جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں عہدطالب علمی کی ایک شام
معمول کے مطابقالمجمع الاسلامی ملت نگر مبارک پورعالم ربانی حضرت علامہ عبد
المبین نعمانی دام ظلہ سے شرف ملاقات حاصل کر نے کی غرض سے حاضر ہوا، ان
دنوں جامعہ اشرفیہ کے طلبہ بعد نماز عصر کثیر تعداد میں آپ کی نورانی
وعرفانی مجلس میں حاضر ہو کر آپ کے ناصحانہ ارشادات اور علمی نکات سے
مستفید ہوا کرتے تھے ،میں بھی ان خوش نصیبوں میں تھا جو حضرت نعمانی صاحب
قبلہ دام ظلہ کی مجلسوں میں اکثر حاضر ہوا کرتا تھا ، آپ ہر دن کسی نہ کسی
موضوع پر بے لاگ تبصرہ فرماتے ، طلبہ کو قیمتی نصیحتوں سے نوازتے ، نماز کی
تلقین فرماتے اور سلف صالحین کے واقعات سنایا کرتے تھے۔
آج کی مجلس کا موضوع تھا خانقاہ صمدیہ مصباحیہ پھپھوند شریف ضلع اوریا یوپی
میں منعقد جشن صد سالہ حافظ بخاری کا انعقاد، حضرت اسی دن عالمی پیمانے پر
منعقد اس جشن صد سالہ میں شرکت فرماکر واپس ہو ئے تھے،آپ اپنی مجلس میں
موجود طلبہ کواس جشن کے عمدہ نظم ونسق،اور ملکی وغیر ملکی علما ومشائخ کی
شرکت اورحافظ بخاری خواجہ سید عبد الصمد چشتی مودودی کی حیات وخدمات پر
منقعد سیمینار کی تفصیلات سنارہے تھے ۔آپ نے خانوادہ صمدیہ کے مورث اعلیٰ
حافظ بخاری حضرت شاہ سید عبد الصمد چشتی مودودی قدس سرہ کی علمی عظمتوں اور
احیاے دین کے حوالے سے آپ کی گراں قدر خد مات کو بیان فرماتے ہوئے ارشاد فر
مایا کہ مجھے حیرت ہوئی کہ اس عظیم خانوادہ کے صاحب سجادہ ،اور حافظ بخاری
رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علمی وروحانی وارثتوں کے امین ومحافظ حضرت علامہ
سید اکبر میاں چشتی اس قدر سادہ مزاج اور مروجہ تکلفات سے بے نیاز ہیں ،
انہوں نے بتایاکہ جشن میں تشریف لانے والے علما ومشائخ کو بعد نماز عصر
حضرت صاحب سجادہ کی جانب سے عصرانے کی دعوت تھی ،سارے علما ومشائخ نے چشم
حیرت سے ملاحظہ فرمایا کہ اس عظیم خانوادے کے صاحب سجادہ نہایت معمولی لباس
میں علما ومشائخ کی مہمان نوازی میں بنفس نفیس مصروف ہیں ،پہلی بارشرف
ملاقات حاصل کر نے والوں کے لیے یہ یقین کر نا مشکل تھا کہ یہی وہ عظیم
شخصیت ہیں جن کی عظمتوں کے چرچے ہر زبان پر ہیں ۔استاذی الکریم حضرت نعمانی
صاحب قبلہ کی یہ مجلس اورآپ کے یہ تاثرات میرے لیے حضور اکبر المشائخ رضی
اللہ تعالیٰ عنہ کے تعارف کا ذریعہ بنے۔یہ ۲۰۰۳ء کی بات ہے۔
حسن اتفاق کہ ۲۰۰۸ ءمیں شعبہ تخصص فی الفقہ جامعہ اشرفیہ مبارک پور سے
فراغت کے بعد استاذی الکریم حضرت مولانا نفیس احمد مصباحی دام ظلہ کے توسط
سے جامعہ صمدیہ پھپھوند شریف میں بحیثیت استاذ تقرر ہواتوپہلی بار شوال
۱۴۲۹ھ میں حضور اکبر المشائخ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا،یہ حضرت کی علالت کا
زمانہ تھا ،سخت علالت کے سبب آپ باہر تشریف نہیں لاتے تھے ،استاذ العلما
حضرت علامہ مفتی محمد انفاس الحسن چشتی صدر المدرسین جامعہ صمدیہ پھپھوند
شریف کی رہنمائی میں جامعہ کے جملہ اساتذہ کے ساتھ حضرت کی قیام گاہ حاضری
کی اجازت ملی ، قدم بوسی کا شرف حاصل ہوا،اس کے بعد حضرت مسلسل علالت میں
مبتلا رہے، ایک طویل علالت کے بعد ۲۰؍ ذی قعدہ ۱۴۲۹ھ کو آپ کا وصال ہو گیا۔
میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے حضرت کی زیارت وقدم بوسی کا شرف حاصل ہوا اور اب
آٹھ سال سے آپ کے قائم کردہ ادارے میں خادم ہوں ،یہ نسبت میرے لیے حضرت کے
خصوصی فیضان کا مستحق ہو نے کے لیے کافی ہے۔
؏۔شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را
حضور اکبر المشائخ رضی اللہ عنہ کی عبقری شخصیت معاصرین میں کئی جہتوں سے
ممتاز ومفتخر تھی،آپ جہاں ایک عظیم روحانی خانوادہ کے قافلہ سالار تھے وہیں
