جن صہیونی طاقتوں نے اپنے مخصوص مفادات کے حصول کیلئے
نائن الیون کاڈرامہ رچایاتھا،اس کی تفصیلات پرخودامریکامیں درجنوں کتب
اورفلمیں سامنے آچکی ہیں ۔ اس سازش کے مرکزی کرداروں کوکٹہرے میں لانے کی
بجائے ابھی تک قصرسفید کے فرعون ان تمام رپورٹوں کواپنی ناکامی کے
دبیزپردوں میں چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔سابق صدر اوباما نے اقوام عالم سے
وعدہ کیاتھاکہ وہ ٢٠١٦ء تک اپنے آخری فوجی کو بھی افغانستان سے نکال لے
گاجبکہ افغانستان میں امریکی فوجی کمانڈر نے پینٹاگون سے افغانستان کیلئے
مزید تین ہزار امریکی فوجی بھیجنے کی درخواست کی ہے۔امریکی وزیر دفاع جیمز
میٹس نے کہا کہ وہ افغانستان میں نئے فوجی منصوبے کیلئے سفارشات کو حتمی
شکل دے رہے ہیں اور وہاں اتحادی فوجیوں کی ضرورت ہے۔ ناروے کی وزیر دفاع
ارکسن سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہم اپنے اتحادیوں سے بھی بات کریں
گے۔ امریکی میڈیا نے رپورٹ جاری کی تھی کہ پینٹاگون نے افغانستان میں مزید
تین سے پانچ ہزار فوجی بھیجنے کے لئے صدر ٹرمپ کو تجویز دی ہے۔ موجودہ
واقعات وحالات سے واضح پتہ چل رہاہے کہ امریکا افغانستان سے انخلاء کی
بجائے مختلف قسم کے حالات پیداکرکے اپنے قیام کاجوازڈھونڈ رہاہے ۔ یہی وجہ
ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے پچھلے ماہ ننگرہارمیں داعش کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے
کی آڑمیں سب سے بڑاغیرجوہری بم''بموں کی ماں' 'گراکراس خطے کے پڑوسیوں
ممالک کواپنے خطرناک عزائم سے آگاہ کرتے ہوئے امن دشمنی کاواضح پیغام دے
دیاہے۔
یادرہے کہ پچھلے سال افغانستان میں قیام امن کیلئے حزب اسلامی کے سربراہ
گلبدین حکمت یارکے ساتھ مذاکرات کے کئی مراحل کے بعدواپسی کیلئے آمادہ
کیاگیاتھا۔گلبدین حکمت یارنے مسلسل کئی ماہ کی خاموش کاوشوں کے
بعدبالآخرکابل کے غازی اسٹیڈیم میں لاکھوں افرادکے اجتماع میں اپنے اگلے
لائحہ عمل کااعلان کرتے ہوئے طالبان کواپنابھائی قرار دیتے ہوئے ان سے
تعاون کی جودرخواست کی تھی بالآخرطالبان نے اس پرمثبت جواب دیتے ہوئے سیاسی
جدوجہدمیں ان کاساتھ دینے کااعلان کرکے اس خطے میں واضح حوصلہ افزاء تبدیلی
کااشارہ دے دیاہے جبکہ اشرف غنی،عبداللہ عبداللہ اورحامدکرزئی نے بھی انہیں
افغانستان میں قیام امن کیلئے اپنے تعاون کے مکمل اختیارات کایقین دلایاہے۔
یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں آئندہ پارلیمانی انتخابات جواس سال ہونے ہیں
اور٢٠١٩ء کے صدارتی انتخابات کیلئے امریکااوریورپین ممالک پرمشتمل نیٹو
اتحاد نے حکمت یارسے مدد طلب کرلی ہے اورانہوں نے انتخابات کوہر صورت میں
