بعض اوقات کچھ ایسے لوگ بھی دکھائی دیتے ہیں جن کو
عملی طور پر تو کچھ نہیں کہاجا سکتا ٗلیکن دل کرتا ہے کہ میں انہیں بہت
ماروں ۔اتنا ماروں کہ 99 تک گنتی کرکے پھر جاؤں اور پھر ایک سے شروع کردوں
۔ آپ سوچ رہے ہوں گے ٗ وہ کون لوگ ہیں جن پر واقعی مجھے غصہ آتا ہے ۔ یہ
عرض کرتا چلوں کہ ایسے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن ہر روز وہ کسی نہ
کسی جگہ اور کسی نہ کسی طرح مجھے غصہ دلاکر نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں اور
پیچھے مڑ کے بھی نہیں دیکھتے کہ ان کا کیا دھرا مجھ جیسے کتنے لوگوں کے لیے
اذیت کا باعث بنتا ہے ۔ چلیں آپ کو بھی انکے بارے میں بتادیتا ہوں۔ ہوسکتا
ہے آپ کی نظر سے بھی ایسے لوگ گزریں اور آپ بھی میرے ساتھ مل کر انہیں خوب
ماریں ۔ تاکہ ان کی عقل ٹھکانے آجائے ۔ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ جو شخص ایک
ہاتھ سے بائیک چلارہا ہوتا ہے اس کے دوسرے ہاتھ میں موبائل ہوتاہے وہ اپنے
اس ہاتھ سے بائیک کو بھی کنٹرول کرتا ہے اورموبائل پر چیٹنگ بھی کرتا جاتا
ہے۔ کتنے ہی لوگ بائیک چلاتے ہوئے مسیج پڑھنے میں مصروف آتے ہیں۔یہی لوگ
میرے لیے قابل نفرت قرار پاتے ہیں ۔مسیجنگ کرتے ہوئے جن کے چہرے کی اڑی
ہوئی رنگت ان کی جسمانی کیفیات کی ترجمانی کرتی ہیں لیکن یہ ایک جنون ہے جو
رکنے کانام نہیں لیتا اور یہ وبا حادثات کا باعث بن رہی ہے ۔ ایسے افرادکے
پیچھے ان کی بیوی ٗ بچے ٗ بہن یا ماں بیٹی بیٹھی ہوتی ہے اور وہ بے بسی سے
سب کچھ دیکھ کر خاموش ہوتی ہے ۔ یاد رہے کہ جب انسان موبائل سنتا ہے تو اس
کا دماغ دیکھنے کی بجائے موبائل پر بات کرنے والے کی جانب مرکوز ہوتاہے۔
اگر اچانک کوئی سامنے آجائے تو پھر حادثہ یقینی ہوتا ہے اور اگر حادثہ
ہوگیا تو پانچ چھ مہینے ہسپتال کا مہمان بننا پڑتا ہے ۔اگر حادثہ زیادہ
شدید ہوتو جان بھی جاسکتی ہے لیکن ایسے لوگ( جنہیں میں احمق کہتا ہوں) چلتی
ہوئی موٹرسائیکل پر موبائل پر بات کرنا اورمسیجنگ کرنانہیں بھولتے ۔ یہی
لوگ میری نفرت کا شکار بنتے ہیں ۔نہ ان کو اپنی جان کی فکر ہوتی ہے اور نہ
ہی پیچھے بیٹھی ہوئی بیوی بہن اور ماں کی فکر ۔محبوب کا کوئی مسیج مس نہ
ہوجائے اسی جستجومیں اپنی اور اہل خانہ کی جان کوخطرے میں ڈال کے رکھتے
ہیں۔ کئی لوگوں کو کار میں سوار ہوتے ہی موبائل پر بات کرنے کا جنون ہے
۔شاید وہ دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ اس قدر اہم ہیں کہ چلتی ہوئی کارمیں بھی
لوگ ان سے بات کرنے کا شوق رکھتے ہیں حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہوتی ۔ یہ
صرف اور صرف دکھاوا ہوتاہے ۔ میرے مشاہدے کے مطابق کتنے ہی حادثات چلتی
ہوئی گاڑیوں کو ڈرائیو کرتے ہوئے ہوچکے ہیں ۔حادثات بھی اس قدر سنگین ہوتے
ہیں کہ موبائل سنے ہوئے ڈرائیو کرنیوالوں کی شکلیں بھی پہچانی نہیں جاتیں
۔لیکن عبرت پھر بھی حاصل نہیں ہوتی ۔
..................
جب سے موسم نے کروٹ بدلی ہے اور سورج سوا نیزے سے کچھ دور رہ گیا ہے تو
حفاظتی نقطہ نگاہ سے لوگ سر پر ہلمٹ ٗ ٹوپی اور رومال استعمال کرتے ہیں
تاکہ دھوپ کی شدت اور تپش سے خودکو بچایا جاسکے ۔ لیکن میں نے اپنی آنکھوں
سے ایسے ایسے معزز اور سمجھ دارلوگوں کو دوپہر کے وقت ننگے سر بائیک چلاتے
یا فٹ پاتھ پر پیدل چلتے ہوئے دیکھا ہے ۔ میں جب سے اپنی پوتی شرمین فاطمہ
کو سوا ایک بجے سکول سے لینے جاتا ہوں تو مجھے اپنے ساتھ ساتھ اور پوتی
شرمین فاطمہ کی بھی فکر ہوتی ہے کہ گرمی کی شدت کہیں اسے بیمار نہ کردے
لیکن سکول کے باہر کئی والدین ننگے سر شامیانے سے باہر دھوپ میں کچھ اس طرح
کھڑے دکھائی دیتے ہیں جیسے دھوپ ان کی خالہ کی بیٹی ہو اور انہیں کچھ نہیں
کہتی ۔ دانش مند ی کا تقاضا تویہی ہے کہ گرمیوں کے موسم میں بطورخاص دوپہر
کے وقت اگر گھر سے باہر نکلنا پڑ جائے تو سراور چہرے کو ڈھانپ کے نکلا
جائے۔ تاکہ گرمی کی شدت سے انسانی جسم کو بچایا جاسکے لیکن ہمارے خودکشی
کرنے کا رجحان کچھ زیادہ ہی رواج پاگیا ہے اور لوگ یہ دیکھے بغیرکہ ان کی
یہ حرکت خود ان کی صحت کے لیے مضر ثابت ہوگی ٗ ننگے سر نکلنے میں فخر محسوس
کرتے ہیں ۔ دل تو چاہتا ہے کہ ہاتھ میں کوڑا لے کر ان کی خوب پٹائی کروں
اور انہیں بتاؤں کہ صحت بہت بڑی نعمت ہے۔ بیماری آنے سے پہلے اس کی قدر کرو
۔ اگر کچھ ہوگیاتو پھر ڈاکٹروں کی فیس دینا بھی محال ہوجاتاہے ۔ چونکہ ہم
بہادر قوم ہیں اس لیے بیماریوں کو دعوت دینا اور اچھی صحت کے خلاف سازشیں
کرنے میں ہم پیش پیش دکھائی دیتے ہیں ۔
میں جب بھی والٹن روڈ پر نکلتا ہوا تو یہ دیکھ کر حیران ہوجاتا ہوں کہ صبح
سے شام تک آٹھ دس افراد گھیرا ڈالے والٹن روڈ کے دونوں اطراف بنی ہوئی گرین
