ اے سی چل رہا تھا اور مختلف جگہوں پر شمعیں روشن تھیں۔ ایک کونے میں بخور دان میں بخور جل رہا تھا۔ جس کے دھوئیں سے سارا ماحول ایک لطیف خوشبو میں بھیگ گیا تھا۔ یہ کافی بڑا سا روم تھا۔ قالین کی جگہ بہت سے میٹ بچھے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر ذیشان نے ہم ساتوں افراد کو زمین پر بچھے میٹ پر بٹھا دیا۔ پھر ایک ایک کر کے سب کے پاس گئے اور ہم سب پر سورۃ فاتحہ، سورۃ فلق اور سورۃ الناس سے دم کیا۔ پھر کچھ اور آیات قرآنی پڑھ کر پھونکا۔ پھر ہم سب پر ایک ایک سفید چادر ڈال دی گئی اور پھر سات بخوردانوں میں ہینگ اور حرمل کی بوٹی کا سفوف جلا کر اسے ہماری چادروں کے اندر رکھ دیا گیا تا کہ اس کے دھویں سے ہم پر اگر کوئی اثرات ہوں تو ختم ہو جائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر ذیشان جان چکے تھے کہ میری اس حالتِ زار کے پیچھے بہت کچھ چھپا ہے۔ جو بہت اذیت ناک اور گھناؤنا ہے۔ میں ان پر مکمل اعتماد اور اعتبار کر نے لگا تھا۔ شاید یہ ان کے پروفیشن کی خاصیت تھی کہ وہ سب سے پہلے اپنے مریض کا دل جیتتے تھے اور انہیں اس بات کا یقین دلاتے تھے کہ مریض ان پر مکمل اعتماد اور اعتبار کر سکتا ہے۔ بچپن کے اذیت ناک واقعات کے بعد میری طبیعت میں جو بدلاؤ اور ایک پوشیدہ کشمکش اور حساسیت آ گئی تھی وہ اب ڈاکٹر ذیشان سے چھپی نہ تھی۔

پھر ایک دن دوبارہ میرا تھیرپی سیشن ہوا۔ ڈاکٹر ذیشان مجھے مکمل سکون کی کیفیت میں پہنچا چکے تھے۔ وہ مجھ سے سوال جواب کرنے لگے۔
’’ وہ لڑکا کون تھا ذولقرتین؟‘‘ ڈاکٹر ذیشان کا یہ سوال سن کر میں گھبرا گیا۔ یہی راز تو میں بچپن سے چھپاتا آیا تھا۔ اب میں اسے آشکار کیسے کر دوں! جب سب کو پتا چل جائے گا تو میں کسی کو کیا منہ دکھاؤں گا!!! اپنے دوستوں کو! اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کوٖ ! سارے سماج کو کیا منہ دکھاؤں گا!
نہیں میں کسی کو کچھ نہیں بناؤں گا۔ اپنے زخموں کو اپنے اندر ہی گھونٹ کر ہمیشہ یوں ہی گھٹ گھٹ کر جیتا رہوں گا۔۔۔ میں نے تہیہ کیا اور ڈاکٹر ذیشان کو جواب دیا۔۔۔ ’’کون لڑکا؟ آپ کس کی بات کر رہے ہیں؟؟؟‘‘

’’ایک گہرا سانس لو۔۔۔ ‘‘ ڈاکٹر ذیشان نے یہ کہہ کر خود ایک گہرا سانس لیا جس کی آواز بھی مجھے آئی۔ میں نے ایک گہرا سانس لے لیا۔
’’ایک اور سانس۔۔۔‘‘ وہ اور میں اسی طرح گہرے گہرے سانس لیتے رہے۔ پھر انہوں نے جلدی جلدی سانس لینے شروع کئے۔ میں بھی ویسے ہی کرتا گیا۔
’’اب ریلیکس ہو جاؤ۔۔۔ مکمل سکون۔۔۔‘ ‘

انسان کے جزبات اس کی سانس کے ساتھ جڑے ہیں۔ جب کسی شخص پر خوف طاری ہوتا ہے تو خود با خود اس کی سانسیں چڑھنے لگتی ہیں۔ جب وہ کسی کام سے ناامید ہوتا ہے تو بے اختیاراپنی سانس باہر نکال کر ‘‘ہاہ‘‘ کہتا ہے۔ جب اچانک کوئی خوشی ملتی ہے تب بھی سانس زور زور سے لینے لگتا ہے۔ کچھ مناسب مشقوں کے زریعے انسان اپنے جزبات اور اندر کو سانس کے زریعے با آسانی قابو کر سکتا ہے۔صوفیا اکرام بھی اکثر سانس کے زریعے مراقبہ کرتے ہیں۔ مثلا ہر سانس کو ایک خاص ترتیب سے لینا اور ہر سانس پر اللہ ھو کہنا یا صرف تصور کرنا۔ اس طرح ان کا باطن خرافات سے اور منفی سوچوں سے صاف ہوتا ہے۔

سانسوں کی اس منفرد مشق سے واقعی میں کچھ مختلف سا محسوس کرنے لگا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے میری انگلیوں کے پوروں میں کوئی ہلکی ہلکی بجلی سی لہک رہی ہو۔ میں چارج سا ہو گیا۔
’’اپنے آپ کو بالکل ڈھیلا چھوڑ دو۔۔۔ مکمل سکون۔۔۔ مکمل سکون۔۔۔‘‘ ڈاکٹر ذیشان بار بار یہ الفاظ دہرائے جا رہے تھے اور ان کے ہر ہر لفظ کے ساتھ میں سکون کی کسی گہری وادی میں ڈابتا جا رہا تھا۔ منطق کی جس دیوار نے میرے زخموں کو بھرنے سے روک رکھا تھا وہ ٹوٹ گئی۔ میں بے پرواہ ہو گیا اس بات سے کہ میرے ماضی کے میرے حال مجھ پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہوں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے میں تنقیدی فکر سے عاری ہو گیا ہوں۔ میں خوش ہو گیا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے سارے بندھ ٹوٹ گئے ہوں۔ میں آزاد پنجھی کی طرح محسوس کرنے لگا۔ میں بالکل ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگا۔

