اس کی آنکھ کھلی تو اس نے خود کو ایک انجان جگہ پایا۔ پاس
ہی کرسی پر ایک بزرگ بیٹھے تھے۔ وہ ان کو دیکھ کر سیدھا ہو کر بیٹھنے لگا
لیکن اس سے اٹھا نہ گیا۔
لیٹے رہو لیٹے رہو۔ ان بزرگ اسے اٹھتا دیکھ کر کہا
میں کہاں ہوں؟؟؟ یہ کونسی جگہ ہے؟؟؟ مجھے یہاں تک کون لایا؟؟؟ اس نے ایک ہی
سانس میں اتنے سوال کر ڈالے
تسلی رکھو بیٹا تم محفوظ جگہ پر ہو اور تمہیں یہاں تک اللہ نے پہنچایا ہے
تا کہ تم یہاں سے نکلو تو صحیح راستے پہ چل کے اپنی منزل کو پہنچو۔ انہوں
نے بہت نرم لہجے میں جواب دیا
لیکن بابا جی آپ کون ہیں؟؟؟ اس نے پھر سوال کر ڈالا
عبداللہ۔ نہایت نرمی سے جواب دیا گیا بالکل وہی نرمی جو اس نے ضوفشاں کے
لہجے میں دیکھی تھی
بابا جی آپ ضوفشاں رحمان کو جانتے ہیں؟؟ وہ بھی بالکل آپ کی طرح بولتی ہے
نرمی سے۔
ہم م م جانتا ہوں۔ انہوں نے سر ہلاتے ہوۓ کہا
اچھا؟؟؟ کیا رشتہ ہے آپ کا اس سے؟؟؟ اس نے خوشی اور حیرت کا ملا جلا تاثر
لیے پوچھا
ایک ہی معبود کا بندہ ہونے کا رشتہ ہے ہمارا۔ بزرگ نے تسبیح کے دانے گراتے
ہوۓ جواب دیا
کیا مطلب؟؟؟ اس نے حیرانی سے پوچھا
دیکھو بیٹا جیسے ایک کراۓ کے مکان میں دو تین خاندان بستے ہوں اور وہ آپس
میں رشتہ دار بھی نہ ہوں پھر بھی ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں۔
جانتے ہو کیوں؟؟؟ بزرگ نے پوچھا
کیوں؟؟؟ وہ بڑی دلچسپی سے سن رہا تھا
کیونکہ وہ سب ایک ہی چھت کے نیچے رہتے ہیں۔وہ چھت جس کا کہ مالک کوئی اور
ہے۔ جس کو چھوڑ کر ایک دن ان سب نے جانا ہے کسی نے پہلے تو کسی نے بعد
میں۔ایسی ہی مثال دنیا کی ہے جہاں ہم سب کراۓ دار ہیں ایک مالک کی چھت کے
نیچے رہتے ہیں جس کو چھوڑ کر ہم سب نے جانا ہے۔ بس یہی رشتہ ہے میرا اس سے۔
بابا جی ایسا رشتہ میرا اس سے کب بنے گا؟؟ وہ حسرت بھرے لہجے میں پوچھ رہا
تھا
بہت جلد۔ بس اس کے لیے سچی لگن چاہیے جو مجھے تم میں نظر آ رہی ہے۔
بابا جی لگن تو لگن ہوتی ہے سچی کیاجھوٹی کیا۔
بیٹا جب غرض دنیاوی ہو نا تو لگن بھی فانی ہوتی ہے اور بندہ بھی۔بندہ ختم
لگن بھی ختم پھر فانی چیز بھلا کب سچی ہوتی ہے۔
بابا جی میں اگر اللہ سے کچھ مانگوں تو کیا وہ مجھے دے گا؟؟ وہ بہت اشتیاق
سے پوچھ رہا تھا
کیوں نہیں ضرور دے گا۔ وہ ہماری شہہ رگ سے بھی قریب ہے بس اس یقین سے مانگو