بیلٹ پر بیٹھے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی تمام تر توجہ اسی دائرے کے اندرمرکوز
ہوتی۔ جہاں تاش کے پتے حرکت کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ یہ ایسے بے خبر
اورلاپرواہ لوگ ہیں جنہیں اپنے بیو ی بچوں کابھی خیال نہیں ہوتا اور نہ ہی
وقت کی قدر ۔ وہ شاید دنیا میں صرف تاش کھیلنے ہی آئے ہیں اور تاش کھیل کر
دنیا بھی رخصت ہوجائیں گے۔ ابھی کتنی بازریاں باقی تھیں کہ فرشتے نے دنیا
سے رخصتی کا پیغام دے دیا۔ ایسے لوگوں کی بیویوں کے حوصلے کی بھی داد دینی
چاہیئے جو ان کی شکل دیکھنے کے لیے ترس جاتی ہیں ۔ ایسے افراد کی اولاد کیا
اچھا شہری بن سکتی ہے ؟ وہ تعلیم یافتہ ہوکر کسی بڑے عہدے پر پہنچ سکتی ہے
؟ یقین سے کچھ نہیں کہاجاسکتا ۔اگر یہ کہاجائے توغلط نہیں ہوگا کہ ایسے
لوگوں کی اولاد شفقت پدری سے ہی محروم ہوجاتی ہے ۔تاش کھیلنے والے تمام
افراد پختہ عمر کے ہوتے ہیں ۔ عمر کے اس حصے میں انہیں سمجھانے کے لیے
آسمان سے فرشتے نہیں اتریں گے لیکن جن افراد کوایک بار تاش کھیلنے کا چسکا
پڑ جائے ۔پھر پوری زندگی درختوں کی چھاؤں ٗ سڑکوں کے کنارے یا تھڑوں پر
بیٹھ کر اپنا شوق پورا کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔وقت کتنا گزر چکا ہے ٗ نمازیں
کتنی قضا ہوچکی ہیں انہیں کوئی احساس نہیں ہوتا ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے
ایسے لوگ ایک آنکھ نہیں بھاتا ۔لیکن میرے ظلمو تشدد سے یہ لوگ اس لیے بچ
جاتے ہیں کہ مجھے انکے بیوی بچوں کا خیال آجاتاہے ۔
.................
مجھے وہ لوگ بھی زہر لگتے ہیں جو رش میں بہت تیز بائیک چلاتے ہیں ۔ نہ
انہیں اپنی جان کی فکر ہے اور نہ ہی دوسروں کی ۔وہ تو بس پاگلوں کی طرح
طوفانی رفتار سے بائیک چلاتے ہوئے یہ جا وہ جا ۔ میں ایک بار واپڈا ہاؤس کے
قریب مال روڈ کے سرخ اشارے پر کھڑا تھا ۔میرے ساتھ ہی ایک فوکسی کار بھی
اشارہ کھلنے کی منتظر تھی ۔اچانک گڑگڑاہٹ نے ہمیں خوفزدہ کردیا۔ جب دائیں
جانب دیکھا تو ایک نوجوان اپنی بائیک سمیت فوکسی کار کے اوپر سے گزرکر
سامنے آگرا ۔ فوکسی کار میں بیٹھا ہوا شخص بھی گڑگڑاہٹ سے ڈر گیا اچانک کیا
قیامت آگئی ہے لیکن جب تیز رفتار نوجوان کار کے سامنے آ گرا تو حیرت کے
ساتھ ساتھ غصہ بھی بہت آیا ۔اس نوجوان کو جب اٹھانے لگے تو اس کی ٹانگوں
میں فریکچر ہوچکا تھا۔ جسم پر بھی کافی زخم آئے تھے ۔ لوگوں نے کہا تم اتنی
تیز بائیک کیوں چلا رہے تھے کہ اشارے پر رک بھی نہیں سکے ۔وہ نوجوان جواب
دینے کی بجائے زخموں کی تکلیف سے روتا ہی جارہا تھا ۔ ایسے نوجوان آپ کو
اپنی گلیوں اور بازاروں میں جابجا بائیک دوڑاتے نظرآئیں گے ۔ جو اپنی جان
ہتھیلی پر رکھ کر گھر سے نکلتے ہیں بچ گئے تو غازی ورنہ شہید تو ہو ہی
جائیں گے ۔بطورخاص یوم آزادی کی خوشی سب سے زیادہ یہی منچلے بفل کے بغیر
بائیک چلاکر لوگوں کے کان پھاڑکر مناتے ہیں۔ بغیر بفل کے چلتی ہوئی بائیک
کی جتنی آواز نکلتی ہے اتناہی یہ منچلے انجوائے کرتے ہیں ۔ میراایک دوست
حبیب عالم بھی طولانی طبیعت کامالک ہے ایک مرتبہ وہ یوم آزادی پر بفل نکال
کر بائیک پر واہگہ سرحد جا پہنچا واپسی پر اس کا ایکسڈنٹ ہوگیا ۔جسم پر
شدید چوٹیں لگیں اور شیخ زیدہسپتال جا پہنچا۔ میں اس کی خیریت دریافت کرنے
گیا تو وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگا زندگی زندہ دلی کا نام ہے ۔ میں نے جواب
دیا پھر اس زندہ دلی کو اب ہسپتال کے بستر پر انجوائے کرو۔ زندگی کس قدر
انمول ہے ان لوگوں کو اس بات کااحساس نہیں ہوتا ۔ یہ ایک ہی دن میں ساری
زندگی کے مزے لوٹ لیٹا چاہتے ہیں ۔ ایسے نوجوانوں کے والدین کیوں نہیں
سمجھاتے ۔ میرے دو نوں بیٹے جب گھر سے نکلتے ہیں تو انکی والدہ بالکونی میں
کھڑی ہوکر اﷲ کے سپردکرتی ہے ۔ تاکہ خیریت سے واپس آجائیں ۔ مجھے یقین ہے
ایسے تیز رفتار چلنے والے بھی ماؤں کی دعاؤں سے ہی حادثات سے محفوظ رہتے
ہوں گے وگرنہ ان کی واپسی کی کوئی امیدنہیں کی جاسکتی ۔ میں سمجھتا ہوں تیز
رفتار نوجوان اپنے لیے اور پورے معاشرے کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں ۔
زندگی بہت انمول ہے صرف ایک ہی بار ملتی ہے اگر احتیاط سے بائیک چلا لی
جائے تو شان میں کوئی کمی تو واقعی نہیں ہو جاتی ۔ نہ پہنچنے کی بجائے کچھ
دیر لیٹ پہنچنا فائدے مند ہے ۔ میں تو جب بھی بازار میں نکلتا ہوں تو یوں
مح سوس ہوتاہے ٗ جیسے پاگل خانے کا دروازہ کھل گیا ہے اور ہر پاگل طوفانی
رفتار سے دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں ہے ۔دل تو کرتا ہے کہ ایسے
نوجوانوں کو زمین پر لیٹا کر بہت ماروں لیکن مجبور ہوں کہ وہ میرے ہاتھ ہی
نہیں آتے اور اگر آ بھی جائیں تو میں کیسے ان کو مار سکتا ہوں وہ جوان ہیں
اور میں بوڑھا ۔
...............
