جب سے سلمان نے ندا کی امی بانو کو تین ہزار کے نئے نوٹ
دئیے تھے،،،وہ آگ،،پانی بن گئی تھی،،،ندا نے سلمان کی طرف دیکھا‘‘،،لگتا ہے
خوب ٹھونس ٹھونس کر کھایا ہے،،بڑی لالی آرہی ہے‘‘،،،وہیں رہ جانا تھا
نا،،،سلمان مسکرا دیا‘‘
ان کا گھر،،بلکہ محل بہت بڑا تھا،،وہاں میرا دم گھٹتا تھا،،،سوچ کے،،،پتا
ہے ہم جو چھوتے چھوٹے لوگ ،،چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہتے ہیں نا،،ا س سے بڑا
فائدہ ہوتا ہے،،چھوٹی گز بھر کی قبر میں دم نہیں گھٹتا‘‘،،
ویسے وہ لوگ،،ان کا رہن سہن بہت عجیب ہے،،،مجھے تو کوئی اور ہی مخلوق لگتے
ہیں وہ سب،،،ان کا ہنسنا،،غصہ کرنا،،کھانا پینا‘‘،،،سب کچھ ہم سے الگ،،
ندا نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا،،اب بس بھی کرو،،،ان لوگوں کی آرتی
اتارنا،،سب انسان ایک جیسے ہی ہوتے ہیں،،
بس اصل فرق تو ہم سب کے اندر کا ہے،،تم جن چیزوں کی بات کر رہے ہو،،وہ سب
کا سب ظاہر ہے،،،لباس‘‘ کھانا‘‘
تعلیم‘‘ چلنا پھرنا‘‘،،یہ سب کا سب بدل جاتا ہے‘‘،،،ذرا سا پیسہ آیا نہیں
،،خود کا ظاہر بدل لو،،،،
اندر کی تبدیلی کے لیے اک عمر درکار ہوتی ہے،،یا پھر کوئی ایسا طوفان جس سے
انسان ٹوٹے ہوئے پتے کی طرح یہاں سے وہاں کا سفر،،لمحوں میں طے کرلے،،
سلمان مسکرا کر کمرے کے اندر چلا گیا،،،کیا عجیب لڑکی ہے،،کوئی ہلکی بات
اسے متاثر ہی نہیں کرتی،،،بہت اچھی لڑکی ہے،،بس اسے کوئی سمجھنے والا مل
جائے،،،اپنے گھر کی ہو جائے‘‘،،،بہت اچھی بیوی اور ذمہ دار ماں بن سکتی
ہے‘‘،،،وہ ابھی بیڈ پر لیٹا ہی تھا،،،اک بے چینی سی اسکے اندر دستک دے رہی
تھی‘‘،،،جبکہ سکون بھی تھا،،،
مکان کا کرایہ دے کر بھی اس کے پاس کچھ پیسے بچ گئے تھے،،اسے کسی قدر سکون
تھا‘‘،،اس کی وجہ بھی تھی
کچھ دنوں کے لیے وہ ندا کی امی فائرنگ سے محفوظ تھا،،،وہ کرایہ نہیں بلٹ
پروف جیکٹ تھی،،کتنی طاقت ہےان کاغذ کے ٹکڑوں میں،،،اب یہ ہماری عزت،،سکون
کا فیصلہ کرتے ہیں،،ایسے ایک دو کام اور مل جائیں،،تو وہ تھوڑا سا خوشحال
ہی ہو جائے گا،،،کم سے کم روٹی اور ٹھکانے کا احساس محفوظ ہو جائے،،شاید
کچھ خرید بھی لوں،،کم سے کم جوتا ہی سہی،،،یار سب ہو جائے گا،،،اس نے خود
کو تسلی دی،،میرے رب کے کام ہیں،،،میں خواہ مخواہ ہی دخل دے رہا،،،بس دعا
ہے کام میرا،،،وہی کرتے رہنا،،،وہ مسکرا دیا‘‘،،(جاری)
|