کہ وہ کوئی دعا رد نہیں کرتا۔
لیکن اگر اس نے نہ دیا تو میں کبھی دوبارہ اس سے کچھ نہیں مانگوں گا۔
نہ بیٹا ایسا نہیں کہتے۔ وہ مالکِ کل ہے بندے کی اوقات نہیں کہ وہ اس سے
ناراض ہو۔
کیوں ابھی تو آپ نے کہا کہ وہ ہماری شہہ رگ سے بھی قریب ہے۔جو اس قدر قریب
ہے ہمارے تو پھر اس سے روٹھنے منانے کا سلسلہ کیوں نہیں؟؟؟
وہ مالک ہے اور ہم بندے۔ انہوں نے اسے سمجھانا چاہا
اچھا ایک بار اس سے مانگ کر تو دیکھنے دیں۔وہ بحث کے موڈ میں نہیں تھا سو
بات ختم کرنا چاہی
کیا مانگو گے؟؟ انہوں نے مسکرا کر پوچھا
روشنی۔ اس نے کچھ سوچ کر کہا
روشنی مانگنے سے کیا ہی بہتر نہیں کہ تم خود روشنی بن جاٶ؟؟ بزرگ نے کہا
کیا مطلب؟؟؟ وہ ان کی بات کچھ سمجھ نہ پایا
کچھ نہیں تم آرام کرو۔ یہ کہہ کر وہ اس کے پاس سے اٹھ گئے اور سوچتے سوچتے
اس کی آنکھ جانے کب لگی اسے پتا ہی نہ چلا جب آنکھ کھلی تو خود کو اپنے بیڈ
پر پایا اور پاس ماں اور دوست بیٹھے تھے
کیا بکواس ہے یار دیپ کیا ہو گیا ہے تجھے کبھی تو کہیں گرا پڑا ملتا ہے تو
کبھی کہیں۔ اس بار میں تجھے سڑک کے کنارے سے اٹھا کےلایا ہوں۔ روہت شدید
غصے میں تھا
وہ کہاں گئے؟؟؟ کیا انہوں نے مجھے سڑک پہ پھینک دیا تھا؟؟؟ اسے شدید صدمہ
پہنچا تھا
کون کہاں چلا گیا؟ دیپ بیٹا کس کی بات کر رہے ہو؟؟ ماں اس کی ذہنی حالت
دیکھ کے رو ہی پڑی
ہوش میں آٶ دیپ کیا فضول بہکی بہکی باتیں کرنے لگ گئے ہو آجکل؟؟ کوئی
پریشانی ہے تو ہم سے شئیر کرو یہ کیا بکواس ہے کہ جب جی چاہا ڈرنک کیا اور
سڑک پہ گڑ پڑے۔ روہت غصے میں آگ بگولہ ہو رہا تھا
میں بہکی بہکی باتیں نہیں کر رہا یار وہ بابا جی سچ میں مجھے اپنے گھر لے
گئے تھے۔ اس نے یقین دلانے کی کوشش کی
کون بابا جی بیٹا تم تو سڑک پہ پڑے ملے تھے روہت کو۔ میں کیا کروں بھگوان
جانے اسے کیا ہوتا جا رہا ہے۔ ماں روتے روتے کرسی پہ بیٹھ گئی
آپ روئیں مت آنٹی میں کل ہی اسے کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھاتا ہوں۔ روہت نے ان
کو تسلی دیتے ہوۓ کہا
آخر آپ لوگ میرا یقین کیوں نہیں کرتے میں سچ کہہ رہا ہوں۔ اس نے بیچارگی سے
کہا
آنٹی آپ چلیں اس کو آرام کرنے دیں۔ یہ کہتے ہی وہ دونوں کمرے سے باہر نکل
گئے اس نے دروازے کے بند ہوتے ہی تکیہ اٹھا کے زور سے دروازے پہ مارا اور
ہچکیاں لے لےکر کر رونے لگا
|