مجھے ایسے سکولوں کے منتظمین بھی ایک نظر نہیں بھاتے جو انگلش میڈیم کا
بورڈ لگا کر بچوں سے دس دس ہزار روپے داخلہ فیس وصول کرتے ہیں اور پہلی
جماعت کے بچے سے دو ہزار روپے ماہانہ چھینتے ہیں لیکن چھٹی کے اوقات کار
میں بچوں کو لینے کے لیے آنے والے والدین کے لیے شامیانہ لگانا اور ٹھنڈے
پانی کا کولر رکھوانا بھی ضروری نہیں سمجھتے ۔ اس بار تو مارچ سے ہی گرمی
کا آغاز ہوگیاتھا لیکن میں نے سخت ترین گرمی اور دھوپ میں سکول کے باہر
والدین کو کھڑے دیکھا ہے ۔قربان سکول کی مالکہ کوتو میں نے ایک خط کے ذریعے
متنبہ بھی کیا تھا جس کے نتیجے میں دو چھوٹے چھوٹے شامیانے لگ گئے لیکن
ٹھنڈے پانی کاانتظام پھر بھی نہیں ہوا۔ سکول انتظامیہ کو اس بات کااحساس
نہیں کہ والد کس طرح دفتروں ٗکاروبار سے وقت نکال کر بچے لینے آتے ہیں اور
مائیں گھر سے پیدل کتنی مسافت طے کر سکول سے بچے کولینے آتی ہیں۔ اگر سکول
والے چھوٹی سی پک اپ یا ویگنوں کو کنٹریکٹ پر رکھ لیں تو بچوں کو واپس
چھوڑنے کابحفاظت انتظام ہوسکتا ہے ۔پاکستان میں ہر کسی کے پاس نہ توگاڑی کا
انتظام ہے اورنہ ہی ڈرائیور کا۔ بڑے بڑے کالجز کے باہر جتنی بھی گاڑیاں نظر
آتی ہیں ان میں سے اکثریت سرکاری گاڑیوں کی ہوتی ہیں جنہیں سرکاری پٹرول
اور ڈرائیور کی سہولت حاصل ہوتی ہے ۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ایک گاڑی میں
صرف ایک ہی بچہ سوار ہوتا ہے جبکہ غریبوں کے بچے دھوپ میں پیدل یا سائیکل
پر سوارگھروں کو جاتے دکھائی دیتے ہیں ۔
..............
میں نے اپنی آنکھوں سے کتنے ہی ویلڈر دیکھے ہیں جن کی دکانیں یا تو مسجد کے
سامنے ہوتی ہیں یا وہ کسی بھی سکول کے سامنے مورچہ لگا کے بیٹھے ہوتے ہیں
۔آدھی سڑک پر سامان رکھ کر ویلڈنگ کی چنگاریاں مسجدکی دیوار تک پھینکتے
دکھائی دیتے ہیں ۔ نہ ان کو اﷲ کا ڈر اور نہ ہی مخلوق کا۔ اگر یہی چنگاریاں
گزرتی ہوئی کسی موٹرسائیکل یا کار کے پٹرول ٹینکر پر گر گئیں تو پھر نہ
ویلڈر کو بھاگنے دیں گی اور نہ ہی ارد گرد رہنے والوں کو ۔ اخبارات میں
درجنوں خبریں شائع ہوچکی ہیں کہ معمولی سی غلطی نے درجنوں انسانوں کوزندہ
جلا ڈالا لیکن ہم اس قدر ٹھیٹ ہوچکے ہیں کہ سدھرنے کا نام پھر بھی نہیں
لیتے ۔ میں جس مسجد میں نماز پڑھتا ہوں ۔ہر نماز کے وقت کتنے ہی نمازی
موٹرسائیکل پر مسجد میں آتے ہیں اورنماز ادا کرکے واپس گھروں کولوٹتے ہیں ۔
ہماری مسجد کے بالکل سامنے بھی ایک ایسا ویلڈر موجودہے جسے نہ اپنی جان کی
فکر ہے اورنہ ہی دوسروں کی ۔ وہ ایک ایسی جگہ بیٹھ کر ویلڈنگ کرتا دکھائی
دیتاہے جہاں سے ہر وقت گاڑیوں اور پیدل انسانوں کی آمدو رفت جاری رہتی ہے ۔
چھٹی کے وقت بچوں کی بہت بڑی تعداد اس دکان کے سامنے سے گزرتی ہے اور بچے
ہمیشہ اس چیز کو ضرور دیکھتے ہیں جہاں ان کی تفریح طبع کا اہتمام ہوتا ہے۔
ویلڈنگ سے جب چنگاریاں نکلتی ہیں تو وہ اس سے محظوظ ہوتے ہیں لیکن ویلڈنگ
کی یہی چنگاریاں معصوم بچوں کی بینائی کو متاثر کرسکتی ہیں ۔ یہاں عرض کرتا
چلوں کہ میرا ایک دوست ویلڈر بھی تھا جس نے اب ویلڈنگ چھوڑ کر پراپرٹی کا
بزنس شروع کردیا ہے۔ جب وہ ویلڈنگ کرکے گھر پہنچتا تو ساری ساری رات آنکھوں
میں جلن کی وجہ سے سو نہ سکتا ۔ ٹھنڈے پانی کی پٹیاں لگا لگا کر رات
بسرکیاکرتاتھا ۔دل تو چاہتا ہے کہ مسجد کے سامنے نمازیوں کی آنکھیں خراب
کرنیوالے ویلڈر کو اٹھوا کر سمندر میں پھینکوا دوں لیکن پھر سوچتاہوں کہ وہ
ایک پاؤں سے پہلے ہی معذور ہے اور معذور کو اٹھاکر سمندر میں پھینکنے سے اﷲ
ناراض ہوگا ۔ اس لیے اﷲ سے ہی دعا کرتا ہوں کہ وہ اس کو عقل بھی دے اور
دوسروں کا خیال رکھنے کی توفیق بھی دے۔
......................
