جب سے دُنیا وجود میں آئی ہے،اس میں بے شمار
تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔انسان نے ہر شعبہ میں ترقی کی ہے۔ترقی کرنا ہر
انسان کا بنیادی حق ہے۔لیکن جب انسان کوئی بھی نئی چیز تخلیق کرتا ہے تو اس
کے فوائد اور نقصان کو مدنظر رکھ کر کرتا ہے۔انسان نے ہمیشہ اپنے فائدے
کیلئے ہی کچھ نہ نہ تخلیق کیا ہے جس سے اس کو فائدہ پہنچ سکے۔جہاں انسان
دوسرے شعبوں ترقی کی منازل طے کی ہیں وہاں انسان نے فیشن میں بھی اپنا لوہا
منوایا ہے۔ہر دور میں فیشن میں تبدیلی رونما ہوئی ایک دور تھا لوگ بہت ہی
سادہ تھے کپڑے کے استعمال سے واقف نہ تھے بناؤ سنگھار کا پتہ نہیں تھا پھر
جس طرح آبادی میں اضافہ ہوتا گیا مختلف قبیلوں کا لباس ان کی پہچان بن
گیا،اس قبیلے کی عورتوں کا بناؤ سنگھار ان کا اوڑھنا بچھونا اس قبیلے کی
پہچان بنا۔جیسے پاکستان میں ایک پٹھان کا واضع پتہ چل جاتا ہے،ایک سندھی کی
پہچان اس کے لبا س سے ہو جاتی ہے اسی طرح پاکستان میں رہنے والے باشندے کی
پہچان اس کے لباس سے ہوجاتی ہے،اسی طرح عرب ممالک کا ان کے لباس سے پتہ
چلتا ہے کہ اس شخص کا تعلق کس قوم کس خطہ سے ہے۔کسی بھی ملک کا لباس اس شخص
کی پہچان بنتا ہے۔اس لیئے لباس ہماری زندگی میں بہت اہم ہے۔ لباس ہی ہمیں
معاشرہ میں عزت و وقار دلانے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔لباس اور بناؤ
سنگھار ہماری زندگی میں بہت اہم ہے اچھا لباس پہننا اپنے آپ کو صاف ستھرا
رکھنا اس میں کوئی ممانت نہیں۔ کیونکہ اچھا لگنا صاف ستھرا رہنا بناؤ
سنگھار کرنا ہر ایک کا حق ہے۔ایک مہذہب معاشرہ میں جینے کے لیئے یہ سب کرنا
ایک ضروری عمل ہے۔لیکن ہر ملک کی ایک اپنی ثقافت ہے وہ اپنی اس ثقافت کے
مطابق ہی بناؤ سنگھار کرتا ہے، وہ اس لیئے کہ اسے اپنی تقافت سے پیار ہوتا
ہے اس لیئے وہ اپنی ثقافت سانچے میں خود کو ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے ۔جس قوم
کی اپنی کوئی پہچان نہیں ہوتی اسے دوسری قوموں کے لباس اور ثقافت کی ضرورت
درپیش آتی ہے اور اس قوم کی کوئی پہچان نہیں ہوتی ۔آج پاکستان کی حالت بھی
کچھ اس سے مختلف نہیں ہے ۔آج پاکستانی معاشرہ اس قدر بگڑ چکا ہے کہ پاکستان
نے اپنی پہچان ہی کھو دی ہے ۔اپنے لباس کو چھوڑ کر مغربی طرز کا لباس پہننا
شروع کردیا ہے ۔جیسے بادل ہو اؤں محتاج ہوتا ہے جس طر ہوا جاتی ہے بادل کو
بھی ساتھ ہی لے جاتی ہے ۔اسی طرح آج کی نوجوان نسل کا حال ہے ۔ آج کی
نوجوان نسل بنا سوچے سمجھے کسی بھی فیشن کو اپنا لیتی ہے ۔جو کہ ایک غلط
بات ہے کیوں کہ اصل چیز انسان کی سوچ ہی ہے اس کوئی بھی کام کرنے سے پہلے
انسان کو سوچنا چاہیے کہ جو کام میں کرنے جا رہا ہوں وہ ٹھیک ہے یا غلط
لیکن آج کل اس کے برعکس ہورہا ہے ،نوجوان لڑکے لڑکیاں بغیر سوچے سمجھے کسی
بھی فیشن کو اپنا لیتے ہیں ۔ایسا کیوں ہے جب ہمارے پاس اپنا لباس اپنی
ثقافت ،اور سب سے بڑھ کر ہمارا اپنا دین موجود ہے جو کہ عام زندگی میں
