رمضان میں قیام کرنے کو قیام رمضان کہا جاتا ہے ۔ یہ وہی
نماز ہے جو دیگر مہینوں میں قیام اللیل اور تہجد کے نام سے جانی جاتی ہے ۔
رمضان میں عام طور سے تراویح کے نام سے مشہور ہے ۔ یہ نفل نمازہے اس کا بہت
زیادہ ثواب ہے ۔ حدیث میں ہے ۔
من قام رمضانَ إيمانًا واحتسابًا ، غُفِرَ له ما تقدَّم من ذنبِه(صحيح
مسلم:759)
ترجمہ: راوی حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جس نے رمضان کی راتوں میں نماز تراویح پڑھی،
ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ، اس کے اگلے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے۔
٭ تراویح کی مسنون رکعات آٹھ ہیں ، اس کی سب سے بڑی دلیل حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہا کا بیان جو بخاری شریف میں ہے :
أنه سأل عائشة رضي الله عنها : كيف كانت صلاة رسول الله صلَّى اللهُ عليه
وسلَّم في رمضان ؟ . فقالتْ : ما كان يزيدُ في رمضانَ ولا في غيرهِ على
إحدى عشرةَ ركعةً،يُصلِّي أربعًا، فلا تَسَلْ عَن حُسْنِهِنَّ وطولهِنَّ،
ثم يُصلِّي أربعًا، فلا تَسَلْ عنْ حُسْنِهِنَّ وطولهِنَّ، ثم يصلي ثلاثًا
.(صحيح البخاري:2013)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
رات کی نماز رمضان میں کیسی تھی۔ انہوں نے جواب دیا کہ رمضان میں اور اس کے
علاوہ دونوں میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہ بڑھتے تھے۔ چار رکعتیں پڑھتے تھے۔
ان کے طول و حسن کو نہ پوچھو۔ پھر چار رکعتیں پڑھتے جن کے طول و حسن کا کیا
کہنا۔ پھر تین رکعتیں پڑھتے تھے۔
اس حدیث پہ چند اعتراض کا جواب :
اعتراض : یہ تہجد کی نماز ہے تراویح کی نہیں ۔
جواب : تہجد اور تراویح ایک ہی نماز کے دو الگ الگ نام ہیں ۔
اعتراض : تراویح اور تہجد دو الگ الگ نمازیں ہیں ۔
جواب : یہ دونوں ایک ہی نمازیں ہیں جو کہ حدیث میں ہی مذکور ہے کہ رمضان یا
غیر رمضان میں آپ کا قیام آٹھ رکعت کا ہوا کرتا تھا۔اگر یہ تہجد کی نماز
مان لی جائے تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ آپ نے دوبارہ تراویح الگ سے پڑھی جس
کی کوئی دلیل نہیں ۔ اور صحابہ کرام جب چوتھے روز باجماعت تراویح کے لئے
جمع ہوئے اور نبی ﷺ نہیں نکلے تو صحابہ دوبارہ دوسرے قیام کے وقت پھر آتے
مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا؟ ۔ مشہور حنفی عالم مولانا انور شاہ کشمیری نے
بھی تہجد اور تراویح کو ایک ہی نماز تسلیم کیا ہے ۔ (دیکھیں:عرف الشذی
:309)
اعتراض :اگریہ تراویح کی نماز ہے تو دو دو کیوں پڑھتے ہیں ، اس حدیث میں
چارچار کا ذکر ہے؟
جواب : اس حدیث میں چار چار رکعات کا وصف بتلایا گیا ہے نہ کہ چار رکعت پہ
سلام
پھیرنے کا۔ آپ ﷺدو دو کرکے ہی قیام کرتے تھے جس کے بہت سے دلائل ہیں ۔
ایک دلیل : كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يصلِّي فيما بين أن
يفرغَ من صلاةِ العشاءِ ( وهي التي يدعو الناسُ العتمَةَ ) إلى الفجرِ ،
إحدى عشرةَ ركعةً . يسلِّمُ بين كلِّ ركعتَينِ . ويوتر بواحدةٍ .(صحيح
مسلم:736)
ترجمہ : رسول اللہ ﷺ عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد صبح تک گیارہ رکعات
پڑھتے تھے اور اسی نماز کو لوگ عتمہ بھی کہتے تھے، آپ ہر دو رکعات پر سلام
پھیرتے تھے اور ایک وتر پڑھتے تھے۔
دوسری دلیل : صلاةُ الليلِ مثنى مثنى ، فإذا خشي أحدُكم الصبحَ صلى ركعةً
واحدةً ، توتِرُ له ما قد صلى.(صحيح البخاري:990 و صحيح مسلم:749)
ترجمہ : رات کی نماز دو دو رکعت ہے، اور اگر تم میں کسی کو صبح ہوجانے کا
اندیشہ ہو، اور وہ ایک رکعت پڑھ لے، تو یہ اس کی پڑھی ہوئی نماز کے لئے وتر
ہوجائیگی۔
٭ تراویح کی نماز اکیلے اور باجماعت دونوں پڑھنا صحیح ہے ۔