مجھے والدین کے نافرمان بیٹے بھی اچھے نہیں لگتے ۔ میرے گھر کے سامنے ایک
خاندان رہتا ہے جہاں بوڑھے والدین کے ساتھ ساتھ ایک بیٹا بھی رہتا ہے جبکہ
ان کے مزید بیٹے اپنے الگ الگ گھروں میں رہتے ہیں ۔ ایک دن والدین کے سامنے
دو بھائی جھگڑا کررہے تھے کہ مکان کو فروخت کرکے والدین کی زندگی میں ہی
اثاثوں کو تقسیم کرلیا جائے۔ بوڑھا باپ اور بوڑھی ماں بیٹوں کو آپس میں
لڑتے ہوئے دیکھ کر آنسو بہا رہے تھے ۔نافرمانی کی یہ وبا آجکل ہر دوسرے
تیسرے گھر تک جا پہنچی ہے ۔ نہ جانے کیوں بچے اپنا بچپن بھول جاتے ہیں کہ
وہ جس آغوش میں پہنچ کر سکون محسوس کرتے تھے اسی آغوش کو بڑے ہوکر اجاڑنے
کیوں لگتے ہیں ۔باپ کی جس انگلی کوپکڑ کر زمین پر چلنا سیکھتے ہیں اسی باپ
کو جب سہارے کی ضرورت ہوتی ہے تو سہارا بننے کی بجائے کنارہ کشی کیوں
اختیار کرجاتے ہیں ۔ اگر فوت ہوجائیں پھر تو دنیا والوں کو دکھانے کے لیے
مگر مچھ کے آنسو چند منٹوں کے لیے ضرور بہاتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں شاید
والدین کی محبت کی قیمت یہی چند آنسو ہوتے ہیں جو انہوں مرنے پر آنکھوں سے
نکال دیئے ۔ قبرمیں لیٹ کر تو ایصال ثواب کے لیے اولادکی آمد کا انتظار کیا
کرنا ۔ کئی گھر ہی والدین کے لیے قبر ستان بن جاتے ہیں ۔حدیث ہے کہ نبی
کریم ﷺ منبر کی سیڑھی پر پاؤں رکھاتو حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے
اور کہااے اﷲ کے نبی ﷺ ۔ ان لوگوں پر اﷲ کی لعنت ہو جن کی زندگی میں بوڑھے
والدین ملیں اور وہ ان کی خدمت نہ کرسکیں ۔ والدین کے نا فرمانوں پر جب
جلیل القدر فرشتہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ پر
حضرت محمد ﷺ آمین کہ رہے ہیں پھر اس کی سچائی میں کیا کمی رہ جاتی ہے ۔
ایسے لوگوں پر اﷲ کے نبی کی لعنت تو ہے ہی ۔ میں بھی ان پر لعنت بھیجتا ہوں
جو بڑھاپے میں والدین کو اپنے رویے سے تکلیف دیتے ہیں ۔
.....................
شب معراج کی مقدس رات آئی پھر شب برآت کی مبارک رات بھی آئی ۔جب ہم مسجد
میں عبادت میں مصروف تھے تو مسجد کی ایک کھڑکی سے ہمیں ایک حجام کی دکان
دکھائی دے رہی تھی جس پر حجام اپنے گاہکوں کی مسلسل کٹنگ کررہا تھا کسی کی
شیو بنا تا تو کسی کے بالوں اور داڑھی پر سیاہ رنگ لگانے میں مصروف تھا ۔
نہ حجام کو مقدس راتوں کا احساس تھااور نہ ہی گاہکوں کو ۔ ان نادان لوگوں
کی حرکتیں مسلسل مجھے ٹارچ کررہی تھیں ۔اس کے باوجود کہ یہ بھی مسلمان ہیں
اور انہیں بھی احساس ہے کہ موت کے بعد ایک اور زندگی ملے گی جو کبھی ختم
نہیں ہوگی لیکن اس ہمیشہ رہنے والی زندگی کو اچھا بنانے کی فکر چھوڑ کر یہ
لوگ چند سو روپوں کی خاطر مقدس راتوں کے مقدس لمحات کو ضائع کررہے تھے اور
اپنے گاہکوں کو خوش کرکے اپنے لیے آخرت میں عذاب کا اہتمام کررہے
تھے۔حالانکہ یہ کام بعد میں بھی ہوسکتا ہے لیکن پیسے کی ہوس جان نہیں
چھوڑتی۔ مجھے ایسے لوگ واقعی زہر لگتے ہیں۔ ایک جگہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب
انسان کو قبر میں اتارا جائے گا تو فرشتے حساب کتاب لینے آئیں گے کہ تم
دنیا میں کیا کچھ کرتے رہے ہو ۔تو اس وقت عذاب کو دیکھ کر رب کے حضور التجا
کریں گے کہ ہمیں ایک بار پھر دنیا میں بھیج تاکہ ہم نیک اور نمازی بن سکیں
اور تیری کتاب "قرآن پاک "کے مطابق زندگی بسر کرسکیں ۔ اﷲ تعالی فرمائیں گے
کہ زندگی صرف ایک بار ہی ملتی ہے دوبارہ نہیں۔ لیکن نماز سے دور بھاگنے
والے یا مصروفیات کونماز پر ترجیح دینے والوں کواحساس نہیں ہے کہ ان کی
زندگی کی کتنی نمازیں چھوٹ چکی ہیں جبکہ قبر میں سب سے پہلا سوال ہی نماز
کا ہوگا ۔چند سوروپوں کے لیے تو ہم رات بارہ بجے تک جاگ سکتے ہیں لیکن آخرت
میں پرسکون زندگی حاصل کرنے کے لیے ہمارے پاس وقت نہیں ہے ۔ شاید کچھ لوگ
مسلمان ہونے کے باوجود آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ۔ یا انہیں قبر کے حساب
کتاب کا ڈر ہی نہیں ہے ۔ تبھی تو وہ مسجد کے قریب سے اس طرح گزر جاتے ہیں
جیسے مسجد سے بلند ہونے والی صدا ان کے لیے نہیں کسی اور کو فلاح اور
کامیابی کے لیے بلا رہی ہے ۔ بزرگان دین فرماتے ہیں کہ جس طرح انسان ہر
ایرے غیرے کواپنے گھر نہیں بلاتا اسی طرح اﷲ تعالی بھی صرف اسی شخص کو اپنے
گھر (مسجد) بلاتا ہے جس سے وہ پیار کرتا ہے ۔ جو لوگ مصروفیات کا بہانہ
بناکر مسجدوں سے دور بھاگتے ہیں وہ خود یہ کام نہیں کرتے بلکہ اﷲ تعالی
انہیں اپنے گھر آنے کی توفیق ہی نہیں دیتا۔ایک نماز چھوڑنے والے کے دل پر
اگر سیاہ دھبہ بنتا ہے تو جس نے ہزاروں نمازیں نہیں پڑھیں اس کا دل سیاہ
نہیں ہوگاتو اور کیا ہوگیا ۔ کسی نے کیا خوب کہاہے کہ موت اور گاہک کا کوئی
وقت مقرر نہیں ہے ۔ اس کے باوجود غفلت کا مظاہرہ کرنے والے مسلمان بھائی
میرے لیے نفرت کاباعث ہیں۔دل تو چاہتا ہے کہ ہاتھ میں کوڑا لے کر ان پر
اتنے کوڑے برساؤں کہ وہ اپنے گناہوں کی توبہ کرکے مسجدوں کا رخ کرلیں۔ پھر
سوچتا ہوں کہ جب اﷲ تعالی نے ان کو ڈھیل دے رکھی ہے تو میں کون ہوتا ہوں ان
کو برا بھلا کہنے والا ۔یہی سوچ کر خاموش ہوجاتاہوں۔
................