’’اپنے دل کی بات کہنے سے دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔ میں تمہارا سب سے اچھا دوست ہوں۔ مجھے اپنا ہی سمجھو۔۔۔ اپنی ساری کہانی اپنے دوست کو سنا دو۔۔۔‘‘ ڈاکٹر ذیشان نے حوصلہ دیا اور اس دن میں نے اپنی زندگی کا اذیت ناک باب انہیں پڑھ سنایا۔

۔۔۔۔۔۔۔
اس نے کس کے میرا ہاتھ پکڑا رکھا تھا۔ وہ مجھ کہیں دور لے کر جا رہا تھا۔میرے محلے سے ۔۔۔ میرے علاقے سے بہت دور۔۔۔

دوپہر کا وقت تھا۔ لوگ دھوپ سے بچنے کے لئے اپنے اپنے گھروں میں گھسے ہوئے تھے۔ میں ابھی ابھی مسجد سے قرآنِ مجید پڑھ کر آ رہا تھا۔ اسکول سے واپسی پر کھانے کھانے کے بعد روز امی مسجد سپارہ پڑھنے بھیج دیتی تھی ۔ مسجد کی صفوں پر چٹائی بچھا کر ہم پچاس ساٹھ بچے سپارہ پڑھتے تھے۔ کسی کے بیٹھنے کے لئے کوئی ایک جگہ مخصوص نہیں تھی۔ مگر اس کی ہمیشہ یہی کوشش ہوتی کہ وہ میرے ساتھ بیٹھے۔۔۔ اور میں اسے دیکھتے ہی یوں ڈر جاتا جیسے وہ مجھے مار ڈالنے کے در پہ ہو۔۔۔

وہ مجھ سے کوئی دس سال بڑا ہو گا۔۔۔ کوئی سترہ سال کا ۔۔۔ اور میں شاید تب صرف سات سال کا۔۔۔ وہ مولوی صاحب کا پسندیدہ تھا اور عمر میں بھی بڑا تھا۔مولوی صاحب نے اسے سب کا مانیٹر بنایا ہوا تھا۔ اس کی سب بچوں پر چلتی تھی اور سب اس کی بات مانتے تھے۔ مولوی صاحب نے اسے بھی ایک موٹا ڈنڈا دے رکھا تھا۔ اگر کوئی اس سے بد تمیزی کرتا تو وہ اسے دو ڈنڈے لگادیتا۔۔۔جب بھی مولوی صاحب اسے کوئی کام دیتے اور اسے اپنے ساتھ دوسرے بچوں کی مدد بھی چائیے ہوتی تو وہ مجھے ضرور اپنے ساتھ لے جاتا۔۔۔

میں دھڑکتے دل سے اس کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ میں بہت سہما ہوا تھا۔ نا جانے اُس کے دماغ میں کیا چل رہا تھا۔

مجھے تو گھر واپس جانا تھا۔۔۔ مگر مجھے لگ رہا تھا جیسے ذہنی طور پر میں اس کی قید میں ہوں۔۔۔ میری آواز نہیں نکل رہی تھی۔ ڈر لگ رہا تھا کہ اگر میں نے اس کی مرضی کے خلاف کوئی بات کی تو وہ مارے گا۔۔۔ اور کل مولوی صاحب کو بھی کوئی جھوٹی موٹی شکایت لگا کر مجھے پٹوائے گا۔۔۔

اندر ہی اندر میرا دل رو رہا تھا۔ ایک سات سالہ بھولا سا بچہ اور کرے گا بھی کیا۔۔۔ پہلے بھی کئی بار وہ میرے ساتھ بدتمیزیاں کر چکا تھا۔۔۔ عجیب عجیب گندی حرکتیں۔۔۔ کبھی اوپر مسجد کی چھت پر مجھے کسی بہانے لے جا کر مجھے اپنی گود میں بٹھا کر اچھلنے لگتا۔۔۔
کبھی مجھے اٹھا کر مجھے اپنے آپ سے ملنے لگتا۔۔۔
کبھی مجھے گھناؤنے گندے طریقے سے چومنے لگتا ۔۔۔ چاٹنے لگتا۔۔۔
۔۔۔اور آج نا جانے وہ کیا کرے گا !!!

