اک زمانہ ہوا کرتا تھا جب انسان فیس بک کے بغیر
کھاناکھا لیا کرتا تھا، اک زمانہ ہوا کرتا تھا……یعنی …………’’ہوا کرتا
تھا‘‘……لیکن موجودہ دور میں انسان کھانے پینے کی چیزوں کے بغیر کچھ دیر تو
رہ سکتا ہے لیکن فیس بک جیسی اہم سہولت سے محروم خود کو نامکمل انسان
سمجھنے لگتا ہے ،یوں سمجھ لیجئے کہ زندگی جینے کیلئے انسان کا فیس بک سے
ناطہ جڑنا لازمی بن گیا ہے ۔دنیا بھر میں اس وقت شوشل میڈیا پر ہلچل مچی
رہتی ہے ،کوئی اپنی تجارت کاڈنڈورا پیٹ رہا ہے تو کوئی اچھی تعلیم دینے کی
آڑ میں جہالت کی تھوک منڈیاں بنانے کا کام انجام دے رہا۔ گو کہ سوشل میڈیا
پر ہر قسم کی وارائٹی دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ کوئی اﷲ کا کلام عام کررہا ہے
تو کوئی عشق معشوقی کی کہانیاں گڑھ رہا ہے ، کوئی اقوال ِ زریں جیسی انمول
تحریروں کو پوسٹ کر کے فیس بک جیسی سہولیت کا حق ادا کر رہا ہے تو کوئی فحش
قسم کی تصاویر پوسٹ کر کے شریف النفس لوگوں کے دلوں کو ٹھیس پہنچانے کا
ناپاک کام انجام دئے جا رہا ہے ۔ کتنے ہی قسم کے ذہن رکھنے والے انسانوں کو
فیس بک سہولیت میسر ہونے کی وجہ سے اپنی بڑھاس نکالنے کا خوب موقعہ ملتا ہے
اس کا اعدا د شمار کرنا مشکل ہے۔فیس بک جتنا مزے دار دِکھتا ہے اُتنا ہے
خوفناک بھی ہے اس بات کا اندازہ تب ہو جاتا ہے جب انسان کو فیس بک پر ایسے
ایسے انسانوں سے ملن ہوتا ہے کہ انسان کے وہم گمان میں نہیں ہوتا کہ کبھی
ایسا ہوگا۔ یوں تو فیس بک پر لوگ اس لئے آتے ہیں کہ چلو تھوڑی دیر کیلئے
انٹرٹین منٹ کر لیتے ہیں لیکن اس دنیا میں قدم رکھتے ہی انسان الگ الگ
تجربات سے آگاہ ہو جاتا ہے اور کئی ایسے انسانوں کی اصلیت سے بھی آگاہ
ہوجانے کا شرف حاصل ہو جاتا ہے جو معاشرے میں ایک اچھی پہچان بنائے ہوئے
اپنی جھوٹی شان کا تاج سر پر رکھ کر لوگوں کو بیوقوف بناتے ہیں لیکن انٹر
نیٹ کے ذریعہ وہ کیا کیا ناپاک کام انجام دینے میں مشغول ہوتے ہیں یہ تو
ہمیں فیس بک جیسی سہولیت سے ہی معلوم ہو جاتاہے ۔
گو کہ فیس دنیا میں جہاں کچھ لوگ ایک دوسروں میں کبھی کمٹ تو کبھی پوسٹ
لائک کر کے خوشیاں بانٹتے ہیں وہیں کچھ ایسے لوگ ہیں جو بحث و مباحثہ کی
دمدار تقرار میں جکڑے ہوئے رہتے ہیں۔یہاں قارئین حضرات کو بتاتا چلوں کہ ان
بحثوں کی بھی کئی قسم ہیں۔کچھ حضرات تو یہیں سے اپنی سیاست کا کاروبار
چلاتے ہیں ،فیس بک پر سیاسی دکان چمکانے کا یہ فن اب دن بدن فروغ پا رہا ہے
اور آسانی سے کوئی بھی شخص اپنے سیل فون میں نیٹ پیک ڈال کر سیاسی دنیا میں
کودسکتا ہے ۔فیس بک پر سیاسی بحث و مباحثہ کو پڑھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ
اب سیاستدان اپنے حلقوں میں جگہ جگہ جاکر انتخابی مہم انجام نہیں دیتے بلکہ
فیس بک پر سیاست کا بازار گرم کر کے اپنے مستقبل کی کامیابی کا اعلان لمحہ
بہ لمحہ بذریعہ فیس بُک پوسٹکرتے دکھائی دیتے ہیں ۔پھر زمینی سطح پراُس کا
مقام ایک ووٹر جیسا کیوں نہ ہو،لیکن فیس بک پر اُس کی پہچان اعلیٰ درجہ کی
ہوتی ہے ۔یہاں تو ایسے بھی دوستوں سے ملن ہو جاتا ہے جو بنیادی سطح پر کسی
شوروم میں ایک ادنیٰ ملازم کا کام کرتے ہیں لیکن فیس بک پر جب اُن کی تفصیل
جاننے کی کوشش کی جائے تو وہاں وہ خود کو شوروم کا ایک ادنیٰ ملازم نہیں
بلکہ شوروم کا مالک ظاہر کرتے ہیں ۔کیا مزے کی بات ہے کہ انسان فیس بک پر
ایسی ایسی بلندیوں کو چھوتے ہوئے خود کو ظاہر کرتاہوا دکھائی دیتا ہے جو
کبھی اس کے وہم گمان میں بھی نہیں ہوتا لیکن بھائیوفیس بک ہی تو ہے جواک
پان بیچنے والے کو بھی آن کی آن میں دمدار شان کا مالک بنا دیتا ہے ۔
سیاسی طور فیس بک کے یہاں اس مہم چلانے کا مزا یہ بھی ہے کہ یہاں ہر کوئی
……’ایرہ ،غیرہ ،نتھو خیرہ ……‘آسانی سے نیٹ پیک ریچارج کر کے خود کو سیاست
دان ثابت کرنے میں کامیابی حاصل کر سکتا ہے بھلے ہی زمینی سطح پر اس کا
کہیں وجود ہو بھی اس سے اس کو کوئی لینا دینا نہیں…………لیکن فیس بک پر وہ
اپنی سیاسی بساط پوری طرح سے قائم کئے ہوئے ہے یہ فیس بک پر سیاسی بحث کا
مختصر تذکرہ تھا……آئیے اب آپ کو فیس بک پر چل رہی ایک ایسی بحث سے واقف
کراتے ہیں جہاں انسان تو انسان حیوان بھی اس بحث کو پڑھ کر اور دیکھ کر دنگ
رہ جاتے ہیں…… اس بحث کا نام فیس بک کی ’’دینی بحث ‘‘ہے۔بحث کا مقام کوئی
بھی ہو یعنی بحث چاہیے روبرو ہو یا پھر شوشل میڈیا کی کسی سایٹ پر!کہتے ہیں
کہ جب عالم لوگوں کی آپس میں کسی مسئلے کو لیکر بحث ہو توعرش سے رحمت برستی
ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کے سوال کا جواب علم کے ذریعے دیا کرتے ہیں ایسے
میں جب عالم بحث کریں تو مسئلے اُلجھتے نہیں سلجھتے ہیں اور اس بحث کو
دیکھنے والے یا اسے پڑھنے والے اس سے سبق حاصل کر لیتے ہیں…………لیکن یہی بحث
جب جاہلوں کے آپس میں شروع ہو جائے جنہیں دین اسلام کے الف بے کا پتہ نہ ہو
اﷲ کے وہاں زحمتیں تو برسنی تھی ہی لیکن بحث کی شرعاوت کسی دینی مسئلے سے
شروع ہو کر ماں بہن کی گالی گلوچ پر کچھ قدرے تھم جاتی ہے نہ کہ ختم ہو
جاتی ہے یوں سمجھ لیجئے کہ جاہلوں کی گالی گلوچ ڈکشنری میں جب گالیوں کے
الفاظ ختم ہو جاتے ہیں تو بحث میں نرمی ہو جاتی ہے۔ کسی ایسے مسئلے کو لیکر
دین اسلام کی تعلیمات سے نابلد حضرات بالخصوص نوجوان طبقہ سر پر ٹوپی
پہنے،یا پگڑی باندھے اور اپنے نام کیساتھ ،اہلسنت، اہل رسولؐاور عاشق ِ
