’’ اچھا پھر۔۔ میں بعد میں بات کرتا ہوں۔۔‘‘یہ کہہ کہ
انہوں نے فون کو کریڈل پر رکھا۔
’’ کس سے بات کر رہے تھے؟‘‘ رضیہ بیگم نے بیڈ روم میں داخل ہوتے پوچھا
تھااور آکر ان کے پس بیٹھ گئی
’’اپنی گرل فرینڈ سے۔۔‘‘انہوں نے ایک پھلجڑی چھوڑی
’’ شرم کرو کچھ۔۔۔ دو جوان بچوں کے باپ ہو تم۔۔۔‘‘و ہ ان کا مذاق سمجھ گئی
تھیں
’’ شرم کی کیا بات ہے رضیہ بیگم۔۔ دل تو ہمارا بھی ہے۔۔‘‘ ان کے کانوں میں
سرگوشی کی
’’اب پیچھے ہٹیں۔۔۔ بچوں نے دیکھ لیا تو کیا کہیں گے۔۔‘‘انہوں اپنے ہاتھوں
سے پیچھے دھکیلا
’’کیا کہیں گے۔۔ کچھ بھی تو نہیں۔۔۔ اور ویسے بھی اس وقت کون ہوتا ہے گھر
میں۔۔‘‘
’’ بہت شریر ہوگئے ہیں آپ۔۔‘‘ وہ شرماتے ہوئے وہاں سے اٹھ گئی اور صوفے پر
جابیٹھیں
’’ آپ کے ساتھ رہ رہ کر ۔۔‘‘ انہوں نے سارا الزام رضیہ بیگم پر ڈال دیا
’’کیا مطلب ہے آپ کا کہ میں شریر ہوں۔۔؟‘‘ انہوں نے خفگی سے پوچھا
’’ میں نے ایسا تو نہیں کہا۔۔‘‘ مسکراہٹ ان کے چہرے پر واضح تھی۔
’’چلو ۔۔چھوڑیں ان باتوں کو۔۔ آپ یہ بتائیں کہ آپ نے ساجد کے بارے میں کی
سوچا؟‘‘ انہوں نے انہماک سے علی عظمت کے چہرے کو دیکھا
’’میں نے کیا سوچنا ہے۔تم وجیہہ سے بات کرو۔ آخر زندگی اس نے گزارنی ہے تو
بہتر یہی ہوگا کہ فیصلہ بھی وہ کرے۔۔‘‘انہیں اچانک کچھ یاد آیا ، وہ فوراً
اٹھے اور وارڈ روب کی طرف بڑھنے لگے
’’کہہ تو آپ ٹھیک رہے ہو لیکن وہ یہ فیصلہ کیسے کر سکے گی؟ آپ تو جانتے ہو
اس کی نیچر کو جو ہم فیصلہ کریں گے دیکھ لینا وہی اس کا بھی فیصلہ ہوگا۔‘‘
’’ یہ بھی ٹھیک ہے۔۔‘‘ انہوں نے بے نیازی سے جواب دیا۔ وہ وارڈ روب میں
مسلسل کوئی چیر ڈھنڈ رہے تھے
’’ تو پھر میں بس اب جلدی سے وجیہہ سے بات کرتی ہوں اور پھر جلدی سے منگنی
کی تیاری شروع کردیتی ہوں۔۔ٹھیک ہے ناں۔۔‘‘ انہوں نے خود ہی پلان بنا لیا
’’ ہاں۔۔‘‘ وہ ابھی بھی فائل ڈھونڈ رہے تھے
’’ کیا ڈھونڈ رہے ہیں آپ؟ مجھے بتائیے۔۔ میں ڈھونڈ دیتی ہوں۔۔‘‘
’’ریڈ کلر کی ایک فائل ڈھونڈ رہا ہوں۔۔ یاد نہیں آرہا کہاں رکھی تھی‘‘
آپ کی یاد داشت لگتا کچھ زیادہ ہی کمزور ہوگئی ہے۔ بھول گئے آپ کل آپ نے ہی
تو آفس بھیجی تھی۔۔‘‘ یہ سن کر وہ ہنس پڑے
’’ اوہ۔۔۔ میں تو واقعی بھول گیا تھا۔۔۔ لگتا ہے بڑھاپے میں قدم رکھ چکا
ہوں۔۔‘‘ سنجیدہ لہجے میں گویا ہوئے
* * * *
وجیہہ پرنسپل آفس کے باہر کھڑی کچھ سوچ رہی تھی۔ پرنسپل صاحبہ نے اسے اپنے
کیبن میں بلایا تھا۔ابھی اسے ایک ہفتہ ہی ہوا تھا یہاں پڑھاتے ہوئے، اور آج
تک کوئی غلطی کا موقع نہیں دیا۔ مگر ایک ڈر تھا جو دل میں کھٹک رہا تھا
’’تم ابھی تک یہاں کھڑی ہو۔۔۔ میڈم کب سے تمہارا انتظار کر رہی
ہیں۔۔!!‘‘ایک لڑکی پرنسپل آفس سے باہر نکلی اور اس سے مخاطب ہوئی
’’ جی میں۔۔ جا رہی ہوں۔۔‘‘ وہ اثبات میں گردن ہلاتے ہوئے چلی گئی۔
’’ میڈم آپ نے بلایا۔۔‘‘ دروازہ کھولتے ہی اس نے پوچھا
’’ جی آئیے۔۔ بیٹھیے وجیہہ۔‘‘ انہوں نے کرسی کی طرف اشارہ کیا
’’ السلام علیکم۔۔‘‘ کرسی پر بیٹھتے ہوئے اس نے سلا م کیا
’’ وعلیکم السلام ۔۔ میں نے آ پ کو اس لئے بلایا تھا کہ آپ سے کچھ پوچھ
