دشمن کومعاف کرنا،اسے سینے کے ساتھ لگانااس کے بُرے عزائم
کوبھول جانااس کے ساتھ پیارومحبت سے پیش آنا،اسے اپناگرویدہ
بنادینا،اپنامقصد اس کے سامنے رکھ کر اسے اس کی طرف قائل کرنا،اسے زندگی
گزارنے کے سچے اور حقیقی اصول بتانااسے دنیامیں بھی کامیابی کے راستے کی
طرف لے کر جانااورآخرت میں بھی کامیابی کے طورطریقے بتانایہ اس عظیم ہستی
کاکام تھاجنہیں اﷲ پاک نے رحمۃ للعالمین بناکربھیجا، آج سے چودہ سو سال قبل
ماہ ربیع الاول میں خاندان قریش میں ایک ایسے بچے کی ولادت باسعادت ہوئی جس
نے ظلم و ستم کے گھٹا ٹوپ اندھیروں کو چاک کردیا،کفر و شرک کی طنابیں اکھاڑ
پھینکیں ،صنم خانوں کی بنیادیں ہلا دیں ،سسکتی انسانیت کو نئی زندگی عطاکی
، پریشان دل کو راحت و سکون بخشا اور بھٹکے ہوئے لوگوں کو صراط مستقیم
دکھلایا ، اس عظیم ہستی کا نام نامی اسم گرامی محمد،،ﷺ تھا ۔اﷲ رب العزت نے
آپ کو ساری دنیا کے لئے آئیڈیل بنا کر بھیجاتھا، ارشاد فرمایا :لقد کان لکم
فی رسول اﷲ اسوۃ حسنۃ(الاحزاب )
اے لوگو !میرے حبیب کا طریقہ ہی سب سے عمدہ ہے اسے اپنالو کامیاب ہو جاؤ گے
!فوز و فلاح کی ضمانت کے خواہاں ہو تو اسوہ نبی پر چلو!اﷲ نے محمد رسول اﷲ
ﷺ کو کامل و مکمل بنا کر مبعوث فرمایا ؟اور آقا ﷺ نے تما م شعبہ ہائے حیات
کی طرف اپنی امت کی مکمل رہنمائی کی ،رحم و کرم ،جود و سخا ، ایثار و
قربانی ، معاملات و معاشرت ،ایفا عہد و پیماں،خوش اخلاقی و خوش گفتاری
،سادگی و غمخواری ،عجز و انکساری ،انصاف و مساوات ،صبر وقناعت اور عفو و
تحمل کا وہ درس دیا جس کی نظیر رہتی دنیا تک کوئی پیش نہیں کر سکتا،
آپ ﷺ نے اپنی زندگی اس انداز میں گزاری کہ دشمن بھی صادق وامین کالقب دینے
لگاوہ بھی اپنی امانتیں آپ ؐ کے سپردکر کے اپنے آپ کوپرسکون محسوس کرتاتھا،
آئیے رحمۃ للعالمین کے ساتھ پیش آنے والے چند دلسوز واقعات و حادثات پر نظر
ڈالتے ہیں اور آپ ﷺ کا رد عمل بھی دیکھتے ہیں ۔کہ ان حالات میں نبی کریم ﷺ
نے کیسے صبروتحمل کااظہار فرمایااور دشمنوں کوبھی اپنے مبارک سینے کے ساتھ
لگایاکیونکہ اصل طاقت برداشت کرنے میں ہے انتقام لینے میں نہیں ،
ہباربن اسودکوبھی معاف فرمادیا
نور نظر ،راحت قلب و جگر حضرت زینب رضی اﷲ عنہا اونٹ پر سوار ہوکر مدینہ کی
طرف ہجرت کر رہی تھیں ،راستہ میں ہبار بن اسود نے حضرت زینب پر نیزہ اس شدت
سے مارا کہ کجاوہ سے گر پڑیں جس کی وجہ سے ان کا حمل بھی ساقط ہوگیا اوراسی
حادثہ ہی کہ وجہ سے اﷲ کو پیاری ہو گئیں ،جب مشفق والد مکرم محسن امت محمد
ﷺ تک یہ اندوہناک خبرپہنچی تو آپ شیشے کی طرح ٹوٹ کر بکھر گئے اس کے بعد جب
جب حضرت زینب کی یاد آتی فطرت انسانی کے مطابق آپ غصہ سے تلملا اٹھتے لیکن
جب قاتل ہبار بن اسود نے اسلام لایا اور انہوں نے آپ سے اپنی غلطی کے لئے
