تم سوسائٹی کے طرز عمل کو انسانی فطرت سے کیوں ملا دیتے
ہو،،،روزی ناراض سے لہجے میں بولتی چلی گئی،،،اگر سوسائٹی کسی کو خود سے
الگ کر دے،،،تو کیا وہ انسان نہیں رہے گا‘‘،،،یا پھر اسے،،،جینے کا کوئی حق
نہ ہو گا،،،
کسی ایک انسان کے غلط فیصلے کو،،،پورے معاشرے کا طرز عمل تو نہیں گردانا جا
سکتا،،،ہر کسی کو جینے کا حق ہے‘‘،،،ہر کوئی اپنی روایات کے ساتھ زندہ رہ
سکتاہے‘‘،،،یہاں ایک ہی جگہ الگ الگ سوچ الگ الگ روایات سمیت لوگ زندہ رہتے
ہیں‘‘،،،آپس میں دوستیاں کرتے ہیں‘‘،،،دوستیاں رشتہ داری میں بدل جاتی ہیں‘‘،،،
اگر کسی انسان کو ہمیشہ ا ک ہی طرزعمل کے ساتھ خدا کو زندہ رکھنا ہوتا‘‘،،،تو
وہ ماہ و سال،،،الگ الگ موسم ،،،
دن رات کیوں بناتا‘‘،،،بس اک سی کائنات بنا دیتا،،،یا تو کالے ہوتے،،،یا سب
گورے،،،یا سب لمبے یا سب پستہ قد،،
سلمان نے گھبرا کے دائیں بائیں ٹیبلز پر بیٹھے لوگوں کو دیکھا،،،اس کو
اطمینان سا ہوا،،،کوئی ان کی طرف متوجہ نہیں تھا‘‘،،،پھر بھی اسے ایسا
لگا،،،جیسے وہ معصوم سی لڑکی اسے ڈانٹ رہی ہے‘‘،،،اسے سمجھا رہی ہے‘‘،،،وہ
بہت ہی نرم لہجے میں بظاہر ایسے بولنےلگا،،،جیسے روزی نے کوئی تلخ بات کہی
ہی نہ ہو،،،کیونکہ وہ جانتا تھا،،،تیز لہجے اورترشی کا جواب نرم لہجہ ہی ہو
سکتا ہے،،،دیکھئے مس روزی،،،وہ میڈم سے مس پر آگیا،،،میں یا مجھ سے لوگ اسی
سوسائٹی کا حصہ ہیں مگر،،،مگر ہماری ہوبیز،،،پیٹ سے شروع ہو کر کپڑوں پر
ختم ہو جاتی ہیں،،،ہم ڈبل روٹی اس وقت کھاتے ہیں،،،جب پراٹھا ہضم نہ ہو رہا
ہو،،،ہم مرغی اس وقت ہی کھاتے ہیں،،جب ہم بیمار ہوں ،،،یا مرغی بیمار
ہو،،،آپ کی باتیں بالکل ٹھیک ہیں،،،بس آپ سیچویشن کو ٹیک اپ نہیں کر پا رہی
ہیں،،،
بس یوں سمجھ لیجئے آپ کے مہینے میں تیس دن کا ہوتا ہے،،،اور ہمارا راشن صرف
بارہ دن کا،،اس کے بعد آٹھارہ دن صدیوں پر محیط ہوتے ہیں،،آپ بارش کو دھوپ
کو،،اپنے اے۔سی روم سے دیکھتی ہیں،،،ہم اس میں بھیگ کے یا جل کے دیکھتے
ہیں،،،آپ کے لیے برسات اک رومینس ہے،،،ہمارے لیے اک امتحان،،،
روزی خاموشی سے اسے دیکھے جارہی تھی،،،اس کے سامنے ایک ایسا فرد بیٹھا ہوا
تھا،،،جونہ اس سے نظریں ملا
پا رہا تھا اور نہ ہی خیالات،،،(جاری)
|