مجھے تو مسجد جانے سے ہی خوف آنے لگا تھا۔ مگر گھر میں کسی سے کچھ کہتے ہوئے اور بھی خوف آتا۔۔۔ کہ میں کیا کہوں امی کو۔۔۔ کیا بتاؤ۔۔۔ کہ ایک لڑکا مجھے چومتا ہے مجھے اپنی گود میں بٹھاتاہے!!! ایسا تو بہت سے لوگ بچوں کے ساتھ کرتے ہی ہیں۔۔۔
مگر میں امی ابو کو یہ کیسے بتاتا کہ وہ مجھے کس طرح چومتا ہے ،گود میں بٹھا کر کیا کرتا ہے۔۔۔
مجھے شرم آتی کے باقی بہن بھائی ہنسیں گے۔۔۔ اور ڈر بھی لگتا کہ امی ابو کہیں مجھے ہی نہ ماریں۔۔۔ جھجھک سی ہوتی۔۔۔ ہمت نہ پڑتی۔۔۔ اور روز میں اپنے اوپر یہ ستم سہتا۔۔۔
روز میں مسجد سے واپس گھر آ کر باتھ روم میں گھس کر یا بستر کی چادر لپیٹ کر خوب روتا۔۔۔ خوب آہیں بھرتا۔۔۔ بہت ڈر لگتا تھا مجھے۔۔۔ مجھے اس بات کا بھی ڈر لگتا کہ کہیں کوئی مجھے روتا ہوا نہ دیکھ لے۔۔۔ امی ابو بہن بھائی کسی کو کچھ خبر نہ تھی کہ میں اتنی اتنی دیر گھر کے کونے کھدڑوں میں چھپ چھپ کر کیا کرتا رہتا ہوں۔۔۔ وہ تو بس مجھے باقائدگی سے اسکول ، مسجد اور ٹیوشن بھیجتے اور خوش ہوتے کہ میں کتنا اچھا بچہ ہوں ۔۔۔ انہیں تنگ کئے بغیر پڑھنے چلا جاتا ہوں۔

اچانک اس نے میرے بازو پر اپنی گرفت کچھ ہلکی کی۔۔۔ میں نے بھی کچھ کھل کر سانس لی ۔ آگے ایک دوکان آ گئی تھی۔

’’کیا چیز چائیے؟؟؟‘‘ اس نے دوکان کے سامنے کھڑے ہو کر نرم لہجے میں مجھ سے پوچھا۔
’’مجھے۔۔۔ ‘‘ ۔میری آوازحلق میں ہی دب کر رہ گئی تھی۔
’’مجھے کچھ نہیں۔۔۔‘‘ میں نے منع کر دیا کہ میں کوئی ٹافی چاکلیٹ وغیرے نہیں کھاؤں گا۔
’’کچھ تو لے لو۔۔۔ ‘‘
’’یہ بسکٹ کھاؤ گے؟‘‘ اس نے ایک بسکٹ کا پیکٹ ہاتھ میں پکڑ کر پوچھا۔
’’نہیں۔۔۔‘‘ میں نے پھر نہ کر دی۔

’’یہ بسکٹ اور چار چوئنگ گم دے دو یار۔۔۔‘‘ اس نے دوکان والے سے یہ چیزیں خرید لیں اور پھر میرا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھا۔

’’ہم کہاں جا رہے ہیں؟؟؟‘‘ میں نے بہ مشکل آواز نکالی۔ ہم ریل گاڑی کی پٹریوں کے ساتھ ساتھ ویرانے کی طرف بڑھ رہے تھے۔ جہاں کوئی آبادی نہیں ہوتی۔
وہ بالکل چپ رہا۔ جیسے بتانا ہی نہ چاہتا ہو کہ مجھے کہاں لے کر جا رہا ہے۔

’’یہ لو‘‘ ۔اس نے مجھے ایک چوئنگ گم نکال کر دی۔ جو میں نے اپنے دائیں ہاتھ سے لے لی۔
’’ چھوڑو۔۔۔ میں چوئنگ گم کھا لوں!‘‘ میں نے سہمی ہوئی آواز میں کہا۔ چوئنگ گم کا ریپر کھولنے کے لئے اس کا میرا ہاتھ چھوڑنا ضروری تھا۔ میں نے اپنا بائیاں ہاتھ جھڑانے کی کوشش کی۔ مگر اس نے اسے اور مضبوطی سے پکڑ لیا کہ کہیں میں فوراََ ہاتھ جھڑا کر بھاگ نہ جاؤں۔

’’چھوڑو میرا ہاتھ۔۔۔‘‘ میں نے التجا کی۔ میں رونے ہی والا تھا کہ اس نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا۔پَر میری آنکھوں میں آنسو آ ہی گئے جنہیں میں نے اپنی آنکھوں میں ہی جذب کر لیا۔ میرے کمزور سے بازو پر اس کی پکڑ کا لال نشان پڑا ہوا تھا۔ مجھے عجیب گھٹن کا احساس ہونے لگا۔۔۔ بے چارگی کا۔۔۔ جیسے کوئی راہ نہ پاتا ہوں۔۔۔ وہ میرے سامنے ہی کھڑا ہو گیا کہ میں چوئنگ گم کھا لوں اور پھر وہ میرا ہاتھ کَس کے پکڑ لے۔۔۔

میں بھاگنا چاہتا تھا مگر ہمت نہیں پڑتی تھی۔۔۔ وہ سامنے ہی کھڑا تھا ،فوراََ مجھے دبوچ لیتا جیسے کوئی بلی کبوتر کو دبوچ لیتی ہے۔۔۔ میں نے آہستہ آہستہ چوئنگ گم کھولی اور اسے منہ میں رکھ لیا۔ وہ میرا ہاتھ پھر پکڑنے ہی والا تھا کہ میں کچھ سوچے سمجھے بغیر بھاگ کھڑا ہوا۔ وہ بھی پیچھے بھاگا۔۔۔ جیسے کوئی بھیڑیا کسی بھیڑ کے پیچھے بھاگتا ہے۔۔۔

مگر میں تو ایک چھوٹا بچہ تھانا!!!کیسے اس سے تیز بھاگتا!!!
تھوڑی ہی دیر میں میں پھر اس کے شکنجے میں آ گیا اور ہار مان لی۔

