موٹر وے

کاروباری معاملات طے کرتے کرتے شام ہو گئی مگر ابھی کام مکمل نہیں ہوا تھا۔ جان نے میری طرف دیکھا اور کہا۔ میں تو تھک گیا ہوں اور بھوک بھی لگی ہے۔ بہتر ہے باقی کام کل کریں گے۔چلو کھانا کھانے چلتے ہیں۔کھانا کھا کر میں گھر چلا جاؤں گا اور تم ہوٹل۔باقی معاملات اب صبح ہی طے ہوں گے۔ہم دونوں اٹھے ۔ دفتر سے باہر کھڑی گاڑی میں بیٹھ گئے۔جان نے پوچھا ، کیا کھاؤ گے؟

میں تمھارے دیس میں اجنبی ہوں۔ یہا ں کے کھانوں کے بارے تم مجھ سے بہتر جانتے ہو، جو کھلا دو ، وہی ٹھیک ہے۔
بیٹھنا کہاں پسند کرو گے۔
یہ بھی تمھاری مرضی پر ہے جہاں چاہے لے چلو۔

اس نے دو لمحوں کے لئے سوچااور کہا آؤ موٹر وے پر چلتے ہیں۔کھاناکھانے موٹر وے پر ، مجھے بڑا عجیب لگا۔ وہاں کھانا مہنگا بھی ہو گا اور شاید معیاری بھی نہ ہو۔ وہ ہنس دیا اور کہنے لگا۔

ہاں موٹر وے پر ، شہر سے باہر، شہر سے بالکل قریب، ویسے توہماری پوری موٹر وے بڑی بارونق ہے مگر سات آٹھ کلومیٹر تک تو موٹر وے پر بہت زیادہ ریسٹورنٹ ہیں جہاں سستے داموں آپ بہت اچھا کھانا کھا سکتے ہیں۔ بہت معمولی ٹول ٹیکس دے کر آپ شہر سے پرے کھلی، تازہ اور آزاد فضا کا مزہ بھی لیتے ہیں، فطرت کا نظارہ بھی کرتے ہیں اور شہر کی نسبت تقریباً آدھی قیمت پر وہی کھانا آپ کو مل جاتا ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ موٹر وے کو زیادہ سے زیادہ لوگ استعمال کریں اسلئے ٹول ٹیکس معمولی ہے مگر لوگوں کی دلچسپی کی بہت سی چیزیں موٹر و ے پر نظر آئیں گی ۔ اسی وجہ سے آمدورفت اتنی زیادہ ہے کہ حکومت کو بڑی معقول آمدن ہوتی ہے۔موٹر وے کے دائیں بائیں انڈسٹریل ایریاز کی بھرمار ہے۔ تفریحی پارک ہیں، ان سب جگہوں پر جانے کے لئے موٹر وے کا استعمال لوگوں کی مجبوری ہے۔

تھوڑی دیر میں ہم موٹر وے پر تھے۔ واقعی وہاں ریسٹورنٹس کی بھرمار تھی۔چند کلومیٹر فاصلہ طے کرنے کے بعد ہم ایک ریسٹورنٹ پر رکے۔ وسیع پارکنگ، بہت بڑا ہال، ہال کی چھت پر بھی شیشے کے بڑے بڑے کیبن ،جن سے پورے ماحول کا جائزہ لیا جا سکے ، بہت خوبصورت سماں تھا۔ جان بتانے لگاکہ اس خوبصورت ماحول کے باوجود یہاں کا کھانامعیاری اور شہر کے مقابلے میں انتہائی سستا ہے۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر موٹر وے سے واپس جانے کے لئے راستے ہیں۔ حکومت نے موٹر وے کو آباد رکھنے کے لئے ریسٹورنٹس یا کسی بھی عوامی سہولت مہیا کرنے والے کے لئے موٹر وے کے ساتھ ساتھ زمین بھی سستے داموں مہیا کی ہے۔ان سہولتوں کی وجہ سے موٹر وے پر بہت چہل پہل رہتی ہے ۔حکومت کو آمدن بھی معقول ہوتی ہے اسلئے کہ جو موٹر وے پر آتا ہے وہ معمولی رقم سہی مگر کچھ تو دے کر جاتا ہے۔چنانچہ موٹر وے کا زیادہ استعمال حکومت کی زیادہ آمدن کا باعث ہو تا ہے۔جی ہاں ، میرا دوست جان کوریا کا رہائشی ہے اور یہ بات آج سے کئی سال پہلے کی ہے جب میں سیؤل میں ٹھہرا ہوا تھا۔