کرانے کیلئے بھرپوریقین دہانی بھی کرائی ہے۔
حزب اسلامی کے سربراہ حکمت یارکے ترجمان حمیدعزیزی نے اس حوالے سے تصدیق کی
ہے کہ امریکااور یورپی حکام نے افغانستان میں شفاف اور منصفانہ انتخابات
کیلئے حکمت یار سے مددکی درخواست کی ہے تاکہ افغانستان میں جمہوری نظام
کوآگے بڑھایاجاسکے۔جس کے جواب میں حزب اسلامی نے امریکااوریورپی حکام
کوکہاہے کہ شفاف انتخاب کیلئے ایک مرکزی الیکشن کمیشن کاقیام،تمام افغان کو
انتخابات میں حصہ ڈالنے اور لسانی اورقوم پرستانہ بنیادپرانتخابات میں حصہ
لینے پرپابندی عائدکرناضروری ہے۔افغانستان میں اگر سیاسی طور پر لوگوں کو
آزادانہ انتخابات میں حصہ لینے دیاجائے ،شفاف اوراقوام متحدہ کی نگرانی میں
انتخابات ہوجائیں توایک مستحکم پارلیمانی نظام وجودمیں آسکتاہے جو
افغانستان کے مستقبل کے فیصلے کرنے کامجازہوگا۔اگرامریکا،یورپ اور
دیگربیرونی قوتیں اپنی مرضی کے لوگوں کومسلط کرناچاہیں توافغانستان میں
مستحکم جمہوری نظام کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیرنہیں ہوسکتا۔
ادھرافغان کٹھ پتلی حکومت کی وزارت دفاع نے حزب اسلامی سے معاہدہ
برقراررکھنے کیلئے حزب اسلامی کے چارہزارجنگجوؤں کوفوری طور پرفوج، پولیس
،تحقیقاتی اداروں،وزارتِ داخلہ،انسدادمنشیات اوردیگرحکومتی شعبوں میں
ملازمتیں دینے پرآمادگی کااعلان کیاہے جس پرحزب اسلامی نے ان
کو٣٥٠٠/افرادکی فہرست فراہم کرتے ہوئے یہ شرط عائد کی ہے کہ فوج میں شامل
ہونے والے ان کے جنگجوؤں کو نیٹو میں شامل امریکایا کسی مغربی ممالک کے
انسٹرکٹرکی بجائے صرف ترکی کے کمانڈرہی تربیت دیں گے ۔حزب اسلامی کی طرف سے
مہیاکردہ فہرست میں سے ۴۸۱/افرادکی چھان بین کرکے ان کو متعلقہ محکموں میں
رپورٹ کرنے کی ہدایات جاری کی جاچکی ہیں ۔دولت وزیری کے مطابق معاہدے کی
ایک شق کے مطابق حزب اسلامی اگراپنا اسلحہ حکومت کے حوالے نہ بھی کرے
تواپنے جنگجوؤں کوغیرمسلح کردے گی جس کے جواب میں حزب اسلامی نے حکومت سے
کہاکہ جب تک معاہدے کے مطابق ان کوفوج اورپولیس میں شامل نہیں کیاجاتا،
انہیں غیر مسلح کرنے میں مشکلات پیش آسکتی ہیں کیونکہ انہیں اپنے اہل خانہ
کی حفاظت کیلئے اسلحے کی اشدضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کی جانب سے اب
افرادکوہنگامی بنیادوں پرملازمتیں دینے کاسلسلہ شروع ہوچکاہے تاہم حکمت
یارنے خودکوئی بھی عہدہ لینے سے انکارکردیاہے جبکہ انہیں چاروزارتوں کے
علاوہ صلح کمیشن کاسربراہی یاصدارتی سنیئرمشیرکے عہدے کی بھی پیشکش کی گئی۔
حزب اسلامی کے ذرائع کاکہناہے کہ حکمت یارافغانستان میں وسیع البنیاد منتخب
