ربّ ِ لَم یَزل کا لاکھ لاکھ شکر ہے جس نے ہمیں اِس
ماہِ مبارک کی برکتوں سے فیض یاب ہونے کا ایک اور موقع عطا فرمایا ۔ یہ وہ
ماہِ مبارک ہے جس کی ایک رات (شبِ قدر) ہزار مہینوں کی عبادات سے بھی زیادہ
وقیع ہے ۔ آج یکم رمضان المبارک ہے اور ہر عاقل و بالغ مسلمان رَبّ ِ رحیم
کی رحمتیں سمیٹنے کے لیے کمر بستہ ہے ۔ روزہ احکامِ شریعہ میں سب سے طویل
مدت پر محیط عبادت ہے، جس کا مقصد تقویٰ اور پرہیز گاری اختیار کر کے بندگی
کا ثبوت فراہم کرناہے۔ اہلِ ایمان میں سے جو کوئی بھی یہ ایک ماہ احکامِ
الٰہی کے عین مطابق گزار لیتا ہے وہ گویا آزمائش کی بھٹی میں تپ کر کندن بن
جاتا ہے اور پھر سال کے باقی گیارہ ماہ کوئی شیطانی یا طاغوتی طاقت اُس پر
اثر انداز نہیں ہو سکتی۔روزے کو یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ ا س کا اجر اﷲ
تعالیٰ نے اپنے ذمے لیا ہے۔ حضورِ اکرم ؐ کا ارشاد ہے۔ ’’آدمی کا ہر عمل اﷲ
کے ہاں بڑھتا ہے۔ ایک نیکی دس گُنا سے سات سو گُنا تک پھیلتی ہے، مگر اﷲ
فرماتا ہے کہ روزہ اس سے مستثنیٰ ہے۔ وہ میری مرضی پر موقوف ہے۔ جتنا چاہوں
بدلہ دوں‘‘۔
روزہ صرف بھوکا پیاسا رہنے کا نام نہیں بلکہ یہ تو سلسلۂ اطاعت و بندگی کا
ایک جزو ہے جس میں بندہ مومن کا جسدِ خاکی، اُس کا دل و دماغ، زبان، ہاتھ
حتیٰ کہ ایک ایک عضو مشیتِ الٰہی کے تابع ہو جاتا ہے۔ اﷲ کے بندے تو وہ ہیں
جن کے پہلو راتوں کو بستروں سے الگ ہو جاتے ہیں اور وہ اٹھتے بیٹھتے، چلتے
پھرتے اُسی کے نام کی تبلیغ کرتے ہیں۔ یہی تو وہ لوگ ہیں جن کے فہم وشعور
کی بیداری اور اذہان وقلوب کی استواری انہیں کشاں کشاں اپنے رب کی طرف لے
جاتی ہے اور یہی روزے کی اصل روح اور مطلوب ومقصود ِ خداوندی ہے۔
روزہ نفسِ امارہ پر قابو پانے، اپنی خواہشات کو رب العزت کے احکام کا پابند
کرنے، اشکِ ندامت بہانے اور راتوں کے پچھلے پہرمعبودِ حقیقی کے حضور
گڑگڑانے کا نام ہے۔ جب کوئی جہد مسلسل کے ذریعے وہ سب کچھ پا لیتا ہے تو
پھر اس کا نفسِ مطمئنہ اپنے رب کی طرف چل نکلتا ہے لیکن اگر وہ اپنی نفسانی
خواہشات پر قابو نہ پا سکا تو بھوکا پیاسا رہنے کا کچھ فائدہ نہیں۔ اب
چونکہ رحمتوں، برکتوں اور مغفرتوں کو اپنے جلومیں لیے ماہِ صیام آ چکا اس
لیے ہر عاقل وبالغ مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اس ماہِ مبارک کے استقبال کی
بھرپور تیاری کرے اور تیاری یہ ہے کہ ماہِ صیام کو اس کی تمام حدود و قیود
کے ساتھ اپنانے کے لیے انسان ذہنی اور جسمانی طور پر تیار ہو جائے۔ اس ماہِ
مبارک کی فضیلت قرآن مجید فرقانِ حمید میں یوں بیان کی گئی ہے ’’رمضان وہ
مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت اور ایسی
واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق
کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔لہٰذا اب جو شخص اس مہینے کو پائے اس پر لازم ہے
کہ اس مہینے کے پورے روزے رکھے اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو تو وہ
دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔ اﷲ تمہارے ساتھ نرمی چاہتا ہے
