چادر والی سرکار

فرید العصر حضرت سید ولی محمد شاہ المعروف چادر والی سرکار ؒ

حضرت سید ولی محمد شاہ المعروف چادر والی سرکار ؒ روحانی افلاس کے اس دور میں اللہ کی ایسی برہان تھے جنہیں دیکھ کر خودبخود زبان پر ذکر خدا جاری ہو جاتا ۔ ان سے مل کر صحابہ کرام اور اولیائے متقدمین کی تقویٰ و للہیت سے بھرپور محیرالعقول زندگیوں پر قلب کی گہرائیوں سے یقین کرنے کو جی چاہتا تھا ۔ صبر و رضا زہدو استغنا, جودو عطا, تقویٰ و پرہیزگاری, ریاضت ونفس کشی, دنیا سے بے رغبتی, ایثار و اخلاص , عجزوانکسار, خشیت الہٰی اور حب مصطفائی کے اوصاف حمیدہ کی حامل یہ شخصیت ہمارے صدیوں پر محیط عظیم روحانی ورثہ کی حقیقی امین تھی۔

ولادت باسعادت
آپ نے 1923ءمیں دوسین شریف ضلع کرنال (بھارت) کے ایک ممتاز دینی و روحانی گھرانے میں آنکھ کھولی ۔ والد محترم سید رحیم بخشؒ اپنے وقت کے معروف صوفی بزرگ تھے ۔ شہید ملت نوابزادہ لیاقت علی خان کے والد نواب رستم علی خاں جیسی شخصیات آپ کے حلقہ ارادت ميں شامل تھيں ۔ پیر سید فرزند علی شاہؒ , سید عبدالقادر اجرولؒ والے, ابوصالح چشتی, سید معصوم علی شاہؒ اور حضرت سید میراں بھیک ؒ جیسی باکمال شخصیات آپ کے خانوادے کے وہ چشم و چراغ ہیں جن کے ذکر خیر سے تاریخ کی کتب بھری پڑی ہیں ۔

حضرت چادر والی سرکارؒ کو فیاض قدرت نے ابتداءہی سے اپنی محبت کا ذوق و شوق عطا کیا تھا ۔ آپ مادر زاد ولی تھے ۔ روحانی فیوض و برکات اور باطنی کمالات آپ کو وراثت میں ملے تھے آپ کے برادر بزرگ سید امیر احمد شاہ صاحب بیان کرتے ہیں ۔” آپ کی ولادت کے کچھ ہی دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی ۔ اباحضور باہر تشریف لے گئے تو ایک متشرع فقیر کو دیکھا جنہیں اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا ۔ نووارد نے کہا مجھے ہاتف غیبی نے نومولود کا نام سید ولی محمد بتایا ہے اور یہ بچہ اسم باسمٰی ہو گا۔ پوچھنے پر بتایا کہ میں اپنے علاقے کا قطب ہوں اور بچے کا نام رکھنے آیا تھا ۔ سید امیر شاہ صاحب کہتے ہیں کہ درویش دروازے پر ہی غائب ہو گیا اور پھر کبھی نظر نہیں آیا ۔ اس واقعہ کا ذکر خود چادر والی سرکارؒ فرمایا کرتے تھے۔

تعلیم و تربیت
آپ نے علوم دینیہ کے ساتھ ساتھ شاہ آباد (بھارت) میں میٹرک تک باقاعدہ تعلیم حاصل کی ۔ قرات و مناظرہ میں حافظ قاری نور احمدؒ پانی پتی آپ کے استاد تھے کبھی کبھی پانی پتی لہجے میں اس خوبصورت انداز میں قران پاک پڑھتے کہ سامعین پر وجد طاری ہو جاتا ۔ دورہ حدیث و تفسیر میں آپ نے ضلع کرنال کے مشہور عالم پیر احمد سلام ؒکے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا جبکہ دیگر علوم کی تکمیل آپ نے مولانا بدرالاسلامؒ سے کی ۔ پیر احمد سلام ؒکے متعلق فرمایا کرتے تھے وہ پیربھی تھے حکیم بھی , محدث بھی تھے , مفسر بھی .مجھے خدا نے ایسا استاد دیا جس کا ثانی پورے کرنال میں نہ تھا۔

