تبدیلی آ گئی ہے

 لاہور کا قدیم باسی ہونے کے سبب یہاں کے تمام گلی کوچوں سے واقف بھی ہوں اور تمام دن کسی نا کسی سبب کہیں نہ کہیں جانا پڑتا ہے۔ بیس تیس سال پرانے ماحول کا آج کے حالات سے تقابل کرتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ ہر چیز بدل گئی ہے۔اخلاقی، سماجی، سیاسی ، خاندانی سب قدریں تبدیل ہو گئی ہیں۔سمجھ نہیں آتا یہ کیسی تبدیلی آ گئی۔ نہ خاندانی وقار، نہ بزرگوں کی شرافت کا بھرم۔ نہ کسی چیز کا خوف نہ شرم۔ بس حرص ، ہوس، کسی بھی قیمت پر سب کچھ حاصل کر لینے کا عزم۔پتہ نہیں اس نئی نسل کو کیا ہو گیا ہے۔ یقیناً تبدیلی ہے مگر میرے جیسے لوگوں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ کیسی تبدیلی آ گئی ہے۔ ْ]ْـ

گاڑی چلاتے ہوئے کسی بھی چوک میں رکو، ْفقیروں کا ایک جم غفیر گاڑی کے ارد گرد ہوتا ہے۔ کچھ سیدھی طرح ہاتھ پھیلا دیتے ہیں۔ کچھ گاڑی کو کپڑے سے صاف کرتے ، کچھ گاڑی کی سکرین صاف کرتے اور کچھ کوئی چیز بیچنے کا بہانہ کئے ،آپ سے مدد کے طلب گار ہوتے ہیں ۔ بہت سے خواجہ سرا بھی ہر چوک میں موجود ہوتے ہیں جو اپنی الٹی سیدھی اداؤں سے مخصوص باذوق افراد کا دل موہ کر ان کی جیب خالی کرنے کے موڈ میں ہوتے ہیں۔ اور کراتے بھی ہیں۔ بھکاری عورتوں کا ایک گروہ بھی ہوتا ہے جس نے ہاتھ میں پوسٹر اور کارڈ پکڑے ہوتے ہیں جن پر ان کی مجبوریاں بیان کرنے کے بعد امداد کی اپیل ہوتی ہے۔

چند دن پہلے عجیب واقعہ ہوا۔ میں یونیورسٹی سے فارغ ہو کر گھر جا رہا تھا۔ ایک چوک میں گاڑی رکی تو ایک خاتون گاڑی کے شیشے کے ساتھ آ کھڑی ہوئی۔اتفاق سے ایک دس کا نوٹ گیئر باکس کے ساتھ پڑا تھا۔ بھکاری جانتے ہوئے میں نے مڑے بغیر وہ دس کا نوٹ اس کی طرف بڑھا دیا۔ دس کا نوٹ میرے ہاتھ سے تیزی کے ساتھ اچکنے کے بعد اس نے کہا۔ معاف کیجئے آپ نے مجھے بھکارن سمجھا ہے۔میں بھکارن نہیں۔ مہربانی کرکے میری بات سن لیں۔بھکارن نہ ہونے کے باوجود بڑی تیزی سے نوٹ اچکنے والی خاتون کی طرف میں نے مسکراتے ہوئے مڑ کر دیکھا۔نوجون عورت لگتی تھی۔ فقط آنکھیں کھلی تھیں باقی چہرہ اس نے نقاب میں چھپایا ہوا تھا ۔ مجھے متوجہ دیکھ کر اس نے نقاب تھوڑا سا ڈھیلا کیا جو چند لمحوں میں گر گیا۔ شاید وہ چہرہ دکھانا چاہتی تھی۔ بات کرتے ہوئے اس نے پھر کپڑے سے چہرہ چھپا لیا۔ میرے اندازے کے مطابق اس کی تیس پنتیس سال کی عمر ہو گی۔لہجے سے پڑھی لکھی معلوم ہوتی تھی۔ شکل وصورت بھی اچھی تھی۔ یقیناً کسی اچھے گھر سے تعلق ہو گا۔کہنے لگی ، میں بھکارن نہیں ۔ میرے سسر اور میرے والد دونوں نامور لوگ ہیں۔ مگر کچھ مجبوری آ گئی ہے۔ آپ معقول آدمی نظر آئے تو آپ سے بات کر رہی ہوں۔ مجھے اپنا دوست سمجھ کر اس سال زکوۃ کے تمام پیسے آپ نے مجھے دینے ہیں۔ میں آپ کو اپنا فون نمبر دے رہی ہوں جس دن آپ رابطہ کریں گے میں آپ کے پاس پہنچ جاؤں گی۔ یہ کہتے ہوئے اس نے ایک کاغذ جس پر اس کا نام اور فون نمبر لکھا تھا مجھے تھما دیا۔ میں نے ہنس کر کہا ، میں ایک ریٹائرڈ بوڑھا آدمی ہوں۔ اس عمر میں عورتوں سے دوستی حماقت کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔ دوسرا زکوۃ اور صدقات کا شعبہ گھر میں میری بیگم کے پاس ہے۔ معافی چاہتا ہوں، تمھاری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ بولی، پلیز ایسے مت کہیں ، وعدہ کریں کہ آپ رابطہ کریں گے۔ دیکھیں اشارہ کھلنے والا ہے۔آپ وعدہ کئے بغیر چلے گئے تو مجھے مایوسی ہو گی۔اشارے کو بہر حال کھلنا تھا، کھل گیا اورمیں نے سنی ان سنی کرکے گاڑی آگے بڑھا لی۔

