آسیہ پری وش،حیدرآباد
نوید کے چیخنے چلانے کی آوازوں پر وہ دونوں بیزاری سے اس کے کمرے میں گئے۔
کمرے میں داخل ہوکر کمرے کی ابتر حالت دیکھ کر ان دونوں کے ہی ماتھے پر بل
پڑگئے کیونکہ کمرے کی ہر چیز ہی ٹوٹی پھوٹی ادھر ادھر بکھری پڑی تھی اور وہ
ان کا ساڑھے پانچ سالہ بیٹا نوید منہ سے عجیب عجیب آوازیں نکالتا بری طرح
چیخ رہا تھا۔
’’یہ کیا کر رہے ہو نوید؟ کیا ہوا ہے؟‘‘ نوید کی ماں ناعمہ بیزاری کے
باوجود بیٹے کو چپ کروانے آگے بڑھی۔ ماں کو سامنے دیکھ کر وہ اور زیادہ
ہسٹریائی انداز میں چیخنے لگا اور منہ سے عجیب عجیب آوازیں نکالتا ماں کو
بھی مارنے کے لیے لپکا۔ بیوی کو بیٹے کے ننھے ننھے ہاتھوں سے پٹتے دیکھ کر
نوید کے باپ ساجد نے اسے غصے سے دبوچا۔
’’یہ کیا کر رہے ہو؟ ماں کو مار رہے ہو۔ شرم نہیں آتی تمہیں؟‘‘ باپ کو غصے
میں دیکھ کر نوید ڈر کر سہم گیا اور وہ کام جو ننھے ننھے ہاتھ کر رہے تھے
وہی کام اب بڑے بڑے ہاتھ کرنے لگے۔ نوید خود کو باپ کی مار سے بچانے کے لیے
رونے اور چیخنے لگا تو ناعمہ آگے بڑھی اور اس کو ساجد سے چھڑوا کر پیچھے
کیا۔
’’یہ کیا کر رہے ہیں آپ؟ بچے کو کیوں مار رہے ہیں؟‘‘ ساجد غصے سے اپنے ساڑے
پانچ سالہ بیٹے کو پتا نہیں کیا کیا بولنے لگے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اسے
کچھ سنائی نہیں دے گا جبکہ نوید ماں کے سینے سے لگا باپ کوغصہ ہوتے دیکھ
رہا تھا جن کے الفاظ تو اسے سمجھ نہیں آرہے تھے لیکن ان کے غصے سے بھرے
تاثرات اس کو بری طرح سے سہما رہے تھے۔
اﷲ کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے۔ لیکن کچھ بے صبرے لوگ
اس پوشیدہ مصلحت کے ظاہر ہونے سے پہلے ہی اس کام کو توڑ مروڑ کر کچھ اس طرح
سے سامنے لاتے ہیں کہ مصلحت میں چھپا وہ کام زحمت لگنے لگتا ہے۔
نوید جو پیدائشی بولنے اور سننے کی صلاحیت سے محروم تھا۔ اس کے لیے یہ
محرومی ہی کیا کم تھی جو اوپر سے اس کے ماں باپ اور اس کے تینوں بڑے بہن
بھائیوں کو بھی اشاروں کی زبان نہیں آتی تھی اور نہ ہی وہ اپنے اس بیٹے کی
خاطر وہ زبان سیکھنے اور سمجھنے کو تیار تھے۔ اس کی پیدائش کے بعد کے پہلے
ڈیڑھ سال تو آرام سے گزر گئے لیکن جب آگے بھی وہ اپنی بات گھر والوں کو
سمجھا نہیں سکا اور نہ ہی وہ لوگ سمجھنے کی کوشش کرتے تو وہ چیخنے چلانے
لگا۔
پہلے پہل تو اس کی چیخوں کا وہ اثر لیتے لیکن پھر آہستہ آہستہ اس کی چیخوں
پر بھی اسے نظرانداز کیا جانے لگا تو اپنے اندر کی تنہائی سے گھبرا کر اپنے
گھر والوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے اس نے چیزیں توڑنا بھی شروع کردیں
پھر آہستہ آہستہ یہ ہسٹریائی دورے بن گئے۔ ساجد اور ناعمہ نے اسے ڈاکٹر کو
بھی دکھایا ہر ڈاکٹر نے اسے دوائیاں دیں جو کہ اپنے وقت پہ اسے دی گئیں