حکومت کاقیام چاہتے ہیں جس میں افغانستان کے سابق جہادیوں سمیت تمام دھڑوں
کوحقیقی عوامی نمائندگی حاصل ہواورانہیں آزادانہ طور پر انتخابات میں حصہ
لینے دیاجائے۔انتخابات جیتنے کی صورت میں تمام دھڑوں کوحکومت میں شامل
کیاجائے تاکہ وہ افغانستان میں قیام امن اور ترقی کیلئے یکساں کوشش کریں
اورکم ازکم اگلے آٹھ سال تک حزبِ اختلاف کاتصورنہ ہوبلکہ ہرکوئی حکومت
کواپنی حکومت تصورکرے جس سے افغانستان کی مختلف اقوام کے اندرپائی جانے
والی مایوسی اور محرومیوں کوختم کیاجاسکے ۔افغانستان میں قبضہ کی جانے والی
تمام زمینوں کوواگزار کرایا جائے اورامریکا کے افغانستان پرقبضے کی ابتدائی
دنوں میں لوگوں سے بزورطاقت لی جانے والی زمینوں کوان کے اصل مالکان کوواپس
کو کیاجائے۔مہاجرین کو باعزت طورپرواپس بلایا جائے اورانہیں انتخابات میں
مکمل حصہ لینے دیاجائے اوران کی ووٹر رجسٹریشن سمیت دیگرعوامل کوقابل عمل
بنایاجائے ۔
حکمت یارنے لغمان میں اراکین پارلیمان پرواضح کردیاہے کہ جب تک تمام دھڑوں
کوپارلیمان اورحکومت میں ان کی حیثیت کے مطابق حصہ نہیں دیاجاتااس وقت تک
امن ممکن نہیں ہوگا کیونکہ امن کیلئے ضروری ہے کہ افغانستان میں ایک ایسی
حکومت کاقیام عمل میں لایاجائے جو کروڑوں لوگوں کی خواہشات کے مطابق ہونہ
کہ امریکاو مغرب کی خواہشات کے مطابق،جس دن اس طرح کی حکومت کاقیام عمل میں
لایا گیا افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات بھی آسان ہوجائیں گے۔حکمت یارنے
وفدکو مزیدبتایاکہ افغانستان میں اب لسانیت،قوم پرستی اورطاقت کے زورپر
حکومت قائم کرنے کاوقت گزرچکا،اب چوتھی نسل جنگوں سے تنگ آچکی ہے
اوراورگزشتہ چالیس سالوں سے ہونے والی جنگوں میں افغان نوجوانوں کو
شدیدنقصان کاسامناکرناپڑاہے۔ان کی تعلیمی،معاشی اورسیاسی سرگرمیاں تباہ
ہوچکی ہیں،اس لئے اب ہمیں اب ہرحال میں ہرقسم کے پرانے اختلافات کوختم
کرناہوگا۔
بیس سال بعدمنظرعام پرآنے کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں حزب اسلامی کے
سربراہ نے طالبان کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہاکہ حزب اسلامی اپنی ماضی
کی غلطیاں دہرانانہیں چاہتی اورماضی میں جو غلطیاں ہوئی ہیں یاحزبِ اسلامی
کے ساتھ جوزیادتی ہوئی ہے ،ہمیں اس سب کوبھلاکرآگے بڑھناچاہئے اور اس کیلئے
تمام افغانوں کواپنے ماضی سے نکل کرمستقبل کی طرف بڑھناہوگا ۔ گلبدین حکمت
یارنے افغان طالبان سے بڑی دلسوزی سے درخواست کی کہ وہ لڑائی چھوڑکربین
الافغانی مذاکرات کی میزپرآ جائیں ، مغرب اور یورپ کی بجائے افغان حکومت کے
ساتھ مذاکرات میں اپنے مسائل کوحل کریں۔اس کے بعددنیا اور امریکا کے ساتھ