سختی نہیں۔ اس لیے یہ طریقہ تمہیں بتایا جا رہا ہے کہ تم روزوں کی تعداد
پوری کر سکواور جس ہدایت سے اﷲ نے تمہیں سرفراز کیا ہے، اس پر اﷲ کی
کبریائی کا اظہار واعتراف کرو اور شکر گزار بنو‘‘۔ (سورۃ البقرہ ۔۸۵) اس
آیت مبارکہ میں واضح طور پر بتا دیا گیا کہ ربِ کریم کی کبریائی کا اظہارو
اعتراف اور زندگی جیسی نعمت کے حصول کی شکرگزاری کا تقاضا ہے کہ احکامِ
الٰہی پر سرِتسلیم خم کیا جائے کہ ’’عبدیت‘‘ نام ہی سرِتسلیم خم کرنے کاہے
لیت ولعل کا نہیں۔ حضرت سلیمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ ماہِ شعبان کے آخر
میں آپؐ نے خطبہ دیا جس میں فرمایا ’’اے لوگو! تم پر ایک عظمت اور برکت
والا مہینہ سایہ فگن ہو رہا ہے۔ اس مبارک ماہ کی ایک رات (شب قدر) ہزار
مہینوں سے بہتر ہے۔ اس مہینے کے روزے اﷲ تعالیٰ نے فرض کیے ہیں اور اس کی
راتوں میں بارگاہِ ربی میں کھڑا ہونے کو نفل عبادت مقرر کیا ہے۔ یہ صبر کا
مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔یہ ہمدردی وغم خواری کا مہینہ ہے اور یہی
وہ مہینہ ہے جس میں مومنوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ جس نے اس مہینے
میں کسی روزہ دار کو اﷲ کی رضا کے لیے روزہ افطار کروایا تو یہ عمل اس کے
لیے گناہوں کی مغفرت اور دوزخ کی آگ سے آزادی کا ذریعہ ہو گا اور اُس کو
روزے دار کے برابر ثواب دیا جائے گا اور روزے دار کے ثواب میں کوئی کمی نہ
کی جائے گی۔ جو شخص اس مہینے میں اپنے خادم یا ملازم کے کام میں کمی کر ے
گا، رب رحیم اس کی بخشش فرما دے گا‘‘۔عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے
رسولِ مقبولؐ کے الفاظ پر غور کیجیے کہ اس ماہِ مبارک کی کتنی فضیلت ہے ۔یہی
وہ رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے جس میں درِ رحمت وا ہوتے ہیں اور شیاطین
جکڑ دیے جاتے ہیں۔یہی وہ ماہِ مبارک ہے جس میں رزق میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ
ماہِ صیام ہی تو ہے جس کے بارے میں حضورِ اکرمؐ نے فرمایا ’’روزے دار کی
افطار کے وقت ایک دعا بھی مسترد نہیں ہوتی ‘‘اکثر احکامِ الٰہی کی طرح روزے
کی فرضیت بھی بتدریج آئی۔ حضورِ اکرمؐ نے ابتدامیں مسلمانوں کو ہر ماہ تین
روزے رکھنے کی ہدایت فرمائی مگر یہ نفلی روزے تھے فرض نہیں۔ پھر ۲ہجری میں
’’روزوں‘‘ کا حکم نازل ہوا لیکن اس میں یہ رعایت دی گئی کہ جو روزہ رکھنے
کی سکت و طاقت رکھتے ہوں لیکن نہ رکھیں تو وہ اس کے عوض ایک مسکین کو کھانا
کھلا دیں۔ پھر دوسرے حکم میں یہ رعایت منسوخ کر دی گئی لیکن مریض، مسافر،
حاملہ، دودھ پلانے والی عورتوں اور ایسے بوڑھے افراد جن میں روزہ رکھنے کی
طاقت نہ ہو، ان سب کے لیے یہ رعایت برقرار رکھی گئی۔
مریض اور سفر پر جانے والوں کے لیے یہ رعایت رکھی گئی ہے کہ مریض شفا کے
بعد اور مسافر سفر کے بعد دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کر سکتا ہے۔
ایک دفعہ دورانِ سفر ایک صحابیؓ غش کھا کر گر پڑے۔ لوگ ان کے گرد اکٹھے ہو
گئے۔ حضورِ اکرمؐ نے دریافت فرمایا ’’کیا معاملہ ہے؟‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا
کہ یہ روزے سے ہے۔ آپؐ نے فرمایا ’’یہ نیکی ہرگزنہیں‘‘۔ یعنی مسافر روزہ
رکھ کر خواہ مخواہ تکلیف اٹھائے جبکہ اُسے رعایت بھی دی جا چکی ہو۔ اسی طرح
فتح مکہ کے موقع پر آپؐ نے ارشاد فرمایا ’’دشمن سے مقابلہ درپیش ہے، اس لیے
روزہ چھوڑ دو تاکہ تمہیں لڑنے کی قوت حاصل رہے‘‘۔
ماہِ صیام دراصل ربِ لم یزل کا طریقِ تربیت ہے۔یہ ایسا نظام ہے جو انسان کو
پورا مہینہ ڈسپلن کی تربیت دیتا رہتا ہے۔ یہ ڈسپلن دینِ مبین میں ہر جگہ
جاری و ساری نظر آتا ہے اور انسان کی معاشی و معاشرتی زندگی کے ہر پہلو کا
احاطہ کرتے ہوئے طریقِ زندگی سکھاتا ہے۔روزہ طلوعِ فجر سے غروبِ آفتاب تک
حلال چیزوں کو بھی حرام قرار دے کر انسان کو پابندی اور بندگی کا سبق
سکھاتا ہے۔ جونہی سورج غروب ہوتا ہے تو وہ ہر چیز جو چند لمحے پہلے تک حرام
ہوتی ہے،وہی حلال قرار دے دی جاتی ہے۔گویا یہ امتحان ہے کہ کون اُس کا بندہ
ہے اور کون باغی۔جب بندہ ٔ مومن اس حکم ربیّ کو بلا چون و چرا تسلیم کر
لیتا ہے تو پھر ربِ لم یزل کی آغوشِ رحمت وا ہو جاتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا:’’اﷲ
تعالیٰ رمضان میں عرش اُٹھانے والے فرشتوں کو حکم دیتے ہیں کہ اپنی عبادت
چھوڑ دو اور روزہ رکھنے والوں کی دعاؤں پر آمین کہو‘‘۔ (ترمذی)
روزے کی فضیلت کا اندازہ اس حدیث مبارکہ سے بھی لگایا جا سکتا ہے ۔آپؐ نے
فرمایا:’’روزے دار جنت میں ایک مخصوص دروازے سے داخل ہوں گے جس کا
نام’’ریان‘‘ ہے۔ جب روزے دار اس دروازے سے داخل ہو چکیں گے تو یہ دروازہ
بند کر دیا جائے گا۔پھر اس دروازے سے کوئی نہیں جاسکے گا‘‘۔ (بخاری) سحری
کے بارے میں حضورِ اکرمؐ کا فرمان ہے ’’اگر تم میں سے کوئی شخص سحری کھا
رہا ہو اور اذان کی آواز آ جائے تو فوراً کھانا نہ چھوڑے بلکہ اپنی حاجت
بھر کھا پی لے‘‘۔ سحری میں تو سکون سے حاجت بھر کھانے پینے کا حکم ہے لیکن
افطاری میں جلدی کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ آپؐ سورج ڈوبتے ہی حضرت بلالؓ کو
آواز دیتے ’’لا ہمارا شربت‘‘۔ حضرت بلالؓ عرض کرتے ’’یا رسول اﷲ! ابھی تو
دن چمک رہا ہے‘‘۔ آپؐ فرماتے ’’جب رات کی سیاہی مشرق سے اُٹھنے لگے تو روزے
کا وقت ختم ہو جاتا ہے‘‘۔
یوں تو روزہ ایک انفرادی عبادت ہے کہ یہ معاملہ اﷲ اور اس کے بندے کے مابین
ہوتا ہے لیکن درحقیقت یہ ایک ایسی اجتماعی اور معاشرتی عبادت ہے جو نظم و
ضبط پیدا کرتی ہے۔ سحری کے اوقات میں لوگ ایک ہی وقت میں سحری کرتے ہیں اور
وقت مقررہ پر کھانا پینا بند کر دیتے ہیں۔پھر سبھی پورا دن بھوکے پیاسے
رہتے ہیں اور افطاری کے مخصوص اوقات میں اکٹھے مل کر افطاری کرتے ہیں۔کیا
یہ نظم و ضبط کی انتہا نہیں کہ شدتِ عطش اور آتشِ شکم کے باوجود کھانا اور
مشروب سامنے دھرا ہوتا ہے لیکن مجال ہے جو افطاری کے مقررہ وقت سے پہلے
ہاتھ کھانے کی طرف بڑھے ۔کروڑوں لوگوں کے نظم و ضبط کا یہ رفیع الشان منظر
کہیں اور نظر آتا ہے نہ آسکتا ہے۔ جب پورا ماہ لوگ ایک وقت میں سحری و
افطاری کرتے ہیں، مساجد نماز و تراویح سے بھر جاتی ہیں تو اس سے اجتماعی
عبادت کا تاثر ابھرتا ہے جو معاشرتی عبادت میں ڈھل کر افہام و تفہیم اور
محبت و یگانگت کی فضا پیدا کرتاہے۔
|