بیعت و ارشاد
آپ کے آباءاجداد سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ کے اکابرین میں سے تھے لیکن آپ نے ایک رات خواب میں حضور قبلہ عالم امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری ؒ کو دیکھا اور بے چین ہو گئے ۔ غائبانہ محبت نے بے بس کر دیا بے خودی کے عالم میں تلاش یار میں نکل کھڑے ہوئے ۔ علی پور سیداں پہنچے حضرت امیر ملت ؒ آپ کے منتظر تھے آپ نے ان کے دست حق پرست پر نقشبندی مجددی سلسلے میں شرف بیعت حاصل کیا ۔

درس و تدریس
دینی و دنیوی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے مسلم ہائی سکول انبالہ میں بطور عربی ٹیچر اپنی تدریسی زندگی کا آغاز کیا ۔ دوران پیریڈ بالکل نہ بیٹھتے بلکہ کھڑے ہو کر پڑھاتے ۔ اپنی تنخواہ کا بیشتر حصہ یتیم و نادار طلباءمیں تقسیم فرما دیتے ۔ تمام اساتذہ آپ کی بہت عزت کرتے تھے ہیڈ ماسٹر اور دیگر اساتذہ اکثر آپ سے دعا کے خواستگار ہوتے ۔

خطابت
شاہ آباد میں مخدوم صاحب والی مسجد میں آپ نے عوام کے بے پناہ اصرار پر خطابت کے فرائض انجام دینا شروع کئے ۔ آپ فی سبیل اللہ جمعہ پڑھاتے خطبہ دیتے ,. وعظ و تقریر کا کبھی کسی سے معاوضہ نہیں لیا۔ اپنی جیب سے کرایہ خرچ کر کے جلسہ گاہ میں پہنچتے ۔ شرکاءاور تنظیموں کو نقدی اور مٹھائی سے نوازتے اور تبرک بھی سب آدمیوں کے برابر لیتے ۔ تقسیم ہند تک آپ اسی طرح خطابت کے فرائض انجام دیتے رہے اور قیام پاکستان کے بعد مدینتہ الاولیاءملتان کو اپنا مسکن بنایا ۔

اوائل عمر میں کرامات کا ظہور
اصول فطرت ہے کہ جن قدسی نفوس کو رشدوہدایت کا منصب جلیلہ تفویض کرنا مقصود ہوتا ہے ان کی پرورش و تربیت کے مراحل بھی ایک خاص نہج اور مخصوص ڈھب پر طے ہوتے ہیں پیدائش سے وفات تک کا لمحہ لمحہ فیضان خداوندی ان کا شریک اور نگہبان ہوتا ہے ۔ ابتداءہی سے ان کی عادات و کردار میں تقویٰ و پرہیزگاری کی خوشبو رچی ہوتی ہے ؛ وہ ہر آن اپنے خالق کے لطف و کرم سے سرفراز ؛ دائمی سعادتوں کی جانب بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی پاکیزہ زندگی کا ہر دور اپنے عہد کے سماجی پس منظر میں منفرد و ممتاز دکھائی دیتا ہے ۔ حضرت چادر والی سرکارؒ پر بھی یہ حقیقت پوری طرح صادق آتی ہے ۔

دنیا سے بے رغبتی اورعزلت نشینی بچپن ہی سے آپ کی طبیعت کا حصہ بن گئے تھے ۔ ذکر خداوندی میں انہماک و استغراق سن شعور ہی سے آپ کی پہچان بن چکا تھا ۔ خود فرماتے تھے ۔” میں نے بچپن ہی سے چادر لے رکھی ہے ۔ کبھی کسی کے ساتھ دنگا فساد نہیں کیا ۔ ناکسی کے ساتھ کھیلا سکول میں بھی میرے استادوں نے ڈرل کا پیریڈ مجھ پر معاف کر رکھا تھا ۔اوائل عمر ہی سے شرم و حیاءکا پیکر تھے ۔ سکول میں بھی چادر اوڑھ کر جاتے ایک مرتبہ اسی حال میں کلاس روم میں تشریف فرما تھے کہ انسپکٹر آف سکولز دورے پر آ نکلا , معائنے کے دوران اس نے کلاس ٹیچر سے دریافت کیا کہ آپ نے کلاس میں لڑکی بٹھائی ہوئی ہے؟ اس پر استاد نے اس محوحیرت انسپکٹر سے کہا نہیں جناب یہ لڑکا حیاءکے سبب چادر اوڑھے رکھتا ہے۔ آپ کے آبائی گاﺅں شاہ آباد کے بزرگ اور آپ کے بچپن کے دوست آپ کی ابتدائی زندگی کے عجیب و غریب واقعات بیان کرتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ایام طفولیت ہی سے آپ عوام الناس کی توجہ کا مرکز بن چکے تھے ایک اعلیٰ ریٹائرڈ آفیسر آپ کے ہم سبق ہیں وہ بیان کرتے ہیں ۔

