جنت کی زندگی-حصہ اول

کہتے ہیں کہ اسلام کے عروج کے دور میں بغداد کے قاضی اپنے شاندار گھوڑے پر سوار بازار میں جا رہے تھے کہ ایک غریب یہودی موچی نے ان کو روکا اور ان سے کہا کہ تم کہتے ہو کہ دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے۔ دیکھو اپنی سواری، اپنا گھر، اپنا منصب اور اپنی عزت وجاہ۔۔۔۔۔کیا یہی قید خانہ ہے۔۔۔۔؟اور میری حالت دیکھو۔۔۔ کس غربت اور کسمپرسی میں زندگی گزار رہا ہوں۔۔۔ کیا یہی جنت ہے؟
آپ نے اسے جواب دیا ارے نادان! اگر میں اللہ کے ہاں کامیاب ہو گیا اور مجھے جنت مل گئی تو یہ سب جس کا تم نے ذکر کیا ہے، اس کے مقابلے میں ایک قید خانہ سے زیادہ نہیں۔۔۔۔اور اگر تو کفر و شرک پر مر گیا اور جہنم میں ڈالا گيا تو اس کے مقابلے میں تیری یہ حالت جس میں تو آج ہے تیرے لیے جنت سے کم نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ارے ناسمجھ! دنیا کی کسی بہت بڑی سلطنت کی بادشاہی بھی جنت کی نعمتوں کے مقابلے میں کسی قیدخانہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔

جنت کی صحیح تصویر کھینچنے کے لیے کسی انسانی زبان میں ایسے الفاظ موجود نہیں کہ ان کا بیان کیا جا سکے:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے ایسی ایسی نعمتیں تیار کر رکھی ہیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھیں ،نہ کسی کان نے سنیں اور نہ کسی بشر کے دل پر ان کا خیال گزرا (پھر آپ نے فرمایا) اگر تم چاہو تو (اس کے استدلال میں) یہ آیت پڑھ لو:
سورة السجدة (32 )
فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاء بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ {17}
پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان اُن کے اعمال کی جزا میں اُن کے لیے چھپا کر رکھا گیا ہے اس کی کسی متنفس کو خبر نہیں ہے۔
(صحیح بخاری،جلد دوم ،باب مخلوقات کی ابتدا کا بیان، حدیث479)

ظاہر ہے جس کھانے کو ہم نے کھایا نہیں، اس کا ذائقہ ہم کیا جانیں؟ جس پھل کو ہم نے نہ دیکھا نہ چکھا، اس کی لذت ہمیں کیا معلوم؟ جس نعمت کو ہم جانتے ہی نہیں اس کا خیال دل میں کیسے گزرے۔بس یہ سمجھ لیجیے کہ دنیا میں ہمیں جو کچھ ملا ہے آزمائش کے درجےمیں ہے اور ہم اسی میں گم ہو جاتے ہیں۔ جنت میں جو کچھ ملے گا نعمت کے درجے میں ہو گا اس کا اندازہ کر لیجیے۔۔۔۔؟ مگر اے اہل ارباب و دانش! سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا وہ خدا جس نے ایسی حسین دنیا بنائی اس سے بہت زیادہ حسین جنت نہیں بنا سکتا؟ کیا جس نے ایسے لذیذ پھل پیدا کیے وہ ان کی لذت کو بڑھا نہیں سکتا؟ جس نے اتنے حسین درخت اور پھول پیدا کیے کیا وہ انہی جیسے محل نہیں بنا سکتا۔ جس نے ہمارےسامنے پانی کے سمندر پیدا کر کے رکھ دیے اوردریا بہا دیے کیا وہ دودھ، شہد اور طرح طرح کے شربتوں کے چشمے اور دریا نہیں بہا سکتا؟جس نےدنیا میں ایسی ایسی نعمتیں پیدا کیں وہ ان سے بہت اعلیٰ نعمتیں پیدا نہیں کر سکتا؟۔۔۔۔۔۔۔۔کیوں نہیں جبکہ وہ تو خلاق العلیم ہے۔

