بنارس پل سے نارتھ ناظم آباد کی طرف نشیب کی جانب آکر
عبداللہ کالج کی چورنگی سے دائیں ہاتھ پر پاپوش نگر کا قبرستان ہے ۔ اس کے
مقابل، بائیں ہاتھ پر پہاڑ گنج کا علاقہ شروع ہوتا ہے جوبنارس چورنگی سے
شروع ہوکر یوتھ سینٹر، انٹرمیڈیٹ بورڈ آفس کی پشت پر پہاڑی بلندیوں اور
ڈھلوانوںسے کٹی پہاڑی تک چلا گیا ہے، پہلے اس کی حدود شپ اونرز کالج تک
پھیلی ہوئی تھیں، لیکن شارع نورجہاں نارتھ ناظم آباد سے قصبہ تک سڑک کی
تعمیر کے لیے اس پہاڑی کو درمیان میں سے کاٹ دیا گیا، اس طرح یہبستی
نورجہاں تھانے پر ختم ہوجاتی ہے۔ اس میںکئی چھوٹے چھوٹے محلے شامل ہیں، جن
میں دیر کالونی، عمر فاروق کالونی نمبر1، عثمان غنی کالونی، کرسچن کالونی
شامل ہیں۔ یہ بستی تقریباً 30ہزار نفوس پر مشتمل ہے جس میں ہزارے وال،
پختون، کوہستانی، بلتی، آفریدی، سرائیکی، پنجابی اور نشیبی علاقے میں اردو
بولنے والے رہتےہیں۔ اصغر علی شاہ اسٹیڈیم اور گرڈ اسٹیشن چورنگی کے ساتھ
عیسائی برادری کی خاصی بڑی آبادی واقع ہے جو پہاڑی کے دامن تک چلی گئی ہے۔
پہاڑ گنج کی کچی بستی کے تنگ و تاریک مکانات کےساتھ ڈی سلوا ٹاؤن اور
نارتھ ناظم آباد کے وسیع و عریض بنگلے بھی واقع ہیں لیکن اس آبادی کا
اپنا ایک انفرادی حسن ہے، بلندی پر تہہ در تہہ بنے ہوئےمکانات، پہاڑی پر
جانے کے لیے پختہ سیڑھیاں، قصبہ کی جانب والی سڑک پر پہاڑ کا کٹاؤ پاکستان
کے شمال میں واقع کسی علاقے کا منظر پیش کرتا ہے۔
اس کا شمار بھی کراچی کی نصف صدی پرانی بستیوں میں ہوتا ہے۔ ایک سیمنٹ
فیکٹری نے جب قصبہ بنارس کے پہاڑوں کو کاٹ کر چٹانی پتھروں سے سیمنٹ بنانے
کا کام شروع کیا تو، یہاں کوہستان کے تریالی زبان بولنے والےلوگ آکربس گئے
، جو خرکار تھے اورجن کا پیشہہی پہاڑوں کو توڑنا تھا۔ انہیں مذکورہ سیمنٹ
فیکٹری میں روزگار مل گیا۔ وہ چٹانوں کو کاٹتے، پہاڑی پتھر مذکورہ فیکٹر ی
کے حوالے کردیتے اور جگہ ہموار کرکے پتھر اور مٹی کے کچے گھر بنا نے کے
بعد، ان پر لکڑی اور چٹائیوں سے چھت بنا کر ان میں ان میں رہائش اختیار
کرتے۔یہ جفاکش لوگ اس پہاڑی بستی کے بانیوں میں سے ہیں۔1966-67تک
یہاںکوہستان سے آنے والے صرف 22 خاندان آباد تھے اور اس وقت اس بستی کو
’’بہادر آباد‘‘کے نام سے پکارا جاتاتھا۔ بعد ازاں جب صوبہ سرحد سے مختلف
قبائل اور برادریاں یہاں آکر آباد ہوتے گئے اور اس کی آبادی بڑھنے لگی
تو پہاڑی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی مناسبت سے اس علاقے کا نام ’’پہاڑ
گنج‘‘ تجویز کیا گیا۔ یہاں پر شمالی علاقہ جات کے مختلف علاقوںسے آنے
والوں کے علاوہ پنجاب اور سندھ کےعلاوہ اردو بولنے والوں کی بھی خاصی
تعدادرہتی ہے ، تربیلا ڈیم کے متاثرین کی اکثریت بھی یہاں آباد ہوگئی ہے۔