بات چیت میں ہم افغانوں کوآسانی ہوگی،مسجد میں پڑے لوگوں پرگولیاں چلاناکون
سا اسلام ہے اوراس طرح کی کاروائی سے کس طرح جنت میں جایاجاسکتاہے کیونکہ
یہ اسلامی جنگوں اور شریعت کے خلاف ہے۔اگرطالبان مذاکرات کے عمل میں شریک
ہونا چاہتے ہیں تویہ ہمارے قابل احترام بھائی ہیں۔ اگر وہ ہاتھ دیں گے
تومیں آگے بڑھ کراپنے بھائیوں کوگلے لگاؤں گا۔اگروہ ایک فٹ آگے آئے تومیں
دوگزان کی طرف جاؤں گا۔طالبان سے درخواست ہے کہ افغانستان میں ایک مضبوط
حکومت کی بنیادڈالنے میں اپناکردار ادا کریں۔طالبان کاروس کے خلاف جہادمیں
ایک کردار رہاہے اورافغان قوم نے ایک بھرپور جہادی زندگی گزاری ہے لیکن اب
چھوتھی نسل کوجنگ کاسامناہے۔جنگ ہم خودختم کر سکتے ہیں اورسیاسی جدوجہدکے
ذریعے بغیر کسی خون خرابے کے افغانستان میں امن لاسکتے ہیں۔
افغانستان ایک طویل تاریخ رکھتا ہے اوراس تاریخ کے پس منظر میں ہم سے
جوپرانے زمانے میں غلطیاں ہوئی ہیں،ہم افغان قوم سے ان غلطیوں پرمعذرت خواہ
ہیں اورآئندہ کیلئے غلطیوں کی بجائے افغان قوم کوآپس میں پرانے زخموں اور
لغزشوں کوبھول کرآگے بڑھنا چاہئے کیونکہ پرانے واقعات کو دوبارہ دہرانے
اوراس پرآپس میں لڑائی سے افغان قوم کوکوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔ انہوں نے کہا
بزورطاقت افغانستان پرنہ توطالبان حکومت کرسکتے ہیں نہ حزب اسلامی،نہ کوئی
اورگروپ اورنہ ہی غیرملکی طاقت،اس لئے سیاسی جدوجہد کاراستہ اختیارکرناپڑے
گااوراس سلسلے میں افغان حکومت کو بھی چنداہم اقدامات اٹھاناپڑیں گے کہ ایک
مرکزی حکومت کی تشکیل ہواور مضبوط لوگوں کو حکومت میں شامل کرناپڑے
گاجومرکزیت پر یقین رکھیں۔لسانی اورقوم پرست گروپوں کی بجائے مرکزی لیڈروں
پر اعتمادکرناہوگاکہ وہ ایک مضبوط افغانستان کی بنیادرکھیں،جس دن افغانستان
میں ایک مضبوط مرکزی حکومت کاقیام عمل میں آگیا اسی دن سے افغانستان میں
حالات خودبخودٹھیک ہونے شروع ہوجائیں گے۔ایک مضبوط مرکزی حکومت کے قیام
کیلئے قانون سے وفاداری عوام کی مشکلات کاحل اوررشوت کاخاتمہ لازمی ہے۔
ادھرطالبان ذرائع کے مطابق کابل میں اشرف غنی،عبداللہ عبداللہ اورحامد
کرزئی کی موجودگی میں گلبدین حکمت یارکی جانب سے افغان طالبان کو پر براہِ
راست تنقید کے بعدطالبان کو دعوت دینے بھائی کہنے اورافغان اورامریکی
انخلاء پرزوردیئے جانے پر طالبان نے حکمت یارکی مخالفت ترک کرکے سیاسی
جدوجہدمیں ان کاساتھ دینے کافیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے حزب ِاسلامی اور
افغان طالبان کے درمیان ابتدائی رابطے بھی ہوئے ہیں جن میں غیر ملکیوں کے
