پاکستان کا شمال ان گنت سحر انگیز مناظر والی وادیوں کا گل دستہ ہے، گلگت،
کشمیر، چترال اور سوات کے خطے حسین اور دل کش تفریح گاہوں سےمزین ہیں ۔
وادی اتروڑ اور گبرال خوب صورت مناظر اور حسن و دل کشی کی وجہ سےسوات کی
وادی کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ سوات کا خطہ جو صوبہ خیبر پختون خوا کے مالا
کنڈ ڈویژن میں واقع ہے، اپنی اَن گنت وادیوں کی خوب صورتی اور رعنائیوں کی
وجہ سے ایشیاء کا سوئٹزرلینڈ جب کہ اس کا ایک علاقہ ’’مئے گلفام‘‘ کہلاتا
ہے، جہاں سے گبرال ، اتروڑ، ، شاہی باغ، لوئے پنڈال، کالام بانڈہ، دیسان،
بَٹل اور گل آباد کی جادو نگری کی طرف جانے کے لیے راستے نکلتے ہیں۔ کالام
کی وادی کو سید ضمیر جعفری نے ’’مئے گلفام‘‘ کا خطاب دے کراس کے فطری حسن
کی عکاسی کی ہے۔ یہ علاقہ دریائے سوات کے کنارے قدرتی مناظر کے لحاظ سے
ارضی جنت بھی کہلاتا ہے۔ یہاں دیو مالائی قصے کہانی والی پراسرار جھیلیں
ہیں ، آب شار،پہاڑی جھرنے، دریائے سوات سے شاخوں کی صورت میں نکلے ہوئے
ندی نالے ، سرسبز کھیتوںکے درمیان ترتیب سے لگے ہوئے پودوں میں خوش رنگ اور
مہکتے پھول اور پہاڑوں پر برف کی دبیز تہیں جمی ہوئی نظر آتی ہیں۔ مانکیال
پہاڑ کی 18750 فٹ بلند چوٹی پر طلوع و غروب آفتاب کے مناظرانتہائی خوب
صورت ہوتے ہیںجنہیں دیکھنے کے لیے سیاح راولپنڈی سے یہاں تک سینکڑوں
کلومیٹر کا سفر طے کرکے پہنچتے ہیں ۔ کالام تک پہنچنے کے لیے بحرین کے دو
دریا کے بس اڈے سے 30 کلومیٹر کا سفر کرنا پڑتا ہے۔جوناہموارکچے اور
پتھریلے پہاڑی راستے کی وجہ سے دو سے ڈھائی گھنٹےمیں طے ہوتا ہے۔
|
|
اتروڑ،گبرال اور دیگروادیوں کی تفریح کے لیے جانے والے سیاح چند روزکالام
کی وادی کے مسحور کن قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہونے کے لیے یہاں پڑاؤ
ڈالتے ہیں۔اس کے بازار میں، ضرورت کی تقریباًتمام اشیاء دستیاب ہوتی ہیں۔
دریا کے کنارے اور سطح آب پر بنے ہوئے چارپائی ریستورانوں میں سیاحوں کو
چپلی کباب اور پشاوری کڑاہی کھانے میں خاصا لطف آتا ہے۔وادیِ کالام دو
حصوں پر مشتمل ہے،زیریں اور بالائی وادی۔ کالام زیریں کا علاقہ دریائے سوات
کے دائیں طرف واقع ہے، جہاں کالام کا قدیم گاؤں آباد ہے۔ کچے پکے مکانات
جن میں لکڑی کا کام نمایاں نظر آتا ہے، قدیم و جدید کا حسین امتزاج پیش
کرتے ہیں۔
چند روزیہاں گزارنے کے بعد سیاح اگلے مستقر کا رخ کرتے ہیں۔ کالام خاص سے
دو کلومیٹر کے فاصلے پر گھنے جنگلات کاوسیع سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جس کے
بلند و بالادرختوں کےپتوں کے درمیان میں سےسورج کی کرنیں بہ مشکل چھن چھن
کر آتی ہیں۔ اِن جنگلات میں شاہ بلوط، شیشم، صنوبر اور اخروٹ کے درخت لگے
ہوئے ہیں،انہیں بنٹر کے جنگلات کہا جاتا ہے۔ بحرین سے آنے والی سڑک یہاں
سے دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ہے۔ ایک راستہ مشرق میں اُوشو، مٹلتان اور
