اسلام کی اشاعت و تبلیغ میں طبقۂ نسواں کا کردار نمایاں
رہا ہے۔ اس سلسلے میں ایثار و قربانی اور دین کے لیے جاں نثاری کی مثال
قائم کرنے والی اولین خاتون کا نام امہات المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی
اﷲ عنہا ہے۔ جنھوں نے ایسے دور میں جب کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے
اعلانِ نبوت فرمایا اور سردارانِ قریش، کفارِ مکہ نے اسلام کے دیے بجھانے
کو بڑا زور لگایا؛ دین کی حفاظت و صیانت کے لیے آپ نے بے مثال قربانی دی۔
ظلم برداشت کر لیا اور نبوی شان و عظمت کے تحفظ میں نمایاں رہیں۔ صبر و رضا
کا پیکر بن کر خاتم الانبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم کی رفاقت کا فریضہ انجام
دیتی رہیں۔ اسلام کے داعیانہ فہم و فراست کی عملی تصویر پیش کرتی رہیں۔
دلوں کی دنیا بدلتی رہیں
وہ عہد ظلم و جہالت کے دل نما پتھر
نبی سے ملتے رہے آئینوں میں ڈھلتے رہے
سیدہ طاہرہ: حضرت خدیجۃالکبریٰ رضی اﷲ عنہا کے والد کا نام خویلد بن اسد ہے۔
والدہ کا نام فاطمہ بنت زائدہ ہے۔ خاندان قریش کی معزز و دولت مند خاتون
تھیں۔ اہلِ مکہ میں اپنی پاکیزگی و پاک دامنی کے سبب ’’طاہرہ‘‘ کے لقب سے
معروف تھیں۔
نکاح: رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اخلاق کی بلندی، کردار کی عظمت، بے
مثالی و کمالِ سیرت دیکھ کر نکاح کی خواہش ظاہر کی۔ آپ نے سب سے پہلے اسلام
قبول فرمایا۔ مصائب سہے، مظالم وتکالیف برداشت کیں، اسلام پر قائم رہیں اور
کاشانۂ نبوی میں رفاقت، استقلال کے ساتھ کوہِ استقامت بنی رہیں۔اپنی ساری
دولت اور مال و اموال بارگاہِ رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم میں نچھاور فرما
دیا۔ جسے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے راہِ خدامیں خرچ فرما دیا۔
جنتی خواتین میں سب سے افضل حضرت سیدنا خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ عنہا، سیدہ
فاطمۃ الزہراء رضی اﷲ عنہا، حضرت مریم رضی اﷲ عنہا، حضرت آسیہ رضی اﷲ عنہا
ہیں۔جن کی مثالی زندگی قیامت تک کی خواتین اسلام کے لیے رہبر و رہنما ہے۔
نشانِ منزل ہے۔
وصال: سرکار اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں ۲۵؍ برس کا عرصہ حضرت
خدیجہ رضی اﷲ عنہا نے گزارا۔ ہجرت سے تین برس قبل ۶۵؍ برس کی عمر میں مکہ
معظمہ میں ۱۰؍ رمضان المبارک میں وصال ہوا۔ جنت المعلیٰ میں تاج دار کونین
صلی اﷲ علیہ وسلم نے خود تدفین فرمائی۔ جن کی بارگاہ کی حاضری روح کی
بالیدگی، دل کی ستھرائی کا ذریعہ ہے۔ ماہِ صیام ۱۴۳۷ھ میں راقم نے ۱۰؍
رمضان کو امہات المومنین کی بارگاہِ عظمت و ناز میں حاضری کا شرف حاصل کیا۔
محسوس ہوا کہ چین و سکون اور امن کے باڑے اس بارگاہ سے بٹ رہے ہیں۔ دنیا کی
لاکھوں خواتین کو ردائے تطہیر فراہم کرنے والی مقدس خاتون مکہ مکرمہ کے اس
بابرکت قبرستان میں محو استراحت ہیں۔
نمونۂ عمل: حضرت خدیجۃالکبریٰ رضی اﷲ عنہا بڑی صاحبِ مال تھیں۔ اﷲ تعالیٰ
نے اخلاق، کردار کی تابندگی کے ساتھ ساتھ مال و منال سے نوازا تھا۔ تجارت
میں خوب برکت عطا کی۔ آپ نے سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کے دامن اقدس
میں کیا پناہ لی؛ تمام مال راہِ خدا کے لیے بارگاہِ رسالت میں پیش فرما دیا۔
ایثار و مروت کی اعلیٰ مثال قائم کی۔ سادہ زندگی بسر کی۔ بعد کے دور والوں
کے لیے آپ کی حیاتِ طیبہ نمونۂ عمل ہے۔ آپ کی وفا شعار زندگی، جہد مسلسل،
کدوکاوش، خوبی و ایثار سبھی مثال ہیں اور پیغامِ عمل بھی۔
لوٹ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو: موجودہ زمانے میں ایک بڑا مسئلہ آزادیِ
نسواں کی آڑ میں اسلام کو نشانہ بنائے جانے کا ہے۔قانون سے عاری زندگی
یقینی طور پر اعتدال سے رُوگردانی قرار دی جا سکتی ہے۔اسلامی قانون کی پاس
داری میں ایک خاتون کی زندگی پاکیزہ و ستھری گزرتی ہے۔ جب کہ موجودہ آزادیِ
نسواں کا نعرہ ان معنوں میں کھوکھلا ہے کہ اس میں عورت کی حیثیت محض کھلونے
کی ہے، نگہِ ہوس کا شکار ہو کر کتنی ہی خواتین اپنی عفت گنوا بیٹھتی
ہیں۔انھیں محض تفریح کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔ اس لیے اسلام کے دامنِ تطہیر
میں عظمت نسواں بھی سلامت ہے اور وقارِ نسواں بھی قائم و باقی ہے۔ عہدِ
رواں کی فحاشی و عیش کوشی نے خواتین کی ذات کو چوراہے پر لا کھڑا کیا ہے،
جہاں ان کی عصمت باقی ہے نہ ان کی عزت و وقعت۔ سلام ہو ! لاکھوں سلام ہو
حضرت سیدہ خدیجۃالکبریٰ رضی اﷲ عنہا پرجن کی مثالی زندگی نے عفتِ نسواں کو
عزم و حوصلہ دیا، مغرب کی تیار کردہ بے حیائی و فحاشی کی آندھیوں میں وقار
و احترام سے جینے کا ہنر دیا۔ امہات المومنین کی شان بے نیازی کو سلام،
سادہ زندگی کو سلام، پاکیزہ طبیعت کو سلام، ایثار ووفا کے جذبات کو سلام
اہلِ اسلام کی مادرانِ شفیق
بانوانِ طہارت پہ لاکھوں سلام
سیما پہلی ماں کہفِ امن و اماں
حق گزارانِ رفاقت پہ لاکھوں سلام
(اعلیٰ حضرت)
٭٭٭
|