رسول جیسے الفاظ جوڑ کر خود کو دین اسلام کے مکمل داعی سمجھتے ہیں حتیٰ کہ
دینی تعلیمات سے دور دور کا واسطہ نہ رکھتے ہوئے بھی جنت اور جہنم کا سند
دیتے ہیں ،کبھی کسی کی ذاتی زندگی پر انگلی اٹھا کر خود کو دین میں مکمل
طور ہونے کا ثبوت پیش کرنے کی ناپاک حرکتیں کرتے ہیں تو کبھی کسی کے گھریلو
مسائل کو لیکر کسی کی عزت نیلام کرتے ہیں۔ جبکہ اُنکے ہاں گھریلو حالات پر
اگر نظر ڈالی جائے تو وہ خود دینی تعلیم سے اتنی دوری اختیار کئے ہوئے ہیں
کہ آسمان اور زمین کا فرق ہے ۔ یہ فرق تبھی ہے جب ہم دین سے دوری اختیار
کئے ہوئے بھی خود کومکمل سمجھنے لگتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ پھر اپنی ظاہرکی
گئی جھوٹی شان کو برقرار رکھنے کیلئے ہم کسی بھی حد کو پا ر کر گزرتے ہیں
جس کی دین ِ اسلام میں کوئی بھی گنجائش نہیں۔
قارئین حضرات……!! فیس بک پر چھڑی اس بحث کا تذکرہ یہاں کرنا کسی کوشخصیت پر
انگلی اٹھانے سے ہر گز مقصودنہیں اور نا ہی ایسے لوگو ں کو بدنام کرنے کی
کوشش ہے ۔لیکن فیس بک پر ایک دوسروں کے تئیں شدید نفرتوں کے اظہار کو
دیکھتے ہوئے مجھے ایسا محسوس ہوا کہ ہم نے ابوجہل کو بھی پیچھے چھوڑا ہے
جبکہ ہم اُس نبی ؐ کے ماننے والے ہیں جن کے اوپر غیر کوڑا پھینکا کرتے تھے
ایک دن جب نبیؐ کے اوپر کوڑا پھینکا نہیں گیا تو آپؐاُن کی عیادت کرنے
پہنچے یہ ہمارے نبیؐ کا دوسروں کے تئیں اخلاص تھا۔لیکن افسوس صد افسوس ایک
ہم ہیں کہ خود کو نبی ؐ کا عاشق کہنے کے دعوے کرتے تھکتے نہیں لیکن ایک
دوسرے تئیں اس قدر نفرتیں ہیں کہ کو ئی اس دنیا سے چلا بھی جائے تو اُس کے
حق میں دعائے مغفرت کرنے کے بجائے اُس کو گالی گلوچ اور جنت اور جہنم کی
سند دینے کا احمقانہ کام انجام دیناشروع کرتے ہیں۔ایسے لوگوں کے ہوتے ہوئے
مجھے جہاں بیحد صدمہ پہنچتا ہے وہیں مجھے بیحد خوشی بھی ہوتی ہے جب میں فیس
بک پر ایسے باکمال دوستوں کو دیکھتا ہوں جو فیس بک پر انمول تحریریں، سبق
آموز مواد پوسٹ کر کے لوگوں کے دلوں میں گھر کر لیتے ہیں ۔ کیوں نہ فیس بک
پر ایسا کام انجام دے رہے اُن حضرات کی دل کھول کر حوصلہ افزائی کی جایئے
جو معاشرے کو سدھارنے کا کام فیس بک پر بھی انجام دے رہے ہیں تو ظاہر ہے کہ
ایسے حضرات زمینی سطح پر بھی معاشرے کی بہتری کیلئے سرگرم ہوں گے اگرنہیں
تو ہماری دعا ہے کہ اﷲ اُنہیں معاشرے کے تئیں فکری مندی میں مزید حوصلہ عطا
کر ے تاکہ ایسے لوگ زمینی سطح پر بھی معاشر ے کی بہتری کیلئے سرگرم ہو
جائیں اور ایسے لوگوں کو بھی سبق مل جائے جو کبھی فیس بک تو کبھی واٹس اپ
کے ذریعے صرف نفرتوں کا بیج بونے کا کام انجام دیتے ہیں ۔اﷲ ہم سب کودین
اسلام سمجھنے کی توفیق عطا فرمائیے۔آمین!! |