آخر کار وہ مجھے دور ویرانے میں جھاڑیوں کے اندر لے گیا ۔ میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا ۔ اس کا قد مجھ سے بہت بڑا تھا ۔میں نے معصوم نظروں سے سر اٹھا کے اس کو دیکھا کہ رحم کرو!!! جانے دو!!! موٹے موٹے دو آنسو میری آنکھوں سے نکل کر گالوں سے پھسلتے ہوئے گردن تک چلے گئے۔۔۔مگر وہ تو حیوان بن چکا تھا ۔ اس پر کیا اثر ہوتا۔ میں کسی بے جان جسم کی طرح ساکت ہو گیا۔اس نے ایک ایک کر کے مجھے اور خود کو بے لباس کرنا شروع کر دیا۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔

دلاور سیما کے ساتھ لاس ویگاس پہنچ چکا تھا۔ اس نے نہ اپنے ماضی سے کچھ سبق سیکھا نہ ہی اسے اپنے مستقبل کی کوئی فکر تھی۔ اگر ماضی میں دل لگا کر بھائیوں کے ساتھ کاروبار میں ہاتھ بٹاتا تو بٹوارے کے وقت دو کوڑیاں ہاتھ نہ آتیں بلکہ باقی بھائیوں کی طرح اچھے خاصے کاروبار میں حصے دار ہوتا اور اگر اب بھی اپنے سرمائے کو اچھی طرح سوچ بچار کر کے منصوبہ بندی کے ساتھ استعمال کرتا تو کیا بعید تھی کہ کچھ بن جاتا۔ مگر اس کی تو عادت ہی بگڑ گئی تھی۔ وہ تو بھی بس یہی سوچتا تھا کہ آج جی لو۔۔۔ کل کی کل دیکھی جائے گی۔

دوسری طرف مجدی بھی دن بدن دلاور کے رنگ میں رنگا جا رہا تھا۔ پیسے کی لذت کیا ہوتی ہے اسے اب پتا چلا۔ وہ روز میرے اسٹور بھی جاتا اور اپنی پارٹ ٹائم جاب بھی کرتا۔ پارٹ ٹائم جاب۔۔۔ جہاں سے اسے خو ب سارا پیسہ ملا کرتا تھا۔ اس نے بنک میں بات کر کے گاڑی بک کرا لی تھی ۔ کچھ ہی دنوں میں اس کے پاس ایک اپنی کار ہونی تھی۔ اس کے گھر والے بے حد خوش تھے۔ وہ بھی بہت خوش تھا۔

ایک دن مجدی کی والدہ نے ایک بار پھر اس سے انکل جان کی بیٹی کے بارے میں پوچھا۔
’’بیٹا! میں انکل جان سے پھر شادی کی بات کروں؟؟؟‘‘ اس کی والدہ اطمینان سے بولیں۔
’’کیا!!!‘‘ مجدی کا پارہ ایک دم چڑھ گیا۔
’’اس خبیث سے پھر بات کریں گی؟؟؟‘‘ اس نے جھڑک کر اپنی امی کو جواب دیا۔ انکل جان اس کے ماموں لگتے تھے۔اپنے بھائی کے لئے ایسی گالی سن کرمجدی کی والدہ دم بخود رہ گئیں۔
’’جوتے کی نوک پر رکھتا ہوں ان کمینوں کو میں۔۔۔‘‘ مجدی نے کب سے اپنے اندر اپنا غصہ دبا رکھا تھا۔ اس دن وہ پھٹ پڑا۔
’’لعنت ہو ان سب پر۔۔۔ ہمیں کیا ضرورت ہے ان گھٹیا لوگوں سے رشتہ کرنے کی۔۔۔ بھاڑ میں جائیں۔۔۔ اب میرے پاس بھی وہ سب کچھ ہے جس پر وہ اترایا کرتے تھے۔‘‘
’’بہت کمتر سمجھتے تھے نا ہمیںٖٖٖ!!! کتے کے بچے۔۔۔!!! ‘‘
’’آپ نے بھی کیسے یہ بات کر دی مجھ سے۔۔۔ شرم نہیں آتی آپ کو۔۔۔ کیا پھر ذلیل ہونے کا شوق چڑھا ہے؟؟؟‘‘ اپنے سیدھے سادے بچے کے منہ سے ایسی ترش باتیں سن کر ان پر سکتہ طاری ہو گیا۔
’’جائیں یہاں سے۔۔۔ اور پھر یہ بات مجھ سے نہ کرنا۔۔۔ ‘‘ اس نے نہایت بد تمیری کا مظاہرہ کیا۔ مجدی کی والدہ کو یوں لگا جیسے ان پر کسی نے تیزاب جھڑک دیا ہو۔ وہ پیچھے کو ہٹ کر کھڑی ہو گئیں اور ڈر ڈر کر اپنے بیٹے کو دیکھنے لگیں۔

۔۔۔۔۔۔۔

اس دن ’’روشن‘‘ میں ’’اسٹوری ٹیلنگ سیشن‘‘ تھا۔ یعنی دو دو لوگوں کے گروپ بنا لئے جاتے تھے اور ہر ایک دوسرے کو اپنی زندگی کی کہانی سناتا تھا۔ دکھ درد باٹنے سے دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جب انسان دوسروں کے غم و الم کی روداد سنتا ہے تو اسے اپنا غم چھوٹا نظر آنے لگتا ہے۔وہ اس بات پر بھی شکر ادا کرتا ہے کہ اس کے ساتھ وہ سب نہیں ہوا جو کسی دوسرے کے ساتھ ہوا۔ یا پھر وہ یہ جان کر بھی کچھ صبر کر لیتا ہے کہ سب کا اپنا اپنا غم ہے ۔ کوئی بھی ذی نفس تکلیف سے عاری نہیں۔ کسی نا کسی طرح کی آزمائش ہر ایک کے لئے لکھی ہے لہذا اس آزمائش میں پورا اترنا ہے نہ کہ ہمت ہار جانی ہے یا اللہ کی رحمت سے مایوس ہو جانا ہے۔

