معاشرے کا بگاڑ

آج کی دوڑتی بھاگتی دنیا میں ہرانسان اپنے فائدے اورمفاد کی جنگ لڑنے میں مصروف عمل ہے،آج کے انسان کی ترجیحات میں سب سے پہلے اپنی زات کا فائدہ اور مقصدپورا کرنا ہی سرفہرست ٹھہرتا ہے،دنیا جائے بھاڑ میں معاشرہ جائے بھاڑ میں اور انسانیت خلوص محبت یہ کس چڑیا کا نام ہیں،ان ساری خوبصورت اور پاکیزہ باتوں اور خوبصورت جذبوں کا نام ونشاں اور وجودتک مٹتا جارہا ہے ،آج سے تیس سال پہلے کے لوگوں اور آج کے دور کے انساں کا موازنہ کیا جائے تویہ فرق بچے بچے میں نظرآتا ہے،آج کا بظاہر پڑھا لکھا انسان کل کے ان پڑھ انسان سے زیادہ جہالت کا مظاہرہ کرتا نظرآتا ہے آج کے جدید دور میں جہاں انٹرنیٹ کی سہولت کی وجہ سے دنیا سکڑکررہ گئی ہے فاصلے بے معنی سے رہ گئے ہیں قربتوں کے اس دور میں بھی ہرانسان اپنی ذات میں نا آسودہ اور نا خوشگوار زندگی گزاررہا ہے،وجہ صرف اور صرف مفاد پرستی ہے،لوٹ مار کا یہ بازار بڑے مہذب اندازمیں سجایا جاتا ہے،اپنے فائدے کے لئے غلط صحیح کی کوئی حد لاگو نہیں کی جاتی ،بس مقصدپورا ہونا چاہیئے طریقہ کوئی سا بھی کیوں نہ استعمال کیا جائے اگر ہم اپنی عائلی زندگی پر ہی نظرڈالیں توبہت سی ایسی باتیں نظرآئیں گی جوقابل گرفت ہیں،مگرہم لوگ اس پر توجہ دینے کی بجائے صرف نطرکرنا پسندکرتے ہیں رشوت کو ہی لیا جائے تو اس کا فروغ بھی ہمارے اپنے گھروں کی پیدا وار ہے ماں بچے سے کوئی کام کرواتی ہے تو اس کو کہتی ہے کہ بیٹا میرا یہ کام کردو تومیں آپ کو چپس بنا کر دوں گی یا پھر نوڈلز یا پھر آپکو جیب خرچ کے علاوہ پیسے دونگی وغیرہ وغیرہ بظاہر ماں بچے کو ترغیب دینے کے لئے ایسا کرتی ہے مگر درحقیقت وہ بچے میں لالچ کا ایسا بیج بوتی ہے جسکے درخت کو بڑھنے پھلنے پھولنے میں ذرا بھی دیرنہیں لگتی اور بچے کے اندر بڑھتے حرص میں یہ انعام یا رشوت کی صورت ایسا بگاڑ پیدا کرتی ہے جس کے حصار سے بچہ پھر کبھی نکل نہیں پاتا ایسے ہی استاد کا کردار ٹھہرا ۔وہ بچوں میں مذاق مذاق میں فرمائشیں کرتا ہے کہ چیزکھلاؤ تو ٹیسٹ میں پورے نمبر ملیں گے یا پھر کسی بھی چیزکی فرمائش کرتا ہے جو بچے اپنے والدین تک پہنچاتے ہیں اور والدین (مرتا کیا نہ کرتا)کے مصداق پوری کرنے کی کوشش میں ہلکان ہوتے ہیں رشوت جیسے حرام کام کو بھی تحفے کی خوبصورت ریپگ میں لپیٹ کر اتنے دھڑلے اور ڈھٹائی سے پیش کیا جاتا ہے کہ اب تورشوت اور تحفے کی پہچان کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتا جارہا ہے مفاد پرستی کی اس فضا میں منہ ملاحظہ کا بھی بڑا رجحان عام ہے،اگر کسی کی پہنچ بڑے افسرتک ہے تو لوگ ان کی ایسی منت سماجت کرتے ہیں جیسے کہ وہ خوداس پوسٹ پر فائزہو،گھروں میں دعوتوں کے سلسلے ،مشروبات ،مٹھائیاں ،تحفے کے نام