60 کی دہائی میں جب یورپ دوسری جنگ عظیم کے بعد ' ری
بلڈنگ ' کے پراسیس سے گزر رہا تھا، اس وقت اٹلی کے نوسر باز یورپ میں گھوم
پھر کر نت نئے طریقوں سے لوگوں کو لوٹنے لگ گئے۔
ایسے ہی ایک نوسر باز نے ایک دفعہ فرانس میں ایفل ٹاور کے پاس مجمع لگایا
اور ایک چھوٹا سا ٹین کا ڈبہ لہرا کر کہنے لگا کہ اس میں دنیا کے سب سے
لمبے چاند گرہن کی روشنی محفوظ ہے جو کہ اس کے پردادا کے زمانے میں ہوا تھا۔
یہ اس کی خاندانی میراث ہے لیکن چونکہ اسے مالی مشکلات ہیں، اس لئے وہ یہ
بیچ رہا تھا۔
مجمع میں موجود جو لوگ تو ذرا سمجھدار تھے، وہ مسکرا کر آگے بڑھ گئے، جو
بیوقوف تھے، وہ وہیں کھڑے رہے۔ اس شخص نے چاند گرہن کی روشنی کے متعلق زمین
و آسمان کے قلابے ملا دیئے اور دعویٰ کیا کہ اگلے سال برطانوی شاہی خاندان
اس نادر شاہکار کو لاکھوں پاؤنڈ کے عوض خریدنے جارہا ہے اور اس کیلئے اس نے
شاہی خاندان کی مہر لگا ایک خط بھی ثبوت کے طور پر دکھا دیا۔
بس پھر کیا تھا، وہیں نیلامی شروع ہوگئی۔ چند منٹوں کے اندر اس ڈبے کی بولی
ایک ہزار پاؤنڈ تک لگ گئی، اٹلی کا نوسرباز عقلمند تھا، اس نے زیادہ لالچ
کرنے سے اجتناب کرتے ہوئے ایک ہزار پاؤنڈ میں وہ ڈبہ بیچ دیا اور وہاں سے
کھسک لیا۔
جس نے بولی لگائی تھی، وہ ڈبہ ہاتھ میں لے کر وہاں کھڑا تھا کہ کچھ لوگوں
نے اس کا مذاق اڑانا شروع کردیا کہ وہ نوسر باز کے ہاتھوں بیوقوف بن گیا،
وغیرہ وغیرہ۔
وہ شخص بھاگا بھاگا اس اٹالین نوسر باز کے پیچھے بھاگا اور چند کوس دور جا
کر اسے پکڑ لیا۔ پکڑنے کے بعد اس نے نوسرباز سے کہا کہ وہ اس کی رقم واپس
کرے کیونکہ چاند گرہن کی لائیٹ ڈبے میں بند کرنا بھلا کیسے ممکن ہے؟ یہ کہہ
کر اس نے وہ ڈبہ کھول دیا جو کہ اندر سے خالی تھا۔
اس نوسر باز نے اسے کہا کہ یہ سارا اس ڈبے کا کمال ہے جو کہ سائنٹفک اصولوں
پر بنایا گیا تھا۔ چاند کی روشنی دن کے وقت نظر نہیں آتی، یہ صرف رات کو ہی
دکھائی دیتی ہے۔ اب چونکہ تم نے ڈبہ کھول دیا ہے، اس لئے اب برطانوی شاہی
خاندان یہ کوڑیوں کے دام بھی نہ خریدے گا۔
یہ سن کر ڈبے کے خریدار کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ وہ فوراً غصہ چھوڑ کر اس
شخص کے ترلے کرنا شروع ہوگیا کہ کسی طریقے سے وہ اس ڈبے میں دوبارہ چاند کی
روشنی بند کردے۔
اس اٹالین نوسر باز نے اس کے کندھے پر تھپکی دیتے ہوئے اسے تسلی دی اور
کہا:
" ایک ہزار پاؤنڈ میں تمہیں یہ سائنٹفک ڈبہ ملا تھا، اس میں روشنی کیسے قید
کرنی ہے، وہ میں تمہیں ایک ہزار پونڈ لے کر سکھاؤں گا۔۔۔ "
اس فرانسیسی شخص نے مزید ایک ہزار پاؤنڈ اس نوسر باز کو دے دیا اور وہ اسے
رات بارہ بجے ایفل ٹاور ملنے کا وعدہ کرکے چلا گیا۔ کہتے ہیں کہ وہ
فرانسیسی اگلے کئی برس تک ہر روز رات ایفل ٹاور وہ ڈبہ لے کر جاتا کہ شاید
آج وہ نوسر باز وہاں مل جائے اور اس میں چاند کی روشنی قید کرنا سکھا دے،
لیکن اس نوسر باز نے نہ آنا تھا، اور وہ نہ آیا۔
یہ کہانی مجھے خادم اعلی کے اس بیان کو سن کر یاد آئی جس میں وہ فرماتے ہیں
کہ:
" پچھلی مرتبہ آپ سے ووٹ بجلی بنانے کیلئے لئے تھے اور وہ ہم نے بنا دی۔ اب
اگلی دفعہ آپ لوگ ہمیں دوبارہ ووٹ دیں تاکہ ہم آپ کو بجلی استعمال کرنا بھی
سکھا دیں۔۔"
یہاں اس بجلی کی مثال وہ سائنٹفک ڈبہ ہے، عوام کی مثال اس بیوقوف فرانسیسی
کی سی ہے اور خادم اعلی وہ نوسر باز ہے جو پہلے عوام کو مہنگے داموں بجلی
بیچ گیا اور اب اگلی مرتبہ اس بجلی کو استعمال کرنے کا طریقہ سکھانے کے نام
پر مزید ووٹ مانگ رہا ہے۔
لگتا ہے کہ عوام بھی اس فرانسیسی شخص کی طرح واپڈا کے بجلی کے کھمبے کے
ساتھ لگ کر مر جائے گی لیکن نہ تو اس میں بجلی آئے گی اور نہ ہی اس کا
استعمال سکھانے والے نوسرباز۔
ایسے نوسر بازوں پر ہزار مرتبہ ........ |