ویسے بھی کچھ مشکلات کے پیچھے تو اللہ کی رحمت چھپی ہوتی ہے۔ تاکہ انسان اللہ کی طرف لوٹ کر آئے ، اپنے آپ کو درست کر لے اور یہی مشکل آزمائش کہلاتی ہے۔ دوسری طرف جس مصیبت کے آنے سے بندہ ناشکرا ہو جائے اور اللہ سے اور دور ہو جائے ، شکوے شکایتیں کرنے لگے ،وہ مصیبت در اصل عذابِ الہی ہے۔ آزمائش نہیں۔ یہی فرق ہے۔

مجھے بھی ایک خاتون کے دو بدو بٹھا دیا گیا۔ پورے ہال میں کوئی نو دس افراد اس طرح جوڑے جوڑے بن کر ایک دوسرے سے اپنا دکھ درد بانٹنے بیٹھے تھے۔
’’ام م م۔۔۔‘‘
’’پہلے ایک دوسرے کو اپنا تعارف کروائیں۔‘‘ میرے سامنے بیٹھی محترمہ نے ابھی کچھ کہنا ہی چاہے تھا کہ ڈاکٹر ذیشان نے اعلان کر کے کہا۔
’’ا م م م۔۔۔‘‘ وہ جھجھک رہی تھیں۔
’’میرا نام آصفہ ہے۔ آآآ۔۔۔ بارہ سال پہلے میری شادی ہوئی تھی۔ ا م م م۔۔۔ میرے۔۔۔ میرے تین بچے ہیں۔‘‘
’’ا م م م۔۔۔ جب میں کمبائن فیملی میں رہتی تھی تو۔۔۔ میرے شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی ساس سے اَن بَن شروع ہوگئی۔‘‘ وہ ابھی بھی ہچکچا رہی تھیں۔ مگر ہم سب ہی اپنی اپنی کہانی ایک بار ڈاکٹر ذیشان کو پہلے ہی سنا چکے تھے۔
’’۔۔۔بس میرے ساس سے جھگڑے رہتے تھے۔ ہم کمبائن فیملی میں رہتے تھے۔ میرا ایک بڑا جیٹھ بھی ساتھ رہتا تھا۔ مگر وہ لوگ اوپری منزل میں رہتے تھے۔ کیونکہ ان کی فیملی بڑی ہو چکی تھی۔ ہم دونوں میاں بیوی گرا ؤنڈ فلور پر رہتے تھے۔ ہمارے ساتھ میرا ایک چھوٹا دیور اور ساس سسر رہتے تھے۔ ساس پہلے میری جیٹھانی کے پیچھے پڑی رہتی تھیں اور میرے آنے کے بعد انہیں مجھ سے چِڑ ہو گئی۔‘‘

’’وہ مجھے تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتیں اور میں بھی بدلے میں انہیں کسی نہ کسی طرح پریشان کر کے اپنا کلیجہ ٹھنڈا کرتی۔میرے شوہر کھانے کے معاملے میں بہت سینسیٹو تھے۔ تھوڑا بہت بھی ذائقہ آگے پیچھے ہو جاتا تو بہت برا مناتے۔ اسی طرح میرے سسر اپنے کپڑوں وغیرہ کا بہت اہتمام کرتے تھے۔ ہلکی سی سلوٹ بھی رہ جاتی تو آسمان سر پہ اٹھا لیتے۔ بس ہم دونوں عورتیں انہی کمزوریوں کو استعمال کر کے ایک دوسرے کو ستاتی رہتیں۔‘‘ اب آصفہ روانی سے اپنی کہانی سنانے لگی تھی۔

’’ایک بار میں نے بہت اچھا کھانا پکایا کیونکہ اس دن میرے شوہر کو آفس والوں کی طرف سے بونس ملا تھا۔ وہ بھی آفس سے واپس آتے ہوئے مٹھائی کا ڈبہ ساتھ لائے۔ ہم سب نے مل کر کھانا کھانے کا پروگرام بنایا اور اوپر سے جپٹھ کی فیملی کو بھی بلا لیا۔ سب کچھ بہن اچھا بنا تھا اور میں نے آخری لمحے تک سب خود چکھا تھا۔ مگر جانے کب میری ساس کو موقع مل گیا اور انہوں نے دستر خوان پر لگے قورمے میں نمک ملا دیا۔ جیسے ہی میرے شوہر نے پہلا لقمہ منہ میں ڈالا ان کے چہرے کا رنگ لال ہو گیا۔ میں ان کے بدلتی رنگت کو دیکھ کر سہم سی گئی کہ جانے کیا ہو گیا ہے۔ مگر پھر بس۔۔۔ ‘‘ آصفہ کہتے کہتے رْک گئی ۔ میں نے اس کی آنکھوں میں نمی محسوس کر لی تھی۔

’’بس انہوں نے وہیں سب کے سامنے مجھے بہن بے عزت کیا۔ بہن بری بری سنائیں۔۔۔ میں ۔۔۔ میں۔۔۔ یہ سب برداشت نہ کر سکی اور سیدھا سیدھا سارا الزام اپنی ساس پر لگا دیا۔ وہ بھی وہیں مجھ سے لڑنے کھڑی ہو گئیں۔بہر حال بہت نماشہ بنا اور ۔۔۔ اور ساری رونق مٹی میں مل گئی۔‘‘