سرکاری ملازمین کے بارے میں تو پہلے ہی مشہور ہے کہ یہ کم چور ہوتے ہیں۔
کام کرنا حرام ہے ان کے لیے ۔ کہاجاتا ہے کہ وہ کام نہ کرنے کی تنخواہ لیتے
ہیں اور کام کرنے کی رشوت مانگتے ہیں ۔مجھے کتنے ہی پبلک ڈیلنگ والے سرکاری
اداروں میں جانے کا اتفاق ہوچکاہے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ خلق خدا
کھڑی ہے اور کرسی پر بیٹھا ہوا سرکاری افسر موبائل پر چیٹنگ کررہا ہے ۔
ایسے مکروہ لوگ قوم کے مجرم ہیں جنہیں سرکاری عہدوں سے ہی معطل کردینا
چاہییے ۔ اس جرم میں چھوٹے ملازمین سے لے کر بڑے افسران تک سب ایک ہی جیسے
ہیں ۔ اگر حکومت سرکاری اداروں میں موبائل کے استعمال پر پابند ی لگا دے تو
بہتوں کا بھلا ہوسکتا ہے ۔ میں لاہور میں موجود ایک سرکاری ہسپتال گیا
۔جہاں ایک ڈاکٹر کے اردگر د دس پندرہ مردو زن ان کی توجہ حاصل کرنے کے
منتظر کھڑے تھے اور ڈاکٹر اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ موبائل پر بات کررہے تھے
۔ انہیں اپنے ارد گرد کھڑے ہوئے مریضوں کی تکلیف کا احساس نہیں تھا۔دل تو
چاہتا تھاکہ اس ڈاکٹر کے ہاتھ سے موبائل چھین کر دو چار لگاؤں اور کہوں تم
ہسپتال میں مریضوں کاعلاج کرنے آئے ہو یا موبائل پر گفتگو کرنے ۔لیکن میں
اپنے اس ارادے پر اس لیے عمل نہیں کرسکا کہ میرے ساتھ بھی ایک مریض تھا اگر
میں اس پر غصہ ہوتا تو وہ میرے مریض کو چیک کرنے سے ہی انکارکرسکتا تھا ۔
ایسے واقعات ہر ہسپتال میں روزانہ ہوتے ہیں ۔ اوپر سے نیچے تک آوے کا آوہ
ہی بگڑاہوا ہے ۔پھر ہم کس کس کو اس بات سے روک سکتے ہیں ۔جب تمام سرکاری
افسراور ڈاکٹر ایک ہی جیسے مزاج کے مالک بن چکے ہیں ۔
.............
مجھے ٹی وی اینکرز پر بھی بہت غصہ آتا ہے جو خودکو فلاسفر سمجھ کر ہر سیدھی
بات کوگھماپھرا کر پیش کرتے ہیں- سچی بات تو یہ ہے کہ ایک ہی جیسے چہرے
دیکھ دیکھ کر دل اکتا چکا ہے ۔ دل چاہتا ہے کہ یہ تو ٹی وی کو توڑ دوں یا
روزانہ لا محدود بکواس کرنے والوں کو ٹی وی سے نکال کر ان کا سر پھوڑ دوں ۔
ٹی وی تواس لیے توڑ نہیں سکتا کہ وہ میری ہلال کی کمائی کا ہے اور اگر توڑ
دیا تو پھر کیسے خریدوں گا اس لیے بہتر آپشن یہی ہے کہ انکو کسی نہ کسی طرح
ٹی وی سے نکال کر ایسی جگہ ماروں جہاں سے روزانہ بکواس کرنے والے یہ اینکر
پرسن واپس نہ آسکیں ۔ گفتگو کا موضوع کوئی بھی وہ اصل مسائل کو چھوڑ کر
سیاسی عدم استحکام پیداکرنے پر لگے رہتے ہیں۔اگر ان کی گفتگو تین چار دن
مسلسل سن لی جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں خانہ جنگی کے حالات
پیدا ہوچکے ہیں ۔انہیں ہر وہ سیاست دان اچھالگتا ہے جو ریاست اور حکومت کو
منہ بگاڑ کے گالی دیتا ہے اور ریاستی اداروں کو چیلنج کرتا ہے ۔ ان کوہر وہ
شخص برا لگتا ہے جو پاکستان کے لیے جان نچھاور کرتا ہے ۔ یہ میڈیا کی
بدترین پالیسی کا اثر ہے کہ بھارتی فلموں کی نمائش اور اس پرہونے والی
کمائی کا ذکر تو خبرنامے میں بہت نمایاں پیش کیا جاتا ہے لیکن پاک فوج کے
افسر اور جوان جو ملک بھر سے دہشت گردی ختم کرنے کے لیے اپنی جانیں قربان
کرتے ہیں ان شہیدوں کے کارناموں پر روشنی ڈالنے ٗ شہیدوں کے لواحقین کے
حالات زندگی بتانے اور نماز جناز ہ میں ملک بھر کے لوگوں سے شرکت کی
درخواست کرنے کی ان کے پاس فرصت نہیں ہے ۔ کتنا اچھا وقت تھا جب مختصر
خبریں ہر گھنٹے بعد اور تفصیلی خبریں رات نو بجے نشر ہو ا کرتی ہیں لیکن
جیسے جیسے ٹی وی چینلز کی برسات شروع ہوئی ہے تو ہر وقت اور ہر طرف بریکنگ
نیوز کا عذاب نازل ہوچکا ہے ۔بطور خاص جرائم پیشہ افراد کی خبروں اورخود کش
دھماکوں کی نیوز کو بریکنگ نیوز کے طور پر ذہنوں میں ٹھونس کرکے پوری قوم
کو ذہنی مریض بنایا جارہا ہے ۔ میڈیا اپنی اس حرکت کو آزادی کانام دیتا ہے
۔ آزادی کی بھی کچھ حدیں ہوتی ہیں اگر آزادی حدسے نکل جائے تو بے راہ روی
کہلاتی ہے یہی بے راہ روی آجکل پاکستانی میڈیاپر پوری شدت سے طاری ے ۔پھر
یہ مقدس گائے کاروپ دھار چکی ہے اگر کوئی ان کے خلاف بات کرے تو ان کی دم
پر پاؤ ں آجاتاہے ۔ دل تو چاہتا ہے کہ قوم کو ذہنی طور پر مفلوج کرنے والوں
کو کو ٹی وی سے نکال کر ایسی جگہ پھینکوں جہاں سے یہ دوبارہ واپس نہ آ
سکیں۔ اپنے ارادے کو اس لیے عملی شکل نہیں پہنا سکتا کہ وہ میری پہنچ سے
بہت دور ہیں اور حکمران ان سے بہت خوفزدہ ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ ٹی وی دیکھ
کر لگتا ہے پاکستان میں خدانخواستہ شام کی طرح خانہ جنگی ہورہی ہے لیکن اگر
ٹی وی بندکردیا جائے تو ہر طرف سکون ہی سکون محسوس ہوتا ہے ۔ اگر صورت حال
یہی رہی تو ڈاکٹر ٹی وی نہ دیکھنے کی ایڈوائس اپنے مریضوں کو کرسکتے ہیں ۔
..................