مہوڈنڈ کی طرف جاتاہے جب کہ دوسرا بائیں جانب اُتروڑ کی طلسماتی وادی کی
جانب ۔مذکورہ سڑک چند کلومیٹر تک پختہ حالت میں ہے لیکن اس کے بعد گبرال تک
شکستہ اور پگڈنڈی نماراستہ شروع ہوجاتاہے، تاہم اس پر جیپ سمیت چھوٹی
گاڑیوں پر بھی سفر کیا جاسکتا ہے، اورگردو نواح میں پھیلے ہوئے حسین مناظر
کی وجہ سے شوار گزار اور کٹھن سفرکے باوجودبھی تھکن طاری نہیں ہوتی۔ کالام
سے اُتروڑ تک کا فاصلہ12 کلومیٹر ہے اور سارے راستے لہلہاتے کھیت، پھلوں سے
لدے باغات ، خوش رنگ اور معطر پھولوں کے گل دستوں سے مزین سبزہ زارساتھ
چلتے ہیں۔سیاح ان مناظر میں اتنا منہمک ہوجاتا ہے کہ اس کے ذہن سے سفر کی
ساری کوفت دور ہوجاتی ہے۔ اتروڑ سے گبرال تک 6کلومیٹر کا مزید فاصلہ طے
کرنا پڑتا ہے۔
اُتروڑ کی وادی سطح سمندر سے 7300 فٹ بلند ہے،اس کے ساتھ ہی گبرال کی وادی
واقع ہے۔سیاح پہلے اتروڑ کی وادی پہنچتے ہیں جو مہکتی فضاؤں ، ہر طرف
پھیلی ہریالی اور نگارنگ مناظر کی وجہ سے ایک دل فریب مقام ہے۔ اسے چاروں
طرف سے بلند و بالا برف پوش پہاڑوں نے گھیرا ہوا ہے، جن پر گھنے جنگلات
ہیں۔ان میں پہاڑی بکرے،مارخور، اڑیال، مشک والے ہرن اور آئی بیکس پہاڑی
ڈھلانوں پر قلانچیں بھرتے ہوئے نظر آتے ہیں،جب کہ پرندوں کی کئی خوب صورت
اقسام جن میں مرغ زریں، چکور شامل ہیں درختوں کے درمیان اڑتے پھرتے ہیں۔
جگلات کے اندرونی حصوں میں چیتے، ریچھ، بھیڑئیے اور دوسرے خوں خوار جانور
بھی پائے جاتے ہیں، لیکن وہ جنگل میں وائلڈ لائف کی طرف سے متعین کی ہوئی
حدود کے اندرہی رہتے ہیں۔ وادی کے درمیان میں سے پہاڑوں سے نکلتا ہوا
دریائے گبرال تند و تیز لہروں کے ساتھ چٹانوں سے ٹکراتا،پر شورآواز کے
ساتھ بہتا ہے جب کہ دوسری جانب کنڈلوڈنڈ اور سپین خوڑ ڈنڈ سے نکلی ہوئی ندی
پہاڑی بلندی سے نشیب کی طرف بہتی ہوئی اُتروڑ گاؤں کے قریب دریائے گبرال
کے ساتھ مل جاتی ہے جس سے دریا کی سطح بڑھنے کے ساتھ اس کے بہاؤ میں بھی
اضافہ ہو جاتا ہے۔ راستے میں پہاڑوں سے برف پگھلنے کی وجہ سے وجود میں آنے
والے دیگرندی ، نالے بھی اس میں ضم ہوتےجاتے ہیں۔ کالام کے مقام پر دریائے
گبرال ،مہوڈنڈ جھیل سے نکلے ہوئے دریا میں مل جاتا ہے ۔ دریائے گبرال میں
ٹراؤٹ مچھلی اور دیگر آبی حیات کثیر تعداد میں پائی جاتی ہے، جو لذت
اورمنفرد ذائقہ کی وجہ سے کافی شہرت رکھتی ہے۔ماہی گیری کے شائقین کے لیے
یہاں شکار کے وسیع مواقع موجودہیں لیکن اتروڑ میں واقع محکمہ ماہی پروری کے
دفتر سے پرمٹ لے کرمچھلی کا شکار کیا جا سکتا ہے۔
|
|
مذکورہ وادی کا شمارملک کے پرفضا اور صحت افزا مقامات میں ہوتا ہے، جہاں ہر
طرف قدرت کے حسین رنگ نظر آتے ہیں،پہاڑی بلندی سے گرتی ہوئی آب شاریں،
جلترنگ بجاتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ ہر طرف مخملی گھاس بچھی ہوئی ہے جس کے
اطراف دور تک ہرے بھرے پودوں پر رنگا رنگ اور خوشبو بکھیرتے ہوئے پھول سجے