سکوں۔۔‘‘ انہوں نے اپنا کام چھوڑ کر اس پر دھیان دیا
’’جی پوچھیے میڈم۔۔‘‘ اس نے خوش اخلاقی سے کہا
’’آپ کو ایک ہفتہ ہوگیا ہے یہاں پڑھاتے ہوئے۔۔ آپ کو کیسا لگا ہمارا کالج؟
کوئی مسئلہ وغیرہ تو نہیں ہوتا۔۔‘‘
’’ نہیں میڈم۔۔ مسئلے والی تو کوئی بات ہی نہیں۔ بلکہ میں تو بہت خوش ہوں ۔
میں تو یہی سوچتی تھی کہ باہر کے ماحول میں میں کبھی ایڈجسٹ ہو بھی پاؤں گی
یا نہیں۔ لیکن یہاں کے ماحول میں مجھے کبھی کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔یہاں آکر
مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں اپنے گھر میں آگئی ہوں۔بالکل گھر جیسا ماحول
فراہم کرتی ہیں آپ اپنے سٹاف کو۔‘‘اس کا لہجہ عاجزانہ تھا
’’وجیہہ ایسا ماحول فراہم کرنا پڑتا ہے کیونکہ یہ ہمارا فرض ہے۔ اگر ہم یہ
چاہتے ہیں کہ تمام ورکرز اپنا کام پوری ایمان دار اور دیانتداری سے کریں تو
اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم انہیں وہ ماحول بھی فراہم کریں‘‘ انہوں نے وضاحت
کی تھی
’’جی بے شک۔۔‘‘ اس نے سر ہلاد یا۔ باتیں چلتی رہی۔ وہ ان کے ساتھ دوستانہ
ماحول قائم کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔ وہ آدھ گھنٹے تک ان سے باتیں کرتی
رہی۔باتوں ہی باتوں میں انہوں نے وجیہہ سے یہ بات دریافت کر لی کہ اس کا
ابھی تک کوئی رشتہ نہیں ہوااور کیوں نہیں ہوا یہ بھی ان کو بتا دیا
’’وجیہہ میں اگر آپ سے کچھ مانگوں تو کیا آپ دیں گی؟‘ ‘ یہ کہتے ہوئے ان کے
الفاظ پہلے سے الگ تھے۔ وہ یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے جھجک محسوس کر رہی تھیں
’’ جی۔۔ کیوں نہیں۔۔ آپ اتنی اچھی ہیں کہ آپ کو تو ناں کرنے کا کوئی جواز
ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘
’’بات وہ نہیں ہے۔۔ جیسا آپ سمجھ رہی ہیں۔ میری بات سن کر شائد آپ کو برا
لگے ۔ اسی لئے میں آپ سے قبل از وقت ہی معافی مانگتی ہوں۔‘‘وہ اپنی کرسی
کھڑی ہوئیں
’’آپ مجھے شرمندہ کر رہی ہیں ۔ میں آپ کی عزت کرتی ہوں۔ آپ مانگ کر تو
دیکھیں اگر میرے بس میں ہوا تو میں ضرور دوں گی۔‘‘ لیکن ایک ڈر تھا جو اس
کے چہرے سے چھلکنے لگا تھا
’’بات یہ ہے کہ میں تمہیں اپنی بہو بنانا چاہتی ہوں۔۔‘‘انہوں نے دیوار کی
جانب اپنا چہرہ کئے یہ بات کہی تھی۔ یہ سن کر وہ برجستہ کھڑی ہوگئی۔اور یک
ٹک ان کی پشت کو دیکھنے لگی۔آج پہلی بار اس نے دیکھا تھا کہ ان کے بال
سکارف سے نیچے کمر تک ہیں۔
’’یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں۔‘‘ اس نے بنا ہچکچائے جملہ مکمل کیا
’’دیکھو وجیہہ۔۔۔ میں نے تم سے پہلے ہی معافی مانگی تھی ۔۔ لیکن یقین مانو
جب سے تمہیں دیکھا ہے تب سے تمہیں بہو بنانے کی آرزو اس دل میں جنم لے رہی
تھی۔ لیکن میں تم سے زور زبردستی کر کے ہاں نہیں کروانا چاہتی۔ میرے لئے
تمہاری اجازت معنی رکھتی ہے۔ لیکن اگر تم ناں بھی کر دو تو مجھے برا نہیں
لگے لگا۔ تم اسی طرح یہاں پڑھاتی رہو گی۔۔‘‘وہ یہ کہنے پلٹی تھیں۔ وجیہہ ان
کے چہرے کو دیکھتی جا رہی تھی۔ اس نے آج ان کے چہرے کو بغور دیکھا تھا۔ ان