جنت کی خوبصورتی، دلکشی اور سرسبزی کی تصویر کشی میں قرآن حکیم اور احادیث ہمیں یہ بتلاتی ہیں کہ گھنے سرسبز باغات ہیں جن میں چشمے ابلتے ہیں اور جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گي،ہمیشگی کی زندگی وہاں حاصل ہو گی، پاکیزہ بیویوں کی رفاقت حاصل ہوگی، وہاں کے پھل دائمی اور سایے لازوال ہیں، بے حساب رزق وہاں عطا فرمایا جائے گا اور وہاں اللہ کی خوشنودی حاصل ہوگی:

سورة آل عمران ( 3 )
۔۔۔ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَأَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ {15}
جو لوگ تقویٰ کی روش اختیار کریں، اُن کے لیے ان کے رب کے پاس باغ ہیں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہاں انہیں ہمیشگی کی زندگی حاصل ہو گي، پاکیزہ بیویاں ان کی رفیق ہوں گی اور اللہ کی رضا سے وہ سرفراز ہوں گے۔ اللہ اپنے بندوں کے رويے پر گہری نظر رکھتا ہے۔

سورة الرعد ( 13 )
مَّثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ أُكُلُهَا دَآئِمٌ وِظِلُّهَا تِلْكَ عُقْبَى الَّذِينَ اتَّقَواْ وَّعُقْبَى الْكَافِرِينَ النَّارُ {35}
خدا ترس انسانوں کے لیے جس جنت کا وعدہ کیا گيا ہے اس کی شان یہ ہے کہ اس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، اس کے پھل دائمی ہیں اور اس کا سایہ لازوال۔ یہ انجام ہے متقی لوگوں کا۔ اور منکرینِ حق کا انجام یہ ہے کہ ان کے لیے دوزخ کی آگ ہے۔

سورة غافر (40)
۔۔۔ وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُوْلَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُونَ فِيهَا بِغَيْرِ حِسَابٍ {40}
اور جو نیک عمل کرے گا، خواو وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہو وہ مومن، ایسے سب لوگ جنت میں داخل ہوں گے جہاں ان کو بے حساب رزق دیا جائے گا۔

جنت سکونت کے لیے ایک عظیم الشان سچے بادشاہ کے نزدیک بہت ہی عزت کا مقام ہے:

سورة القمر (54 )
إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَنَهَرٍ {54} فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِندَ مَلِيكٍ مُّقْتَدِرٍ {55}
نافرمانی سے پرہیز کرنے والے یقیناً باغوں اور نہروں میں ہوں گے، سچی عزت کی جگہ، بڑے ذی اقتدار بادشاہ کے قریب۔

دنیا میں تو انسان کی طبعیت نعمتوں سے بھی اکتا جاتی ہے لیکن وہاں کبھی کسی کا یہ جی نہ چاہے گا کہ ان نعمتوں سے نکل کر کہیں اور چلا جائے:

سورة الكهف ( 18 )
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنَّاتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا {107} خَالِدِينَ فِيهَا لَا يَبْغُونَ عَنْهَا حِوَلًا {108}
وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے، ان کی میزبانی کے لیے فردوس کے باغ ہوں گے جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور کبھی اس جگہ سے نکل کر کہیں جانے کو اُن کا جی نہ چاہے گا۔

‍قرآن حکیم اور احادیث مبارکہ میں جنت کا جو حسین نقشہ کھینچا گیا ہے یقین جانیے کہ وہ انسان پر سحر طاری کر دیتا ہے۔چلیےقرآن وحدیث کی روشنی میں ذرا تفصیل کے ساتھ اسی جنت کی سیر کو چلتے ہیں۔

سب سے پہلا مرحلہ تو وہ ہے جب کہ جنتی جنت میں داخل ہوں گے۔ ذرا یہ نظارہ دیکھیے:

•جنتیوں کے جنت میں داخلے کا منظر
کچھ احادیث مبارکہ کے مطابق جنت میں داخل کیے جانے سے پہلے ہی اہل جنت کو ابدی حسن،صحت و جوانی عطا کی جائے گی، گناہوں سے پاک کر دیا جائے گا، ان کی برائیوں کو ان سے دور کر دیا جائے گا، کسی کے دل میں جو بھی نفرت و کدورت ہو گي اسے مٹا دیا جائے گا اور تھوک، بلغم،پیشاب وغیرہ کی گندگیوں کو دور کردیا جائے گا اور یوں جنتی سلامتی کے اس گھر میں اس طرح داخل ہوں گے کہ حسین و جوان صحت مند ہوں گے، گندگیوں، گناہوں،برائیوں ، نفرتوں، کدورتوں سے پاک ہوں گے، پسینہ مشک جیسا خوشبودار ہو گا اور ان کے دل آلائشوں سے ایسے صاف ہوں گے کہ نرمی میں پرندوں کے دلوں کے مانند ہوں گے۔

غور فرمائیے کیا اللہ کے لیے یہ ناممکن ہے؟کیا وہ اپنی مخلوق کی ساخت میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا؟ آج اگر اللہ ہی کے حکم سے ہماری جوانی دس یا بیس برس کی ہے تو کیا خدا اس مدت کو بڑھا کر ابدی و سرمدی نہیں کر سکتا؟ آج اگر ہماری جسمانی نظام ٹھیک کام کر رہے ہیں تو اس میں ہمارا کیا کمال ہے یا ہمارا کتنا عمل دخل ہے؟ ہم نے تو اپنے ہی پہلو میں وہ دل بھی نہیں دیکھا جو ہمارے بہت ہی قریب ہے ، کبھی آرام نہیں کرتا، سوتا نہیں، ہم سوتے جاگتے ہیں اوروہ اللہ کے حکم سے کتنے ہی برس تک مسلسل اپنا کام سرانجام دیتا ہے۔ کیا اللہ کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اسے چند برس کے بجائے لامحدود مدت تک کام کرنے کا اہل بنا دیے؟کیا خد اکے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ ہمارے جسمانی نظاموں میں کچھ تبدیلی فرماسکے؟اگراللہ پھول کو خوشبو دیتا ہےتو کیا پسینے کو نہیں دے سکتا؟ بلی(کیوں نہیں) اللہ تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔اور بے شک ایسا ہی ہونے والاہے جیسا رب نے ہمیں بتا دیا ہے۔

اب اس موقع پرقرآن حکیم ہمارے سامنے جنتیوں کے جنت میں داخلے کا منظر پیش کرتا ہے اور بتلاتا ہے کہ فرشتےہرطرف سے ان کے استقبال کے لیے آئيں گے،تحیات اور سلام پیش کریں گے اور اس کامیابی پرمبارکباد دیں گے۔ جنت کے دروازے ان کے لیے پہلے ہی کھولے جا چکے ہوں گے اور جنتیوں سے کہا جائے گا کہ بلاخوف و خطر سلامتی کے ساتھ ہمیشہ کے لیے جنت میں داخل ہو جاؤ۔اوریہ نعمت پانے پرجنتی لوگ اللہ کا شکر ادا کریں گے۔

اللھم انا نسالک الجنۃونعوذبک من عذاب النار
(اے اللہ ہم تجھ سے جنت کا سوال کرتے ہیں اور آگ کے عذاب سے تیری پناہ مانگتے ہیں)