لیکن ڈاکٹر کی ہدایت پر عمل نہیں کیا گیا یعنی اسے ٹھیک ہونے کے لیے جس
توجہ اور محبت کی ضرورت تھی وہ اسے کوئی بھی دینے کو تیار نہیں تھا۔ اس کے
والدین بھی خود کو اس معاملے میں مجبور سمجھتے تھے کہ انہیں اشاروں کی زبان
نہیں آتی تھی اور نوید کی یہ مجبوری تھی کہ وہ بولنے اور سننے کی صلاحیت سے
محروم تھا یوں اس کے ماں باپ اور بہن بھائی اس سے بیزار ہوکر اس سے دور اور
چڑنے لگے۔ یوں باقاعدگی سے دوائیاں کھانے کے باوجود اس کی ذہنی حالت تو کیا
ٹھیک ہوتی الٹا دوائیوں کی جلن بھی اس کے اندر میں بڑھنے لگی۔
’’مجھے سمجھ نہیں آتا کہ نوید کا آخر کیا کیا جائے؟ ڈاکٹرز کے اتنے علاج کے
باوجود اس کی طبیعت تو مزید خراب ہوتی جارہی ہے؟‘‘ ناعمہ نے اخبار پڑہتے
شوہر کے سامنے اپنی تشویش ظاہر کی۔
’’کیا پھر کیا کیا جائے۔ اب اگر ہمیں اس کی زبان نہیں آتی تو ہم کیا کریں۔
باقی اس کے لیے ہر سہولت اور ہر نعمت تو ہم اس کو دے رہے ہیں۔ وہ بھی شکر
ادا نہیں کرتا الٹا ہمیں ہی زچ کرتا رہتا ہے۔ ناشکرا بچہ۔‘‘ ناعمہ کی تشویش
پہ ساجد نے اخبار سے نظریں ہٹائے بنا بیزاری اور غصے سے بیٹے کے لیے رائے
دی۔ جس سے متفق تو وہ بھی تھی لیکن پھر بھی ماں تھی۔
’’میرا خیال ہے اسے ڈیف بچوں کے اسکول میں داخل کروادیتے ہیں۔ کیا پتا اپنے
جیسے گونگے بچوں کے ساتھ گھل مل کر وہ سنبھل جائے اور ٹھیک ہوجائے۔‘‘ اس
طرح نوید گونگے بہرے بچوں کے اسکول میں داخل ہوگیا جہاں پہ جاکے وہ واقعی
اپنے ہی جیسے ڈیف بچوں کو دیکھ کر خوش بھی ہوگیا اور بہل بھی گیا۔ اب اسکول
سے آکر اس کا دل چاہتا کہ وہ اسکول کے لڑکوں کے ساتھ کی خوشیاں اور باتیں
گھر والوں سے شیئر کرے۔ اپنی اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے وہ اپنے امی ابو
اور بہن بھائیوں کے بیچ میں آکر بیٹھ کر خوشی خوشی ان کے ساتھ اسکول کی
باتیں شیئر کرنے کی کرتا۔ نوید کو خوشی اور جوش سے منہ سے آوازیں نکالتے
اور ہاتھ ہلاتے دیکھ کر وہ لوگ مسکرا تو دیتے لیکن اس کی باتیں ان کو سمجھ
نہیں آتیں۔ اصل بات یہ تھی کہ وہ سمجھنے کی کوشش کرتے بھی نہیں تھے۔
گھر والوں کی عدم توجہی محسوس کرکے آہستہ آہستہ نوید کا جوش بھی ختم ہوتا
گیا اور اسکول کی باتیں بتانے کی لگن بھی چڑچڑے پن میں تبدیل ہوتی گئی۔ اب
وہ جب بھی گھر والوں کے درمیان آکر بیٹھتا تو خاموشی سے ان سب کے خود میں
مگن ہلتے لب دیکھتا رہتا اور اپنے کانوں میں گونجتا سناٹا یا عجیب سی
سیٹیاں بجتے سنتا رہتا۔ وہ سوچتا کہ جتنا وہ اپنے دوسرے بہن بھائیوں کی طرح
اپنے گھر والوں سے گھلنا ملنا چاہتا ہے اتنا ہی وہ اس سے دور اور بیزار
کیوں ہورہے ہیں؟ آخر اپنے دل میں اس سوال کو لیے اس نے ان سب کو ان کے حال
پہ چھوڑدیا۔
جن بچوں کے والدین اپنے بچوں اور ان کی باتوں پر توجہ نہیں دیتے ان بچوں
میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔ سو نوید کی دوستی بھی اسکول میں غلط لڑکوں سے
ہوگئی جو کہ خود اپنے گھر والوں کی عدم توجہی یا زیادہ لاڈ پیار کا شکار
تھے۔ یوں گھر والوں سے مایوس ہوکر وہ اسکول کے بعد کا وقت بھی اسکول کے
دوستوں اور ان کے دوستوں کے ساتھ گزارنے لگا۔ جن کی بری صحبت میں رہتے رہتے
وہ گھر والوں سے چھپ چھپ کر سگریٹ تو پینے لگا لیکن مار کٹائی لڑائی جھگڑا
اور دوسرے بچوں سے ان کی چیزیں چھیننا اس کا معمول ہوگیا۔
اسکول سے بہت دفعہ اس کی شکایتیں اس کے گھر پہنچیں لیکن اس کے والدین نے
سوائے اسے مارنے کے کوئی نوٹس نہیں لیا۔ اس کے اسکول کی ایک ٹیچر تھیں مس
تبسم۔ اس کا ڈیف بچوں کو پڑھانے کا بہت زیادہ تجربہ تھا سو وہ ان بچوں کی
نفسیات سمجھتی تھیں۔ وہ نوید کی حرکتیں دیکھ کر سمجھ گئی تھیں کہ وہ بھی
دوسرے بچوں کی طرح اپنے والدین کی عدم توجہی کا شکار ہے۔ انہوں نے بارہا
نوید کی امی کو بلا کر سمجھایا تھا۔
’’دیکھیں مسز ساجد! نوید کے ساتھ کوئی سائیکو مسئلہ نہیں ہے۔‘‘
’’نہیں مس تبسم۔ آپ کو نہیں پتا نوید کو پہلے بھی ہسٹریائی دورے پڑتے
تھے۔‘‘ مس تبسم کی بات کی نفی کرتے ہوئے ناعمہ بولی۔
’’یقینا پڑتے ہوں گے کیونکہ وہ آپ لوگوں کی طرف سے عدم توجہی کا شکار ہے۔
اسے کوئی اور مسئلہ نہیں ہے اسے صرف آپ لوگوں کا پیار چاہیے توجہ چاہیے۔
ماں باپ والا سلوک چاہیے۔ آپ لوگ نوید کو توجہ دیں، اسے ٹائم دیں۔ اسے اپنے
دوسرے نارمل بچوں کی طرح ٹریٹ کریں۔ اس سے باتیں کریں باتیں پوچھیں۔ اسے
گھمانے پھرانے لے جائیں۔ پھر دیکھیں وہ کیسے نہیں ٹھیک ہوتا۔‘‘مس تبسم نے
انہیں صحیح راہ دکھانی چاہی۔
’’توجہ تو ہم اسے دیتے ہیں آخر کو ہمارا بچہ ہے۔ اسے گھمانے پھرانے بھی لے
جاتے ہیں لیکن اس کے ساتھ باتیں نہیں کرسکتے کیوں کہ ہمیں اس کی زبان نہیں
آتی۔‘‘ ناعمہ نے انہیں اپنی خودساختہ مجبوری بتائی جسے مس تبسم نے چٹکیوں
میں اڑادیا۔
’’یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ آپ اشاروں کی زبان سیکھ سکتی ہیں اور نہیں
تو آپ لوگ نوید سے ہی اس کی زبان سیکھنے کی کوشش کریں۔ اس سے نوید بھی خوش
ہوجائے گا کہ آپ لوگ اسے سمجھنے کی کوشش کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ کررہے ہیں۔
وہ خوشی خوشی آپ لوگوں کو سب کچھ اچھی طرح سے سکھادے گا۔ ’’مس تبسم نے
انہیں ایک حل بتایا۔ پر یہاں پر مجبور ماں کے سامنے ایک اور مجبوری سامنے
آگئی۔
’’ہمیں اپنے دوسرے ضروری کاموں کے لیے وقت اتنی مشکل سے ملتا ہے تو اس زبان
کو سیکھنے کے لیے وقت کہاں سے آئے گا۔‘‘
’’ویسے ہم نے نوید کو اس لیے بھی اسکول میں داخل کروایا تھا کہ کہتے ہیں کہ
اسکول بچوں کے لیے ایک اچھی درس گاہ ہوتی ہے۔ یہاں بچوں کو تربیت کے حوالے
سے اچھی اچھی باتیں بھی سکھائی جاتی ہیں تو آپ ٹیچرز کو تو ان کی زبان بھی