٭ مرد امام کے پیچھے صرف عورتوں کا تراویح پڑھنابھی جائز ہے ۔
٭ تراویح مسجد اور گھر دونوں جگہ پڑھی جاسکتی ہے۔
٭ تراویح میں بضرورت قرآن اٹھانا اور دیکھ کر پڑھنا دونوں جائز ہے ۔
٭تراویح میں قرآن ختم کرنا ضروری نہیں ہے البتہ ختم کرے تو بہتر ہے نبی ﷺ
رمضان میں مکمل قرآن کا دورہ کرتے تھے۔
٭نبی ﷺ کی طرف منسوب بیس رکعت تراویح والی کوئی روایت صحیح نہیں ہے ۔
دو غلط فہمیوں کا ازالہ
پہلی غلط فہمی : لوگوں کے درمیان یہ غلط فہمی پھیلی ہے کہ حضرت عمررضی اللہ
عنہ نے لوگوں کو بیس رکعت تراویح پہ جمع کیاجبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے
متعلق بیس رکعت والی حدیث ضعیف اور صحیح حدیث کے مخالف ہے ۔ درست بات یہی
ہے کہ حضرت عمر نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم
دیا تھا جو صحیح سند سے ثابت ہے ۔
عن عمرَ رضيَ اللَّهُ تعالى عنهُ أنَّهُ أمرَ أبيَّ بنَ كعبٍ وتميمًا
الدَّاريَّ أن يقوما للنَّاسِ بإحدى عشرةَ رَكعةً(تحفة الأحوذي:3/234)
ترجمہ : حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو حکم
دیا تھا کہ لوگوں کو گیارہ رکعت پڑھایا کریں۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے مشکوۃ ،ارواء الغلیل ، تمام المنہ اور صلاۃ
التراویح میں ، شیخ ابن عثیمین نے بلوغ المرام اور ریاض الصالحین کی شرح
میں ، علامہ مبارکپوری نے تحفۃ الاحوذی میں صحیح الاسناد بتلایا ہے ۔
گویا حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی گیارہ رکعت پہ ہی لوگوں کا جمع کرنا
ثابت ہوتا ہے اور یہی بات بخاری شریف میں مذکور بیان عائشہ رضی اللہ عنہا
کے موافق ہے ۔
دوسری غلط فہمی : اگر سنت تراویح آٹھ رکعت ہے تو حرم شریف میں بیس رکعت
تراویح کیوں پڑھائی جاتی ہے ؟
اصل میں حرم عالمی جگہ ہے ،یہاں کسی زمانے میں چار مصلے ہواکرتے تھے ، آل
سعود نے الحمد للہ ایک مصلی قائم کرکے فتنہ رفع کیا ۔ تراویح بھی لوگوں کے
لئے باعث اختلاف تھا اس لئے مصلحتا بیس رکعت رکھی گئی ۔ اس کے لئے دو امام
کا انتخاب کیا گیا تاکہ ایک امام دس پڑھا کر چلے جاتے ہیں وہ الگ سے
اکیلےایک رکعت وتر پڑھتے ہیں جس سےگیارہ رکعت تراویح کی سنت پوری ہوجاتی ہے۔
یہی حال دوسرے امام کا بھی ہے ۔ اس طرح سے نہ صرف فتنہ ختم ہوگیابلکہ امام
کو گیارہ گیارہ رکعت پڑھنے اور دور دراز سے لیٹ سیٹ آنے والوں کو جس قدر
میسر ہو پڑھنے کا موقع مل گیا۔حرم کے علاوہ سعودی عرب کی اکثر مساجد میں
صرف آٹھ رکعت تراویح ہوتی ہے کیونکہ عرب کے علماء کا یہی موقف اور فتوی ہے
۔ چنانچہ سعودی لجنہ دائمہ کا فتوی ہے :
''والأفضل ما کان النبيﷺ یفعله غالبًا وھو أن یقوم بثمان رکعات یسلم من کل
رکعتین، ویوتر بثلاث مع الخشوع والطمأنینة وترتیل القراء ة، لما ثبت فی
الصحیحین من عائشة رضی اﷲ عنھا قالت: کان رسول اﷲ ﷺ لا یزید في رمضان ولا
في غیرہ علی إحدٰی عشرة رکعة...''(فتاوٰی اللجنة الدائمة 7؍212)
ترجمہ : اور افضل وہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اکثر و بیشتر کرتے تھے،
اور وہ یہ کہ انسان آٹھ رکعات پڑھے، اور ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرے، پھر
تین وتر ادا کرے اور پوری نماز میں خشوع، اطمینان اور ترتیل قرآن ضروری ہے۔
بخاری و مسلم میں حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان
اور دیگر مہینوں میں گیارہ رکعات سے
زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔
یہی فتوی شیخ ابن باز، شیخ ابن عثیمین اور عرب کے دیگر مشائخ کا ہے ۔ اللہ
تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں سنت کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کی توفیق دے ۔
آمین |