” میراں جی (پرانے لوگ آپ کو اسی نام سے یاد کرتے ہیں ) بچپن ہی سے عام بچوں سے مختلف تھے ولائت کے آثار بچپن ہی سے ہویدا تھے ۔ آپ اپنی چیزیں جماعت کے غریب و مستحق بچوں میں تقسیم کر دیتے تھے حتیٰ کہ اپنی روٹی بھی دوسروں کو کھلا دیتے اور کبھی کسی کی دلآزاری نا کرتے اساتذہ کا بے حد احترام کرتے اور ہر ایک سے محبت سے پیش آتے ۔ نماز روزہ تب سے باقاعدگی سے ادا کرنا شروع کیا جب ابھی اس کے مکلف بھی نا ہوئے تھے غرض دست بکار و دل بہ یار والا معاملہ تھا .

آپ کے ایک اور ہم سبق سابق سٹیمنٹ کمشنر آپ کے ابتدائی حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں ”مجھے فخر ہے کہ میرا ساتھی بے مثل ولی ہے ۔ حضرت چادر والی سرکارؒ کے جو اوصاف آپ دیکھ رہے ہیں بچپن ہی سے وہ ان اوصاف سے متصف تھے ۔ایک اور بزرگ کا بیان ہے کہ آپ کے مکان کی تعمیر ہو رہی تھی ایک معمار نے کہا شاہ جی ذرا چلم کے لئے آگ تو لا دو ۔ حضرت چادر والی سرکار ؒ جو اس وقت بچے تھے نہایت معصومیت سے اپنے دامن کے کپڑے میں دہکتے ہوئے انگارے لئے چلے آئے لیکن آپ کے کپڑے کو آنچ تک نا آئی ۔ معمار اس منظر کو دیکھ کر خوفزہ ہو گیا اور آئندہ حقہ پینے سے توبہ کر لی ۔

فنا فی الشیخ
حضرت چادر والی سرکارؒ کو اپنے مرشد کریم حضور قبلہ عالم ؒ امیر ملت پیر جماعت علی شاہ ؒ محدث علی پوری سے بے پناہ محبت تھی آپ فنافی الشیخ کے مقام سے آشنا تھے۔ خود فرمایا کرتے تھے ۔
”جب حضور قبلہ عالم کے عشق کا غلبہ ہوتا تو میں گاڑی کا انتظار نا کرتا اور شاہ آباد سے پیدل چل کر انبالہ پہنچتا اور یہاں سے گاڑی میں سیالکوٹ پہنچ جاتا ۔ ایک دفعہ میں علی پور سیداں امیر ملت ؒ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ کئی دن قیام کے بعد حضور قبلہ عالم ؒ سے اجازت لے کر واپس کرنال روانہ ہوا ۔ سیالکوٹ سے لاہور اور لاہور سے امرتسر پہنچا تو طبیعت مچل گئی ۔ روح بے قرار ہو گئی آتش فراق اس قدر بڑھی کہ مجھ سے برداشت نہ ہوا قدم آگے بڑھانے کی ہمت نا رہی ۔ آخر کار امر تسر سے ہی لاہور کا ٹکٹ لیا اور یہاں سے نارووال کے راستے واپس علی پور سیداں پہنچ گیا ۔

مرشد کے لئے ایثار
مکتوبات امير ملت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ١٩٣٨کے وسط ميں آپ نہائيت عليل تھے ۔اپنے ايک مريد خاص الحاج بخشی مصطفے علی خاں مہاجر مدنی کے نام اپنے ايک خط محررہ جولائی ١٩٣٨ ميں تحرير فرماتے ہيں "آپ جس دن سے تشريف لے گئے ہيں اس دن سے فقير کی طبيعت پورے اعتدال پر نہيں آئی ۔ اختلاج قلب کا دورہ مغرب کے بعد ہوجاتاہے ۔ضعف بے حد ہے ۔ نماز بيٹھ کر پڑھتا ہوں ۔جماعت پيچھے کھڑی ہوتی ہے ۔ مجھے شرم آتی ہے کہ پيچھے ساری جماعت تو کھڑی ہوتی ہے اور ميں بيٹھا ہوا ہوتا ہوں ۔اس وقت ميرے دل کی جو حالت ہوتی ہے اس کو ميں جانتا ہوں يا ميرا خدا ۔ جب سے عرس شريف گزرا ہے تب سے فقير مختلف امراض ميں مبتلا رہا ۔ -----جسمانی ساری قوتيں جواب دے چکی ہيں ۔ ضعف بے حد بڑھ گيا ہے ۔"