اس بستی میں مختلف مذاہب کے باسی رہائش پذیرہیں اوریہاںایک درجن گرجا گھر،
امام بارگاہ اور مختلف مکاتب فکر کی 21مساجد موجود ہیں۔ مختلف النوع
قومیتوں اور بین الذاہب لوگوںکی آبادی ہونے کے باوجود اس علاقے میں گز شتہ
پانچ عشروں کے دوران کبھی کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ ایک سرکاری
اسکول ہے،پہاڑی پر کئی نجی کلینکس ہیں، جب کہ شمالی علاقہ جات کے مشہور
پکوانوں کے کئی ہوٹل بھی وہاں واقع ہیں۔ کچی بستی کے ساتھ ہموار سڑکیں ہیں۔
عبداللہ کالج سے نصرت بھٹو کالونی تک دو رویہ کشادہ سڑک ہے جس کے دونوں
اطراف کشادہ بنگلے بنے ہوئے ہیں۔ پہاڑی کے نشیب میں یوتھ سینٹر کا مشہور
کھیل کا میدان واقع ہے جہاں آبادی کے بچے اور نوجوان فٹ بال اور کرکٹ سمیت
مختلف غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔ گرڈ اسٹیشن چورنگی کے بائیں
جانب اصغر علی شاہ اسٹیڈیم واقع ہے جہاں ملکی سطح پر کرکٹ میچوں کا انعقاد
ہوتا ہے۔ انٹر بورڈ آفس کے بعدہر سو گز کے فاصلے پر پختہ سڑک بنگلوں کے
ساتھ ساتھ اس کچی آبادی تک جاتی ہے ، جہاں سے لوگ پگڈنڈیوں اور پتھریلی
سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے 2000فٹ کی بلندی پر بنی ہوئی اپنی رہائش گاہوں تک
جاتے ہیں۔ پہاڑ پر بنی اس بستی کو بھی گوناگوں مسائل کا سامنا ہے ۔ اس
سلسلے میں وہاں کے باسیوں نے گفتگو کے دوران بستی کو درپیش جو مسائل بیان
کیے ، وہ نذر قارئین ہیں۔
کو ہستان سے تعلق رکھنے والے آفریدی محلے کے رہائشی ، خالد خان درّانی نے
بتایا کہ اس علاقے کا سب سے بڑا مسئلہ بجلی کا ہے۔ گرڈ اسٹیشن چند قدم کے
فاصلے پر ہونے کے باوجود یہاںبجلی کا شدید بحران رہتا ہے ،لیکن اس کے
باوجود لوگوں کو ہوش ربا بل موصول ہوتے ہیں۔ بغیر ریڈنگ کے ڈیٹیکشن بل
بھیجے جاتے ہیں جو 50,000سے بھی زیادہ رقم کے ہوتے ہیں۔ دوسرا مسئلہ پانی
کا ہے، یہاں مہینوں پانی نہیں آتا، لوگ پینے کے پانی کے لیے پریشان رہتے
ہیں خاص کر پہاڑی بلندی پر رہنے والوں کو آبی مسائل زیادہدرپیش ہیں کیوں
کہ اگر نشیب کے علاقوں میں پانی آتا بھی ہے تو اس کا پریشر اتنا کم کھولا
جاتا ہے کہ پانی چند گز سے زیادہ اوپر کی جانب نہیں چڑھ سکتا۔ کراچی کے
سابق میئر نے لوگوں کے اس مسئلے کو محسوس کرتےہوئے ڈی سلوا ٹاؤن میںواٹر
بورڈ کا ایک پمپنگ اسٹیشن بنوا دیا تھا، نیچے کے علاقے میں سڑک پر نلکے اور
برمے لگوا دیئے تھے ، جن سے لوگ پانی بھر کر کنستر اور ڈبوں کے ذریعے بلندی
پر بنے مکانات تک لے جاتے تھے لیکن مر دحضرات تو سارا دن محنت مزدوری کرتے
تھے جب کہ یہ فریضہ خواتین کو انجام دینا پڑتاتھااور انہیں پانی سے بھرے
ہوئے برتن دو ہزار فٹ کی بلندی تک لے جانے میں دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا
تھا۔ مذکورہ میئر نے یہ مسئلہ بھی حل کرادیا اور گھروں میں نلکے لگوا دیئے
گئے اور پانی کا پریشر اور دورانیہ بڑھانے کے احکامات دیئے، جس سے ان کی
پریشانیوں کا خاتمہ ہوا۔ لیکن چند سالوں سے یہاں پر پانی کا شدید بحران
ہےلوگ اس بنیادی ضرورت کے لیے محکمہ فراہمی آب کے دفاتر کے چکر لگاتے ہیں۔
دوسرا مسئلہ غلاظت اور گندے پانی کا ہے۔ نشیبی علاقوں کے مکانات کے ساتھ
گندے پانی کے جوہڑ بنے ہوئے ہیں۔ پہاڑی پر بھی گٹر لائنیں بند رہتی ہیں، ان
کی صفائی کا معقول انتظام نہیں ہے۔ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت صفائی کراتے
ہیں۔ اس کے نتیجے میں گٹروں سے ابل کر بہنے والا پانی نیچے کی جانب رخ کرتا
ہے، لوگوں کو پہاڑی راستوں پر چلنا دشوار ہوجاتا ہے۔ ان راستوں پر جگہ جگہ
گڑھےہیں جو کچے مکانات بنانے یا ان کی حدود میں اضافہ کرنے کے لیے مٹی
نکالنے کے لیے خود لوگوں نے کھودے ہیں، پتلی پتلی گلیاں ، جن میں نہ صرف
گاڑیوں کا اوپر کے علاقوں میں جانے کا تصور محال ہے بلکہ مریض یا انتقال کی
صورت میں میت کو بھی اوپر سے نیچے تک لانا مشکل ہوجاتا ہے۔ بلندی پرتجاوزات
مافیا سرگرم ہے، یہ لوگ مکانات بنا کر ضرورت مندوں کو کرائے پردیتے ہیں جو
شہر کے دیگر علاقوں کی بہ نسبت سستے کرائے کے پیش نظر یہاں رہنے کو ترجیح
دیتے ہیں، اس رجحان کی وجہ سے آبادی چوٹی تک جا پہنچی ہے۔ کچرا کنڈی نہ
ہونے کی وجہ سے تنگ گلیوں میں کچرے کےانبار لگے رہتے ہیں۔ پورے علاقے میں
عمرفاروق کالونی میں ایک سرکاری اسکول ہے جس کی چہار دیواری کے ساتھ کچرا
کنڈی بنادی گئی ہے جب کہ دو اسکولوں پر مشتمل اس عمارت میں بچوں کو واش روم
کی سہولت دستیاب نہیں ہے۔
کرسچین کالونی کے رہائشی امانت مسیح نےکہا کہ یہاں سات ہزار اقلیتی رائے
دہندگان ہیں لیکن شہری اداروں کی جانب سے اس آبادی کو نظر انداز کیا ہوا
ہے۔ گلیوں میں غلاظت کے ڈھیر لگے رہتے ہیں، جب کہ مکانات کے قریب مرکزی سڑک
کی وسیع و عریض چورنگی اور گرڈ اسٹیشن کی دیوار کچرا خانہ بنی ہوئی ہے۔ اس
کے برابر ایک معروف اسٹیڈیم واقع ہے جس کا داخلی دروازہ اس ’’غیر منظور شدہ
‘‘ کچرا کنڈی کے ساتھ ہے اور یہاں اکثر بین الاقوامی نوعیت کے کرکٹ میچز
ہوتے ہیں جنہیں دیکھنے کے لیے ملک کی اہم شخصیات بھی آتی ہیں، لیکن غلاظت
کے انبار کی طرف کسی کی توجہ نہیں جاتی۔ گٹر لائنیں بوسیدہ اور شکستہ ہیں
جن کی وجہ سے پانی گھروں کا گندہ پانی گلیوں اور مکانات کےگرد جمع رہتا ہے
۔ بارشوں میں پہاڑیوں پر سے بہہ کر آنے والے پانی کی وجہ سے نشیب میں بنے
مکانات زیرآب آجاتے ہیں اور سامان برباد ہوجاتا ہے۔ پانی یہاں مہینے میں
دو مرتبہ آتا ہے، لیکن جب اس کی فراہمی شروع ہوتی ہے تو آدھے گھنٹے تک
نلکوں سےسیوریج لائنوں کی آمیزش والا پانی آتا ہے۔ پورے علاقے میں کہیں
بھی اسٹریٹ لائٹ نہیں ہے۔