مجھے ایسے ڈاکٹر بھی اچھے نہیں لگتے جو صرف لیبارٹریز سے ملنے والے کمیشن
کی وجہ سے غریب مریضوں کو درجنوں ٹیسٹ لکھ دیتے ہیں ۔ اس وقت صورت حال یہ
ہے کہ پاکستان 80 فیصد شہری اس قدر غریب ہیں کہ وہ خود زکوۃ لینے کے اہل
ہوچکے ہیں۔تنخواہیں اس قدر کم ہیں کہ اخراجات پورے ہی نہیں ہوتے پھر بجلی
کا بل کلیجہ نکال کر لے جا تا ہے ۔ مہنگائی کی وجہ سے روٹی ہی بہت مشکل سے
ملتی ہے ۔ پھل کھانا تو ایک خواب بن چکا ہے ۔ صرف زندہ رہنے کے لیے جس قدر
خوراک کی ضرورت ہے صرف وہی کھانے پر انسان مجبور ہیں ۔ ان حالات میں گھر کا
کوئی فرد بیمار ہوجائے تو ڈاکٹر کی فیس اور ادویات کی خرید کے لیے جیب میں
پیسے نہیں ہوتے ۔ دوائی کھائے بغیر مریض کیسے ٹھیک ہوسکتا ہے یہ آپ خود
سمجھ سکتے ہیں ۔ پھر ہر گھر میں کوئی نہ کوئی مستقل بیمار بھی ہے ۔ بڑھاپا
بیماری کا دوسرا نام ہے جیسے ہی والدین بوڑھے ہوئے تو بیماریاں یلغار
کردیتی ہیں ۔ پھر ڈاکٹر ٗمیڈیکل سٹور اور لیبارٹریز ہی کے چکر لگتے رہتے
ہیں۔ ان حالات میں ایسے ڈاکٹر زہر لگتے ہیں جو مریضوں کو جان بوجھ کر
ٹیسٹوں کے چکر میں ڈالے رکھتے ہیں ۔
جہاں تک ینگ ڈاکٹروں کاتعلق ہے ان سے صرف میں ہی نفرت نہیں کرتا بلکہ مخلوق
خدا کی بد دعائیں ان کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ جوانی کو مستانی تو کہاجاتا
تھا لیکن انسانیت کی خدمت کا بہانہ بنا کر ڈاکٹر بننے والے ینگ ڈاکٹر وں نے
ات مچا رکھی ہے ۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر وہ سڑکوں پر کیمپ لگا کر ہفتوں
احتجاج کرتے ہیں ۔ جب لیڈ ی ڈاکٹر ساتھ ہو تو ہڑتال کرنے کو کس کا دل نہیں
کرتا ۔ اسی بات کا وہ فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ سینئر ڈاکٹرز اور پروفیسروں کی
تذلیل کرنا اپنا فرض اولین تصور کرتے ہیں حالانکہ انہی پروفیسر سے وہ پڑھ
کر ڈاکٹر بنتے ہیں ۔ ینگ ڈاکٹروں کے احتجاجی پروگرام کو دیکھ کر اب میٹرک
پاس کرنے والے بچے بھی فخر سے نہیں کہتے کہ میں پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بنوں گا
کیونکہ ان طالعلموں کو پتہ ینگ ڈاکٹر اپنے پیشے سے انصاف اور وفا نہیں کرتے
بلکہ ایک مافیا کی شکل اختیار کرتے جارہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیئے کہ ان کی
ہڑتال کے دوران جتنے بھی مریض اﷲ کو پیارے ہوتے ہیں انکے قتل کا مقدمہ ینگ
ڈاکٹروں کے خلاف درج ہونا چاہیئے لیکن جس طرح حکومت میڈیا سے ڈرتی ہے اسی
طرح ینگ ڈاکٹروں نے بھی حکومت اور انتظامیہ کو بکری بنا رکھا ہے ۔ان کی
ٹکورکرنا بہت ضروری ہوچکاہے ۔ وگرنہ مریض ہسپتال کے فرشوں پر مرتے رہیں گے
اور ڈاکٹر نرسوں پرمرتے رہیں گے ۔
................
ایک اور بات بتاؤں مجھے پلمبروں سے بھی بڑی نفرت ہے ۔ چھوٹے سے کام کے اتنے
پیسے مانگتے ہیں کہ ہوش اڑ جاتے ہیں ۔پرانے زمانے میں ایک مثال بہت مشہور
تھی "ٹکے دی کڑی تے آنا سر منائی " ایک واش بسن لگوانا ہوتو پانچ سوروپے کا
تقاضا کرتے ہیں اگر دو ٹوٹیاں بھی ساتھ شامل ہوں تو 700 روپے کابل بن جاتا
ہے ۔اگر آپ ان کی بات نہ مانیں تو منہ بناکے ایسے گھر سے نکلتے ہیں جیسے ہم
نے ان کوگالی دی ہو ۔ ہماری کالونی میں بھی ایک مریل سا پلمبر چلتا پھرتا
دکھائی دیتا ہے ۔ ایک دن میں نے اس سے درخواست کی کہ فرسٹ فلور سے دوسرے
فلور تک گیس کا پائپ نصب کرنا ہے اور گیزر تک گیس پہنچانی ہے ۔ اس نے مزدور
ی ایک ہزار مانگ لی۔ بہت منت سماجت کرکے 800 پر بات ختم ہوئی ۔آدھا کام
کرکے وہ اپنا بیگ سنبھال کر جب گھر سے رخصت ہونے لگا تو میں نے کہا آپ نے
جس کام کی حامی بھری تو اسے تو مکمل کرجائیں ۔ وہ شخص تو ناراض ہوگیا اور
کہنے مجھے یہ کام نہیں آتا ۔پیسے وہ پہلے لے چکا تھا اس لیے اب سوائے لڑائی
کے دوسرا راستہ نہیں تھا ۔ مجبورا خاموش ہونا پڑا کہ کام بھی ادھورا رہ
گیااور پیسے بھی جیب سے گئے ۔ہمارے اما م قاری محمداقبال کے پاس بھی ایک
پلمبر ہے کئی مرتبہ ان سے بھی درخواست کرچکا ہوں کہ میں آپ کے پلمبرکی
زیارت کرنا چاہتا ہوں لیکن وی آئی پی پلمبر ان کے ہاتھ سے بھی پھسل پھسل
جاتاہے ۔ پتہ نہیں یہ کس نسل کے انسان ہیں جن کے دل میں کسی کے لیے بھی رحم
نہیں ہوتا ۔ وہ چاہتے ہیں کام انہیں نہ ہی کرناپڑے لیکن پیسے پہلے انکو مل
جائیں۔ انکا علاج اگرقاری صاحب نہیں کرسکے تو میں کیسے کرسکتا ہوں ۔
................
