سلمان‘‘ نے کمرے کو اچھی طرح سے پھر سے سیٹ کیا،،اس کے
کچھ پیج(صفحے) گم تھے،،،جس پر اس نے کچھ لکھا تھا،،کچھ پوئٹری،،،کچھ تلخ
حقائق،،،اب وہ غائب تھے،،،کمرا اس کا صاف ستھرا تھا،،،یہ ندا نے اٹھائے ہوں
گے،،
جب بھی وہ کمرا صاف کرتی ہے،،مزدوری کے طور پر اس کا کچھ نہ کچھ اٹھا لے
جاتی ہے،،پر خیر ہے‘‘،،،وہ مجھے میرے لفظوں کی وجہ سے ہی تو عزت دیتی
ہے،،ایسے قدر دان تو بڑے بڑے لکھنے والوں کو بھی نہیں ملتے‘‘،،
پھر وہ خود تو ا ک،،اک خودساختہ لکھاری تھا‘‘،،جو لوگ شاید ہی پڑھ پاتے
تھے،،،جو لفظ اس نے لوگوں کو بیچ دئیے تھے چند سکوں کے عوض ،،، وہ ان کی
ملکیت ہو گئے تھے‘‘،،اس میں اس کا کوئی حصہ نہ تھا‘‘جیسے کوئی‘‘،،،
غربت سے تنگ آکر،،،اپنی نومولود اولاد بیچ دے‘‘،،اسے خوشی تھی‘‘،،اک عجیب
سا اطمینان تھا‘‘،،کیونکہ،،اس کے
بہت سے الفاظ اس کے پیٹ کا ایندھن بن چکے تھے‘‘،،،کہیں دفعہ اس کے تن کو
چھپانے کا بندوبست بھی ان ہی بے جان سے الفاظ نے کیا تھا‘‘،،اگر میری
تحریروں میں کوئی پاکیزہ سی روح پڑ جائے،،تو شاید،،میں انہیں کسی کے نام نہ
کروں نہ ہی فروخت کروں،،اور شاید،،پھر یہ میرا اوڑھنا بچھونا ہی بن
جائیں‘‘،،،اب اس کا کمرے سٹیبل کم‘‘ کسی فقیر کی کٹیا جیسا ہو رہا
تھا‘‘،،،بس قلندری بیڈ کی جگہ،،ا ک نحیف سا بیڈ پڑا ہوا تھا‘‘،،جس پر اگر
کوئی اک سے دو بیٹھ جائیں‘‘
یا،،سلمان کیئر لیس(بے احتیاطی سے)ہو کر اس پر بوجھ ڈال دے‘‘،،،تو وہ
باقاعدہ احتجاج کرتا ہے‘‘،،
اس کی آہ و بکا سن کر سلمان کو زمین بوس ہونے کا خوف گھیر لیتا ‘‘،،،پھر
سلمان مسکرا دیتا‘‘،،خودکلامی کرتا‘‘،،،
یار کیوں ڈرتا ہے،،پستی میں جانے سے،،بلندی نصیب ہی کب ہوئی،،،
پھر خود سے کہتا‘‘،،شرم کر‘‘،،کیا نہیں دیا اللہ نے‘‘،،،تو نے ہی ان کی قدر
نہ کی،،اور اللہ نے واپس لے لیں‘‘،،،
کیوں روتا ہے گر جانے کے ڈر سے‘‘،،،سب ٹھیک ہو جاتا ہے بس اک ذرا صبر سے
آج بھی سردی ذیادہ تھی‘‘،،یار کچھ پیسے آئیں تو نیا کمبل لے لوں
گا‘‘،،،جوتا یا کمبل،،وہ سوچ میں پڑ گیا‘‘،،،
کمبل سے تن کو سکون ملے گا‘‘،،،جوتے سے عزت ملتی ہے،،،لوگ آجکل منہ کم اور
جوتا ذیادہ دیکھتے ہیں‘‘،،
سلمان نے اپنی سوچوں کو سمیٹنا شروع کردیا‘‘،،،جیسے حالات ہوں گے ویسے ہی
کرنا‘‘،،،جس نے سردی دی ہے
وہی کمبل بھی دے گا‘‘،،،وہ سوچ کر مسکرا دیا‘‘،،،(جاری)
|