سورة الزمر ( 39 )
وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا حَتَّى إِذَا جَاؤُوهَا وَفُتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلَامٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَالِدِينَ {73} وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي صَدَقَنَا وَعْدَهُ وَأَوْرَثَنَا الْأَرْضَ نَتَبَوَّأُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ نَشَاء فَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ {74}
اور جو لوگ اپنے رب کی نافرمانی سے پرہیز کرتے تھے انہیں گروہ درگروہ جنت کی طرف لے جایا جائے گا۔ یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے، اور اس کے دروازے پہلے ہی کھولے جا چکے ہوں گے، تو اُس کے منتظمین اُن سےکہیں گےکہ“سلام ہو تم پر، بہت اچھے رہے، داخل ہو جاؤ اِس میں ہمیشہ کے لیے۔” اور وہ کہیں گے“شکر ہے اللہ کا جس نے ہمارے ساتھ اپنا وعدہ سچا کر دکھایا اور ہم کو زمین کا وارث بنا دیا، اب ہم جنت میں جہاں چاہیں اپنی جگہ بنا سکتے ہیں۔”پس بہترین اجر ہے عمل کرنے والوں کےلیے۔

سورة الرعد ( 13 )
۔۔۔ وَالمَلاَئِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِم مِّن كُلِّ بَابٍ {23} سَلاَمٌ عَلَيْكُم بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ {24}
ملائکہ ہر طرف سے اُن کے استقبال کے لیے آئيں گے اور اُن سے کہیں گے“تم پر سلامتی ہے ، تم نے دنیا میں جس طرح صبر سے کام لیا اُس کی بدولت آج تم اِس کے مستحق ہوئےہو”_______پس کیا ہی خوب ہے یہ آخرت کا گھر!

سورة إبراهيم ( 14 )
وَأُدْخِلَ الَّذِينَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ تَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلاَمٌ {23}
جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں وہ ایسے باغوں میں داخل کیے جائیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ وہاں وہ اپنے رب کے اذن سے ہمیشہ رہیں گے، اور وہاں ان کا استقبال سلامتی کی مبارکباد سے ہو گا۔

سورة الفرقان ( 25 )
۔۔۔وَيُلَقَّوْنَ فِيهَا تَحِيَّةً وَسَلَامًا {75} خَالِدِينَ فِيهَا حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا {76}
آداب و تسلیمات سے اُن کا استقبال ہو گا۔ وہ ہمیشہ ہمیشہ وہاں رہیں گے۔ کیا ہی اچھا ہے وہ مستقر اور وہ مقام۔

اس استقبال اور مبارکباد کے ساتھ کہا جائے گا کہ سلامتی کے ساتھ بے خوف و خطر جنت میں داخل ہو جاؤ:

سورة الحجر ( 15 )
إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ {45} ادْخُلُوهَا بِسَلاَمٍ آمِنِينَ {46}
یقیناًمتقی لوگ باغوں اور چشموں میں ہوں گے اور اُن سے کہا جائے گا کہ داخل ہو جاؤ ان میں سلامتی کے ساتھ بے خوف و خطر۔

سورة الزخرف ( 43)
يَا عِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ وَلَا أَنتُمْ تَحْزَنُونَ {68} الَّذِينَ آمَنُوا بِآيَاتِنَا وَكَانُوا مُسْلِمِينَ {69} ادْخُلُوا الْجَنَّةَ أَنتُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ تُحْبَرُونَ {70}
اُس روز اُن لوگوں سے جو ہماری آیات پر ایمان لائے تھے اور مطیعِ فرمان بن کر رہے تھے کہا جائےگا کہ“اے میرے بندو، آج تمہارے لیے کوئی خوف نہیں اور نہ تمہیں کوئی غم لاحق ہوگا۔ داخل ہو جاؤجنت میں تم اور تمہاری بیویاں، تمہیں خوش کردیا جائے گا۔”

