حوا کی بیٹی۔۔بانو اس گھر پیدا ہوئی جہاں واقعی اس کی
ضرورت تھی۔ اکلوتی، چار بھائیوں کی ایک بہن۔ماں باپ کی لاڈلی، چہیتی بیٹی
جس کا بچپن بھائیوں کے ساتھ کھیلتے کودتے بیتا،لڑکپن آیا اورپھر جوانی چلی
آئی۔شادی کا موقع آیا تو خاندان میں ہی اس کا بَر مل گیا۔پھوپھو کا گھبرو
جوان بیٹا دلاور، اسے من چاہے ہم سفرکی صورت ملا اور سسرال میں بڑی عزت و
توقیر ملی۔
خوشی کے ہنڈولے جھولتے وقت گزرا۔۔اور گزرتا رہا ،
اچانک آزمائش سامنے آ گئی۔
شادی کو سات سال گزرچکے تھے اور ابھی تک اولاد سے محرومی تھی۔سسرال کی
محبتیں اب کونے میں منہ چھپانے لگیں۔گھر میں چپکے چپکے سرگوشیاں شروع
ہوگئیں۔
وہ ماں کے سامنے جا روتی۔۔ دونوں ماں بیٹی مل کر آنسو بہاتیں۔
عید کے موقع پر اس کا منجھلا بھائی اور بھابھی شہر سے آئے توکچھ سوچ کر وہ
ان کے ساتھ لاہور چلی آئی۔
بڑے شہر کا بڑا ڈاکٹر۔۔بہترین علاج معالجہ۔۔ اُمید واثق،
دو دن پہلے ہوئےآپریشن کی تسلی بخش رپورٹ اولاد پانے کی امید دلا رہی تھی۔
وہ بہت خوش تھی اورجلد از جلد واپس جا کر یہ خبر دلاور کو سنانا چاہتی تھی
کہ اگلے روز فون کی گھنٹی بجی اور فون سننے والے کے ہاتھ سے ریسیور چھٹ
گیا۔اس کے شوہر کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا اور وہ جانبر نہ ہو سکا۔
۔۔۔۔۔۔۔
|