علم وفضل میں بھی یکتاے روزگار تھے ،گویا آپ کی ذات شریعت وطریقت کی حسین
سنگم تھی ، بےشمار اوصاف وکمالات اور فضائل ومحاسن کے حامل ہو نے کے باجود
آپ نہایت منکسر المزاج تھے۔سنت وشریعت کے حد درجہ پابند اور زہد وتقویٰ کے
اعلیٰ درجے پر فائز تھے ،دین کی سُرخروئی اورمسلک اہل سنت وجماعت کی تائید
وحمایت آپ کا نصب العین تھا،آپ نےاپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئےآستانہ
عالیہ صمدیہ مصباحیہ پھپھوند شریف میں قدیم خانقاہی نظام کو باقی رکھا
اوردین وسنیت کے تحفظ وبقا کےلیے مسلسل جد وجہد فر مائی۔
آپ کے پیر ومرشد حضرت خواجہ سید مصباح الحسن چشتی رضی اللہ عنہ نے ارشاد
وہدایت کا جو عظیم عہدہ آپ کو سپرد فر مایا تھا ، آپ نے صحیح معنوں میں اس
کا حق ادا کیا ،اور اس استقامت علی الشریعہ کا جونمونہ آپ نے پیش کیا اس کی
مثال دوردور تک نظر نہیں آتی۔مریدین ، متوسلین اور عقیدت مندوں کا ایک وسیع
حلقہ ہو نے کے باوجود آپ گوشہ نشیں رہے ، مشربی اختلافات سے اپنے آپ کو
ہمیشہ دور رکھا ، ان کی مجلسوں میں کبھی کسی کی غیبت یا تنقید نہیں سنی گئی
،وہ اس قدر بارعب اور پر شکوہ تھے کہ کسی کو ان کے سامنے گفتگو کی جرأت
نہیں ہو تی ، ان کا ہر صحبت یافتہ شریعت کا پابند ہو تا،اپنے صاحب زادگان
کی عمدہ تربیت فرمائی ، ہر ایک کو دینی تعلیم سے آراستہ فرمایا ،الحمد للہ
آپ کے جملہ صاحب زادگان اپنے اپنے طور پر مکمل اخلاص کے ساتھ خدمت دین میں
مصروف ہیں ۔
حضور اکبر المشائخ کا ایک عظیم کارنامہ چشمہ علم وحکمت جامعہ صمدیہ کی
تاسیس تعمیر ۱۳۹۵ھ میں آپ نے اپنے دست اقدس سے اس ادارے کی بنیاد رکھی ،اور
اس کی تعمیر وترقی کے لیے اپنے فرزند عزیز مخدومی الکریم حضرت مولانا الحاج
سید محمد انور چشتی دام ظلہ الاقدس منتخب فر مایا ،آپ کی مساعی جلیلہ سے یہ
ادارہ اس وقت مغربی یوپی کا عظیم دینی قلعہ کی حیثیت سے معروف ہے ،مختلف
شعبہ جات قائم ہیں ، تربیت ِ افتا ، درس نظامی اعدادیہ تا فضیلیت اورحفظ
وقراءت کی تعلیم کو معقول بند وبست ہے ،عمدہ نظم ونسق اور معیاری تعلیم کی
وجہ سے یہ ادارہ طالبان علوم ِ اسلامیہ کا مرکز توجہ ہے ۔
اکبر المشائخ علیہ الرحمۃ والرضوان کی حیات مبارکہ کے جن جن گوشوں کا
مطالعہ کیا جائے ، ہر ایک درخشند وتابندہ نظر آتا ہے ،مجھے جوکچھ دیکھنے
اور سننے کا موقع میسر آیا اس کی روشنی میں بڑی ذمے داری کے ساتھ کہہ سکتا
ہوں کہ ایسی شخصیتیں برسوں میں جنم لیتی ہیں ۔ہم اگر ایسی شخصیتوں کے لیے
عبقری اور عہد ساز جیسے الفاظ استعمال کریں تو یقینا مبالغہ نہیں ہو گا۔
ایسی شخصیتوں کے زرین کارناموں سے خلق خدا کو روشناش کراناتمام اہل محبت کی
اہم ذمے داری ہوتی ہے ۔
مسرت کی بات ہے کہ میرے محسن وکرم فرما جامع معقول ومنقول حضرت علامہ
مولانا الحاج مفتی محمد انفاس الحسن صاحب قبلہ دام ظلہ العالی شیخ الحدیث
وصدر المدرسین جامعہ صمدیہ پھپھوند شریف نے اپنے مرشد گرامی حضور اکبر
المشائخ کی علمی وروحانی شخصیت کو منظر عام پر لانے کے لیے ایک بڑی جامع
اور تفصیلی سوانح مرتب فرمائی ہے جو یقینا ا ن کایک تاریخی کارنامہ ہے ۔حضرت
مفتی صاحب قبلہ ایک مستند عالم ومفتی اور زہد وتقویٰ میں اکبر المشائخ کے
پرتو ہیں، آپ حضور اکبر المشائخ کے محبوب نظر مرید وخلیفہ ہو نے کےساتھ آپ
کی جلوت وخلوت کے شاہد ہیں ۔اس لیے اس سوانح کی اہمیت دوبالا ہو گئی ہے ۔
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے دعا ہے کہ حضور اکبر المشائخ کا فیضان ہم سبھوں
پر عام وتام فر مائے اور ان کی حیات ِ پاک کو ہمارے لیے مشعل راہ بنائے ،
آمین بجاہ حبیبہ سید المر سلین وعلیٰ آلہ وصحبہ اجمعین ۔ |