جاوید مسیح نے بتایا کہ یہ بستی بغیر کسی منصوبہ بندی کے وجود میں آئی جس
کی وجہ سے شہری سہولتوں کا فقدان ہے۔ بچوں کی تعلیم کے لیے ایک اسکول ہے،
لیکن وہ بھی پرائمری تک۔ کوئی سرکاری اسپتال یا شفا خانہ تو درکنارپرائیوٹ
کلینک بھی نہیں ہے۔ بعض کمپاؤنڈروں نے دواخانے بنا رکھے جن سے علاج کرانا
اکثر نقصان کا سبب بھی بن جاتا ہے۔ یہاں کا ایک بڑا مسئلہ تجاوزات کا ہے۔
مسیحی کالونی کے داخلی راستے پر چورنگی کے ساتھ تجاوزات قائم ہیں، جس کی
وجہ سے لوگوں کو آمدورفت میں مسائل کا سامنا ہے۔
عمر فاروق کالونی کے سابق کونسلر سید وصی حیدرالمعروف ڈاکٹر کاکو نے بتایا
کہ شہری حکومت کے دور میں یہاں کئی اچھے کام ہوئے۔ پہاڑی کی جانب سے بہہ کر
آنے والے برساتی پانی کی نکاسی کے لیے نالہ بنایا گیا۔ لوگوں کے تحفظ کے
لیے اس کے اطراف پانچ فٹ اونچی دیواریں کھڑی کی گئیں لیکن آج یہ دیواریں
ٹوٹ پھوٹ گئ ہیں جب کہ لوگ اپنے گھروں کا کچرا اس میں پھینکتے ہیں ، جس کی
وجہ سے برسات کے زمانے میں بہاؤ رکنے کی وجہ سے پانی ابل کر اطراف کے
گھروں میں داخل ہوجاتا ہے جس سے مالی نقصانات ہوتے ہیں۔ نالے کو عبور کرنے
کے لیے ایک پل بنایا گیا لیکن یہ بھی اب مخدوش ہوگیا ہے۔ انہوں نےبتایا کہ
ایک زمانے میں پہاڑی کی بلندی پر شمالی علاقہ جات کی طرز پر خوب صورت تفریح
گاہ بنانے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ لوگوں کو بلندی پر لے جانے کے لیے ’’لفٹ
چیئر‘‘ لگانے کا بھی پروگرام رکھا گیا، لیکن سارے منصوبے سرخ فیتے کی نذر
ہوگئے۔ آج اس جگہ پر تہہ در تہہ مکانات بنے ہوئے ہیں۔ علاقے میں پانی کا
بحران شدید ہے، فراہمی آب ڈی سلوا ٹاؤن اور نارتھ ناظم آباد کے مختلف
بلاکس تک ہوتی ہے جب کہ اس سے متصل علاقہ فراہمی آب سے محروم رہتا ہے۔
یہاں قبضہ مافیا سرگرم ہے، پہاڑ گنج چورنگی کے ساتھ دو کھیل کے میدان تھے،
ان میں سے ایک پر گرڈ اسٹیشن بنا دیا گیا، جب کہ دوسرے میدان پر بااثر
لوگوں نے قبضہ کرکے مکانات، پلازے اور دیگر عمارتیں تعمیر کر لی ہیں۔
ڈی سلوا ٹاؤن کے قریب کے رہائشی اجمل شاہ نے کہا کہ ہمیں یہاں شہری مسائل
تو درپیش ہیں ہی لیکن یہاں ہماری نئی نسل کو بھی خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ کٹی
پہاڑی کے ساتھ مشیات کے دو بڑے اڈے قائم ہیں جہاں سے علاقے میں منشیات کی
فراہمی ہوتی ہے۔ ہمارے بچے منشیات کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔ تعلیمی ادارے نہ
ہونے کی وجہ سے انہیں پڑھائی کے مواقع میسر نہیں ہیں، مسیحی بستی میں چند
نجی اسکول قائم ہیں لیکن ہم ان کی مہنگی فیسوں کی وجہ سے انہیں وہاں پڑھانے
سے قاصر ہیں۔ یہاںزیادہ تر مزدوریا قریبی گیراجوں پر کام کرنے والے لوگ
رہتے ہیں جن کے ذرائع آمدنی محدود ہیں۔ |