کے چہرے پر بھی ایمان کا نور تھا۔
’’میں نے تم سے پہلے بات اس لئے کی کیونکہ تمہارے گھر والوں سے زیادہ
تمہاری ہاں زیادہ اہمیت رکھتی ہے اگر تم ہاں کرو گی تب ہی میں تمہارے گھر
والوں سے بات کروں گی۔۔‘‘انہوں نے ایک پل توقف کے بعد کہا
’’ٹھیک ہے۔۔ لیکن مجھے کچھ وقت چاہئے۔۔‘‘
’’ تمہیں جتنا وقت چاہئے۔۔ تم لے لو۔۔۔ یہ تمہارا حق ہے مگر میری باتوں کو
دل سے سوچنا۔‘‘وہ بنا کچھ کہے وہاں سے چلی گئی اور وہ دوبار اپنی کرسی پر
آکر بیٹھ گئیں۔
* * * *
’’زندگی کی کیا ہے؟ زندگی ایک نام ہے ، ایک احساس ہے، ایک جنون ہے، ایک
خواہش ہے،کتنے خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جنہیں زندگی ملتی ہے۔زندگی کی ہر
چاہ ملتی ہے ، خوشیاں ملتی ہیں، خوشیوں بھری زندگی ملتی ہے لیکن میرے
دوستوں یہ سب کچھ ایسے ہی نہیں مل جاتا، اس کے لئے ایک لگن چاہئے، خود
اعتمادی چاہئے۔ایسی خود اعتمادی جس کے ذریعے وہ طوفانوں کا رخ موڑ سکے۔
اپنی طرف بڑھنے والی مصیبتوں کا مقابلہ کر سکے۔ ۔۔۔ یہی آج کا ہمارا ٹوپک
ہے ۔ آپ ہمیں لائیو ٹیکسٹ کر سکتے ہیں۔ ہمارے فیس بک پیج پر لائک کر سکتے
ہیں۔ اپنا پیغام ہمیں بھیج سکتے ہیں۔۔‘‘ایک سانگ کی ویڈیو پلے کر دی گئی۔
اس نے کیمرے سے ایک طرف ہو کر پانی کا ایک گھونٹ پیا
’’ واہ۔۔ کافی کونفیڈنٹ سے بول رہے ہو تم؟‘‘ شہزاد اس کے پاس آیا
’’تھینکس۔۔‘‘ اس نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ان کی طرف دیکھا۔
’’ یہ لو موبائل۔۔۔ ابھی سے میسجزآنا شروع ہوگئے ہیں۔ساتھ ساتھ ریڈ کرتے
رہو اور شو میں شامل بھی کرتے رہنا۔‘‘ اس نے اثبات میں سر ہلایااور دوبارہ
سٹیج کی طرف بڑھنے لگا۔ اس نے گرے کلر کی پینٹ پر سفید شرٹ پہنی ہوئی تھی۔
گریبان کا پہلا بٹن کھلا تھا ۔آستینیں کہنیوں تک چڑھی ہوئی تھیں۔ چہرے پر
ایک مسکراہٹ کے ساتھ وہ دوبارہ کیمرے کے سامنے آموجود ہوا
’’جی دوستو! لازوال دنیا میں دوبارہ خوش آمدید۔۔آپ کے میسج آنا شروع ہوگئے
ہیں اور میرے کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ کون سا میسج پہلے پڑھو۔ سب میسج میں
ہمارے پروگرام کو اتنا سراہا جا رہا ہے جتنی شائد ہم نے امید بھی نہیں کی
تھی۔ تو سب سے پہلے ہم ریما کا میسج اپنے پروگرام میں شامل کرتے ہیں۔ ریما
لکھتی ہیں
’’زندگی دھوپ میں سائے کی مانند ہے۔جو ہمیشہ سچائی سے دور بھاگتی ہے۔‘‘اس
نے اپنا چہرہ کیمرے کی طرف کیا
’’یہ کیا ریما آپ تو بہت اداس لگ رہی ہیں۔ یہ بات سچ ہے کہ انسان کو سچائی
سے بعض اوقات شدید نفرت ہوتی ہے لیکن نفرت کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہونے
والا۔ اصل انسان وہی ہے جو سچائی کا جواں مردی سے مقابلہ کرے ۔ اس کا سامنا
کرے اور پھر اس کو پچھار دے۔ اگر وہ سچائی آپ کے حق میں ہے تو اس کو تو خوش
دلی سے قبول کرنا چاہئے لیکن اگر وہ آپ کے مخالف ہے تو اس کو دوسروں کا
نصیب بنادینا چاہئے اور صرف اپنے بارے میں سوچنا چاہیے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے
ان انسانوں پر جو دوسروں کا بھلا سوچتے ہیں اور اپنی ذات کو فراموش کردیتے