آتی ہے تو آپ بھی ان بچوں کو اچھی زندگی گزارنے کے بارے میں اچھی اچھی
باتیں سکھا سکتی ہیں؟‘‘ ناعمہ کی اس بات پہ مس تبسم تلخی سے ہنس پڑیں۔
’’مسز ساجد پہلے تو آپ بھی دوسروں کی طرح یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ جس
زمانے میں یہ بات کہی جاتی تھی اس زمانے میں اسکول بچوں کی تربیت کے حوالے
سے بھی اچھی جگہ تھی جبکہ آج کل کا اسکول صرف پڑھائی ہے تربیت گاہ نہیں۔
اور بچوں کی اچھی تربیت جتنی گھر کے افراد کرسکتے ہیں اتنی ہم ٹیچرز
نہیں۔‘‘
یوں بار بار بلا کر سمجھانے کے بعد ایسے بچوں سے صرف دلی ہمدردی محسوس کرتے
ہوئے مس تبسم نے ان کے والدین کو ان کے حال پر چھوڑدیا۔
پھر ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے نوید کی اس موجودہ بگڑی روش کو بدل دیا۔ ہوا
کچھ یوں کہ وہ سب دوست آپس میں کہیں نکلے ہوئے تھے۔ اس کو دھکا دینا، اس سے
کچھ چھینا چھپٹی کرتے کرتے وہ دوست ایک ویران علاقے میں آگئے۔ اس پر اتفاق
یہ بھی ہوا کہ باتوں باتوں میں ان کا اپنے ہی ایک چودہ سالہ ڈیف دوست سے
جھگڑا بھی ہوگیا اور ان سب دوستوں نے مل کر اس دوست کو خوب مارا۔ آخر میں
ایک ساڑھے تیرہ سالہ لڑکے نے اپنی جیب سے تیز دھار والا چاقو نکال کر اس
زخمی لڑکے کے پیٹ میں گھونپ دیا۔ لڑکے کا خون نکلتے دیکھ کر وہ سب دوست
پیچھے ہٹ گئے۔ گیارہ سالہ نوید بھی بہت زیادہ سہم کر ایک طرف کھڑا ہوگیا۔
اس لڑکے کا خون اور دلخراش چیخیں سن کر ان سب کو جیسے یقین ہوگیا کہ اب وہ
لڑکا بچے گا نہیں۔ خون تو خشک چاقو مارنے والے لڑکے کا بھی ہوگیا تھا لیکن
یوں اس لڑکے کو مرتے اور دوسرے سب دوستوں کو پیچھے ہٹتے دیکھ کر اس کو اپنی
جان خطرے میں نظر آئی تبھی خود کو سنبھال کر خطرناک تیوروں سے سب کے سامنے
وہی خون آلود چاقو لہرا کر اشاروں میں بولا ’’اگر تم میں سے کسی نے بھی اس
معاملے کے بارے میں کسی کو کچھ بتایا یا کچھ بولا تو اس کا حشر بھی ایسا ہی
کردوں گا۔ سمجھیں؟ چلو اب سب۔‘‘ اس دھمکی پر وہ سب اس خون میں لت پت تڑپتے
دوست کو چھوڑ کر اپنے اپنے گھروں میں آکر دبک گئے۔
اس واقعے نے نوید کو بدل دیا۔ وہ اسکول باہر سب کچھ چھوڑ کر اپنے کمرے میں
سہما دبکا پڑا رہتا یا بیٹھے بیٹھے ہی دوست کا خون میں لت پت وجود ذہن میں
آتے ہی چیخنے لگتا۔ گھر والوں کے لیے ویسے ہی وہ ایک بیزار کن بچہ تھا سو
سب نے ہی اسے نظرانداز کردیا۔ وہ اندر ہی اندر اپنی سرد و گرم جنگ اکیلے ہی
لڑتا رہا۔
اس واقعے کے سات آٹھ ماہ تک جب اس کو یقین ہوگیا کہ اس کو سنبھالنے کوئی
نہیں آئے گا تو اس کو سامنے دو ہی راستے نظر آئے کہ یا تو خود کو مار ڈالے
یا پھر سے زندگی کی طرف قدم بڑھائے۔ خود کو مارنے کا سوچتا تو اس کی نظروں
کے سامنے دوست کا خون میں لت پت تڑپتا وجود گھوم جاتا تو وہ سہم کر اس