اسی اثنا ميں شاہ آباد میں سیالکوٹ سے خط آیاجس ميں لکھا تھا ۔” حضور قبلہ عالم ؒ بہت بیمار ہیں اور بچنا محال ہے ۔" حضور چادر والی سرکار ؒ فرمایا کرتے ۔” بچنا محال ہے کے جملے نے مجھے بے قرار کر دیا میں نے بروز جمعہ مخدوم والی جامع مسجد جس میں میں جمعہ پڑھایا کرتا تھا ۔ دونوں خطبوں کے درمیان لوگوں سے کہا کہ میں دعا کرتا ہوں آپ سب آمین کہیں میں نے دعا کی یا اللہ میرے بیٹے کو لے لے اور میرے حضور قبلہ عالم کو صحت عطا فرما۔ لوگوں میں اضطراب پھیل گیا ۔ کچھ نے بے سنے آمین کہا اور کچھ پر سکتہ طاری ہو گیا ۔ جمعہ ہو چکا تو شہر میں ہلچل مچ گئی لوگ مولانا فضل دین ؒ ٹونک والے اور پیر جی بشیر ؒ کے پاس گئے انہوں نے جواب دیا شاہ جی درویش آدمی ہیں جو کچھ کہہ چکے ہیں وہ ہو کر رہے گا ۔ بیٹے کا نام سید سعید اختر رنگ بھورا , بال گھنگھریالے اور عمر چار برس تھی ۔ ہفتہ کے روز سعید اختر کو ماں نے نہلا کر کپڑے پہنائے ۔ لڑکا باہر کھیلنے چلا گیا ۔ ہنسا کھیلتا گھر آیا اور چارپائی پر لیٹ گیا ۔ معمولی سابخار ہوا اور کچھ ہی دیر بعد روح قفس عیضری سے پرواز کر گئی ۔" اس کے بعد حضور قبلہ عالم ؒ جن کی عمر اس وقت سو برس سے زائد تھی مزید تيرہ برس جیئے ۔ یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت چادر والی سرکار ؒ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی اور درد سے بھرائی آواز میں فرماتے ۔ ”ہائے پھر وہی جدائی کا صدمہ اٹھانا پڑا "کئی مرتبہ حضور قبلہ عالم کاذکر خیر محفل میں ہوتا تو آپ پر وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی فرمایا کرتے ۔ میرے مرشد کی مثال دور حاضر میں مل نہیں سکتی ۔

معاشرتی زندگی
انسانوں سے آپ کے تعلقات کی واحد اساس خداوند قدوس کی رضا و خوشنودی تھی سینکڑوں افراد آپ کے در دولت پر حاضر ہوتے اور آپ ہر ایک کو نقدی اور مٹھائی سے سرفراز کر کے واپس لوٹاتے ۔ کسی کو بغیر کھانا کھلائے واپس نہ جانے دیتے تھے ۔ سماج کے ٹھکرائے ہوئے اہل ثروت کی حقارت اور غربت و افلاس کا شکار اور خوداعتمادی کی دولت سے محروم افراد آپ کی مجلس میں آکر معتبر ہو جاتے آپ کی رس بھری باتیں اپنائیت کا احساس دلاتیں اور آپ کی محبتوں کے سائبان تلے ہر آنے والا اعتماد کی متاع گمشدہ کو پا کر ایک بار پھر زندگی کرنے کی خو کر لیتا۔ آپ کی گفتگو میں کبھی غرور و تکبر , ریاکاری اور تصنع کا شائبہ تک نہیں ملتا تھا ۔ نوابزادہ لیاقت علی خان کے والد نواب رستم علی خان جیسے افراد خانوادے کے ارادت مندوں میں شامل تھے ۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان اور ضیاءالحق سمیت متعدد حکمرانوں نے آپ کے آستانے پر متعدد بار نیاز مندانہ حاضری دی مگر کیا مجال جو کسی دنیوی غرض کے لئے کسی کے سامنے دست سوال دراز کیا ہو ۔ سجادہ نشینی کے مروجہ آداب سے بے نیاز آپ نے عمر بھر فقر و استغفا کو اپنا شعار بنائے رکھا ۔ مریدین کو ہمیشہ پیر بھائی کہتے اور سب کو حضور قبلہ عالم امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری ؒکی جانب منسوب کرتے ۔ لباس ,خوراک , عادات و اطوار اور روزمرہ کے معمولات سے سلف صالحین کی یاد تازہ ہوتی تھی ۔ ظاہر داری کے تقاضوں سے اس قدر دور کہ باہر سے آنے والا انہیں مریدین کے جھرمٹ میں شناخت کرنے سے قاصر رہتا ۔ ماں کا پیار اور باپ کی شفقت سے لبریزان کے سادہ الفاظ جادو کا سا اثر رکھتے تھے ۔ یہی وہ اوصاف تھے جنہوں نے آپ کو اقلیم دل کا کا بادشاہ بنادیا تھا۔