ہیں۔ لیکن دوستو! آج کی دنیا ایسی نہیں ہے۔ جو بھلا کرنے والوں کا ساتھ دے۔
آج کی دنیا نیکی کرنے والوں کو ہی سب سے پہلے دریا میں کی بے رحم موجوں کے
سہارے چھوڑ دیتی ہے۔سب سے پہلے اس کی زندگی کو ہی جہنم بناتی ہے۔اس لئے
دوسروں کی چاہت کو فوقیت اگر دینی ہی ہے تو اپنی ذات کے بعد دیں کیونکہ یہ
زندگی آپ کی ہے۔ آپ کے جسم کا آپ پر حق ہے۔آخر کیوں �آپ اپنی خوشیاں دوسروں
کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں؟ اور خود محرومیوں کے بادلوں میں ابر کرم تلاش
کرتے پھرتے ہیں۔ یہ دنیا مطلبی ہے اور مطلبی لوگ ہی اس دنیا سے فائدہ
اٹھاتے ہیں۔ اگر آپ نے انسانیت کاسارا بوجھ اپنےسرلینا ہی ہے تو سب سے پہلے
اپنی ذات کے ساتھ انصاف کریں۔اپنی ذات کو اس کاحق دیں۔ جس خوشی کی وہ
ڈیمانڈ کرتا ہے ، اسے وہ عطا کریں۔‘‘ ایک پل کے لئے خاموشی نے اسے آ گھیرا۔
وہ سکرپٹ کو مکمل طور پر پس پشت ڈال کر اپنے بنائے ڈائیلاگ بولتا جا رہا
تھا۔ پہلے پہل تو شہزاد کو غصہ آیا لیکن الفاظ کا تانا بانا اتنا دلنشین
تھا کہ وہ خاموش رہا اور اسے کچھ نہ کیا۔شو کا ٹائم ایک گھنٹہ تھا۔اور یہ
ایک گھنٹہ اسے صرف ایک منٹ لگا۔ پلک جھپکتے ہی شو کا ٹائم ختم ہوگیا۔
’’ اچھا دوستو اب اجازت چاہتا ہوں۔زندگی کی سانسو ں نے ساتھ دیا، تو اگلے
اتوارپھر سے اسی جگہ، اسی وقت، اسی چینل پر ملاقات ہوگی، اسی لازوال دنیا
میں،ایک نئے لازوال ٹوپک کے ساتھ۔۔‘‘
شو ختم ہوتے ہی سب نے تالیاں بجا کر اس کو داد دی۔ اگر کوئی اور ہوتا تو
شائداس داد کو دیکھ کر ہواؤں کی سیر کرنے لگ جاتا لیکن اس کے چہرے پر بس
ہلکی سی تبسم تھی۔ کیونکہ اس کی منزل تو بہت آگے تھی۔
* * * * *
ڈھلتی دھوپ میں سائے دراز ہوتے جا رہے تھے۔پرندوں کی چہچہاہٹ کی آوازیں
کانوں میں عجیب سا رس گھول رہی تھیں۔انمو ل عندلیب کے ساتھ بانہوں میں
بانہیں ڈالا چلتا جا رہا تھا۔ اس نے اپنا سر انمول کے کندھوں پر کھا
ہواتھا۔ دیکھنے والے انہیں دیکھتے تو دعا دیئے بغیر نہ رہتے۔ دونوں انتہا
کے حسین و جمیل تھے۔ دونوں کے چہرے چاند سے زیادہ روشن اور گلاب سے زیادہ
سرخ تھے۔خوبصورتی کی تو جیسے انتہا ہو رہی تھی۔چلتے ہوئے وہ اس کے گریبان
پر ہاتھ رکھے ہوئے تھی۔ کھچاؤ کے باعث اس کی شرٹ عندلیب کی طرف کھینچی جا
رہی تھی۔ گریبان کا پہلا بٹن بھی کھل چکا تھا۔وہ انمول کے باڈی سپرے کو
محسوس کر سکتی تھی۔
’’میں بس یہی چاہتی ہوں کہ تم ہمیشہ مجھے یونہی اپنی بانہوں میں سمیٹے
رکھو۔ اپنی بانہوں کی خوشبو کو میری سانسوں کے ذریعے میرے جسم کا حصہ بناتے
رہو۔۔‘‘دلفریب اور نشیلی آوازاس کے کانوں میں پڑی تھی۔
’’ میں بھی تو یہی چاہتا ہوں۔۔‘‘ اس نے اس کا چہرہ اپنی طرف کیا تو بالوں
کی لٹ اس کی آنکھوں کے سامنے آگئی ۔ انمول نے اپنے داہنے ہاتھ کی چاروں
انگلیوں کو اس کے چہرے پر پھیرتے ہوئے بالوں کی لٹ کو کانوں کے پیچھے اڑیس
دیا۔اس کے ہاتھوں کی حدت کو وہ محسوس کر سکتی تھی۔
’’ تو پھر بات کیوں نہیں کر لیتے تم اپنے پیرنٹس سے؟‘‘یہ سنتے ہی انمول نے
اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا
’’عندلیب میری جان۔۔سمجھنے کی کوشش کرو۔۔‘‘
’’ انمول تم سمجھنے کی کوشش کرو۔پاپا روزانہ تمہارے بارے میں پوچھتے ہیں ،
تم سے ایک بار ملنا چاہتے ہیں۔ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ جو لڑکا میں نے پسند
کیا ہے ؟ وہ ان کی بیٹی کے لائق ہے بھی یا نہیں۔۔پلز انمول میری خاطر ایک
بار ان سے مل لو۔۔‘‘ وہ اس کے ہاتھوں کو تھام کر منتوں بھرے لہجے میں کہہ
رہی تھی
’’ٹھیک ہے، عندلیب ۔۔ میں تمہارے کہنے پر ان سے مل لیتا ہوں مگر تم جانتی
ہو اس کے بعد کیا ہوگا؟‘‘ وہ سنجیدہ لہجے میں گویا ہوا تھا
’’ کیا مطلب ہے تمہارا؟‘‘اس نے استفسار کیا
’’مطب صاف ہے کہ آج وہ ملنے کی ضد کر رہے ہیں ، کل وہ میرے گھر والوں سے
ملنے کی ضد کریں گے اور پھر ہماری شادی کی۔۔‘‘
’’ تو پھر ۔۔ اس میں غلط ہی کیا ہے۔۔‘‘
’’ غلط کچھ نہیں۔۔۔ بس شادی۔۔‘‘ اس نے شادی کو دھیمے لہجے میں کہاتھا
’’ کیا مطلب؟ تم مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتے؟‘‘ وہ اس کی بات پر خاصی
حیران تھی۔
’’ یہ تم سے کس نے کہا؟ میں صرف شادی صرف اور صرف تم سے ہی کروں گا۔۔ سنا
تم نے۔۔‘‘ اس کے چہرے کر اپنے ہاتھوں میں لیا
’’تو پھر ٹھیک ہے۔ تم میرے پاپا سے مل رہے ہو کل ہی۔ سنا تم نے۔۔‘‘ اپنا
چہرہ دوسری رخ کر کے اپنے دونوں ہاتھ سینے پر باندھ لئے
’’عندلیب میری جان! سمجھنے کی کوشش کرو۔۔ ابھی صحیح وقت نہیں ہے
یہ۔۔۔‘‘اپنے دونوں ہاتھوں سے اس کے شانوں کو پکڑ کر اس کا چہرہ اپنی طرف
کیا
’’ابھی صحیح وقت نہیں ہے سے تمہارا کیا مطلب ہے؟‘‘ اس نے قدرے جھنجلاتے
ہوئے کہا تھا
’’دیکھو۔۔۔ مجھ سے بڑی میری بہن ہے۔ جب تک اس کی شادی نہیں ہوگی تب تک امی
ابو میری شادی کے لئے کبھی نہیں تیار ہونگے۔‘‘ اس نے وجہ بتائی
’’اگر اُس کی ساری عمر شادی نہ ہوئی تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہم بھی کبھی
شادی نہیں کر سکیں گے؟‘‘
’’ خدا نہ کرے ایسا ہو۔۔‘‘
’’ اگر ایسا ہوگیا تو؟؟‘‘اس کا انداز استفہامیہ تھا
’’میں ایسا کبھی ہونے نہیں دونگا۔۔۔میں تم سے وعدہ کرتا ہوں اگلے ایک ماہ
کے اندر اندر اُس کی شادی ہوکر رہے گی۔۔‘‘ کچھ سوچتے ہوئے انمول نے کہا تھا
’’ مجھے تمہاری بہن کی شادی سے کوئی غرض نہیں ۔۔ مجھے غرض ہے تو صرف اپنی
شادی سے‘‘
’’ ایک بار بس اُس کی شادی ہوجائے پھر ہماری شادی میں سیکنڈز بھی نہیں لگیں
گے۔۔‘‘اپنے دونوں ہاتھوں میں اس کے چہرے کو سموتے ہوئے کہا تھا
’’ دیکھتی ہوں۔۔ تم اپنا وعدہ پورا کر پاتے ہو یا نہیں،۔۔۔‘‘ اُس کا لہجے
دھیمہ ہوگیا تھا۔ انمول نے اس کے چہرے کو اپنے سینے سے لگا کر اپنے دونوں
بازو اس کے پشت پر حمائل کئے
’’ اب اِس وجیہہ کا تو کچھ کرنا پڑے گا۔۔۔‘‘ اُس نے دل میں سوچا تھا
* * * *
کینڈل لائٹ ڈنر کے بعد وہ اپنے گھر جا رہے تھے۔عنایہ ضرغام کے ساتھ ہی اگلی
سیٹ پر بیٹھی تھی۔وہ یک ٹک بس ضرغام کو دیکھتی ہی جا رہی تھی۔اپنی داہنی
کہنی کو وہ سیٹ کے ساتھ ٹکائے اس کا چہرہ ایسے دیکھ رہی تھی جیسے کوئی
چودھویں کے چاند کو دیکھتا ہے۔ہلکا ہلکا میوزک بھی ماحول کو دلفریب بنا رہا
