عطائے اجربحساب صبر (گرمی کا روزہ روایات کی روشنی میں)

رمضان کریم کے مبارک لیل ونہار میں طاعات وعبادات الٰہی بنسبت اور ایام کے شرف ومنزلت کے اعلی مقام پر پہنچ جاتیں ہیں اور رمضان مبارک کی خاص عبادت روزہ کا ثواب خیر کثیراوراجر جزیل کی صورت میں من جانب اللہ عطا ہوتا ہے اوریہ افضل العبادات میں سے ہے خواہ نفل ہو یا فرض کیونکہ جو ایک دن بھی ایمان کے ساتھ ثواب کی امیدرکھتے ہوئے اللہ کے لئے روزہ رکھتا ہے اللہ تعالٰی اسے جھنم سے ستر(70) سال کی مسافت دور کردیتا ہے بخاری مسلم اور دیگر کتب حدیث میں ہے ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال:من صام یومافی سبیل اللہ باعد اللہ وجھہ عن النار سبعین خریفا۔وفی رواية: ما من عبد یصوم فی سبیل اللہ الاباعد اللہ بذلک الیوم وجھہ عن النار سبعین خریفاـ ظاہرحدیث کی دلالت اس بات پر ہےکہ کسی بھی دن بندہ مومن ایمان و احتساب کے ساتھ روزہ رکھے گا توثواب مذکور پا لے گا، بخاری ومسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہیکہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:كل عمل ابن ادم يضاعف الحسنة بعشر أمثالها الي، سبع مائة ضعف، قال الله تعالي:الا الصوم فانه لي وانا اجزي به يدع شهوته وطعامه من اجلي، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ابن ادم کے ہر عمل کا ثواب براہ کرم بڑھایا جاتا ہے ایک نیکی دگنا سے سات سو گنا تک سوائے روزہ کہ پروردگار عالم فرماتا ہے روزہ کا اجر وثواب بے اندازہ وبے حساب ہے کیونکہ وہ خاص میرے لیے ہے اور میں خود اس کی جزاعطا فرماوں گا، بندہ میرے لیے اپنی خواہشات و خوراک کو ترک کرتا ہے.تو جب اس کے روزہ میں مشقت و تکلیف دن کی طوالت اورگرمی کی شدّت کے سبب شامل ہو جائے گی تو اس کا ثواب بھی یقیناً بڑھ جائے گا۔کیونکہ حدیث پاک میں آيا ہے قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم لعائشتہ رضی اللہ عنھا:ان لک من الاجر قدر نصبک ونفقتک۔(رواہ البیہقی) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے فرمایا:تمھاری عمل میں مشقت وتکلیف اور خرچ وصرف کے مطابق تمھیں اس کا اجر ملتاہے۔