راستے سے قدم ہٹا لیتا۔ یوں ڈرتے ڈرتے ہی اس نے دوبارہ سے زندگی کی طرف قدم
بڑھائے۔
پہلے پہل تو اس نے ڈرتے ڈرتے چوکنا ہوکر گھر سے قدم باہر رکھا۔ ایک ماہ تک
تو وہ گھر سے اپنے محلے تک ہی ڈرتے ڈرتے گھومتا رہا۔ پھر اس کا ڈر جب کچھ
کم ہوا اس نے اپنے لیے آگے کی راہیں تلاش کیں لیکن اس نے اسکول اور ہر اس
راستے پر جانے سے خود کو روکا جس پر وہ اپنے دوستوں کے ساتھ جاتا تھا۔
ایک دن یونہی چلتے چلتے وہ ایک موٹر میکنیک کے سامنے جا کھڑا ہوا جو ایک
گاڑی کا بونٹ کھولے اسے دھیان سے چیک کررہا تھا۔ ادھر اپنے کام کرتے ہاتھوں
کو غور سے دیکھتے ایک لڑکے کو دیکھ کر شبیر چونک پڑا اور اس کی طرف بڑھا۔
کیا بات ہے۔ کام سیکھو گے؟ اپنے کام کرتے ہاتھوں کو غور سے دیکھتے پاکر اس
نے اس لڑکے کے دل کی بات پوچھی۔ شبیر کے ہلتے لب دیکھ کر نوید کی آنکھوں
میں پانی آگیا اور اشاروں سے بولا۔ میں بول اور سن نہیں سکتا۔ لڑکے کے چہرے
کی بیچارگی اور اس کی محرومی پر شبیر کا دل پسیج گیا۔ آتے جاتے طرح طرح کے
لوگوں سے ملتے ملاتے شاید اسے بھی تھوڑی سی اشاروں کی زبان آتی تھی تبھی
اسے خود سے لگاتے ہوئے بولا۔
یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ تم بتاؤ تم کام سیکھنا چاہتے ہو؟ شبیر کی
اتنی توجہ اور ہمدردی سے ہی وہ بہل گیا اور اثبات میں سر ہلادیا۔تو ٹھیک
ہے۔ آؤ میں تمہیں کام سکھادیتا ہوں۔
کہتے ہیں کہ اﷲ معذوروں کو ایک صلاحیت عام انسانوں سے زیادہ دیتا ہے۔ پھر
نوید' شبیر کی گیراج میں نہایت محنت اور شوق سے کام سیکھنے لگا۔ نوید کی
سیکھنے کی لگن اور شوق دیکھ کر شبیر اسے کام سے ڈیڑھ گھنٹے کی چھٹی دے کر
اپنے بیٹے جو کہ درزی تھا اس کے پاس سلائی کا کام سیکھنے کے لیے بھی بھیجنے
لگا۔ جب اس نے اپنی کمائی سے اپنی ماں کے لیے ایک سوٹ لے کر سلائی کرکے ماں
کو دیا تو ناعمہ نے خوش ہوکر اس کا ماتھا چوما۔ حالانکہ ناعمہ کے انداز میں
ویسی بیساختگی اور والہانہ پن نہیں تھا جیسا اس کے دوسرے بہن بھائیوں کی
ایسی کسی کوشش پہ ناعمہ کے انداز میں ہوتا تھا پھر بھی نوید ماں کی اتنی
زیادہ توجہ پہ ہی خوش ہوگیا۔
یوں شبیر کی توجہ، پیار اور ڈانٹ سے زمانے کی اونچ نیچ سمجھانے کے بعد آج
اٹھارہ سالہ نوید اتنا باشعور ہوگیا تھا کہ وہ دنیا کا مقابلہ صحیح طریقے
سے کرسکتا تھا لیکن شبیر کی اتنی شفقت کے باوجود اس کے اندر میں وہ خلا آج
بھی موجود ہے جو اس کے گھر کے افراد کی توجہ اور محبت سے پر ہونا تھا۔
پیارے والدین! ایک بات یاد رکھیں۔ بچے معذور ہیں تو کیا ہوا۔ ہیں تو اپنے
ہی آنگن کا پھول۔ ایسے پھول جو آپ کی ذرا سی توجہ اور شفقت سے آپکے آنگن
میں کھلے دوسرے پھولوں سے زیادہ خوشبو دینے لگتے ہیں سو پلیز انہیں بھٹکنے
کے لیے نہ چھوڑیں کیونکہ ہر بچے کو شبیر نہیں ملتا۔
|