تھا۔ عنایہ کی طرف کا شیشہ نیچے تھا۔ جہاں سے رات کی ہوا کار میں داخل ہو
کر اس کو زلفوں کے ساتھ اٹکھیلیاں کر رہی تھی۔
’’ ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟‘‘ضرغام نے ڈرائیو کرتے ہوئے عنایہ پر نظر دوڑائی
تو اس کی نشیلی نظروں کو اپنے چہرے پر مرکوز پایا
’’ دیکھ رہی ہوں کہ تمہارے حسن میں نکھار آتا جا رہا ہے۔‘‘ اس کا انداز
سنجیدہ تھا مگر ضرغام اپنی ہنسی پر قابو نہ پاسکا
’’ اب اس میں ہنسنے والی کیا بات ہے۔۔؟‘‘اسے ایسا لگا جیسے وہ اس کا مذاق
اڑا رہا ہو۔
’’کچھ نہیں۔۔۔‘‘ اس نے بمشکل اپنی ہنسی پر قابو پایا تھا
’’اگر برا نہ مانو تو ایک بات کہوں۔۔‘‘عنایہ نے اپنا داہنا ہاتھ ضرغام کے
کان کی طرف بڑھایا اور اس کے بالوں کو انگلی میں لپیٹنے گی۔اس کے لمس کی
حدت وہ کان پر محسوس کر سکتا تھا
’’ہاں۔۔ پوچھو۔۔۔ اس میں برا ماننے والی کیا بات ہے؟‘‘وہ راستے پر نظریں
جمائے کار ڈرائیو کرتا جا رہا تھا۔سڑک بالکل سنسان تھی۔ رات کی خاموشی ہر
جگہ اپنا ڈیرہ جمائے ہوئے تھی مگر اس خاموشی میں واحد اس کار کی گونج تھی
جو سڑ ک کے کنار ے درختو ں کے پتوں کی نیند میں مخل ہو رہی تھی۔جہاں سے ان
کی کار گزرتی گئی، بے خبر ی کی نیند سوئے پتوں میں ایک سرسراہٹ پیدا کر تی
گئی
’’تم اپنی ہر رات کو میرے نام نہیں کر سکتے۔۔‘‘اس کا لہجے معنی خیز تھا۔وہ
بھڑکیلے انداز میں اپنے دائیں ہاتھ کی انڈیکس فنگر کو اس کے چہرے پر پھیرتے
ہوئے پیشانی سے ہونٹوں تک لے گئی۔ایک لمحے کے لئے اس نے اپنی فنگر کو اس کے
ہونٹوں پر قیام کرنے کا موقع دیا اور پھر ہونٹوں سے اس کی گردن تک کا فاصلہ
نہایت سست رفتاری سے طے کیا۔عنایہ کے اس فعل نے ضرغام کی سانسوں میں ایک
جنبش پیدا کر دی۔اُس کی انگلی اِ س کی گردن سے گریبان تک آگئی۔گریبان کے
پہلے دو بٹن کھلے تھے۔جہاں سے اس کا دودھیا سینہ لشکارے مار رہا تھا۔اس سے
پہلے کے وہ اپنی انگلی کو گریبان کے راستے سینے پر لاتی۔ ضرغام نے یک دم
بریک لگائی۔برجستہ بریک لگانے پر وہ چونکی تھی
’’کیا ہوا بے بی؟ یوں بریک کیوں لگائی؟‘‘ وہ اپنی انگلی ضرغام کے جسم سے
پیچھے کر چکی تھی
’’ تمہارا سٹاپ۔۔۔تمہارا گھر آگیا۔۔‘‘اس نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا تھا
’’ اوہ۔۔ آئی سی۔۔‘‘ اس نے باہر کی جانب دیکھا تو کار عنایہ کے گھر کے عین
سامنے تھی۔وہ ضرغام میں اتنی مگن تھی راستے کی مسافت کا اسے علم ہی نہیں
ہوا
’’تم بھی چلو میرے ساتھ۔۔۔‘‘کار سے اتر کر اس نے جھک کر کہا تھا
’’سوری ڈارلنگ ۔۔۔ آج نہیں۔۔ پھر کبھی۔۔‘‘ایک مصنوعی ہنسی کووہ چہرے پر
لانے کی کوشش کر رہا تھا
’’پھر کبھی؟ ہمیشہ تم یہی کہتے ہو۔۔۔ کب آئے گی تمہاری یہ پھر کبھی؟‘‘وہ
اپنی دونوں بازو کار کی کھڑکی پر ٹکائے جھکی ہوئی تھی۔بنا دوپٹے اور کھلے
گریبان سے اس کا ریشمی بلاؤزر واضح ہو رہا تھا۔ضرغام نے اپنی آنکھیں پھیر
کر سٹئیرنگ کی طرف کر لیں۔وہ اگرچہ دنیا کی رنگینیوں میں بہت حد تک کھو چکا
تھا ۔ان رعنائیوں کو اپنی زندگی کا حصہ سمجھتا تھا مگر پھر بھی ایک طاقت
تھی جو اسے اپنی حدو ں کو پار کرنے سے روکے ہوئے تھی۔ ایک حصار تھا جو اسے