علماءو مشائخ سے تعلقات
دیندار لوگوں سے آپ کو خصوصی تعلق خاطر تھا ۔ علماءو مشائخ اور حفاظ و قراءحضرات کو انتہائی قدرومنزلت سے دیکھتے ۔ طبقئہ علماءسے تعلق رکھنے والے معمولی سے معمولی فرد کے لئے بھی دیدہ و دل فرش راہ کئے دیتے ۔ معاصر علماءو مشائخ سے آپ کا گہرا رابطہ تھا ۔ خصوصاً غزالی زماں حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی ؒ اور مولانا حامد علی خاں ؒ سے محبت و شفقت کے نہایت مضبوط رشتوں میں منسلک تھے ۔ دونوں حضرات آپ کے صاحبزادے سید زین العابدین شاہؒ صاحب کے استاد بھی تھے اکثر اوقات مدرسہ انوار العلوم اور مدرسہ خیرالمیعاد تشریف لے جاتے ۔ اساتذہ کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالتے اور سینکڑوں طلباءکی موسمی پھلوں , شیرینی اور زرنقد سے خدمت کرتے ۔ مدارس عربیہ کے اساتذہ اور طلباءبھی آپ سے بے پناہ عقیدت رکھتے تھے ۔ انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی , اسلام آباد کے استاد پروفیسر نوازالحسنی اپنے دور طالب علمی کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔

” انوار العلوم میں قیام کے دوران جب ہم مدرسہ کی روٹیوں سے اکتا جاتے اور کوئی اچھی چیز کھانے کو طبیعت چاہتی تو ہم چند ساتھی حضرت چادر والی سرکارؒ کے در دولت پر حاضر ہوتے اور دینی طلباءپر آپ کی بے پناہ شفقتوں کے مزے لوٹتے ۔" آپ کی عادت مبارکہ تھی کہ جس مدرسہ , مسجد یا گھر میں تشریف لے جاتے خطیب , امام , استاد اور صاحب خانہ کی مالی معاونت فرماتے ۔ اگر علماءمیں سے کوئی شخص بھی آستانے پر حاضر ہوتا تو اس قدرعزت افزائی فرماتے کہ مہمان اپنی خوش قسمتی پر ناز کرنے لگتا ۔

وصال مبارک
ملت اسلامیہ کا یہ بطل جلیل 63برس تک قرآن و سنت کا نور پھیلانے اور مخلوق خدا کی خدمت کرنے کے بعد بالآخر 23جولائی 1985ءبروز بدھ صبح 8بجے اپنے خالق حقیقی سے جا ملا ۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ حسن پروانہ کالونی ملتان میں آپ کا مزار اقدس مرجع خلائق ہے ۔ مزار سے متصل مدرسہ ارشادالقرآن آپ کی شاندار یادگار ہے ۔ آپ کے اکلوتے صاحبزادے حضرت صاحبزادہ سید زین العابدین شاہؒ صاحب کے انتقال کے بعد آپ کے پوتے حضرت سید ولی محمد ثانی صاحب زیب سجادہ اور سخاوت و درویشی میں آپ کے نقش قدم پر ہیں ۔ ہر سال آپ کا عرس مبارک آپ کے جدامجد حضرت خواجہ معصوم شاہ صاحب کے عرس کے ساتھ ہی 14,13,12صفرالمظفر کو ملتان میں منعقد ہوتا ہے جس میں ملک بھر سے ہزاروں مریدین و متوسلین شرکت کرتے ہیں ۔
 
Muhammad Aslam
About the Author: Muhammad Aslam Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.