تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے لہذا روزے کی قبولیت کے
لئے اچھی نیت کا ہونا ضروری ہے ۔
اللہ کا فرمان ہے :قُل أَتُعَلِّمونَ اللَّهَ بِدينِكُم وَاللَّهُ يَعلَمُ
ما فِى السَّمٰوٰتِ وَما فِى الأَرضِ ۚ(الحجرات:16)
ترجمہ : ان سے کہو کیا تم اللہ کو اپنی دین داری جتلاتے ہو اور اللہ تو
آسمانوں اور زمین کی سب چیزوں سے واقف ہے۔
گویا نام لیکر اپنے عملوں کو بتلانے کی ضرورت نہیں، اللہ تعالی ہر چیز سے
باخبر ہے ۔ وہ تو
سینوں کے بھید کو بھی جانتا ہے ۔
اور نبی ﷺ کا فرمان ہے : إنما الأعمالُ بالنياتِ، وإنما لكلِّ امرئٍ ما نوى،
فمن كانت هجرتُه إلى دنيا يصيُبها، أو إلى امرأةٍ ينكحها، فهجرتُه إلى ما
هاجر إليه(صحيح البخاري:1)
ترجمہ : بے شک اعمال نیتوں کے ساتھ ہیں اور ہر آدمی کے لیے وہی ہے جس کی اس
نے نیت کی۔ جس نے دنیا پانے پانے یا کسی عورت سے شادی کرنے کی نیت سے ہجرت
کی تو اس کی ہجرت اسی کام کے لئے ہے جس کی طرف ہجرت کی ۔
٭نیت کا تعلق دل سے ہے لہذا الفاظ کے ذریعہ زبان سے بول کر نیت کرنا بدعت
ہےکیونکہ کسی نص سے اس کا ثبوت نہیں ملتا ہے اور بدعت کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے : كلَّ بدعةٍ ضلالةٌ وَكلَّ ضلالةٍ في النَّارِ(صحيح
النسائي:1577)
ترجمہ :ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ (جہنم) میں ہے۔
٭اعمال کی قبولیت کے لئےزبانی الفاظ کی نہیں بلکہ سچی نیت(اخلاص) اور نبی ﷺ
کی سنت کی پیروی کی ضرورت ہے ۔ جس کا ذکراللہ کے اس فرمان میں ہے :
فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا
يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا (الكهف:110)
ترجمہ : تو جسے بھی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو اسے چاہیے کہ نیک
اعمال کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے۔
٭ پورے رمضان کی اکٹھے نیت درست نہیں ہے بلکہ ہرروزے کی الگ الگ نیت کرے ۔
نیت کا وقت مغرب کے بعد سے فجر تک ہے ۔ اس دوران کسی بھی وقت روزے کی نیت
کرلے ۔رات میں نیت کرنے کی دلیل:
نبی ﷺ کا فرمان ہے : من لم يبيِّتِ الصِّيامَ منَ اللَّيلِ فلا صيامَ
لَه(صحيح النسائي: 2333)
ترجمہ: اس شخص کا روزہ نہیں جس نے رات ہی سے روزہ کی نیت نہ کی ہو۔
فجر سے پہلے پہلے روزہ کی نیت کرنے کی دلیل :
مَن لم يُجمعِ الصِّيامَ قبلَ الفجرِ فلا صيامَ لَهُ(صحيح أبي داود: 2454)
ترجمہ: جس نے فجر سے پہلے پہلے روزے کی نیت نہیں کی اس کا روزہ نہیں ۔
ان دونوں احادیث سے جہاں اس بات کا علم ہوتا ہے کہ ہرروزے کی نیت الگ الگ
ہونی چاہئے وہیں اس بات کا بھی عمل ہوتاہے کہ روزے کی
نیت کا وقت رات سے لیکر فجر تک ہے ۔
٭ لوگوں میں روزے کی نیت کے مختلف الفاظ معروف ہیں وہ الفاظ کچھ اس طرح سے
ہیں۔
(1) نویت أن أصوم غدا(میں کل کا روزے رکھنے کی نیت کرتاہوں)
(2) بِصَوْمٍ غَدٍ نَّوَیْتُ(کل کے روزے کی نیت کرتاہوں)
(3) وَبِصَوْمِ غَدٍ نَّوَيْتَ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ(اور میں رمضان مہینے
کے کل کے روزے کی نیت کرتا ہوں)
نیت کے یہ مختلف تینوںطریقےکسی حدیث سے ثابت نہیں ہیں بلکہ اس تعلق سے کوئی
ضعیف یا موضوع روایت بھی نہیں ملتی ،انہیں گھڑاگیاہے۔ نیت کے الفاظ خود ہی
بتلاتے ہیں کہ ہم خودساختہ ہیں ۔ ان الفاظ میں لفظ "غد" (جو کہ کل کے معنی
میں ہے ) کیسے صحیح ہوسکتا ہے جبکہ روزہ آج کا ہوتا ہے ۔
تنبیہ : بعض لوگ امت کو نیت کے نام پہ ایسے اعمال کا درس دیتے ہیں جو نہ
صرف باعث مشقت ہیں بلکہ تضییع اعمال کا سبب بھی ہیں۔ میں نے سنا ہے کہ کتنے
لوگ اس لئے نماز نہیں پڑھتے کہ انہیں نماز کی خودساختہ نیت نہیں آتی ۔امت
کو اس عمل کی حقیقت سے روشناس کرنا ہوگا اورخودساختہ کتاب "نیت نامہ " کا
وجود ختم کرنا ہوگا۔ |