کالمسٹ کلب آف پاکستان کی ایک تقریب نے مجھے یہ سوچنے
پر مجبور کر دیا کہ دنیا میں پہلا کالم نگار بھلا کون ہو گا؟ تا ریخ نے
مجھے جواب دیا کہ مسیح کی پیدائش سے ۵۹ برس قبل روم میں ہاتھ سے لکھا ہوا
پہلا اخبار جا ری ہوا تھا۔ اس کا نام تھا Acta Diurna یعنی Daily Events۔اس
میں سیا سی اور فوجی خبریں، روزمرہ کے واقعات اور سکینڈلز وغیرہ لکھے جا تے
تھے۔یقینا پہلے کالم نگار نے تبھی جنم لیا تھا یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ
پہلا کالم نگار بعد از مسیح ۷۰۰ میں چین میں پیدا ہوا ہو۔جب دنیا کا پہلا
اخبار چھپا تھا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پہلے کالم نگار کی شحصیت جرمنی میں
پردہ گمنامی سے باہر آئی ہو، جہاں ۱۹۰۶ء میں یورپ کا پہلا اخبار شائع ہوا
تھا۔بہرحال پہلا کالم نگار جب بھی کالم لکھنے بیٹھا ہو گا اس نے کس نوعیت
کا کالم نحریر کیا ہو گا۔ سیاسی یا معاشرتی، فکاہیہ یا المیہ فلسفیانہ یا
انشا پر دازی کا شا ہکار۔ یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے۔البتہ دیکھتے ہی
دیکھتے ایسے کالم نگار ضرور وجود میں آئے جنھیں کالم کی دنیا کا بے تاج
بادشاہ قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔جوزف ایڈیشن، رچرڈ سٹیلی، ڈینیل
ڈیفو اور جونا تھن سوئفٹ ایسے ہی نام ہیں۔ اور اگر برصغیر میں اردو کالم
لکھنے والوں کا جائزہ لیا جائے تو مولانا ابوالکام آزاد، حسرت موہانی، حسن
نظامی، دیوان سنگھ مفتون، مولانا ظفر علیخاں، مولانا محمد علی جوہر، چراغ
حسن حسرت، مجید لاہوری، شوکت تھانوی، رئیس امرہوی جیسے کلاسیک کالم نویسوں
سے لیکر انتظار حسین، عطا الحق قا سمی، منو بھا ئی ، نذیر ناجی،محمد اکرم
خان فریدی اور موجودہ دور کے ان گنت محترم و معتبر ناموں کیساتھ سا تھ بے
شمار نو آموز لکھنے والے بھی صف در صف کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔لفظ کالم کے
معانی ہیں تھمب، پلر یا ستون۔ کسی بھی عمارت کی مضبوطی کا دارومدار اسکے
ستونوں پر ہی ہوتا ہے گویا اخبارات کی عمارت کوزمین پر اپنے پنجے مضبوطی سے
گا ڑھنے کے لیے کالموں کا تحفظ درکار ہوتا ہے۔اسی لیے اخبارات کالم نویسوں
کا انتخاب کافی غورو خوض سے کرتے ہیں۔ کالم کسی اخبار کی پالیسی کے نقیب
نہیں ہوتے بلکہ کالم اپنے لکھنے والے کے مزاج کی عکاسی کرتے ہیں اور ضروری
نہیں کہ کالم نگار اخبار کی پالیسی کے مطابق لکھے۔ وہ اخبار کی پالیسی کے
بالکل برعکس بھی لکھ سکتا ہے۔اور اخبار اسکی تحریر کی کوئی ذمہ داری قبول
نہیں کرتا۔ا سکے باوجود ایک اچھا کالم نگار دیکھتے ہی دیکھتے قا رئین کی
بڑی تعداد کو اپنا مداح بنا لیتا ہے ۔لوگ اپنے پسندیدہ کالم نگار کی تحریر
کا انتظار کرتے ہیں، اسکی رائے کو اپناتے ہیں اور اپنی سوچ اپنے کالم نگار
کی سوچ کے رنگ میں رنگتے چلے جاتے ہیں۔
اسکے با وجود کالم نگار کے کالم کو کئی کئی دن روک کر باسی کرکے شا ئع کیا
جا تا ہے۔یہ سب با تیں تخلیق کار کے حساس قلب و ذہن پر بری طرح اثر انداز
ہوتی ہیں۔ کئی لوگ بد دل ہو کر لکھنے سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں۔ البتہ ثابت
قدم لوگ حالات کی بھٹی میں تپ کر آ خر کندن بن ہی جاتے ہیں او ر پھر دستورِ
زمانہ کے مطابق ہر طرف ایسے لوگوں کی مانگ ہو جا تی ہے۔لیفٹننٹ جنرل
ریٹائرڈ عبدالقیوم اور محمد اکرم خان فریدی نے شا ئد انہی نکات کو ذہن میں
رکھتے ہوئے کالمسٹ کلب آف پاکستان کی بنیاد رکھی ہے اور انکے خلوص کو
دیکھتے ہوئے پاکستان بھر سے کالم نگار اسکی طرف کھینچے چلے آئے ہیں۔کلب کے
چیئرمین جنرل (ر ) عبدالقیوم اور سیکرٹری جنرل محمد اکرم خان فریدی دونوں
احباب پاکستان کے ساتھ دل و جان سے زیادہ محبت کرتے ہیں ۔کالمسٹ کلب آف
پاکستان نے کالم نگاروں کے تحفظ کا عزم کر رکھا ہے ۔بہر حال کالم نگاروں کے
حقوق کے تحفظ کے لئے قائم کی جانیوالی والی سب سے بڑی تنظیم کالمسٹ کلب آف
پاکستان کے تمام اراکین کی کامیابیوں کے لئے دعا گو ہیں ۔اور امید کرتے ہیں
کہ کالم نگاروں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے یہ ادارہ مزید مستحکم و
سرگرم ہو گا۔بہر حال یہاں میں کالمسٹ کلب آف پاکستان کے زمہ داران سے
مطالبہ کرتی ہوں کہ کالم نگاروں کا تحفظ از حد ضروری ہے لہذا انکے مکمل
تحفظ کے لئے موثر اقدامات کئے جائیں۔قارئین!قلم اﷲ تعالی کی طرف سے امانت
کے طور پر ملتا ہے اور جس نے اس امانت کا بار اٹھا لیا اس نے بہت بھاری ذمہ
داری کا بوجھ اٹھا یا ہے۔ہر لکھے ہوئے حرف کے لیے اسے جواب دینا ہو
گا۔لہٰذا صرف کالم نگار بننے کے شوق میں کالم لکھنے سے گریز کیا جائے اور
اگر اﷲ نے آپ کو قلم ودیعت کیا ہے تو اسکو خیر، نیکی اور بھلائی کے لیے
استعمال کیجیے۔لوگوں میں قومی شعور بیدار کیجیے۔ ہمیشہ کلمہء حق ادا کیجیے۔
اور انفرادی مفاد کے بجائے اجتماعی مفاد کا خیال رکھیے۔ تب کہیں جا کر ہم
اس قابل ہوں گے کہ دنیا اور آخرت میں سر خرو ہو سکیں۔ |