اس ماہ مبارک کی شان ورفعت سرور کائنات نے بذات خود منبر پر بیان فرمائی .اور اس مہینہ کو ماہ مبارک،ماہ عظیم،ماہ صبر،ماہ مواسات کا لقب عطا کیا،اور بتادیا کہ اس مہینے میں نفلی نیکی کے ذریعے قرب خداوندی کی طلب فرض کے برابر مقام رکھتی ہے جبکہ ایک فرض عبادت دیگر دنوں کے ستر فرضوں کے برابر ثواب کا مستحق بنا دیتی ہے یہ بڑاہی مہربان مہینہ ہے جب ہم اس کی ساعتوں کو پاتے ہیں تو یہ ہمیں برکات وحسنات سے مالا مال کردیتا ہے اس کی نعمتوں کا سرمایہ اتنا وسیع ہے کہ ہم ان سب کو حاصل کرنے سے بھی قاصررہ جاتے ہیں ،لیکن بڑے افسوس کا مقام ہے کہ آج کا مسلمان ان بے حد وبے پایاں برکات سے خود کو محروم رکھنے کے لیے طرح طرح کے حیلے تلاشتا ہے ا پنی تن آسانی کو نا چھوڑنے کےلیےبہانے بناتا ہے ،کیا ہمیں پتا نہیں یہ جسم وجان جس کے وقتی آرام کے یہ فرار کے راستے تلاشے جارہے ہیں طرح طرح کی جان لیوا بیماریوں کا شکار ہوکر لمحوں میں لقمہ اجل بن کر پیوند خاک ہو جاتا ہے،اس فانی جسم کی محبت میں حکم الٰہی کو پس پشت ڈالنا نہایت ہی بے وقوفی کی بات ہے،کیونکہ رمضان کے روزے فرض ہیں اور اس کا منکر کافر ہے ،اگر اسلامی حکومت ہو تو بغیر عذر شرعی کے روزہ ترک کرنے والوں کو قتل تک کی سزا دینے کا حکم ہے، اس کے بالمقابل ہمارے اسلاف روزہ جیسی عبادت کے کتنے شائق تھے ملاحظہ فرمائیں ،احنف بن قیس رضی اللہ عنہ نہایت کبیر السن بزرگ تھے اور بڑھاپے میں ضعف وکمزوری لازمی شئے ہے آپ سے عرض کیا گیا کہ عمر شریف بہت زیادہ ہے قویٰ کمزور ہوچکے ہیں روزہ سے آپ کو بہت زیادہ کمزری لاحق ہو جائے گی ،فرمایا:میں ایک طویل سفر(روز حشر سے جنت)کی تیاری کر رہا ہوں اور اللہ کی اطاعت پر صبر کرنا آسان ہے اس کے عذاب پر صبر کرنے سے،، یہ عمل کی چاہ کہ کمزوری بھی راہ میں حائل نا ہو پائے کیونکہ یہ حضرات روزہ کی قدر ومنزلت کو جانتے تھے بلکہ عام دنوں کی بنسبت وہ روزہ رکھنے کےلیے ایسی ساعتوں ایسے اوقات کے متلاشی رہتے تھے جن میں محنت ومشقت کا بار زیادہ اٹھانے پڑے تاکہ صبر کی مقدار میں اضافے سے اجر وثواب میں بھی اضافہ ہو
ہمارے پیش نظر ایشیائی ممالک میں "رمضان مبارک" گرمی کے اختتامی ایام میں آرہا ہے اور آنے والےسالوں میں مکمل گرمی کے اوقات میں یہ ہمیں میسّر ہوگا ،لہذا اس مناسبت سے ایسی روایتوں کا تذکرہ ہو جائے جن میں گرمی کے ایام میں روزہ رکھنے کی فضیلت اور اجر کا ذکر ہو تاکہ بندگان خدا کو اس سے نصیحت وحوصلہ ملے اور ان کے ارادوں میں پختگی ان روزوں کے تعلق سے آجائے ،(احادیث کی روشنی میں گرمی کی روزوں کی فضیلت) عبدالرزاق وابن ابی شیبہ وبیھقی و ابو نعیم نے مختلف الفاظ میں اس حدیث کو ذکر کیا ہے یہ الفاظ ابو نعیم کے ہیں جو انھوں( الحلية الاولیة) میں ذکر کیا عن ابی بردہ عن ابی موسی رضی اللہ عنہ قال: خرجنا غازین فی البحر فبینما نحن والریح لنا طیبة والشراع لنا مرفوع فسمعنا منادیا ینادی یا اہل السفينة قفوا اخبر کم حتی والی بین سبعة اصوات ، قال ابو موسی: فقمت علی صدر السفينة فقلت: من انت ؟ ومن این انت؟ او ما تری این نحن؟ وھل استطیع وقوفا؟ قال: فاجابنی الصوت: الا اخبرکم بقضاء قضاہ اللہ عزوجل علی نفسہ؟ قال: قلت: بلی اخبرنا قال: فان اللہ تعالی قضی علی نفسہ انہ من عطش نفسہ للہ عزوجل فی یوم حار کان حقا علی اللہ ان یرویہ یوم القیٰمة، قال: فکان ابو موسی یتوخی ذلک الیوم الحار الشدیدالحر الذی یکاد ینسلخ فیہ الانسان فیصومہ- حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم سمندری راستے سے غزوہ کے لیے نکلےدریں اثناءکہ ہوا ہمارے موافق تھی اس لیےہم نے بادبان اٹھائے ہوئے تھے کہ ہم نے ایک منادی کو ندا دیتے ہوئے سنا : اے کشتی والوں : ٹھہرو میں تمھیں خبر دیتا ہوں اسی طرح سات مرتبہ آواز آئی ابو موسی کہتے ہیں میں کشتی میں کھڑا ہوا اور کہا تم کون ہو؟ اور تم کہاں ہو؟ کیا نہیں دیکھتے کہ ہم کس حالت میں ہیں؟(یعنی کشتی میں ہیں اور سمندر رکنے کی جگہ نہیں)راوی کہتے ہیں تو اس آواز نے جواب دیا:کیا میں ایسے فیصلہ کے بارے میں نا بتاوں جو اللہ عزوجل نے اپنی ذات پر لازم کرلیا ہے؟ابو موسیٰ کہتے ہیں میں نےکہا :کیوں نہیں ہمیں بتاؤ،آواز نے کہا :بیشک اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پر لازم کرلیا ہیکہ جوشخص اپنی ذات پر اللہ کے لیے گرمی کے دن میں پیاس(روزہ رکھنا)برداشت کرے گا ۔ تو اللہ عزوجل پر حق ہیکہ قیامت کے دن اسے سیراب کرے راوی کہتے ہیں تو حضرت ابو موسی روزہ رکھنے کےلیے اس سخت گرمی کے دن کو تلاش کرتے تھے جس میں انسان ہلاکت کے قریب پہنچ جاتا۔ کشف الخفاء میں عجلوانی روایت کرتے ہیں حدیثا مسلسلا فیہ:وقال علی وانا یا رسول اللہ حبب الیّ من الدنیا الصوم فی الصیف واقراء الضیف والضرب بین یدیک بالسیف(کشف الخفائ٤٠٧،١)حضرت علی نے کہااور میرے لیے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں گرمی میں روزہ رکھنا،مہمان نوازی کرنا،اورآپ کی معیت میں تلوار سے جنگ کرنا محبوب کیا گیا ہے، ان روایات کا ظاہر بغیر تشریح کے اپنے مدعا کا بیان کر رہا ہے-(جاری)

Irfan raza misbahi
About the Author: Irfan raza misbahi Read More Articles by Irfan raza misbahi: 15 Articles with 34385 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.