جکڑے ہوئے تھا۔ گناہوں کے دلدل میں دھنسے ہونے کے باوجود گناہوں کی سیاہی
کو اس سے دور کئے ہوئے تھا۔ایک باڑ تھی جو اس کی حفاظت کر رہی تھی۔عنایہ کو
اس کے قریب آنے سے روک رہی تھی۔وہ باڑ ، وہ حصار ، وہ طاقت دعا تھی۔جو اس
کی ماں اپنی ہر نماز کے بعد مانگتی تھی، وہی دعا اِ س کو گناہوں کے سمند ر
میں بھی گناہوں سے بچا رہی تھی۔بظاہر شگفتہ بی بی کو ایسا معلوم ہوتا تھا
کہ اُس کی دعائیں قبولیت کے آسمان کو نہیں پہنچ رہیں مگر حقیقت تو کچھ اور
ہی تھی۔ان کی دعائیں نہ صرف قبولیت کا شرف پا رہی تھیں بلکہ ضرغام کی حفاظت
بھی کر رہی تھیں۔بھلا خدا کیسے اپنے بندے کی دعا کو رد کر سکتا تھا جب اُس
نے خود مانگنے کا حکم دیا ہے۔اور پھر اپنے نیک بندوں کی دعاؤں کو خاص
قبولیت کا درجہ دیتا ہے۔اور پھر بھلا شگفتہ بی بی کی دعائیں کیسے نہ پوری
ہوتیں جب کہ ان کی دعاؤں کا محور ہی ضرغام تھا۔ ان کی دعاؤں کا خاصہ ہی ان
کا اپنا بیٹا تھا۔عنایہ ضرغام کو اپنی طرف کھینچنے کی پوری کوشش میں
تھی۔کئی بار تنہائی میں اس نے ضرغام کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا مگر وہ بچا
رہا۔ماں کی دعاؤں نے اسے اپنے چہرے پر سیاہی ملنے سے روکے رکھا تھا۔وگرنہ
جس مقام پر وہ تھا وہاں صرف گناہ تھا۔ صرف سیاہی تھی۔لیکن وہ اس سیاہی میں
بھی روشنائی تھا۔دعاؤں کا اثر اس کے چہرے پر واضح تھا۔ ہر بار جب بھی عنایہ
اسے گناہ کی دعوت دیتی ۔ اس کا دم گھٹنے لگتا تھا۔ایک انجان سی طاقت ا س کے
دل و دماغ ہر حاوی ہو جاتی۔اس کی سانسیں ماند پڑنا شروع ہوجاتیں۔ آنکھیں
موندنے لگتی تھیں اور وہ خراب طبیعت کا بہانہ کر کے بچ نکلتا۔جب دعاؤں کے
ذریعے مدد مانگی جائے تو ہر گناہ سے نکلنے کی سبیل خدا نکال دیتا ہے اور
پھر ماں کی دعا تو ویسے ہی عرشوں سے باتیں کرتی ہے۔پھر بھلا شگفتہ بی بی کی
دعائیں اسے گناہ سے کیوں نہ روکتیں۔۔
’’ تم ہمیشہ یہی کہتے ہو۔۔۔ پھر کبھی۔۔ آج میں تمہاری ایک نہیں سننے
والی۔۔۔ تم آج رات میرے ساتھ گزار رہے ہو بس۔۔۔ سن لیا تم نے۔۔‘‘شیطان بھی
کہاں اتنی جلدی پیچھے ہٹتا ہے۔انسان کو بھڑکانے کے لئے پورا زور لگا دیتا
ہے۔انسان کو انسانیت سے اتنا نیچے گرا دیتا ہے کہ اٹھنے کا موقع ہی نہیں
دیتا۔شاید وہ بھی اپنے پستی کا سفر طے کر رہی تھی
’’میں نے کہا ناں۔۔ میر ی طبیعت نہیں ٹھیک۔۔۔‘‘اس کی نظریں ابھی سٹئیرنگ پر
تھیں
’’نہیں۔۔۔ تم چل رہے ہو تم بس چل رہے۔۔۔‘‘ اس نے زبردستی اس کا ہاتھ
پکڑااور دروازہ کھول کر اسے باہر نکالا۔ شیطان پوری طرح اس کے دماغ کو جکڑ
چکا تھا۔وہ ’’ نہیں‘‘ ،’’نہیں‘‘ کہتا رہا مگر اُس نے ایک نہ سنی۔اسے اپنے
گھر کے دروازے تک لے ہی آئی۔دروازہ کھولا تو صرف اندھیرے نے استقبال
کیا۔گھر میں کوئی نہیں تھا۔صرف تنہائی تھی۔ اس طرح گناہ کو مزید تقویت
ملی۔جہاں مرد اور عوت اکیلے ہوں تیسرا شیطان ہوتا ہے اور واقعی شیطان اُن
کے درمیان میں تھا جو دونوں پر بار ی باری وار کر رہا تھا۔جب وہ ضرغام کے
پاس جاتا تو دعاؤں کا حصار پاتا۔رحمت خداوندی پاتاجو ماں کی دعاؤں کی وجہ