’’پھر ایک دن جب مجھے موقع ملا تو میں نے چوری چھپے اپنے سسر کے کمرے میں گھس کر ان کی الماری میں لٹکے ایک بہترین سوٹ کے کالر پر کیک کا داغ لگا دیا۔ وہ سوٹ استری کئے لٹکا تھا۔ میں اسی انتظار میں تھی کہ کب کسی بڑی دعوت میں جانا ہو گا اور سسر جی اس سوٹ کو نکالیں گے۔ ‘‘

’’پھر ایک دن وہ موقع بھی آ گیا۔ میرے سسر نے جیسے ہی عین وقت پر سوٹ پر وہ داغ لگا دیکھا تو میری ساس سے خوب لڑے اور انہیں بھی سب کے سامنے بے عزت کیا۔ اس طرح مجھے سکون مل گیا۔ ‘‘
’’ہم اسی طرح مختلف حربوں سے ایک دوسرے کو تنگ کرتے نہ تھکتے۔ کبھی میں سسر کی کوئی کام کی چیز غائب کر دیتی تو کبھی وہ میرے شوہر کے دئیے ہوئے کسی تحفے کو بگاڑ دیتیں۔‘‘
’’میں تو شروع سے ہی اپنے میاں کو کہنے لگی تھی کہ الگ رہتے ہیں۔ یہا بہت فتنے فساد ہیں۔ مگر وہ میری نہ مانتے اور صاف صاف کہہ دینے کہ یہ ساس بہو کے جھگڑے تو ہر گھر میں ہوتے ہی ہیں۔ ان کی لگی بندھی تنخواہ میں وہ الگ گھر کے اخراجات نہیں اٹھا سکتے۔ وہ سہی بھی کہہ رہے تھے ۔ ہم عورتوں کی سوچ تو بہت محدود سی ہوتی ہے کہ بس ساس سے جان چھْٹ جائے۔ جب کہ گھر کے مرد کو تو بہت کچھ سوچنا پڑتا ہے۔ان کی لمبی چوڑی پلاننگ ہوتی ہے۔‘‘
’’پھر ایک ایسا وقت آیا کہ میں اس کے علاوہ اور کچھ سوچتی ہی نہیں کہ ساس سے کیسے چھٹکارا پایا جائے۔ میں جانے کیا کیا منصوبہ بندی کرتی رہتی مگر میری ساس بھی چلتر چالاک تھی۔ وہ میری کسی چال کو کامیاب نہ ہونے دیتیں۔آخرکار ایک دن شیطان نے مجھے ایک گھناؤنی پٹی پڑھا دی۔‘‘

’’ میں نے کچھ دن کے لئے بہانہ کرنا شروع کر دیا کہ میرا موبائیل صحیح نہیں چل رہا۔ میں کبھی کسی سے موبائیل لیتی کبھی کسی سے۔۔۔ مگر میرا اصل ہدف میرا دیور تھا۔ جو بہت اچھا، نیک اور شریف انسان تھا۔ نماز روزے کا پورا خیال رکھتا تھا اور سب بھائیوں میں معصوم مشہور تھا۔ جب اس کے سامنے بہانہ کرنے لگی کہ میرا موبائیل خراب ہے۔ مجھے کال کرنے کے لئے دے دو۔ وہ بلا جھجھک مجھے اپنا موبائیل دے دیتے۔ میں موبائیل لے کر اندر کمرے میں جاتی اور اس کے موبائیل سے اپنے آپ کو الٹے سیدھے عشق و معشوقی کی شاعری والے میسج لکھ کر بھیج دیتی۔ میسج بھیج کر میں ان کے موبائیل سے میسج ڈیلیٹ کر کے انہیں موبائیل واپس کر دیتی۔‘‘

’’ کوئی ایک ہفتہ میں یہی کرتی رہی تا کہ میرے پاس کافی سارے میسجز اس کے موبائیل نمبر سے جمع ہو جائیں۔‘‘
’’پھر ایک دن میں نے اپنی کاروائی کرنے کی ٹھان لی۔ میں نے بہت احتیاط سے اپنے شوہر سے بات شروع کی اور ڈر ڈر کے انہیں بتایا کہ یہ جو میں الگ گھر میں رہنے کی بات کرتی تھی وہ ساس کی وجہ سے تھوڑی کرتی تھی۔ بلکہ یہ جس بھائی کو آپ لوگ اتنا شریف سمجھتے ہیں ۔وہ مجھ پر بری نظر رکھتا ہے۔ میرے منہ سے یہ کلمات سن کر میرے شوہر کا خون کھول اٹھا۔ وہ مجھ سے بحث کرنے لگے کہ میں جھوٹ بول رہی ہوں۔ مگر میں نے بہت پیار اور چالاکی سے بھولی بن کر ان سے بات کی اور ثبوت کے طور پر وہ میسجز اپنے شوہر کو دکھا دئیے۔ اسی طرح میں نے اسلامی اعتبار سے بھی انہیں کہنا شروع کر دیا کہ کوئی بھی غیر مرد کسی غیر عورت کو اپنی بہن کی طرح نہیں سمجھتا ورنہ اللہ دیور جیٹھ سے پردے کا حکم ہی کیوں دیتا۔‘‘

