مسلم لیگی سینیٹر نہال ہاشمی نے سکرپٹ کے مطابق اپنے حصّے
کی خود کش بمباری کا حق ادا کرتے ہوئے سیاسی شہادت دے دی۔ اشاروں میں نہیں،
بلکہ کھُلے لفظوں میں جے آئی ٹی کے ممبران اور عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بنا
ڈالا۔ آخر ایک سُلجھے اور جہاندیدہ پارلیمینٹرین کو کیا سُوجھی کہ ’بیٹھے
بٹھائے‘ قائد کی اندھی محبت کا ثبوت دیتے ہوئے بڑھک مارکر خود کو خاصی مشکل
میں ڈال دیا۔ عدالت نے نوٹس لے کے طلب کر ڈالا اور ہاشمی کی معافی کو در
خور اعتناء نہ سمجھتے ہوئے اس بیان کے پسِ پردہ محرکات و شخصیات کو بھی
رگید ڈالا۔ ان سوالوں کا جواب بہت آسان ہے اور وہ یہ کہ جب کسی شہنشاہ کے
اقتدار کا سنگھاسن ڈولنے لگتا ہے تو نہال ہاشمی، پرویز رشید، طارق فاطمی
اور اس طرح کے کئی غلاموں کو اپنی بقا کی قربان گاہ کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا
ہے۔ غلام بیچارہ کر بھی کچھ نہیں سکتا، کرے گا تو نیب میں اُس کے نام کی
فائلیں تیار پڑی ہوتی ہیں۔ ان سیاسی غلاموں کو پتا ہے کہ ان کا اپنا قائد
اپنے دورِ حکومت میں ہی ذرا سی حکم عدولی پر انہیں نیب جیسے خونخوار درندے
کے آگے پھینک دے گا۔ سو یہ لوگ تو مجبورِ محض ہیں۔ سُوجھ بُوجھ والے ہیں
مگر آلِ شریف کارپوریشن کے سربراہ کے چنگل میں ان کی جانیں اور سیاست
یرغمال پڑی ہے۔ سو ترس تو آتا ہے دانیال عزیز، عابد شیر علی، مریم اورنگزیب،
مشاہد اﷲ، طلال چودھری، خواجہ سعد رفیق، نہال ہاشمی اور اسی طرح کے چند اور
لوگوں پر جو شریفیہ ایمپائر کی بقا کے بُجھتے الاؤ میں بطور ایندھن استعمال
کیے جا رہے ہیں اور آگے چل کر انہوں نے ہی عدالتیں بھُگتنی ہیں، توہینِ
عدالت اور کرپشن کے کیسز کا ملبہ انہی پر پڑنا ہے اور سب سے بڑھ کر عوامی
عتاب کا بیشتر نزلہ انہی پر گرنا ہے۔ مگر یہ بیچارے تو شریف کارپوریشن کے
ملازم ہیں، اور ملازم نہ تو کر ہی نہیں سکتا۔ کارپوریشن نے تو پاکستان میں
موجود اپنے تمام اثاثوں کو محفوظ بنانے کے لیے انہیں عنقریب منتقل کر دینا
ہے۔ سرمایہ پاس ہو توکاروبار دُنیا کے کسی بھی مُلک میں چل ہی پڑے گا۔
طالبانی خود کش حملہ آوروں کی بعد از مرگ ویڈیوز جار ی ہوتی ہیں، جبکہ ان
سیاسی خود کش حملہ آوروں کے ہر وقوعے کے بعد صرف استعفے ظاہر ہوتے ہیں، یوں
یہ منظر عام سے غائب ہو جاتے ہیں۔ بیچارہ نہال ہاشمی تو ایک معمولی سا
کارکن ہے ۔ یہ لوگ تو قائد کی نمک حلالی کا حق ادا کر رہے ہیں کہ اُس نے
انہیں سیاسی کیریئر کی خاک سے عرش تک پہنچا دیا۔ ان کا کام تو صرف حکمرانوں
کے غیظ و غضب اور تلملاہٹ کے اظہار کے لیے بطور ماؤتھ پیس استعمال ہونا ہے۔
شہنشاہ معظم نے حالات کی سنجیدگی دیکھتے ہوئے اس طرح کے خود کش سپاہیوں کے
لشکر کے لشکر تیار کر رکھے ہیں، مستقبل قریب میں مزید سیاسی کارکن ایک ایک
کر کے اپنے آقا کے تخت و تاج کی حفاظت کی خاطر قربان کر دیئے جائیں گے۔
جب آلِ شریف جدہ منتقل ہو گئی تو مشرف نے اپنا سارا غصّہ نواز لیگ کے بچے
کھُچے لیڈروں اور کارکنوں پر نکالا۔ بلاوجہ کی قید و بند اور مار پیٹ کی