سے تھی۔ناکام لوٹ آتا لیکن جب عنایہ کے پاس جاتا تو صرف نفس کو پاتاجو پہلے
ہی اسے پھسلا رہا تھا۔ یہاں اس کے ہنکنڈے بخوبی چلتے۔ عنایہ نے دیوار کے
ساتھ لگے سوئجز کو آن کیا تو پورا گھر جگ مگ روشن ہوگیا مگر یہ روشنی اُس
کے اندر کو روشن کرنے میں ناکام تھی۔ جن کے اندر سیاہی ہو ،باہر چاہے کتنی
ہی روشنی کر لی جائے سیاہی کبھی ختم نہیں ہوتی۔مگر یہی روشنی ضرغام کی
آنکھوں میں چبھ رہی تھی۔ وہ آنے والے خطرے کی بو محسوس کررہا تھا۔
’’ چلو میرے ساتھ۔۔‘‘ وہ اپنے دونوں بازوؤں سے اس کے دائیں بازو کو پکڑے
ہوئے تھی۔
’’ عنایہ پلز۔۔۔ سمجھنے کی کوشش کرو۔۔۔ میرا دل خراب ہو رہا ہے۔۔ ‘‘ اسے
چکر آنے لگے تھے مگر عنایہ یہ سمجھنے سے قاصر تھی
’’ ناٹک بند کرو۔۔ سمجھے۔اب چلو میرے ساتھ۔۔۔ اوپر ہے میرا کمرہ۔۔۔‘‘ وہ
اسے زبردستی سیڑھیوں کی طرف لے گئی
’’نہیں عنایہ۔۔۔‘‘ اس کا سر بری طرح چکرانے لگا۔ دعائیں اپنا اثر دکھا رہی
تھیں۔اسے گناہوں میں دھنسنے سے بچا رہی تھیں۔
’’ خاموش۔۔ ایک دم خاموش۔۔۔‘‘برائی ہر طرف سے زوروں پر تھی۔شیطان دیکھ دیکھ
کر خوش ہو رہا تھا۔وہ لڑکھڑاتے قدموں سے سٹیب چڑھنے لگا۔بظاہر برائی کا
پلڑا بھاری تھا۔ہر شے برائی کے حق میں تھی۔مگر جنہیں خدا بچانا چاہے انہیں
کوئی بھلا کوئی کیسے گناہ کی طرف مائل کر سکتا ہے۔آخری سٹیب پر پہنچ کر
ضرغام نے اپنا ہاتھ زور سے کھینچا۔ اور یک دم رک گیا۔ اُس کے سر میں کوئی
زوروں سے ہتھوڑوں سے وار کر رہا تھا۔ یہ وار دراصل برائی سے روکنے کے لئے
تھا
’’ کیاہوا۔۔۔؟‘‘ استفہامیہ انداز میں عنایہ نے ضرغام کی طرف دیکھا جو اپنے
سر کو ہاتھوں سے پکڑے ہوئے تھا
’’میرا سر درد سے پھٹا جا رہا ہے۔۔‘‘اس کی آنکھوں کے گرد اندھیرا چھانے لگا
تھا
’’تم جھوٹ بول رہے ہو۔۔ چلو میرے ساتھ۔۔۔‘‘برائی کوئی بہانہ قبول کیسے کر
سکتی تھی مگر دعائیں اسے روکے ہوئے تھی۔اس کے سر پر ایک ایسی ضرب لگی جو وہ
برداشت نہ کرسکا ۔ عنایہ نے اسے اپنی طر ف کرنے کی کوشش کی تو اس نے جھٹکے
سے اپنا ہاتھ کھینچا مگر وہ اپنا توازن کھو بیٹھا اور اس کا پاؤں پھسل
گیا۔پاؤں کے پھسلنے سے اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا کہ نیت کے پھسلنے سے ہو
سکتا تھا۔وہ جتنی سیڑھیاں پاؤں سے چڑھ کر گیا تھا۔لڑھکتا ہوا نیچے آگیا۔ یہ
شاید ایک معمولی سا جھٹکا تھا جو خدا کی طرف سے تھاکہ سنبھلنے کا وقت ہے
ابھی بھی سنبھل جاؤ۔
’’ ضرغام۔۔‘‘وہ دوڑتی ہوئی نیچے آئی اور جو کچھ کرنا چاہتی تھی اسے بھول
گئی اور اپنے کمرے میں لے جانے کی بجائے اسے ہسپتال لے گئی۔ماتھے سے خون
ریستا جا رہاتھا۔ ڈاکٹر نے مرہم پٹی کر کے اسے گھر جانے کی اجازت دے دی مگر
اب وہ نیم بے ہوشی میں ڈرائیونگ سیٹ کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ عنایہ
کار ڈرائیو کر رہی تھی۔ اسے اپنے کئے پر شرمندگی تھی مگر وہ ابھی معافی
نہیں مانگ سکتی تھی۔ وہ اتنے ہوش میں نہ تھا کہ اس کی بات سن سکتا ۔ ضرغام
کو اس کے گھر چھوڑ کر وہ اپنے گھر واپس پلٹی۔ آج بھی شگفتہ بی بی کی دعاؤں
نے ضرغام کو سیاہی کو اپنے چہرے پر ملنے سے بچا لیا
٭٭٭٭٭٭٭٭ |