یہ جان کر کے مایوسی کفر ہے،،،روزی اس کی کسی بھی بات سے
یا تو متاثر ہو رہی تھی،،نہ ہی متفق،،،سلمان نے روزی کی بات سن کے بھی کافی
سے نظریں نہیں ہٹائیں،،یہ کافی یہیں رہ جائے گی،،میں شاید نہ رہوں،،سلمان
نے حیرت سے روزی کو دیکھا،،جیسے کسی نے اسے،،ایسے کھانے کی ڈش دے دی ہو،،جس
کے لیے اس کی جیب اجازت نہ دیتی ہو‘‘،،،روزی مسکرائی‘‘،،تمہیں میری بات
ابھی سمجھ میں نہیں آئے گی مگر،،،شاید کچھ دیر بعد آجائے،،سلمان نے اس نازک
سی لڑکی کو غور سے دیکھا،،،روزی نے بے پروائی سے اپنے بالوں کو سمیٹنے کی
کوشش کی،،،مگر کسی مخملی قالین کی طرح وہ اس کے ہاتھوں سے پھسلتے ہوئے اس
کے چہرےکو ڈھانپتے رہے‘‘،،
اچھی مصروفیت ہے،،سلمان نے ہنستے ہوئے کہا‘‘،،روزی سب سمجھ گئی،،،اس کے لب
تھوڑی دیر کے لیے کھینچ کے واپس اپنی جگہ پر آگئے،،،سلمان نے آہستہ سے خود
کلامی کے انداز میں کہا‘‘کنجوس‘‘،،
روزی کی آنکھوں نے عینک کے فریم کے پیچھے سے سلمان کا طواف کیا،،میں اب کسی
بات کا مطلب نہیں پوچھوں گی،،کیونکہ،،،آپ کے پاس کبھی جواب نہیں
ہوتا،،اور،،آپ کو بے معنی چیزسے گریز کرنا چاہیے،،
روزی کی بات سن کر سلمان نے صرف یس آئی ول(ہاں میں کروں گا)کہنے پر اکتفا
کیا،،
اک خاتون دونوں ک ٹیبل کے قریب آگئی،،اس کی عمر لگ بھگ پینسٹھ سال ہو
گی،،بڑے پیار سے سلمان کو دیکھا اور مسکرا کے بولی،،بیٹا گھر کی بات گھر
میں ہی اچھی لگتی ہے،،یہاں،،میری بیٹی کو نارا ض نہیں کرو،،میاں بیوی گاڑی
کی پہیوں کی طرح ہوتے ہیں،،اس رشتے میں برداشت ہونی تو چاہیے،،مگرایسی بات
ہو ہی کیوں کہ برداشت کرنا پڑے
روزی حیرت سے اس خدائی فوجدار کو دیکھنے لگی،،،سلمان ساری بات سمجھ
گیا،،خاتون دونوں کے سر پر ہاتھ رکھ کے چلتی بنی،،سلمان پہلے تو پریشان سا
ہوگیا پھر اسے اپنی ہنسی روکنے پر قابو پانا مشکل ہورہا تھا،،روزی نے سلمان
کو دیکھا،،شیو نہ بنایا کرو،،،تم انہیں کپڑوں میں ٹھیک تھے،،صاف ستھرے تم
بہت خطرناک ہو جاتے ہو‘‘،،
سلمان کو شرارت سوجھی،،تھنکس،،،مجھ سے ڈرنے کے لیے ،،،شکریہ،،روزی نے ہلکی
سی مسکراہٹ کے ساتھ ایڈیٹ کہا،،،مزدور کم ڈرائیور کہیں کا،،دونوں ایک ساتھ
ہنس پڑے(جاری)
|