معافی مانگی تو آپ نے فراخ دلی سے معاف کر دیا ۔
وحشی بن حرب کوبھی معافی کاپروانہ مل گیا
ایک اوراسلامی تاریخ کا بد ترین حادثہ سید الشہدا حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ کی
شہادت ہے ،وحشی بن حرب نے آپ ﷺ کے سب سے قریبی اور چہیتے چچا حضرت حمزہ کو
شہید کر ڈالا تھا ،یہی وحشی بن حرب جب مشرف باسلام ہوئے تو وہ اپنے وحشیانہ
عمل کی معافی کے لئے دربار نبوت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ مجھے معاف
کر دیا جائے ،آپ ﷺ نے کہا : وحشی !پہلے بتاؤ !میرے چچا کوکس طرح تم نے شہید
کیا تھا؟ جب وحشی نے واقعہ سنایا تو آپ کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں اور غصہ سے
چہرہ سرخ ہو گیا ،پھر فرمایا : وحشی تمہارا قصور معاف ہے لیکن تم میرے
سامنے نہ آیا کرو ،تمہیں دیکھ کر میرے پیارے چچا جان یاد آجاتے ہیں ۔
وہاں سے پتھروں کی بارش اوریہاں سے رحمت کی برسات
طائف کی سنگلاخ زمیں میں آپ ﷺ دین اسلام کے پھول کھلانے کے لئے گئے تو
مشرکین و کفار نے پاگل کہہ کر آپ کے اوپر اتنے پتھر بر سائے کہ جوتیاں خون
سے تر بتر ہوگئیں اور پیروں سے چپکنے لگیں ، آپ کے لئے چلنا دشوار ہو رہا
تھا بالاخر پہاڑوں کا فرشتہ حا ضر ہوا اور عرض کیا :یا رسول اﷲ !اگر حکم ہو
تو ان دونوں پہاڑوں کو ملادوں اور ان ناہنجاروں کو، ان نالائقوں کوصفحہ
ہستی سے مٹا دوں ، آپ نے فرمایا : مجھے امید ہے ان کی آئندہ نسلوں میں ایسے
افراد پیدا ہوں گے جو خالص اﷲ کی عبادت کریں گے ،اور اس کے ساتھ کسی کو
شریک نہیں ٹھہرائیں گے ۔(بخاری و مسلم )
وہ پتھر مارنے والوں کودیتے ہیں دعااکثر
کوئی لاؤمثال ایسی شرافت ہوتوایسے ہو!
جادوکرنے والااورزہردینے والی
لبید بن اعصم نے آپ ﷺ پر جادو سے حملہ کیا ،وحی کے ذریعہ سے آپ کو اﷲ نے سب
کچھ بتلا دیا مگرآپ نے اس کی گرفت نہیں کی، اسی طرح خیبر میں زینب نامی ایک
یہودیہ نے آپ کو زہر دیکر مارنے کی کوشش کی مگر آپ نے اس سے انتقام نہیں
لیا ۔کسی نے کیاخوب کہاکہ برداشت بزدلی نہیں بلکہ زندگی کاایک اہم اصول ہے
جس دل میں قوتِ برداشت ہے وہ کبھی ہار نہیں سکتا۔
فتح مکہ کادن اوردرگزرکابے مثال کارنامہ
فتح مکہ کا دن ہے ،آج وہ سارے مجرمین آپ کے سامنے سرنگوں ہیں جنہوں نے آپ
کو ،آپ کے اہل خانہ کو ، صحابہ کرام کو اورکمزور مسلمانوں پر ظلم و ستم
ڈھائے تھے ،وہ ابو سفیان بھی ہے جس نے غزوہ بدر، غزوہ احد، غزوہ خندق کی
لڑائیوں میں کفار و مشرکین کی قیادت کی تھی ،اورنہ جانے آپ ﷺ کو کتنے دفعہ
تہہ تیغ کرنے کی ناکام کوشش کی تھی ،آپ چاہتے تو ایک ایک مجرم سے چن چن کر
ان کے گناہوں کو گنا گنا کر بدلہ لے سکتے تھے ،کوئی روکنے ٹوکنے والا نہ
تھا ،اگر چاہتے تو مکہ کی گلیوں میں خون کی ندیاں بہا دیتے ،کھوپڑیوں کے