جان کی وہ باتیں یاد کرکے میں اپنے ملک کی موٹر وے کے حالات پر غور کرنے لگا۔وہاں ٹول ٹیکس معمولی ہے اور آمدورفت بہت زیادہ۔ یہاں آمدورفت بہت معمولی ہے اور ٹول ٹیکس بہت زیادہ۔وہاں حکومت سوچتی ہے کم ٹول ٹیکس وصول کرنے سے لوگ موٹر وے زیادہ استعمال کریں گے تو حکومتی آمدن زیادہ ہو گی۔ ہمیں لوگوں کی زیادہ تعداد سے کوئی غرض نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جو کوئی غلطی سے موٹر وے پر سفر کرنے آ جائے اس کے کپڑے پوری طرح اتارنے سے حکومت کو خوب آمدنی ہو گی اور ہم یہی کر رہے ہیں۔ لاہور سے راولپنڈی تک سفر کرنے کا ہرجانہ پانچ سو اسی (580)روپے ہے جو کسی صورت سو یا ڈیڑھ سو سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔محفوظ اور رواں سفر کے لئے آدمی مجبورہوتا ہے کہ اتنے زیادہ پیسے خرچ کر دے۔
 
ہماری موٹر وے پر قیام اور طعام کے نام پر جو جگہیں بنی ہوئی ہیں ان میں ہر ایک کا درمیانی فاصلہ تقریباً پچاس(50)کلو میٹر کے لگ بھگ ہے اور درمیان میں فقط ویرانی۔کوئی ریسٹورنٹ یا تفریحی مقام تو کیا، چرند اور پرند بھی بمشکل نظر آتے ہیں۔یہ طعام اور قیام کی جگہیں بہت صاف ستھری ہیں۔یقیناً موٹر وے نے مسافروں کو ایک صاف ستھرا کلچر متعارف کرایا ہے۔ صاف ستھرے ٹائلٹ کی سہولتیں جو کبھی سڑک کے مسافروں کے لئے ایک خواب کی طرح تھیں ،آج موٹر وے پر پوری طرح میسر ہیں، اب تو خیر موٹر وے کلچر عام شاہراؤں پر بھی پروان چڑھ رہا ہے مگر موٹر وے کے قیام اور طعام مرکز اچھے اور صاف ستھرے ہونے میں اب بھی بہترین ہیں۔ مگر ان مراکز کی قابل اعتراض چیز وہاں کھانے پینے کے سامان کی قیمتوں کا بھی بہترین ہونا ہے۔بیکری کی بہت سی چیزیں تازہ نہیں ہوتیں مگر ان کی قیمت انسان کو لمحوں میں تروتازہ کر دیتی ہے ۔ موٹر وے کے لمبے سفر کے دوران پٹرول کی بھی ضرورت پڑتے ہے۔یہ پٹرول مہنگا اور میرے اندازے میں تول میں بھی کم ہوتا ہے۔ گاڑی کی ٹنکی جو شہر میں عام پٹرول پمپ سے تین ہزار میں بھر جاتی ہے ، موٹر وے پر چار ہزار لے لیتی ہے۔ حکومت کو موٹر وے کو پوری طرح آباد کرنے کے لئے قیمتوں کو کنٹرول کرنے سمیت بہت سے اقدامات کرنے ہونگے۔ایک اور خاص بات کہ موٹر وے پولیس جو کبھی اپنی پھرتی اور فرض شناسی کے لئے مشہور تھی آج اس معاملے میں کافی سستی اور تنزلی کا شکار ہے جو افسوسناک ہے۔ موٹر وے پولیس کو اپنا معیارگرنے سے بچانا اورماضی کی طرح برقرار رکھنا ہو گا۔تا کہ موٹر وے کے سفر کے محفوظ اور شاندار ہونے کے بارے لوگوں کا اعتماد اور اعتبار پہلے کی طرح برقرار رہے۔
 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 443035 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More