فطرت انسانی نے ہمیشہ باغات، ہریالی ،سبزے، درختوں، پھولوں اور بہتے پانی کو پسند کیا ہے اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ جس انسان کو اس کی طاقت، وسائل اور دولت ملی تو اس نےایسا ہی کرنے کی کوشش کی۔ بڑےبڑے بادشاہوں نے دریاؤں کے کنارے شہر آبادکیے اور اپنے محلوں کے گردوپیش کو باغات، پھولوں اور بہتے پانی سے سجانے کی کوشش کی۔ یہ حقیقتا انسانی فطرت کی وہ مانگ ہے جو اللہ نے جنت کی صورت میں پوری کی ہے اور دنیوی زندگی کو آزمائش قرار دے کرجنت کو پانے کا معیار اور طریقہ کاربتلا دیا ہےلیکن انسان اسے دنیا میں ہی پانے کی خواہش کرتا ہے اور جب بھی اسے موقع ملتا ہے تو اپنے لیے یہی آسائشیں تلاش کرتا ہے۔حالانکہ یہاں اول تو وہ نعمت اس درجے میں مل ہی نہیں سکتی اور کچھ تھوڑا بہت مل بھی جائے تو کیا، کوئي اور زوال نہ بھی آئے توبالآخر موت آ کران ساری نعمتوں کو مٹا دیتی ہے۔خوش نصیب تو درحقیقت وہی لوگ ہیں جو اللہ کی رحمت سے جنت کے مستحق ہو جائیں۔

جنت کے لفظی معنی ہی "باغ"کے ہیں اور پوری کی پوری جنت باغات کا مجموعہ گویا ایک وسیع و عریض باغ ہی ہے جس کے نیچے نہریں بہتی ہوں گي۔آئیے جنت کے باغات کی کیفیت ، اس کے درختوں کی چھاؤں،جنت کے گھروں، اس کے چشموں اوراس کی نہروں کے بارے میں جانتے ہیں۔

•گھنے باغات اور دور تک پھیلی ہوئی چھاؤں

سورة النساء (4)
وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا لَّهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَنُدْخِلُهُمْ ظِـلاًّ ظَلِيلاً {57}
اور جن لوگوں نےہماری آیات کو مان لیا اور نیک عمل کیے اُن کو ہم ایسے باغوں میں داخل کریں گےجن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گي، جہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور ان کو پاکیزہ بیویاں ملیں گی اور انہیں ہم گھنی چھاؤں میں رکھیں گے۔

سورة المرسلات ( 77 )
إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلَالٍ وَعُيُونٍ {41}
متقی لوگ آج سایوں اور چشموں میں ہیں۔

سورة الرعد ( 13 )
۔۔۔أُكُلُهَا دَآئِمٌ وِظِلُّهَا ۔۔۔ {35}
اس (جنت)کے پھل دائمی ہیں اور اس کا سایہ لازوال۔

سورة الواقعة ( 56 )
وَظِلٍّ مَّمْدُودٍ {30} وَمَاء مَّسْكُوبٍ {31}
اور دور تک پھیلی ہوئی چھاؤں ، اور ہر دم رواں پانی۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جنت میں ایک درخت ایسا ہے کہ جس کے سایہ میں ایک سوار سو سال تک چلےتو بھی طے نہ کر سکے ۔
(صحیح بخاری،جلد دوم ،باب مخلوقات کی ابتدا کا بیان، حدیث486)

بڑے درخت فطرتی حسن کی علامت ہوتے ہیں اور ان کی خوبصورتی اور ان کی چھاؤں میں بیٹھنے کا لطف جداگانہ ہی ہوتا ہے۔ان سحرانگیزلمحات کے بارے میں آپ کسی ایسے فرد سے پوچھ دیکھیےجو کہیں گاؤں یا پہاڑوں کا رہنے والا ہو اور جس نے کبھی کہیں بڑے درختوں کی گھنی چھاؤں میں بیٹھ کر کچھ وقت گزارا ہو۔
اندازہ کر لیجیے کہ اللہ کی پیدا کی ہوئي اس جنت میں کتنے کتنےبڑے درخت ہیں اور کیسی گھنی اور دور تک پھیلی ہوئی چھاؤں ہے اور نجانے انہی درختوں پر کہیں پرندوں کے گھونسلوں کی مانند جنتیوں کے محل بھی ہوں۔(واللہ اعلم)

اللھم انا نسالک الجنۃونعوذبک من عذاب النار
(اے اللہ ہم تجھ سے جنت کا سوال کرتے ہیں اور آگ کے عذاب سے تیری پناہ مانگتے ہیں)