مینار لگا دیتے ،مگر قربان جائیے آپ نے فرمایا :جاؤ !آج تم سب آزاد ہو ،آج
کسی سے کسی طرح کا بدلہ نہیں لیا جائے گا ، جو ابو سفیان کے گھر میں پناہ
لے گا آج اس کو بھی امن ،جو ہتھیارڈالے گااس کو بھی امن اور جو دروازہ بند
کر لے گا اس کو بھی امن ہے (مسلم شریف)
غرض کونین میں اس جسمِ اطہرکانہیں ثانی
سراپاصرف تھے وہ مظہرِآیاتِ قرآنی
کوئی ان سے حسیں شے ہوتوتشبیہ اس سے دیدیں ہم
دوعالم سے نرالے جب ہیں کامل سرورِدوعالمﷺ
ان تمام واقعات و حادثات کو دیکھیں کس طرح آپ میں عفو و تحمل کی قوت تھی ،
دنیا میں کون ہے جو اپنی لاڈلی بیٹی کے قاتل کو فراخدلی سے معاف کردے؟ کون
ہے جو شیر اسلام اور اپنے مشفق چچا کے خونی کو درگزر کر دے ؟کون ہے جو
پتھروں سے مار مار کر لہو لہان کرنے والوں کو بخش دے؟کون ہے جو موت کے گھاٹ
اتارنے کے لئے زہر دینے والے سے انتقام نہ لے ؟کون ہے جو ہلاک کرنے کی کوشش
کرنے والے کو اف تک نہ کہے ؟کون ہے جو دشمن سے آسانی کے ساتھ بدلہ لینے کی
طاقت و قدرت کے باوجود بدلہ نہ لے ؟آپ ﷺ نے عفوو تحمل کا وہ نمونہ دنیا کے
سامنے پیش کیا کہ آج تک اس جہاں میں بسنے والے اعلی سے اعلی فرد بھی پیش نہ
کر سکا اور نہ کر سکے گا،آپ نے فرمانِ خداوندی کے اس قول پر مضبوطی سے عمل
کر کے دکھایا معاف کرنے کی عادت اپناؤ ،نیکی کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ
نہ لگاؤ (الاعراف)
یہ آیت مبارکہ جب نازل ہوئی تو آپ نے حضرت جبرئیل سے اس آیت کی وضاحت چاہی
،انہوں نے کہا :آپ کو بہترین اخلاق عطا کئے گئے ہیں ،جو آپ سے قطع تعلق کرے
اسے جوڑیں،جو آپ پر ظلم کرے اسے معاف کر دیں۔حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان
کرتی ہیں :اﷲ کی قسم !رسول اﷲ ﷺ نے اپنے ذاتی معاملہ میں کبھی کسی کو سزا
نہیں دی ،لیکن جب اﷲ کے حدود کو کوئی توڑتا تو آپ اس کو اﷲ تعالی کے فرمان
کی وجہ سے سزا دیتے تھے ۔(بخاری شریف)
نبی پاک ﷺ کی شان میں اﷲ پاک نے قرآن پاک کونازل فرمایاہم تو اگر اس مبارک
ہستی پہ لکھناشروع کر دیں تو اس کے لیے عمرِ نوح وحضربھی ناکافی ہے فضل
الٰہی مرحوم نے کیاخوب ہی کہا
لکھنے بیٹھے تھے تعریفِ نامِ محمد(ﷺ)
الفاظ ختم ہوگئے تعریف شروع ہونے سے پہلے
قارئین کرام :ہم غلامان محمد ﷺ کو چاہئے کہ اپنے اندر وہ تمام صفات پیدا
کریں جو محبوب ﷺ میں تھیں خصوصاقوت عفو و تحمل اور اخلاق حسنہ کہ یہ بہت
بڑی نعمت ہے اور آپ ﷺکی بہترین سنت ہے۔اپنوں کے ساتھ توبندہ اچھائی کرتاہے
دشمنان کے ساتھ اگر عفودرگزرکامعاملہ کیاجائے تویہ صفات والی بات ہے آج کے
اس دور میں برداشت اور صبروتحمل کامظاہرہ کرنے والے ہی کامیاب وکامران ہیں
۔اﷲ پاک ہمیں بھی اعلٰی صفات والابنائے اور ہمیں بھی برداشت والی صفت عطا
فرمائے(آمین یارب العالمین )
|