اگر یہاں راج مستری کی بات نہ کی جائے تو زیادتی ہوگی ۔جب میں اپنے نئے گھر
میں شفٹ ہوا تو مجھے فرسٹ فلور پر پتھرکا فرش لگوانا تھا ۔ مستری تو بے
شمار تھے لیکن محلے کاایک مستری مل گیا مجھ غلطی یہ ہوئی کہ میں اس کی
مہارت کو جانچ نہیں سکا ۔ جب فرش لگاکر وہ گھر چلا گیا اور ہم یہاں شفٹ
ہوگئے تو جب بھی خواتین فرش کو دھونے کے لیے پانی پھینکتی ہیں تو پانی باہر
جانے کی بجائے اندر کو جاتا ہے ۔ اس لیے جب یہ کام ہوتارہے گا اس مستری کی
روح کو ثواب پہنچتا رہے گا ۔ مستری کی دیہاڑی ایک ہزار تھی خود بخود ہی
انہوں نے بارہ سو روپے کرلی ہے ۔ فرش سیدھے اور ہموار لگانا آئے یانہ آئے ۔
پیسے پورے لیتے ہیں ۔ دیہاڑی پر کام کروائیں تو ان کی رفتار بہت سست ہوتی
ہے اگر ٹھیکے پر کام کروائیں تو ان کی رفتار F-16 طیارے کے برابر ہوجاتی ہے
۔بات نیت کی ہے ۔ جب نیت ہی خراب ہو تو رویے کیسے بہترہوسکتے ہیں ۔ جس نے
میرے گھرکا فرش خراب کیا وہ مجھے اب زہر لگتا ہے۔ جب وہ مجھے کہیں آتا جاتا
نظرآتا ہے تو دل کرتا ہے اس کو اتنا ماروں کہ گنتی ہی بھول جاؤں۔پھر مجھے
اس کے بیوی بچوں کا خیال آجاتاہے اور میں اﷲ کی رضا تصور کرکے خاموش
ہوجاتاہوں۔
................
قابل نفرت لوگوں میں دودھ میں ملاوٹ کرنے والے بھی شامل ہیں۔ ملک معراج
خالد جو پاکستان کے عبوری وزیراعظم بھی بنے ۔وہ بھی کبھی دودھ بیچا کرتے
تھے ۔ساتھیوں نے دودھ میں پانی ڈالنے کا مشورہ دیا تاکہ آمدنی میں اضافہ
ہوجائے تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ دودھ اﷲ کانور ہے میں اس
نور میں پانی ملاکر گناہگار نہیں ہوسکتا۔ اسی وجہ سے اﷲ تعالی نے ان کو
اتنی عزت سے نواز ا کہ وہ دودھ بیچنے والے سے وزیر اعظم پاکستان کے عہدے پر
جا پہنچے ۔ لیکن شاید ہی کوئی دودھی ایسا ہوگاجو دودھ میں پانی نہ ملاتا
ہو۔وگرنہ دودھ میں زہریلا کیمیکل ٗ سونگھاڑے کا آٹا اور جھاگ پیدا کرنے کے
لیے سرف ڈالنے سے بھی گریز نہیں کیاجاتا ۔ آخرت کا خوف تو یکسر ختم ہوچکاہے
۔ اس کے باوجود کہ حدیث مبارکہ ہے کہ جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں ہے
۔ دوو ھ فروخت کرنے والے خودکو مسلمان بھی کہتے ہیں اور کھلے چھپے ملاوٹ
بھی ضرور کرتے ہیں۔ اب ان کاعلاج کیاجائے ۔جب ساری قوم ملاوٹ والا دودھ ہی
پی رہی ہے تو میں بھی پی لیتا ہوں۔ میں کوئی تیس مار خان تو ہوں نہیں کہ
سارے جہان کو ٹھیک کردوں۔
.................
اسی طرح گدھے کاگوشت فروخت کرنے والے کس قدر قابل نفرت ہیں ۔ دل تو چاہتا
ہے کہ ان کو گدھے کی کھال پہنا کر کھونٹ سے باندھ دیا جائے لیکن وہ
انتظامیہ کی آنکھوں میں دھول جھونک کر قوم کو اب تک سینکڑوں گدھے کھلا چکے
ہیں۔ جب سے چائنہ میں گدھے کی کھال سے بیوٹی کریم بننے کا چرچا ہوا ہے۔ اس
وقت سے گدھوں کی چوری ایک عام سی بات بن گئی ہے ۔ یہ بے رحم لوگ کھال اتار
کر مہنگے داموں فروخت کردیتے ہیں اور گوشت کو کٹے کا گوشت بناکر عوام کے
معدوں میں اتار دیتے ہیں ۔اس مکروہ کاروبار میں ملوث لوگ ڈبل منافع کمارہے
ہیں۔ پکڑے پھر بھی نہیں جاتے اور اگر پکڑے جائیں توپولیس والوں کو رشوت دے
کرچھوٹ جاتے ہیں ۔ گدھے تو گدھے اب یہاں کتوں کاگوشت بھی بکرے کا گوشت
بناکر شادی بیاہ میں کھلایا جارہاہے ۔ایک مرتبہ وزیر اعلی پنجاب غلام حید ر
وائیں ایک شادی پر مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو تھے ۔دعوت ختم ہوگئی توکچھ
دنوں بعد اخبارات میں خبر شائع ہوئی کہ مغل پورہ کے علاقے میں کتوں کی بہت
ساری گردنیں ایک ہی جگہ پڑی ملی ہیں۔ گمان کیا جاتا ہے ان کتوں کا گوشت اس
ولیمے میں پکایا گیاہے جس میں وزیراعلی پنجاب غلام حیدر وائیں صاحب بھی
شریک تھے ۔جو لوگ ایسی مکروہ حرکتیں کرتے ہیں وہ معاشرے کے لیے ناسور کی
حیثیت رکھتے ہیں ۔دل تو چاہتا ہے کہ ایسے لوگوں کو ایسی سزا دوں کہ ان
کونانی یاد آجائے ۔پھر سوچتا ہوں کہ سزا دینے کے لیے میرے پاس اختیار تو ہے
نہیں ۔ جن کے پاس اختیارات ہیں وہ خاموش ہیں تو میں زیادہ سے زیادہ لکھ ہی
سکتاہوں اور وہ کام میں کر ہی رہا ہوں ۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان عالی شان ہے
کہ اگر انسان کہیں برائی دیکھے تو اسے تلوار سے ختم کرے اگر تلوار سے ختم
نہ کرسکے تو زبان سے ہی اس کے خلاف بات کرے اور اگر زبان سے بھی کرنے کی
جرات نہ رکھتا ہو تو پھر دل میں ہی اسے برا سمجھے ۔ لگتا تو یہی ہے کہ ہم
دل میں ہی ایسے مکروہ لوگوں کے بارے میں نفرت کااظہار کرسکتے ہیں ٗ جو میں
کررہا ہوں۔
..........
