پھلوں کا بائیکاٹ!

 گزشتہ روز مجھے خاتونِ اول کے ڈرائیور اور معاون کے طور پر ’’ماڈل بازار ‘‘ جانے کا اتفاق ہوا۔ بازار کے گردونواح میں وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف اور خادمِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف (جو وزیر اعلیٰ بھی کہلواتے ہیں) کی تصاویر کے بڑے بڑے دسیوں فلیکس آویزاں تھے۔ بازار کے اندر صفائی کا بھی خوب انتظام تھا، سکیورٹی کے لوگ بھی چوکس تھے اور قیمتوں وغیرہ کو قابو میں رکھنے کے لئے بھی چاک وچوبند عملہ مصروف عمل تھا۔ ابھی ہم لوگ گیٹ میں داخل ہوئے ہی تھے کہ ایک نجی ٹی وی کے نمائندے بھی ساتھ ہی پہنچ گئے، وہ صارفین کی قوت خرید پر اپنی رپورٹ تیار کر رہے تھے، ان کا فوکس فروٹ ہی تھا۔ہم بھی چونکہ سبزی اور پھل ہی خریدنے گئے تھے، اسی دکان پر میڈیا والے لوگوں کے تاثرات لے رہے تھے، ہمیں کافی انتظار کرنا پڑا۔ اُن کا مدعا یہ تھا کہ پھل کی قیمتیں چونکہ صارفین کی قوت خرید سے زیادہ ہیں، لہٰذا اگلے تین روز تک پھلوں کی خرید و فروخت کا بائیکاٹ کیا جارہا ہے۔تاثرات میں مہنگائی کا ہر کسی نے رونا رویا، کسی نے قیمتیں کنٹرول میں لانے کے حکومتی دعووں کی نفی کی، تو کسی نے حکمران بھائیوں کی بے شمار تصاویر پر اعتراض کیا، کسی نے یہ مخبری بھی کی کہ اس تصویری مہم پر کروڑوں روپے خرچ کیا گیا ہے۔ بائیکاٹ تو جب ہوگا، تاہم ہر کسی نے اپنی استطاعت کے مطابق فروٹ بھی خریدا، ہم خود بھی ان میں شامل تھے۔

تمام فروٹ دستیاب تھے، کچھ ہی روز قبل انہی دکانوں پر فروٹ کی قلت تھی، یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ حکومت نے روزہ داروں کی خدمت میں پھل پیش کردیئے، اور یہ کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ ذخیرہ اندوزوں نے رمضان کے موقع پر لوگوں کی مجبوری کو دیکھ کر پھل دکانوں تک پہنچا دیا، کہ مجبور لوگوں سے منہ مانگے دام وصولے جائیں۔ کہنے کو تو ماڈل بازار میں داخل ہونے سے قبل بھی ایک بڑے بورڈ پر تمام چیزوں کی قیمتیں درج تھیں، بازار میں داخل ہوکر چھوٹے چوک میں ایک مرتبہ پھر قیمتوں کے بورڈ لگے تھے اور دکان پر پہنچنے کے بعد ہر پھل کے طاق میں بھی ایک چھوٹی لکڑی کے کنارے پر کاغذ پر قیمتیں لکھی گئی تھیں۔ طاق کے اوپر والی منزل پر سیب نہایت رعونت کے ساتھ گاہکوں کو دیکھ رہے تھے، قیمت کیا ہے؟ دوسونوے روپے کلو! اور وہ آلو بخارا؟ چار سو روپے کلو! خوبانی کس بھاؤ ہے؟ دوسو روپے کلو! رسی کے ساتھ لٹکتے ہوئے کیلے بھی ایک سو بیس روپے درجن تھے، یعنی دس روپے کا ایک کیلا۔ گرما کی قیمت سو روپے کلو بتائی گئی، ظاہر ہے اس کا سائز بڑا ہوتا ہے، دو تین کلو سے کم تو خریدا نہیں جاسکتا۔ ہم نے اپنی پسند اور ضرورت کے تین پھل خریدے۔ دکاندار نے تین شاپروں میں الگ الگ پھل ڈالے اور پھر انہیں ا یک بڑے شاپر میں ڈال دیا۔ کُل ملا کر ڈھائی کلو فروٹ ہم نے خریدا تھا اور اس کی قیمت آٹھ سو روپے ادا کر کے جارہے تھے۔ میڈیا والے وہاں سے گئے تو کئی دکاندار جمع ہوگئے، ’’ہر رمضان میں ایک ماہ کے لئے ہم سے دکانوں کا کرایہ نہیں لیا جاتا تھا، اب ایک اور ماڈل بازار بن گیا ہے، جو ائیرکنڈیشن بھی ہے، اور ایک ماہ کا کرایہ بھی معاف ہے․․․ فیصل آباد میں دکان داروں کو کرایہ کی چھوٹ کے ساتھ رمضان میں رقم بھی ملتی ہے ․․․ بھئی وہاں رانا ثناء اﷲ رہتا ہے، اپنے نمائندے گونگے ہیں․․․‘‘۔

گرمیوں کے روزے اور پھل کی قیمتوں نے طبیعت ہشاش بشاش کردی تھی، آرام کی غرض سے کمر سیدھی کی اور ساتھ پڑا اخبار اٹھایا، تو ’خادمِ اعلیٰ‘ کی جانب سے رمضان پیکیج کے لئے اربوں روپے کی سبسڈی کا اعلان تھا، اس کے لئے اخبارات کا صفحہ آخر مکمل طور پر مختص تھا، یقینا اربوں روپے کی سبسڈی دی جارہی ہے، مگر انہی اربوں روپے میں میں بہت بڑی رقم تشہیری مہم کی نذر بھی ہو رہی ہوگی، کارکردگی تو جو بھی ہو، خود نمائی پہلے ہوتی ہے۔ ہر دکان کی پیشانی پہ حکمران بھائیوں کی تصاویر والا سستا ماڈل بازار کا فلیکس بھی آویزاں کیا گیا ہے۔ کسی سے کوئی نہیں پوچھتا کہ جناب دو چار سو میٹر میں ایک ہی تصویر کو دسیوں مرتبہ لگانے کا جواز کیا ہے؟ دراصل حکمران، یا ضلعی انتظامیہ کے افسران اس بات کا اندازہ لگا ہی نہیں سکتے کہ تین سو روپے کلو سیب متوسط طبقے کی پہنچ سے باہر ہے، وہ لوگ پھل کھا نہیں سکتے، البتہ کبھی کبھی چکھ سکتے ہیں، رہا غریب تو وہ صرف تصاویر دیکھا کرے ۔
 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 428987 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.