صعوبتیں خواجہ سعد رفیق، جاوید ہاشمی اور کئی دیگر لوگوں نے کاٹیں۔ سو یہ
ہوتی ہے موروثی سیاست میں کارکنوں اور بیچارے لیڈروں کی اوقات۔ عدلیہ کے
تیور دیکھ کر تو یہی لگتا ہے کہ وہ نہال ہاشمی کی ’ذاتی‘ ہرزہ سرائی کو
قطعاً معاف کرنے کے موڈ میں نہیں۔ معذرت سے جان چھُٹنے والی نہیں۔ پر کوئی
بات نہیں سیاست کی شطرنج میں ’چھوٹے موٹے‘ پیادے پِٹ جانا کوئی بڑی بات
نہیں۔ یہاں تو عدلیہ تحریک کے دوران افتخار چودھری جیسا ہوشیار جج، پُوری
وکلاء قیادت اور سب سے بڑھ کر اعتزاز احسن جیسا جہاندیدہ اور سیانا سیاست
دان بھی شریفوں کے ہاتھوں یوں استعمال ہوئے کہ انہیں کئی سال بعد جا کر
پُورے وقوعے کی سمجھ آئی کہ یہ تحریک حقیقتاً نواز شریف کی سیاست کو دوام
بخشنے کا ایک چال تھی۔ عوام عدلیہ کی شان کی خاطر مر مٹنے کو تیار ہو گئی۔
شہباز شریف کا موقف یہ تھا کہ افتخار چودھری کو بحال کرنے کے چند روز بعد
باعزت طریقے سے ریٹائر کر دیا جائے جبکہ نواز شریف نے یہ سوچ رکھا تھا کہ
افتخار چودھری پر جو خطیر سرمایہ لگایا ہے، اُس انویسٹمنٹ کے ثمرات سمیٹے
جائیں۔ چنانچہ افتخار چودھری کے ہاتھوں پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم کو رخصت
کروایا گیا اور کئی دیگر معاملوں میں زرداری حکومت کو پریشان کیے رکھا جبکہ
نواز شریف کے خلاف کیسز میں ہتھ ہولا رکھا۔ خواجہ شریف قتل سازش کیس میں
بھی پیپلز پارٹی کی ایک اعلیٰ شخصیت کو پھنسانے کا ارادہ تھا مگر مشیتِ
ایزدی سے یہ کام پایۂ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔
آل شریف کی سیاسی فطرت میں تین باتیں شامل ہیں، اول یہ کہ مخالفین کو پیسے
کی چمک سے خریدنے کی کوشش کرنا، اگر کام نہ بنے تو پھر یہ لوگ ڈرانے
دھمکانے پر تُل جاتے ہیں، (جیسا کہ سابقہ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ
کیا گیا) اور اگر یہ حربہ بھی ناکام ہو جائے تو یہ بھاگ جاتے ہیں۔ سو یہ
حربے باری باری آزمائے جا رہے ہیں۔ اور لگتا یہی ہے کہ اس وقت ان کے پاس
صرف تیسرے آپشن کا راہ کھُلا ہے۔ دُختر ِاول برطانیہ میں بلاوجہ نہیں بیٹھی۔
حقیقت میں انہیں یقین ہونے لگا ہے کہ ان کی سیاسی وڈیو گیم کے سارے ٹوکن
ختم ہو گئے ہیں۔ اب ان کو عوام، اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ کہیں سے بھی سیاسی بقاء
کے نئے ٹوکن نہیں مِلنے والے۔ یہ اس وقت ایک دو عرب مُلکوں میں سیاسی پناہ
کے لیے مذاکرات میں مصروف ہیں۔ ان کی تیاریاں مکمل ہیں۔ صندوق تیار کیے جا
چکے ہیں۔ مگر اس سے پہلے یہ اپنے آخری پتّے چلیں گے۔ ایک پتہ تو ہو گا مسلم
لیگی گُلو بٹوں کے ذریعے توڑ پھوڑ اور پُرتشدد مظاہرے و احتجاج کروانے کا۔
صورتِ حال کو انارکی کی طرف لے جانے کا۔ جوڈیشل اکیڈمی کے باہر مسلم لیگی
گلو بٹوں کے ذریعے کرایا گیا احتجاج اس ڈرامے کا پانچ فیصد بھی نہیں۔ ابھی
پکچر باقی ہے۔ آئندہ چند روز میں برپا ہونے والے پُرتشدد مظاہروں میں اپنے
ہی کارکنوں کو خود ہی مروا کر عوام کی ہمدردی سمیٹنے کے جتن کیے جائیں گے۔
ایک اور آپشن یہ بھی ہو گا کہ اپنے یارِ خاص اور بھارتی ہم منصب مودی کے