ہوئے نظر آتے ہیں۔ پہاڑی بلندیوں پر تہہ در تہہ کھیت اور ان کے ساتھ سرخ
چھتوں والے سیڑھی نما مکانات ، سوات کے دیگر پہاڑی وادیوں کی طرح یہاں بھی
انفرادی انداز میں موجود ہیں ۔ شام کو جب سورج ڈھلنے لگتا ہے ، اوراس کی
کرنیں سنہری مائل ہوجاتی ہیں تو آسمان پرقوس و قزح کے رنگ بکھرے ہوئے
محسوس ہوتے ہیں ، رات کو جب ہر طرف اندھیرا چھا جاتا ہے، تو تاروں کی
جھلملاتی روشنی ٹھنڈک بکھیرتی انتہائی بھلی معلوم ہوتی ہے۔ اگر چاندنی رات
ہو توبرف پوش چوٹیوں سےمنعکس ہوکر چاند کی کرنیںپوری وادی کو منور کرتی ہیں۔
یہاں کی صبح اور بھی زیادہ حسین ہوتی ہے،برف پوش چوٹیوں کی طرف سے آنے
والی خنک ہوامیں پھولوں کی مہک گھلی ہوتی ہےجو دل و دماغ کو تروتازہ کرتی
ہے۔دور تک پھیلے ہوئے سر سبز میدان، رنگ برنگے پھول، لہلہاتے کھیت اور
باغات، درختوں پر اڑنے والےپرندوں کی آوازیں انتہائی بھلی معلوم ہوتی ہیں،
ان مناظر میں سیاح اتنا کھو جاتا ہے کہ وہ خود کوپریوں کے دیس میں محسوس
کرتا ہے۔اتروڑ کےگردو نواح میں کئی حسین گاؤں واقع ہیں جن میں جبہ، شاہی
باغ، گل آباد اور غوائی بیلہ سیر وتفریح کے لیے آنے والوں کے لیے پرکشش
حیثیت رکھتے ہیں۔ان مقامات تک کچی سڑک پرجیپ اورپبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے
پہنچا جا سکتا ہے جب کہ گل آباد جو ایک حسین آب شار کی وجہ سے مشہور ہے،
وہاں پہاڑی راستے پر ٹریکنگ کرتے ہوئے پہنچنا ممکن ہے۔
غوائی بیلہ کا گاؤں، اپنے جلو میں بے پناہ قدرتی مناظر سمیٹے ہوئے ہے،
جنہیں دیکھ کر سیاح قدرت کی صناعی کا معترف ہوجاتا ہے ۔ کچھ عرصے قبل تک
اتروڑمیں سیاحوں کے قیام و طعام کے لیے ناکافی سہولتیں تھیں، محکمہ جنگلات
کا ریسٹ ہاؤس اورایک ہوٹل سیر و تفریح کے لیے آنے والے افراد کو رہائشی
سہولت کی فراہمی کے لیے موجود تھے۔مذکورہ ہوٹل جو کافی قدیم ہے، اس کی
تعمیر میں دیار کی لکڑی کا استعمال کیا گیا ہے جس پر سوات کے روایتی انداز
میں پھول پتیوں اورنقش و نگاری کاکام انتہائی نفیس نظرآتا ہے جو
دیکھنےوالوں کے لیے دل چسپی کا باعث ہے۔ دنیا بھر کے سیاحوں کی دل چسپی
اوران کی بڑی تعداد میں آمدکو دیکھتے ہوئے ، اب یہاں کئی نئےہوٹل اور
ریستوران بن گئے ہیں۔ یہاں کے مختصر بازار میں کھانے پینے کی اشیاء با
آسانی مل جاتی ہیں۔ماضی میں اتروڑ کی وادی کوبھی گبرال کے نام سے پکارااور
اس کا حصہ سمجھا جاتا تھا ، جب کہ اس کے ایک چھوٹے سے قصبے کو ’’ازروڑ‘‘ کے
نام سے پکارتے تھے ۔ یہ نام قدیم دور میں قصبے کی ایک معروف شخصیت ’’ازنامی
ملک‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا، بعد میں اسے تبدیل کرکے اتروڑ کردیا گیا،
لیکن بزرگ لوگ اسے آج بھی ازروڑ کے نام سے پکارتے ہیں۔
|
|
اُتروڑ اور گبرال کی آبادی ،کوہستانی باشندوں پر مشتمل ہے، تاہم
یہاں گوجر قوم کے افراد کی بھی بڑی تعدادرہائش پذیرہے۔ کوہستانی لوگ دوبڑے