میرے ہمسائے شیخ صاحب بیرون ملک کاروبارکرتے ہیں ہر تین چار مہینے بعد پندرہ دن کے لئے پاکستان واپس آتے ہیں۔ اس دفعہ وہ تشریف لائے تو میں ان سے ملنے گیا۔گھر کے کام کاج کے لئے انہوں نے ایک میاں بیوی رکھے ہوئے تھے۔ پتہ چلا کہ بیوی ایک فیکٹری میں کام کرتی ہے اور میاں مزدوری۔ ان میں سے ایک ہمیشہ گھر میں رہتا ہے۔جن دنوں بیوی فیکٹری میں کام کر ر ہی ہو میاں گھر رہتا ہے اور اگر فیکٹری میں کام نہ ہونے کے سبب بیوی گھر پر ہو تو میاں مزدوری کر لیتا ہے۔ کہنے لگے بہت بھلے لوگ ہیں۔ ہماری پاکستان سے عدم موجودگی میں گھر کا پورا خیال رکھتے ہیں اور پاکستان آئیں تو سب کام چھوڑ کر ہماری خدمت۔ مجھ سے غلطی ہوئی کہہ دیا کہ شیخ صاحب اس طرح کے بھلے میاں بیوی یا کم از کم ایک عورت ہی مل جائے تو میری طرف بھیج دیں میری بیگم بھی ملازمہ کی تلاش میں ہے۔شیخ صاحب نے ان میاں بیوی کو بلا کر میرا پیغام اسی طرح انہیں دے دیا اور ہدایت کی کہ شکایت نہ آئے کوئی بہت اچھی فیملی یا عورت انہیں ڈھونڈھ کر دو۔ دو دن بعد شیخ صاحب تو چلے گئے۔ ایک دن میں گھر سے نکلا تو وہ عورت مجھے دیکھ کر تیزی سے میرے پاس آئی اور خوشخبری دی کہ آپ کا کام ہو گیا ہے۔ فیکٹری میں ایک بہت اچھی لڑکی کام کرتی ہے ۔ بلا کی خوبصورت بھی ہے۔ بیچاری بہت ضرورت مند ہے ۔ میں نے بات کر لی ہے بس آپ ملازم رکھ لیں ۔ میں نے کہا کہ جو فیکٹری کی تنخواہ سے مطمن نہیں وہ گھر میں نوکری کیسے کرے گی اور میری بیگم تو فیکٹری جتنے پیسے بھی کہاں دے پائے گی ۔اس نے دانت نکالتے ہوئے کہا، ضرورت مند ہے، کچھ آپ مدد کر دیا کریں۔ بس ایک دفعہ مل لیں، بڑی خوبصورت اور بڑی خدمت گزار ہے آپ اسے مل کر خوش ہو جائیں گے۔ میں نے اسے گھورتے ہوئے ذرہ تلخ لہجے میں کہا کہ میں نے آپ سے ملازمہ کا کہا تھا، رشتہ ڈھونڈھنے کا نہیں اور سر جھٹک کر اپنے کام کو چل دیا۔

نا اہل سیاسی قیادتیں اور کرپشن نے اس ملک کو مہنگائی اور بے روزگاری کی لعنت دی ہے ۔یہ لعنت غربت اور افلاس کو جنم دیتی ہے۔غربت اور افلاس انسان کو بھوک دیتی ہے اور بھوک عموماً انسان کواس قدر مجبور کر دیتی ہے کہ بھوک مٹانے کو لوگ گھروں کی چیزیں بیچنے لگتے ہیں اور جب گھر میں بکنے کو کچھ نہیں رہتا تو انسان بکنے لگتے ہیں۔یہ ہر کمزور معاشرے کا المیہ ہے مگر ہمارے ملک کی مکروہ سیاست اور سیاستدانوں کے نزدیک ایک کھیل، ایک بہت عام سی بات ہے۔ اس مکروہ سیاست اور روایتی سیاستدانوں کو انسانی مسائل سے کبھی کوئی سروکار نہیں ہوتا۔تلخ بات ہے مگر سچ ہے کہ ہمارے معاشرے میں یہ اخلاقی تنزلی آرہی نہیں بلکہ آ چکی ہے ۔ شاید یہی تبدیلی ہے اس کے علاوہ تو کچھ تبدیل ہوتا نظر نہیں آتا۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500556 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More