سے بطوررشوت دینا ایک عام اور معمولی بات ٹھہرتی ہے چائے پرمدعوکرنا ،خاطرمدارت کرنا ،پیسہ خرچ کرنا ،سب مفاد پرستی کے وہ سنہرے اصول اور راستے سمجھے جاتے ہیں جن کے زریعے مشکل سے مشکل کام بھی کروا لئے جاتے ہیں،اور بظاہرمنزل بھی پا لی جاتی ہے گزرے وقتوں میں بچوں کو اچھے برے کی تمیزغلط صحیح کی پہچان کی تعلیم وتربیت پر زور دیا جاتا تھا مگر آج کے دور میں آپکو تعلیم تونظرآئے گی،مگر تربیت کا فقدان ہے حاصل کرو،حاصل کروکا فارمولا اپنایا جاتا ہے اور اسی حاصل کرو کے فارمولے نے صحیح غلط ،اچھے برے کی پہچان انسانوں سے چھین لی ہے بس اپنا فائدہ دیکھو باقی اس فائدے سے کسی کو جوبھی نقصان ہو اس کے ذمہ دار آپ نہیں چاہے وہ آپ کے اپنے سگے رشتے ہی کیوں نہ ہوں،نفسا نفسی توروزقیامت ہونے کا امکان ہے مگر آج کا دور بھی قیامت سے کم نہیں بھائی بھائی کا دشمن بہن بھائی کی دشمن اولاد ماں باپ جیسے عظیم رشتوں کو بھی اپنے مفاد کی سب سے بڑی دیوار سمجھتے ہیں ان کے خلوص پیار محبت کو دقیانوسیت کا نام دے کر دھتکاردیا جاتا ہے،ہمارا دین ہمیں اپنے ماں باپ کے سامنے اف تک کہنے سے بھی روکتا ہے مگر آج کا پڑھا لکھا نوجوان ماں باپ کو دنیا چغدترین انسان ثابت کرنے کے لئے وہ ذبان استعمال کرتا ہے کہ ماں باپ کے لئے ڈوب مرنے کا مقام ٹھہرتا ہے اور وہ بے چارے اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ہیں بچوں کو لاڈ پیار میں دی گئی بے جا آزادی بھی اسکا سب سے بڑا سبب ہے ،بچوں کے منہ نکلی ہرجائز ناجائز کوپورا کرنا ماں باپ اپنا فرض سمجھتے ہوئے کرتے ہیں مگر یہ بات بچوں میں ہٹ دھرمی وبے حسی کا وہ تناور درخت پیدا کرتی ہے جسکی وجہ سے وہ ہرچیز حاصل کرنا اپنا حق سمجھتا ہے،اسی بات کی وجہ سے معاشرے میں اپنے سے نیچے کو دیکھنے کی خوختم ہوتی جارہی ہے پہلے کے والدین بچوں کو دینی تعلیم دینے میں زیادہ دلچسپی اور توجہ دیتے تھے بچوں کو ذہنی شعور دینے کی کوشش کی جاتی تھی ایک اچھا سچا مسلمان بنانے کی تگ ودو میں رہنا والدین اپنا فرض سمجھتے تھے مگر آج کے والدین نے اپنے پاؤں پر خودہی کلہاڑی کے وہ وار کئے ہیں ،جن کی سب سے زیادہ تکلیف بھی ان کے اپنے حصے میں ہی آئی ہے،صبر شکر قناعت ،یہ الفاظ آج کے دورمیں صرف لفاظی بن کر رہ گئے ہیں اپنے اصلی معنی ومفہوم کھوکر رہ گئے ہیں سب کچھ پانے کی حرص نے انسان کو بے شعورکردیا ہے وہ ہرکام بغیرسوچے سمجھے کئے جانا چاہتا ہے،عارضی دنیا میں کبھی نہ ختم ہونے والی پائیدار چیزوں کے خواب نے حضرت انسان کو ہربات سے بے بہرہ کردیا ہے۔

Nabeela Khan
About the Author: Nabeela Khan Read More Articles by Nabeela Khan: 12 Articles with 12458 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.