’’بہر حال میرے شوہر کی غیرت کا سوال تھا۔ انہوں نے آہستہ آہستہ اپنا ذہن گھر الگ کرنے کے بارے میں بنانا شروع کر دیا۔ میں نے خود ہی انہیں سکھانا شروع کر دیا کہ گھر میں کسی سے اس بات کا ذکر نہ کرنے میں ہی عافیت ہے ۔ ورنہ سب دیور کے ساتھ ہو جائیں گے اور ہمیں ہی شرمندگی اٹھانی پڑے گی۔ لہذا انہوں نے خاموشی اختیار کر لی۔ مگر اپنے بھائی سے نفرت کرنے لگے۔‘‘

’’ایک ماہ کے اندر اندر انہوں نے الگ گھر کرائے پہ لے لیا اور ہم سب خوشی خوشی وہاں شفٹ ہو گئے۔ مگر یہ خوشیاں بس چند روز کی ہی تھیں۔ الگ گھر میں شفٹ ہوتے ہی اچانک مجھے جوڑوں کے درد کی بیماری لگ گئی۔ جب ڈاکٹر کے پاس گئے تو پتا چلا کہ اس بیماری کا علاج بہت مہنگا ہے اور دوائیاں ہمیشہ کھاتی رہنی ہیں۔ گھر کے کرایہ اور گیس بجلی کے بلوں سے معاشی تنگی میں تو ویسے ہی اضافہ ہو گیا تھا اب یہ بیماری بھی گلے لگ گئی۔ اجھ سے بھی اپنی بیماری کے باعث کام نہیں ہوتا تھا۔ اس لیے گھر کا انتظام بھی درہم برہم ہونا شروع ہو گیا۔ میرے شوہر گندہ مندہ گھر دیکھتے تو بہت چڑتے اور الٹے سیدھے طعنے دینے۔ مگر میں چپ کر کے سہہ لیتی کیونکہ ساس کے طعنوں اور شوہر کی باتوں میں بہت فرق ہوتا ہے۔‘‘

’’مگر مجھے کیا پتا تھا کہ یہ تو بس آغاز ہے۔‘‘ میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر آصفہ کی ساری کہانی سن رہا تھا۔
’’دو ماہ بعد ہی اچانک میرے شوہر کی کمپنی میں کوئی کرائسز آیا اور بہت سے لوگوں کو جاب سے فارغ کر دیا گیا۔ ان ہی بد قسمتوں میں ایک میرے میاں بھی تھے۔ اب تو گھر میں ہر دم ایک قیامت کا سا سما رہتا۔شوہر کا مزاج اور بگڑ گیا۔ انہوں نے بات بات پر مجھ سے جھگڑا فساد شروع کر دیا۔ہر وقت وہ مایوس مایوس سے اور چِڑے چِڑے رہنے لگے۔ ایک ماہ میں یہ سب سہتی رہی جب تک کہ انہیں ایک دوسری نوکری مل گئی۔ نوکری ملی تو سہی مگر تنخواہ پہلی جاب سے بھی کم تھی۔ میرے شوہر کی تو اب عادت ہو گئی تھی بات بات پر مجھ سے الجھنے کی۔ سارا لحاظ جو ختم ہو گیا تھا۔ پھر حالات اتنے بگڑے کے مجھے اپنا زیور بیچنا پڑ گیا۔ بات قرضوں تک پہنچ گئی۔‘‘

’’جو کچھ چال بازی کر کے میں الگ گھر میں آئی تھی میں وہ سب کب سے بھول چکی تھی۔ میں تو یہی سمجھتی تھی کہ بہت سے لوگوں کی طرح ہمارے حالات نے بھی پلٹا کھا لیا ہے اور کچھ عرصے بعد پھر سب ٹھیک ہو جائے گا۔ میں دعائیں مانگتی رہتی کہ اللہ حالات پھر سے پہلے جیسے کر دے۔ ہم پھر خوشحال ہو جائے۔ سب ٹھیک ہو جائے۔ یہاں تک کہ کو ایک دن میں نے ایک بزرگ کو اپنے اچانک بدلتے حالات سے آگاہ کیا۔ انہوں نے دوسرے ہی روز مجھے بتایا کہ مجھ سے کوئی ایسا گناہ ہو ا ہے جس کی وجہ سے میں اللہ کی پکڑ میں ہوں۔ یہ بات سن کر تو میرے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ جو تہمت میں نے اپنے دیور پر لگائی تھی۔۔۔ میں تو کب سے اسی بھول چکی تھی۔ مجھ پر افسوس کہ میں نے اپنے گناہ کو گناہ ہی نہ سمجھا۔ دو بھائیوں میں فساد ڈلوا دیا، ایک نیک اور شریف انسان پر تہمت لگا دی اور سمجھا کہ میری زندگی میں بہار آ جائے گی۔‘‘ آصفہ اچانک پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ وہ میرے سامنے بیٹھی اپنے گناہوں کا اقرار کر رہی تھی۔ میری آنکھیں بھی نم ہو گئیں۔

’’یہ سب جان کر میں بے حد پریشان ہو گئی۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں اور کیا نہ کروں ۔۔۔ کس طرح اپنے گناہوں کی معافی مانگوں کس طرح اپنے شوہر اور اس کے بھائی کی صلح کرواؤں۔میرا شوہر جو مجھ سے پہلے ہی چِڑا رہتا ہے ۔ یہ سب جاننے کے بعد تو وہ مجھے مار ہی ڈالے گا۔ اور میرے سسرالی وہ میرا کیا حشر کریں گے یہ تصور کر کے میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے۔‘‘