•جنت کی نہریں اور دریا

سورة البروج ( 85 )
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ {11}
جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے، یقیناً اُن کے لیے جنت کے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گي، یہ ہے بڑی کامیابی۔

سورة محمد ( 47 )
مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ فِيهَا أَنْهَارٌ مِّن مَّاء غَيْرِ آسِنٍ وَأَنْهَارٌ مِن لَّبَنٍ لَّمْ يَتَغَيَّرْ طَعْمُهُ وَأَنْهَارٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشَّارِبِينَ وَأَنْهَارٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّى وَلَهُمْ فِيهَا مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَمَغْفِرَةٌ مِّن رَّبِّهِمْ كَمَنْ هُوَ خَالِدٌ فِي النَّارِ وَسُقُوا مَاء حَمِيمًا فَقَطَّعَ أَمْعَاءهُمْ {15}
پرہیزگار لوگوں کے لیے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان تو یہ ہے کہ اس میں نہریں بہ رہی ہوں گی نتھرے ہوئے پانی کی، نہریں بہ رہی ہوں گی ایسے دودھ کی جس کے مزے میں ذرا فرق نہ آیا ہو گا،نہریں بہ رہی ہوں گی ایسی شراب کی جو پینے والوں کے لیے لذیذ ہو گی، نہریں بہ رہی ہوں گی صاف شفّاف شہد کی۔ اُس میں اُن کے لیے ہر طرح کے پھل ہوں گے اور اُن کے رب کی طرف سے بخشش۔ (کیا وہ شخص جس کے حصہ میں یہ جنت آنے والی ہے) اُن لوگوں کی طرح ہو سکتا ہےجو جہنم میں ہمیشہ رہیں گے اور جنہیں ایسا گرم پانی پلایا جائےگا جو ان کی آنتیں تک کاٹ ڈالے گا۔

یہ تو محض چند ہی آیا ت ہیں اسی مضمون کے ساتھ آپ کوبے شمار آیات مل جائیں گی جن میں جنت کے باغات کا تذکرہ ہے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گي۔عربی زبان میں نہر کے معنی دریا کے ہیں۔اندازہ کر لیجیے کہ وہاں کاکوئی باغ ایسا نہیں کہ جس میں یہ نہریں نہ بہہ رہی ہوں۔دنیا میں بھی حسین ترین خطے وہی ہیں جہاں بہتا پانی ہو اور وافر ہو۔ وہ کیا ہی حسین سرزمین ہو گي جہاں ایک طرف تو گھنے سر سبز باغات ہیں اور انہی ہرے ہرے باغات میں ، صاف ستھرے پانی،سفید رنگ کے دودھ ، شہد اورقسم قسم کے رنگوں کے طرح طرح کے شربتوں کے دریا بہتے ہوں گے۔کیا یہ نظارہ بھی چشم تصور میں لایا جا سکتا ہے؟اور (واللہ اعلم)ہو سکتا ہے کہ اس خلاق العلیم ہستی نے ایسے خاص درخت بھی پیدا کر رکھے ہوں کہ جن کو سیراب بھی دودھ، شہد اور شربتوں ہی سے کیا جاتا ہو اور جن کے پھلوں میں بھی ان کا اثر جاتا ہو۔سوچیے کہ اگر ایسا ہو توان درختوں کےپھلوں کا کیسا ذائقہ ہو گا جو دودھ اور شہد اور شربتوں سے سیراب کیے جاتے ہوں۔ ہمیں اللہ نے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت عطا فرمائی ہے ذرا غور کیجیے کہ جو خدا پانی کے دریا بہا سکتا ہے کیا اس کی قدرت کاملہ دودھ، شہد اور شربتوں کے دریا نہیں بہا سکتی۔کیوں نہیں۔یہ ساری چیزیں بھی تو اسی کی پیدا کی ہوئی ہیں جو کم مقدار میں پیدا کرنے کی قدرت رکھتا ہے اسے مقدار بڑھانے میں کتنی دیر لگے گی اور اس کے پاس کسی کام کو کرنے کے سینکڑوں ،لاکھوں نہیں ان گنت طریقے ہیں۔جس نے یہاں دودھ جانوروں کے تھنوں سے اور شہد ایک مکھی کے پیٹ سے نکالا ہے وہ یقینا جب چاہے تو دودھ، شہد اور شربتوں کےدریا بھی ویسے ہی بہا دے گا جیسے آج ہماری آنکھوں کے سامنے اس کے پانی کے دریا بہتے ہیں۔

