اخبار آیا تو میں نے حسبِ روایت اس میں سے کالم کشید کرنے
کی کوششوں کا آغاز کردیا۔ بعض اوقات تو کالم کسی اخباری خبر کا محتاج نہیں
ہوتا، مگر بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اخبار کا ایک ایک صفحہ چھان مارنے کے
باوجود کوئی خبر کالم کے لئے منتخب نہیں ہوپاتی۔ آج بھی کچھ ایسی ہی صورت
حال تھی۔ پہلا صفحہ نصف ہی خبروں کے لئے مخصوص تھا، لوئر ہاف پر ایک عدد
اشتہار تھا۔ آدھے صفحے سے جب کوئی خبر مطلب کی نہ نکلی تو اخبار کو پلٹا،
صفحہ آخر پر بھی اکثر اوقات اپنے مطلب کی بہت سی خبریں نکل آتی ہیں۔ مگر
وہاں بھی پورے صفحے کا اشتہار تھا، جو کئی روز سے پوری آب وتاب کے ساتھ
یہاں شائع ہو رہاتھا۔ ’’رب کی رضا رمضان ․․․ خدمت، خادم کا ایمان‘‘ کے
عنوان سے اس اشتہار میں اربوں روپے کی رعایت کا اعلان تھا، جو آٹے کے سبز
تھیلے کی صورت میں دیا گیا تھا۔ اندر کے صفحات سے بھی ایسی خبر برآمد نہ ہو
سکی جسے کالم کا موضوع بنایا جاتا۔
ایک آدھ خبر میں بتایا گیا تھا کہ قوم نے جس یکجہتی اور اتحاد کا مظاہرہ
گزشتہ تین روز پھلوں کی خریداری کا بائیکاٹ کر کے کیا ہے، اس کی نظیر نہیں
ملتی۔ یہ بھی بتایا گیا کہ یہ ایسی تحریک ہے جسے عوام خود چلاتے ہیں، کسی
نام نہاد لیڈر کی ضرورت نہیں پڑتی، تحریک چلانے کے لئے کوئی اشتہاری مہم
نہیں چلانی پڑتی، کوئی خرچہ نہیں کرنا پڑتا، بس آگاہی مہم ہوتی ہے، قوم
آگاہ ہو چکی ہے کہ ذخیرہ اندوز عوام کو پھل مہنگے داموں کھانے پر مجبور
کرتے ہیں، ان کو سبق سکھایا جانا ضروری ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا کہ یہ تحریک
مکمل کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہے، اب قوم (جوکہ متحد اور یک جان ہو چکی ہے)
اگلی منازل حاصل کرنے کے لئے تیار رہے، اب دیگر مظالم ، مصائب اور مسائل کے
خلاف بھی یہی بائیکاٹ کی پالیسی اپنا کر ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع
خوروں کی گردن دبوچی جا سکے گی۔ قوم کے لئے یہ بڑی حوصلہ افزا مہم تھی۔
آئندہ کے لئے بھی راستے کا تعین اس سے ہوتاتھا۔ اس خبر سے میں بھی کافی
متاثر ہوا، مگر اس سے بہت سے مسائل کے بڑھ جانے کے امکانات بھی عیاں تھے۔
میں نے کالم کا ناغہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنے دیگر کام نمٹانے چلا گیا۔
راستے میں ماڈل بازار پڑتا تھا، میں فروٹ کی ایک دکان پر گیا، تاکہ اخباری
اور سوشل میڈیا کی دنیا سے ہٹ کر حقیقت کی دنیا سے حقائق معلوم کئے جائیں۔
دکان دار نے بتایا کہ مہم کا سنتے تو تھے، مگر ہمیں تو تین روز ہر چیز
معمول کے مطابق ہی لگی، ایک دو فیصد بھی کمی محسوس نہیں ہوئی۔
بائیکاٹ کی یہ پالیسی انتہائی کارگر ہو سکتی ہے، اگر اس پر پوری قوم یکجہتی
کا مظاہرہ کرے۔ اپنے ہاں تو بڑے پیٹوں والے سرمایہ دار اور ذخیرہ اندوز
اجناس کی قیمتیں بڑھا کر اپنی من مرضی کی قیمتیں وصول کرتے ہیں، صارفین کی
مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں، رمضان المبارک میں روزہ داروں کو ریلیف
دینے کی بجائے ، ان کی نیکی میں شامل ہونے کی بجائے ، ان کو دونوں ہاتھوں
سے لوٹا جارہا ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ مذکورہ مافیا کی طرف سے یہ لوٹ مار تو
جائز ہے، مگر اسی لوٹ مار سے عمرے اور صدقات کا بندوبست کیا جاتا ہے، ہر
سال رمضان المبارک حرمین شریفین میں گزارا جاتا ہے، غریبوں کو گھر کے باہر
اکٹھا کیا جاتا ہے، ان کی قطاریں بنا کر انہیں افطار پیکٹ دیئے جاتے ہیں،
عید پیکیج دیئے جاتے ہیں، یوں ثوابِ دارین کا بڑے شان وشوکت سے اہتمام کیا
جاتا ہے۔ ثوابِ دارین کی یہ تشریح خود ساختہ ہے، جو سرمایہ داروں اور ذخیرہ
اندوزوں نے کر رکھی ہے۔
ہم لوگ سو روپے ٹماٹر خریدنے پر تیار ہو جاتے ہیں، اس کے بغیر گزارہ نہیں
کرتے، آلو سو روپے کلو سے مہنگا کھا لیتے ہیں، فروٹ کی تو بات ہی کیا کہ ہر
چیز سیکڑوں روپے کلو سے زائد ہے۔ ہم دفاتر میں بھی جھڑکیں کھاتے ہیں، ہم
افسران کی خوشامد بھی کرتے ہیں، ہم سیاستدانوں کو سر پر بٹھاتے ہیں،
کامیابی کے بعد ان کے پروٹوکول سے جلتے بھی ہیں، اور متاثر بھی ہوتے ہیں،
ہم حکمرانوں کے ’’روٹس‘‘ کی وجہ سے ٹریفک جام کی گھنٹوں ذلتیں برداشت بھی
کرتے ہیں۔ اور بھی نہ جانے کتنے کام ہیں جو ہو رہے ہیں، ہم کر رہے ہیں،
برداشت کر رہے ہیں، بہت سے کاموں کے بائیکاٹ کی ضرورت ہے، بہت سے مقامات پر
کھڑے ہونے کی ضرور ت ہے، بہت سے بت توڑنے کی ضرورت ہے، مگر شرط یہی ہے کہ
قوم تہیہ کرلے۔
|