ہماری بہت زیادہ رہنمائی کرتا ہے ۔ہمیں عام زندگی گزارنے کے جو سنہرے اصول
اسلام نے بتائے ہیں ،کوئی مذہب نہیں بتاتا ۔تو آج ہماری نوجوان نسل کو کیا
ہوگیا ہے ،کہ وہ اپنی ثقافت اپنا لباس یہاں تک کے اپنے دین کے بھی مخالف
چلنا شروع ہو گئے ہیں ۔ آج کالجز میں لڑکے لڑکیا ں اس قدر بہودہ لباس پہن
رہی ہیں کہ جس سے اسلام نے سختی سے منع فرمایا ہے ۔آج ہماری نوجوان اس طرح
کے فیشن کر رہی ہے جو کہ اسلام کی زد ہے ۔مذہب اسلام نے انسان کو زندگی
گزارنے کھانے پینے سونے جاگنے سے لیکر اُٹھنے بیٹھنے اور پہننے تک کے بارے
میں بتایا ہے ،تو آج ہماری نوجوان نسل بُری طرح منتشر کیوں ہو رہی ہے ۔آج
پاکستانی معاشرہ دنیا کی عظیم ہستی حضرت محمد ﷺ کی نقل کرنے کے بجائے مغرب
کی نقل کیوں کرتے ہیں ۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ والدین کا اس میں بہت
زیادہ قصور ہے ۔اگر کوئی بچہ کسی یہودی یا کسی غیر مذہب کی شکل بناتا ہے جس
سے کہ اسلام نے سختی سے منع فرمایا ہے ،تو ماں باپ کا فرض بنتا ہے کہ اپنی
اولاد کو بتائیں کہ ہمارے مذہب میں کیا جائز ہے اور ناجائز ہے۔ ایک حدیث کا
مفہوم ہے کہ جو جس کی مشابہت اختیار کرے گا روز قیامت اس کو اسی کے ساتھ
اُٹھایا جائے گا ۔آج ہمارے نوجوان ڈراھی کا مذاق بناتے ہیں عجیب طریقوں سے
ڈراھی بنواتے ہیں جو کہ اسلام کی روح سے حرام ہے ۔لیکن بہت سارے نوجوانوں
کو اس کا پتہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ ایسا کر رہے ہیں ۔اس لیئے ہمارے علماء
کرام کا بھی فرض بنتا ہے جہاں ہر بات پر فتوی دیتے ہیں ، وہاں فیشن کے بارے
میں بھی کوئی بحث کریں نوجوان نسل کو اس بے راہ روی کا شکار ہونے سے بچائیں،
کیوں کہ قرآن پاک ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو کہ زندیگی کے ہر پہلو پر بحث
کرتی ہے ۔نماز روزہ کے بارے میں تو سب ہی جانتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ
اگر فیشن کے بارے میں بھی علماء آگاہ کر دیں تو یقینا بہت سارے نوجواں لڑکے
لڑکیا ں اس طرھ کے فیشن سے بچ سکتے ہیں جوکہ اسلام میں حرام ہے ۔اس کے بعد
حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ جو فیشن اسلام میں حرام ہے اسے پھلنے
پھولنے سے روکا جائے کیوں کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اس لیئے اس میں
غیراسلامی کاموں کے لیئے کوئی جگہ نہیں بنتی ۔آج یونیورسٹیز میں جو بہودہ
لباس کا استعمال ہو رہا ہے اگر ایک یونیفارم بنا دی جائے تو ہمارے کالجز
اور یونیورسٹیز اس سے بچ سکتے ہیں ۔اس کیلیئے ہماری نوجوان نسل میں ایک
شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ شعور تب ہی بیدار ہو گا جب ماں باپ اُستاد ان
بچوں اور جوانوں کو اچھے برے میں تمیز کرنا سکھائیں گے۔ اور حکومت اس پر
عمل کرانے میں اہم رول ادا کرے تاکہ ہماری نوجوان نسل بے راہ روی کا شکار
ہونے سے بچ سکے |