بخاری ہی کی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کردہ روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جب اللہ سے مانگو تو فردوس مانگو کیونکہ وہ جنت کا افضل و بلند ترین حصہ ہے۔ اسکے اوپر(خدائے) رحمان کا عرش ہے اور اسی میں سےجنت کی نہریں پھوٹتی ہیں۔

اب ایک نظر جنت کےچشموں پر ڈال دیجیے کہ جن سے خاص قسم کے مشروبات نکلتے ہیں اوران میں سے بعض کی شاخیں مومنین کے گھروں میں بھی جاتی ہیں۔اور قرآن کا حکم یہ ہے کہ اگر مقابلہ کرنا چاہتے ہو تو ان نعمتوں کےحاصل کرنے میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کرو:

• جنت کے چشمے

سورة الذاريات (51 )
إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ {15} آخِذِينَ مَا آتَاهُمْ رَبُّهُمْ إِنَّهُمْ كَانُوا قَبْلَ ذَلِكَ مُحْسِنِينَ {16}
بےشک متقی لوگ اس روز باغوں اور چشموں میں ہوں گے ، جو کچھ ان کا رب انہیں دے گا اسے خوشی خوشی لے رہے ہوں گے ۔ وہ اس دن کے آنے سے پہلے نیکو کار تھے۔

سورة الغاشية ( 88 )
فِيهَا عَيْنٌ جَارِيَةٌ {12}
اُس(جنت) میں چشمے رواں ہوں گے

سورة الإنسان ( 76 )
وَيُسْقَوْنَ فِيهَا كَأْسًا كَانَ مِزَاجُهَا زَنجَبِيلًا {17} عَيْنًا فِيهَا تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا {18}
ان کو وہاں ایسی شراب کے جام پلائے جائیں گے جس میں سونٹھ کی آمیزش ہو گی، یہ جنت کا ایک چشمہ ہو گا جس سَلسبیل کہا جاتا ہے۔

سورة الإنسان ( 76 )
إِنَّ الْأَبْرَارَ يَشْرَبُونَ مِن كَأْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُورًا {5} عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا عِبَادُ اللَّهِ يُفَجِّرُونَهَا تَفْجِيرًا {6}
نیک لوگ( جنت میں)شراب کے ایسے ساغر پیئیں گے جن میں آبِِ کافور کی آمیزش ہو گی، یہ ایک بہتا چشمہ ہو گا جس کے پانی کے ساتھ اللہ کے بندے شراب پیئیں گے اور جہاں چاہیں گے بسہولت اس کی شاخیں نکال لیں گے۔

سورة المطففين ( 83 )
إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍ {22} عَلَى الْأَرَائِكِ يَنظُرُونَ {23} تَعْرِفُ فِي وُجُوهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِيمِ {24} يُسْقَوْنَ مِن رَّحِيقٍ مَّخْتُومٍ {25} خِتَامُهُ مِسْكٌ وَفِي ذَلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ {26} وَمِزَاجُهُ مِن تَسْنِيمٍ {27} عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ {28}
بے شک نیک لوگ بڑے مزے میں ہوں گے، اونچی مسندوں پر بیٹھے نظارے کر رہے ہوں گے، ان کے چہروں پر تم خوشحالی کی رونق محسوس کرو گے۔ ان کو نفیس ترین سر بند شراب پلائی جائے گی جس پر مشک کی مہر لگی ہوگی۔جو لوگ دوسروں پر بازی لے جانا چاہتے ہوں وہ اِس چیز کو حاصل کرنےمیں بازی لے جانے کی کوشش کریں۔ اُس شراب میں تسنیم کی آمیزش ہوگی، یہ ایک چشمہ ہے جس کے پانی کے ساتھ مقرب لوگ شراب پیئیں گے۔

