اس وقت شہر کے چوک چوراہوں سے گزرنے لگتے ہیں تو بے شمار
سائن بورڈز، پمفلٹ، اشتہار صدقہ فطر اور ذکواتہ مانگ رہے ہوتے ہیں اور ان
کا دعوی ہے کہ وہ آپ کی ذکوات کا صحیح استعمال کریں گے۔
اتنی مہنگی تشہیر تو الگ بات ہے کہ وہ کس کے پیسوں سے ہو رہی ہے۔ اس میں
مختلف مذہبی تنظیمیں، مدارس، این جی اوز اور حتی کہ سیکولر تنظیموں کے تحت
چلنے والی این جی اوز بھی ذکواتہ کی طلبگار ہیں۔
ہمارے ہاں گندم کی کٹائی کے موسم مقامی مسجد میں جمعہ کے لیے ایک مذہبی
تنظیم کے ضلعی امیر تشریف لائے ہوئے تھے۔ دوست نے بعد از جمعہ بیٹھنے کو
کہا اور کھانے کی دعوت دی تو ہم نے تشریف کو ساکن رکھنے میں ہی عافیت سمجھی
کہ چلو پیٹ کا بھی اور علمی بھی فائدہ ہوگا۔ امیر صاحب نے متعدد روایات پیش
کرنے کے بعد فرمایا کہ گندم کا عشر ان کی تنظیم کو دے دیا جائے تاکہ وہ اس
کا صحیح استعمال کر سکے۔ میں نے اعتراض کیا کہ حضرت ہمارے ہاں تو کئی غریب
لوگ ، بیوہ عورتیں، یتیم بچے موجود ہیں کیا وہ بہتر نہیں ہیں؟
مولانا نے ایک اور روایت پیش کی کہ کسی مشکل کے وقت حضور کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کو صحابہ کرام نے اپنا سب مال و دولت پیش کر دیا تھا۔
میں نے نقطہ اٹھایا کہ حضرت اس وقت امت پر اتنی مشکل تو نہیں جتنی بمطابق
روایت پیش کر رہے ہیں۔ ہم یہاں گندم اگاتے ہیں اور بیشتت غریب کسان ہیں جن
کا بڑی مشکل سے خرچہ نکلتا ہے ٹھیک ہے انہیں یہ فورس کریں کہ وہ عشر ضرور
نکالیں لیکن اس کے پہلے حقدار تو ہمارے اپنے قریبی رشتہ دار اور ہمسائے ہیں۔
امیر صاحب کچھ اور دلائل پیش کرنے لگ گئے ۔۔۔۔
خیر میں نے ان کو ایک حل یہ تجویز کیا کہ ٹھیک ہے ہم لوگ خود بھی جو عشر
نکلتا ہے دے دیتے ہیں اور یہ کوشش بھی کرتے ہیں کہ لوگوں سے دلوا بھی دیں
لیکن ساتھ میں چند بیوہ اور ضعیف عورتوں کے نام دے دیتے ہیں جن کی سالانہ
کفالت اور خصوصی دنوں میں معاونت کا وعدہ کرلیں لیکن مولنا سندھ، کشمیر کی
کسمپرسی کی حالت اور وہاں کی عدم سہولیات پر بات کرنے لگ گئے۔۔۔۔خیر ہم سب
نے کسی نقطے پر اتفاق نہیں کیا باقی ساتھ بیٹھے ہوئے افراد میرے بارے
پوچھنے لگ گئے کہ یہ بدتمیز کون ہے۔۔۔۔
عرض یہ تھی کہ بالکل یہ تنظیمیں ادارے بھی ذکوات و صدقات کا صحیح استعمال
کرتے ہوں گے لیکن سب سے بڑی ذمہ داری ہماری اپنی ہے کہ جب ہم اپنی جیب سے
ذکوات و صدقات دے بھی رہے ہیں تو کیا وہ صحیح استعمال ہوتے ہیں یا ان
بینرز، اشتہارات اور ائیرکنڈیشنڈ رومز مین بیٹھے افراد کی میٹنگز یا چند
غریبوں کو دی گئ امداد کے فوٹو سیشن میں خرچ ہوجاتے ہیں۔
پاکستان مین غریب اور مسکین کو تلاش کرنا مشکل نہیں ہے آپ کے آفس میں بیٹھے
بوڑے گارڈز، نوکر، سویپرز بھی اس کے حقدار ہو سکتے ہیں محلوں میں کئی ایسی
خواتین بھی ہوں گی جن کا کوئی ذریعہ معاش نہیں یا جنہیں اولادوں نے بھی
پوچھنا چھوڑ دیا ہے اس کے علاوہ ایسے لوگ بھی موجود ہیں خصوصا" ہمارے جنوبی
پنجاب میں جو بیس تیس ایکڑ زمین کے مالک کہلائے جاتے ہیں ، ان کی زمینوں پر
قبضے کئے ہویے ہوتے ہیں لوگوں نے یا پھر ان کے پاس اتنا سرمایہ نہیں ہوتا
کہ وہ خود کاشت کرسکیں لیکن ان کے پاس بھی ضرورت زندگی کے لیے کچھ موجود
نہین ہوتا لیکن انہیں یہ کہہ کر کچھ نہین دیتے کہ یہ زمیندار ہیں میرا تو
خیال ہے ان کو بھی صدقہ نا سہی امداد ضرور دینی چاہیئے۔
دوسری اہم بات اسلام نے ذکوات کا حکم ہر نماز کے حکم کے ساتھ اسی لیے دیا
ہے کہ دنیا کا معاشی نظام بھی ٹھیک کیا جا سکے لیکن نمازیں پڑھنے والے
الحاج صاحبان بہت زیادہ ہیں ذکوات دینے میں ان کو تکلیف ہوتی ہے۔
زکوات کی درست تقسیم نا ہونے کی وجہ سے معاشرے پر سودی سرمایہ داری کا جال
بچھایا ہوا ہے جس میں غریب کو غریب تر اور امیر امیر تر بنتا جا رہا ہے۔
میں دعوے کے ساتھ کہتا ہوں ایک اسی لاہور بلکہ صرف رائیونڈ والے حاکم صحیح
ذکوات ادا کردیں اور کچھ نہیں پورے پنجاب کے معاشی حالات ٹھیک ہو سکتے
ہیں۔۔۔۔۔" |