قبائل میں منقسم ہیں، درے خیل اور نریٹ۔اتروڑ اور گبرال کے علاقوں میں
مذکورہ دونوں قبائل کے لوگ بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ ان کی بہادری، جذبہ
ایثار اور ملن ساری ضرب المثل ہے۔ یہ لوگ بہت مہمان نواز ہوتے ہیں اور
مہمانوں کی تعظیم و تکریم اپنے فرائض کا حصہ سمجھتے ہیں۔کوہستانی قبائل میں
کلاشنکوف کلچر عام ہے، اس کی جھلک اتروڑ اور گبرال میں بھی دیکھی جاسکتی ہے
لیکن اسلحہ کی فراوانی کے باوجود یہاں کے لوگ امن پسند ، ہمدرداوردوست نواز
ہیں۔
اُتروڑ میں ایک قدیم مسجد کی دو منزلہ عمارت سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنی
رہتی ہے۔ اس کی دوسری منزل کی تعمیر میں دیودار اور اخروٹ کی لکڑی کا
استعمال کیا گیا ہے جس پرانتہائی مہارت سے کندہ کاری کی گئی ہے۔ اس خوب
صورت شاہ کار کی تخلیق کے لیے سوات کے کاری گروں کے علاوہ افغانستان سے بھی
لکڑی پر منقش کام کرنے والے ماہرین بلائے گئے تھے۔ اتروڑ کی کی وادی کے حسن
اور دل فریب مناظر سے محظوظ ہونے کے لیے یہاں کم سے کم ایک ہفتے کا قیام
لازمی ہے ۔ لدو بانڈہ جھیل، لوئے پنڈغال، کالام بانڈہ، اِزمِس جھیل، دیسان
کی پہاڑی چراگاہ، کنڈلو ڈنڈجھیل، خاپیرو ڈنڈ جسے پریوں کی جھیل کہا جاتا ہے،،
سپین خوڑ ڈنڈ،سفید ندی والی جھیل یہاں کے وہ دل فریب مقامات ہیں جہاں جیپ
کے علاوہ گھوڑوں اور ٹریکنگ یعنی پیدل سفر کرکے بھی جایا جاسکتا ہے۔
|
|
اتروڑ سے ملحقہ گبرال کی وادی بھی حسن و جمال میں یکتا ہےجو سطح سمندر سے
7500 فٹ کی بلندی پر واقع ہے،لیکن وہاں اتروڑ کی طرح سیاحتی سہولتیں میسر
نہیں ہیں،رہائش کے لیے محکمہ جنگلات کا ایک چھوٹا سا ریسٹ ہاؤس ہے، جس میں
پیشگی بکنگ کرانا پڑتی ہے۔ وادی گبرال میں کیمپنگ کے لیے بہترین سائٹس
موجود ہیں اس لیے زیادہ تر سیاح اپنے ساتھ خیمے، اشیائے خورونوش، گیس کے
چولہے ، گرم بستر اور کپڑے ساتھ لے کر آتے ہیں اور یہاں کے خالص قدرتی
ماحول سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ وادی کے اطراف میں بلند و بالا پہاڑ ہائیکنگ
اور ٹریکنگ کے شائقین کے لیے پسندید ہ مقامات ہیں۔ پہاڑوں کی بلندی اور ان
کے ساتھ مسطح میدانوں میں لکڑی کےخوب صورت مکانات نظر آتے ہیں۔ اُتروڑ اور
گبرال کوجڑواں وادیاں بھی کہا جاتا ہے ، ان دونوں کی مجموعی آبادی تقریباً
30 ہزارنفوس پر مشتمل ہے۔ سردی کے موسم میں یہاں موسم سخت سرد ہوتا ہے،
اکتوبر سے نومبر کے دوران یہاںاتنی برف پڑتی ہے کہ کالام سے اتروڑ اور
گبرال جانے والے راستے مسدود ہوجاتے ہیں۔اتروڑ اور گبرال کی وادیوں کی سیر
کے لیے مئی سے ستمبر تک موسم موزوں ہوتا ہے ، جب میدانی علاقوں میں گرم
ہوتا ہے، یہاں ہلکی خنکی ہوتی ہے جو انتہائی خوش گوار معلوم ہوتی ہے مذکورہ
وادی کی خوش گوار فضا سیاحوں کو یہاں کھینچ لاتی ہے اور وہ یہاں کے مسحور
کن ماحول میں اس قدر گم ہوجاتے ہیں کہ شہروں کی یاد بھی بھلا بیٹھتے ہیں ۔
|
|