•پاکیزہ قیام گاہیں اور منزل پر منزل بنے ہوئے مکانات
انسانوں کو ہمیشہ سے ہی منزل بہ منزل بنے مکانات اچھے لگے ہیں، بادشاہوں نے بھی اونچے اونچے محل تعمیر کیے اوربادشاہوں نے بھی اونچے اونچے محل تعمیر کیے اوربالائی منزلوں کو رہائش کے لیے زیادہ پسندکیا۔ آج بھی جو لوگ استطاعت رکھتے ہیں اور گھر بنواتے ہیں تو بیڈرومز بالائي منزلوں پر ہی رکھتے ہیں ۔قرآن یہ نقشہ پیش کرتا ہےکہ جنت کے باغوں اورنیچے بہتی نہروں میں مومنین کی پاکیزہ قیام گاہیں اور محل منزل بہ منزل بنے ہوئے ہوں گے۔آیات ملاحظہ ہوں:

سورة العنكبوت ( 29 )
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُبَوِّئَنَّهُم مِّنَ الْجَنَّةِ غُرَفًا تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا نِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ {58}
جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں ان کو ہم جنت کی بلند و بالا عمارتوں میں رکھیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہاں وہ ہمیشہ رہیں گے، کیا ہی عمدہ اجر ہے عمل کرنے والوں کے لیے۔

سورة الزمر ( 39 )
لَكِنِ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ لَهُمْ غُرَفٌ مِّن فَوْقِهَا غُرَفٌ مَّبْنِيَّةٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ وَعْدَ اللَّهِ لَا يُخْلِفُ اللَّهُ الْمِيعَادَ {20}
البتہ جو لوگ اپنے رب سے ڈر کر رہےاُن کے لیے بلند عمارتیں ہیں منزل پر منزل بنی ہوئی، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے، اللہ کبھی اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔

سورة التوبة ( 9 )
وَعَدَ اللّهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّهِ أَكْبَرُ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ {72}
مومن مردوں اور عورتوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ انہیں ایسے باغ دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ اُن سدا بہار باغوں میں اُن کےلیے پاکیزہ قیام گاہیں ہوں گی، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ کی خوشنودی انہیں حاصل ہو گی۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔

سورة الصف (61)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنجِيكُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ {10} تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ {11} يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَيُدْخِلْكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ {12}
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، میں بتاؤں تم کو وہ تجارت جو تمہیں عذابِِ الیم سے بچا دے؟ ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسولؐ پر، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے۔ یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔ اللہ تمہارے گناہ معاف کر دے گا، اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمہیں عطا فرمائے گا۔ یہ ہے بڑی کامیابی۔

اورمحل بھی سونے، چاندی، ہیروں ، موتیوں، زمرد ،یاقوت اور نجانے کس کس چیز کے بنے ہوئے۔ سوچیے جس خدا نے اتنی زیادہ مٹی ، ریت اور پتھر ہماری زمین پر پیدا کر دی کیا وہ سونے، چاندی اور ہیرے جواہرات کو اتنی مقدار میں پیدا نہیں کر سکتا۔جنت میں تو ایک ایک موتی اور ہیرے سے بنی قیام گاہ کا عرض میلوں تک ہوگا:

سیدنا عبداللہ بن قیسؓ سے ہی مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :’’ جنت میں ایک خواب دار موتی کا خیمہ ہے اور اس خیمہ کا عرض ساٹھ میل کا ہے۔"(صحیح بخاری)

(جاری ہے)
Aurangzeb Yousaf
About the Author: Aurangzeb Yousaf Read More Articles by Aurangzeb Yousaf: 23 Articles with 49174 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.