انخلاء اورایک نئے اسلامی آئین کی تشکیل پرتبادلہ خیال کیا گیاہے۔ طالبان
نے اپنے تمام رہنماؤں کوآئندہ حزبِ اسلامی پر تنقیدکرنے سے بھی منع کردیاہے
اور اشرف غنی،عبداللہ عبداللہ اورحامدکرزئی کی غیر دانشمندانہ تقاریرپرکڑی
تنقید کرتے ہوئے کہاکہ یہ صرف طاقت اورڈالرکے حصول کیلئے قابض افواج کی
مرضی پرچلتے ہیں اورامریکیوں کی زبان بولتے ہیں اگریہ واقعی ملک میں امن
چاہتے ہیں توفوری طور پر غیرملکیوں کے انخلاء کاپیغام دیں ۔
دوسری جانب حکمت یارکی طرف سے استادربانی اورسابق جہادیوں کو ایک پلیٹ فارم
پرجمع کرنے اورطالبان کومذاکرات پر رضامند کرنے کیلئے جو کوششیں شروع کی
گئی ہیں ،اس کو سبوتاژکرنے کیلئے ایک نیا سیاسی اتحاد بنانے کی کوششیں بھی
شروع ہوچکی ہیں جس میں حزبِ وحدت کے کریم خلیلی ،پارلیمان کے سابق سپیکر
حراست اورسبات، شوریٰ کے نمائندے محمدیونس قانونی،عمرداؤدزئی اور صبغت اللہ
مجددی نے ایک اجلاس منعقدکرتے ہوئے موجودہ افغان حکومت کاحزبِ اسلامی
کوزیادہ اہمیت دینے پرشدیدتنقیدکانشانہ بناتے ہوئے قیام امن کیلئے ایک
عدالتی کمیشن بنانے کامطالبہ کیاجو لوگوں سے ہونے والی زیادتیوں کی تحقیقات
کرے جس کے جواب میں افغان صدرنے ان کے مطالبوں کو مسترد کرتے ہوئے کہاکہ یہ
تمام افرادپہلے افغان اہم عہدوں پررہ کربھی ملک میں امن قائم کرنے میں
ناکام رہے ہیںجبکہ ان دنوں طالبان اس قدر مضبوط اورطاقتوربھی نہ تھے۔
باوثوق ذرائع کایہ بھی کہناہے کہ دراصل حزب اسلامی کی طرف سے ایران
پرتنقیدکے بعدتہران نے اپنے دیگر غیر ملکی دوستوں کے مشورے کے بعدحزبِ وحدت
کومیدان میں اتاراہے لیکن زمینی حقائق نے فی الحال اس سازش
کویکسرمستردکردیاہے۔
ادھرافغانستان میں بھارتی سفیروہرامن پریت نے چندروزقبل حزب اسلامی کے
سربراہ گلبدین حکمت یارسے ملاقات کیلئے درخواست دی تھی تاہم چینی
وفداوراقوام متحدہ کے وفود سے میٹنگ کے سبب یہ ملاقات کافی تاخیر
کاشکارہوئی۔بھارتی سفیراپنے سفارتی عملے کے ساتھ کابل میں حزب اسلامی کے
دفترمیں پہنچے جبکہ گلبدین حکمت یارکی معاونت کیلئے ان کے بیٹے انجینئرحبیب
الرحمان کے علاوہ حزب اسلامی کی فارن کمیٹی کے دوارکان حمید عزیزی اورسلطنت
وطن یارموجودتھے۔ اس ملاقات کے بعدانجینئرحبیب الرحمان نے میڈیا سے گفتگو
کرتے ہوئے بتایاکہ حزب اسلامی کے سربراہ نے اس ملاقات میںوفدپرواضح کردیاکہ
بھارت اگرافغانستان کے اندرامن چاہتاہے تواسے اپنے آپ ترقیاتی کاموں تک ہی
محدودرہناہوگااور افغانستان کے برادرِ عزیز پڑوسی ملک پاکستان کے خلاف
ہماری سرزمین کواستعمال کرنے سے اجتناب کرناہوگاکیونکہ یہ ایک عالمی ریکارڈ
ہے کہ پاکستان پچھلے چالیس برسوں سے ٣٢لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی
کررہاہے اوران مہاجرین کی وہاں چارنسلیں وہاں پلی بڑھی ہیں اورہماری مضبوط
خونی رشتہ داریاں ان سے قائم ہیں ۔ اب بھی بیشترافغان عوام نہ صرف علاج
معالجے اورتعلیم کیلئے وہاں آتے جاتے ہیں بلکہ زندگی کی روزمرہ کی اشیائے
خوردونوش اور دیگراہم باہمی تجارت کاانحصارپاکستان پرہے۔
حزب اسلامی کے سربراہ نے بھارتی سفیراوران کے ہمراہ وفدکوکشمیرمیں جاری
انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں بالخصوص کشمیری عوام پرپیلٹ گن کے بے
رحمانہ اورانسانیت سوزظلم کانوٹس لیتے ہوئے اپنی برہمی کااظہاربھی
کیااورحریت کانفرنس کے سربراہ سیدعلی گیلانی کی صحت کے بارے میں اپنی سخت
تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بھارتی سفیر پر زور دیا کہ انہیں فی الفورعلاج
کیلئے کسی اسلامی ملک یاکسی یورپی ملک میں جانے کی اجازت دی جائے ۔گزشتہ
کئی دہائیوں سے کشمیرکے مسئلے پربھارتی لیت ولعل نے خطے کونیوکلیرفلیش
پوائنٹ کی طرف دھکیل دیاہے۔بھارت کوافغانستان سمیت ان تماممالک سے سبق
سیکھناچاہئے جنہوں نے عوامی خواہشات کے برعکس طاقت استعمال کی۔ اگربھارت
چاہے تووہ مسئلہ کشمیرپرپاک بھارت مذاکرات پرثالثی کیلئےاپنامثبت
کرداراداکرنے کیلئے تیارہیں۔اس پیشکش پربھارتی سفیرنے کہاکہ وہ اپنی حکومت
سے بات کرکے کرکے جواب دیں گے ۔
انجینئرحبیب الرحمان نے میڈیاکے پوچھنے پریہ بھی بتایاکہ بھارتی سفیر
وہرامن پریت نے حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار کو بھارت کے دورے کی
بھی دعوت دی تاہم حکمت یارنے اس دعوت کوقبول کرنے سے انکارکرتے ہوئے کہاکہ
وہ صرف اسی صورت آسکتے ہیں اگربھارت سیدعلی گیلانی سمیت دیگرحریت رہنماؤں
کے ساتھ ملاقات کرنے کی سہولت فراہم کرنے کی ٹھوس ضمانت دے اوربھارتی حکام
پریہ بھی واضح کردیاکہ بھارت اس وقت تک خطے میں اس وقت تک کوئی اہم
کردارادانہیں کرسکتاجب تک وہ پاکستان کے ساتھ اپنے معاملات ٹھیک نہ
کرلے۔ذرائع کے مطابق حکمت یارکایہ دو ٹوک جواب سن کربھارتی سفیر اوران کے
ہمراہ وفدسکتے میں آگئے اورصرف اتناکہاکہ وہ آپ کا یہ پیغام اپنی حکومت تک
پہنچادیں گے۔میڈیانے جب پاکستانی سفیرکی طرف سے کسی رابطے کے متعلق سوال
کیاتوانجینئرحبیب الرحمان نے جواب میں کہاکہ پاکستانی سفیرکو ملاقات کیلئے
کسی درخواست کی ضرورت نہیں، وہ جب چاہیں ملاقات کیلئے تشریف لاسکتے ہیں۔
بھارتی سفیراوران کے وفدکی حکمت یارسے ملاقات کی تصاویرمنظرعام پرآنے کے
بعد پاکستان میں یہ سوالات بڑی شدت سے اٹھ رہے ہیں کہ پاکستانی سفیرنے اب
تک افغانستان کے سابق وزیراعظم گلبدین یارحکمت سے ملاقات کیوں نہیں کی ؟ |