مجھے وہ سیاست دان بھی زہر لگتے ہیں جو اپنی سیاست چمکانے کے لیے پنجاب کو
تقسیم کرنا چاہتے ہیں ۔ قومی یکجہتی کی علامت پنجاب کو دو یا تین حصوں میں
تقسیم کرنے میں سب سے آگے پیپلز پارٹی کے سرکردہ رہنما ہیں- جن میں آصف علی
زرداری ٗ بلاول زرداری اور سید یوسف رضاگیلانی پیش پیش ہیں ۔یہ لوگ پنجاب
کو صرف اس لیے تقسیم کرنا چاہتے ہیں کہ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بناکر وہاں
پیپلز پارٹی کی حکومت بنا لیں گے اور وہاں جا کر ایسے ایسے بیہودہ اورنفرت
انگیز بیانات دیتے ہیں جنہیں پڑھ کر دل کرتا ہے ان کی گردنیں تن سے جدا
کردی جائیں لیکن جب سندھ کو تقسیم کرنے کی بات آتی ہے تو سب کی ماں مر جاتی
ہے اور پنجاب کو تقسیم کرنیوالے مکروہ سندھی سیاست دانوں کے گھروں میں صف
ماتم بچھ جاتی ہے۔ یہی عالم سندھ کے قوم پرستوں کا ہے ۔ اس کے باوجود کہ
کراچی اور حیدر آباد میں آباد اردو سپکنگ لوگ اندرون سندھ کے سندھیوں سے
الگ تھلک دکھائی دیتے ہیں۔ انکا کلچر ٗ تہذیب ٗ رہن سہن سب کچھ جدا ہے
۔کراچی اور حیدر آباد میں رہنے والوں کے اکثریت اردو سپکینگ ہے جبکہ سندھ
میں سندھی زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے ۔اس قدرواضح فرق ہونے کے باوجود جو
شخص بھی کراچی اور حیدر آبادکو سندھ سے الگ کرنے کی بات کرتا ہے تو یہ تمام
لوگ نہ صرف ٹسووے بہاتے ہیں بلکہ ایسی بات کہنے والے کے پیچھے ہاتھ دھو کے
پڑ جاتے ہیں ۔ جیسے کسی نہ یہ بات کہہ کر ان کی ماں کاکفن بیچ دیا ہے ۔ اگر
پنجاب تقسیم ہوگاتو پھر سندھ کو بھی تین حصوں میں تقسیم کرنا ہوگا اور
بلوچستان کے بھی تین سے چار ٹکڑے کرنے پڑیں گے ۔ کیونکہ بلوچستان زمینی
اعتبار سے اتنا بڑا ہے کہ گوادر سے کوئٹہ پہنچنے میں پہلے تین دن لگتے تھے
اب نواز شریف کی مہربانی سے جو شاہراہ تعمیر ہوئی ہے اس کے ذریعے آٹھ
گھنٹوں میں گوادر سے کوئٹہ تک کا سفر کیاجاسکتا ہے ۔اسی طرح خیبر
پختوانخواہ میں سے صوبہ ہزار ہ الگ کرناپڑے گاکیونکہ ان کی زبان اور رہن
سہن بالکل مختلف ہے ۔ وادی سوات ٗ وادی دیر ٗوادی چترال کو بھی الگ الگ
صوبوں کی شکل دینے ہوگی لیکن جب یہ بات کی جائیگی تو اسفند یار ولی سمیت سب
کی ماں بین ڈالنا شروع کردے گی ۔ جو پختون کو افغان صوبہ قرار دینے سے بھی
نہیں ہچکچاتے ۔ یہ ایسے لوگ ہیں جوکھاتے پاکستان کا ہیں لیکن دم بھارت اور
افغانستان کابھرتے ہیں ۔
اب پیپلز پارٹی کے دیکھا دیکھی جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق بھی پنجاب
کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا راگ الاپنے لگے ہیں ۔جبکہ موصوف تمام قبائلی
ایجنسیوں کو خیبر پختونخواہ میں ضم کرنے کا مطالبہ پرجوش طریقے سے کررہے
ہیں۔ وہ اس لیے کہ خیبر پختونخواہ سراج الحق کا اپنا صوبہ ہے اور اس صوبہ
میں قبائلی علاقے ضرور شامل ہونے چاہیئں ۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگاکہ
پہلی مرتبہ جماعت اسلامی کی قیادت ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں آئی ہے جو
خودکو پاکستانی سمجھنے کی بجائے پختون سمجھتا ہے اور صرف پختونوں کے مفادات
کی حفاظت ہی اپنی ذمہ داری تصور کرتا ہے ۔ پچھلے دنوں جب فوج اورسیکورٹی
ایجنسیوں کی جانب سے آپریشن ردالفساد شروع کیا گیا اور اس دوران خیبر
پختونخواہ ٗپنجاب ٗ سندھ اور بلوچستان سے کتنے ہی دہشت گر داور ان کے سہولت
کار گرفتارہوئے تو سراج الحق نے جماعت اسلامی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ
منصورہ لاہور میں پختون جرگہ بلا یا اور اس میں پنجاب میں پختونوں کی پکڑ
دھکڑ پر افسوس کاا ظہار کرتے ہوئے انتقامی بیانات جاری کیے جو ایک قومی
جماعت کے امیر کو زیب نہیں دیتی تھی۔ خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلی پرویز
خٹک تو اس حوالے سے تمام حدیں ہی عبور کرگئے وہ انہوں نے پرجوش انداز میں
کہا کہ اگر پنجاب میں پختونوں کو دہشت گردوں کے سہولت کاروں کی شکل میں
پکڑا گیا تو ہم خیبر پختونخواہ سے تمام پنجابی نکال دیں گے ۔ان کا یہ رویہ
سراسر فوج اور سیکورٹی اداروں کی دہشت گردوں کے خلاف کاروائیوں کے خلاف تھا
۔ قصہ مختصر یہ کہ پیپلز پارٹی کے سرکردہ رہنماء پنجاب کو تو تقسیم کرنا
چاہتے ہیں لیکن سندھ کی تقسیم کی کوئی بات کرے یہ انہیں منظور نہیں ہے ۔
سراج الحق پنجاب کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں لیکن تمام قبائلی علاقوں کو خیبر
پختونخواہ میں ضم کرنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ ان کا اپنا صوبہ ہے۔ اس طرح
خیبر پختونخواہ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بھی بن سکتا ہے ۔پنجاب کے برابر
اس کو اہمیت حاصل ہوسکتی ہے ۔
|