ذریعے بارڈرز پر اشتعال انگیزی میں اضافہ کروا کر سارا دھیان بارڈرز کی طرف
منتقل کروا دینا۔ مگر یہ پُرانے حربے اب کام میں نہیں آنے والے۔ کیونکہ
فعال میڈیا، آزاد عدلیہ اور باشعور عوام کے سامنے ان کی ایک نہیں چلنے والی۔
اگر عوام افتخار چودھری نامی ایک جج کی بحالی کے لیے کٹ مرنے کو تیار ہو
سکتے ہیں تو یہاں تو پھر کہیں زیادہ معتبر اور منصف جج صاحبان بیٹھے ہیں
اور ساری اپوزیشن جماعتوں کی سپورٹ بھی انہیں حاصل ہو گی۔
یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ شریفیہ ایمپائر کا مالک اپنی اربوں کھربوں
کی کمائی کے منبع یعنی پاکستان کو اتنی آسانی سے ہاتھ سے نہیں جانے دے گا۔
وزیر اعظم کے ترجمان آصف کرمانی کا بیان بھی ملاحظہ ہو کہ ’اگر ہمیں لگا کہ
جے آئی ٹی میں ہمارے ساتھ کوئی ناروا سلوک برتا جا رہا ہے تو پھر ہم اپنا
آئینی اور قانونی حق استعمال کریں گے۔‘‘ واضح اشارہ ہے کہ معاملات محاذ
آرائی اور سول مارشل لاء کی طرف جا رہے ہیں۔ نواز شریف اپنے خصوصی اختیارات
استعمال کر کے جے آئی ٹی وغیرہ کو کالعدم قرار دلوانے کا حربہ استعمال کرے
گا۔ مگر اس وقت معاملات نواز شریف کے ہاتھ سے بالکل نکل چکے ہیں۔ نواز لیگی
ممبرانِ اسمبلی بھی سیاسی منظر نامے پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ شریفوں کی
سیاست سے نالاں کئی ایم پی اے، ایم این ایز استعفے تیار کیے بیٹھے ہیں۔
فصلی بٹیروں کا تو بس نہیں چل رہا، وہ آج ہی کوئی اور پارٹی جوائن کر لیں،
مگر ابھی بھی شریفوں کا دبدبہ اور خوف قائم ہے، اس لیے فی الوقت دُبکے
بیٹھے ہیں۔
بس عوام کو ایک ہی دھڑکا لگا ہے، کہ جیسے ماضی کی طرح نواز شریف ہر بحران
میں سے ’سُرخرو‘ ہو کر نکل آتا ہے، اس کو جو غیبی امداد کسی نہ کسے ادارے
سے مل جاتی ہے، وہ ایک بار پھر نہ مِل جائے۔ کہیں ماضی کی طرح کوئی نظریۂ
ضرورت نواز شریف کے حق میں انصاف کی تشریحات و توضیحات کو بدل نہ دے۔ مگر
خاطر جمع رکھنی چاہیے ایک فعال اور آزاد عدلیہ نے معاملات کو یہاں تک
پہنچایا ہے کہ نواز شریف بوکھلایا پڑا ہے۔ اب تو یہ انتظار ہے کہ اور کس
سیاسی خود کُش حملہ آور کوعدلیہ یا جے آئی ٹی کے بارے میں ہرزہ سرائی کے
میدان میں اُتارا جاتا ہے۔ کیا ظریفانہ صورتِ حال ہے کہ دودو سال پارلیمنٹ
کو اپنی دِید کی حسرت میں مبتلا رکھنے والے شہنشاہ معظم کی اولاد کو آج
انتظامیہ کے ’معمولی‘ افسران کے انتظار میں گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔
خدا نے ان کے تکبر کو مٹی میں اتنی جلدی رولنا تھا کوئی نہیں جانتا تھا۔
پروٹوکول کے نام پر ٹریفک میں پھنسی منتظر عوام، سرکاری ہسپتالوں میں باری
کے انتظار میں کھڑی عوام،لائٹ کے انتظار میں جھُلسی عوام، خوشیوں اور پیسوں
کوترستی تاکتی مُرجھائے چہروں والی خلقت آج بہت شاداں و فرحاں ہے کہ اُنکے
شہنشاہ معظم کی چہیتی اولاد کو پہلی بار انتظار کے کرب سے آشنا ہونا پڑا۔یہ
سب کچھ ایک ناگزیر انقلاب کی نوید ہے جسے جلد حقیقت کا رُوپ دھارنا نصیب ہو
گا۔
٭٭٭٭٭ |