’’میں اندر ہی اندر گھٹنے لگی۔ ڈپریشن کا شکار ہونے لگی۔ جسمانی بیماری تو ویسے ہی مجھے لگی ہوئی تھے اب میں نفسیاتی بھی ہونے لگی۔ شوہر سے ڈرے ڈرے رہنا اور بچوں کو دن بھر پٹختے رہنا۔ میرے بچے بھی مجھ سے خوفزدہ اور دور دور ہنے لگے تھے۔کئی روز تو میں آپ ہی آپ جلتی رہی ۔ مگر جب یہ کیفیت میری برداشت سے باہر ہو گئی تو میں نے صاف صاف اپنے شوہر کو سب کچھ بتانے کا فیصلہ کیا۔ ‘‘

’’مجھے اچھی طرح یاد ہے میں نے بہت اہتمام سے اس دن کڑی بنائی تھی۔‘‘ یہ کہہ کر آصفہ رونے لگی۔’’ انہیں کڑی بہت پسند ہے ۔۔۔‘‘
’’جیسے ہی وہ کھانا کھا کر فارغ ہوئے میں نے انہیں وہیں ٹیبل پر روک لیا۔ وہ ٹکٹکی باندھے مجھے دیکھنے لگ کہ کیا ہو گیا ہے۔ میرے منہ میں جیسے الفاظ پھنس گئے۔ میری آنکھیں بھیگ گئیں۔ میں نے رک رک کر بہت مشکل سے ان سے بات شروع کی اور پھر سہمے ہوئے لہجے میں بتا دیا کہ میں نے ان کے بھائی پر تہمت لگائی تھی تا کہ الگ گھر میں رہنے کا آسان جواز پیدا ہو سکے۔‘‘

’’میرے منہ سے ابھی بات نکلی ہی تھی کہ میرے شوہر نے وہی کڑی میں لتھڑا چمچہ اٹھایا اور میرے منہ پر کھینچ مارا۔ میرے تو اوسان خطا ہو گئے۔ یہ پہلی بار ہوا تھا کہ میرے میاں نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا۔ میں کیا کرتی ۔ کہاں جاتی۔ کیا شکوہ کرتی۔ شاید یہ سزا میرے گناہوں کی بہت کم تھی۔ میں چپ چاپ پٹتی رہی اور وہیں ڈھیر ہو گئی۔‘‘

’’شاید اللہ کا عذاب ابھی ٹلا نہیں تھا۔ میرے میاں نے میرے ساتھ سونا بھی چھوڑ دیا۔ مجھ سے شدید نفرت ہو گئی انہیں ۔ مجھ سے بات کرنا تو دور کی بات انہوں نے میری طرف دیکھنا بھی چھوڑ دیا۔ میں دن بہ دن باؤلی ہوتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ جسمانی ضرورتوں نے انہیں کسی اور عورت کی طرف مائل کر دیا۔ وہ بلا جھجھک میرے سامنے کسی لڑکی سے فون پر بات کر تے رہتے اور میں اندر ہی اندر سلگھتی رہتی۔ اب مجھے لگتا کہ سوتن کا چہرہ دیکھنے سے تو لاکھ بہتر تھا کہ میں ساس کا منہ ہی دیکھ لیتی۔ میری کیا مجال تھی کہ میں ان سے ان کی سر گرمیوں کہ بارے میں کچھ پوچھ گچھ کرتی۔ کس منہ سے ان سے بات کرتی! میں تو پوری طرح سے اپنے ہی کئے میں جکڑی ہوئی تھی۔ ‘‘

’’میں زندگی سے بیزار ہو گئی۔ زندگی سے بہتر موت لگنے لگی۔ یہاں تک کہ ایک دن میں نے خود کشی کر نے کا ارادہ کیا اور بہت ساری گولیاں جو فرج میں پڑی تھیں بنا دیکھے منہ میں ڈال لیں۔ دوسری صبح جب میرے میاں کو ناشتہ نہ ملا تو کمرے میں جھانکا ۔ میں الگ بچوں کے ساتھ ہی سویا کرتی تھی۔ اس دن میں نیچے پڑی تھی۔ میرا رنگ بالکل نیلا پڑ گیا تھا۔ میرے شوہر نے اتنا بھی گوارہ نہ کیا کہ مجھے چھو کر یہی معلوم کر لینے کہ میں زندہ ہو یا مر چکی ہوں۔ انہوں نے سیدھا سیدھا میرے بھائی کو فون کر کے سب کچھ ان کے گوش گزار کر دیا۔ وہ مجھے اس گھر سے لے گئے اور دو دن بعد ہی مجھے یہاں داخل کرا دیا۔‘‘

آصفہ کی یہ کہائی سن کر تومیں حواس باختہ ہو گیا۔ واقعی اپنا غم کچھ کچھ کم نظر آنے لگا۔ اس کا آنسوؤں سے بھرا چہرہ مجھ سے دیکھا نہیں جا رہا تھا ۔ خود با خود ہی میرے دل میں اس کے لئے ہمدردی آ گئی۔ میں اپنا دکھ بھول گیا اور اس کے آنسو پونچنے والا بن گیا۔
’’فکر نہ کریں۔ اللہ سب ٹھیک کر دے گا۔‘‘ میں نے سرسری سا جملہ کہا۔ ’’اب ہم یہاں آ گئے ہیں ہم نئے سرے سے اپنی زندگی شروع کریں گے۔‘‘ جانے یہ میں اسے کہہ رہا تھا یا خود سے۔

اس ’’اسٹوری ٹیلنگ‘‘ سیشن کا مجھ پر بہت مثبت اثر پڑا۔
-------
 

Kishwer Baqar
About the Author: Kishwer Baqar Read More Articles by Kishwer Baqar: 70 Articles with 78375 views I am a Control Systems Engineer, working in Saudi Arabia.

Apart from work, I am interested in religion, society, history and politics.

I am an
.. View More