یوں تو تعلیم کی ضرورت اور قدر وقیمت ہر دور میں
محسوس کی جاتی رہی ہے، مگر دورحاضر کا اگر غور سے مطالعہ کیا جائے تو اس
بات احساس اور زیادہ شدت سے ہونے لگتا ہے کہ تعلیم کے بغیر چارہ نہیں۔
تعلیم نسواں کا مسئلہ بھی سوچ کے زاویے کو اسی طرف کھینچ لیتاہے۔ دور حاضر
کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تعلیم بہت ناگزیر ہے۔
بعض لوگوں کا خیال ہے، بلکہ ان کی زبانوں سے نکلنے والے الفاظ بھی کچھ اسی
طرح کے ہوتے ہیں کہ عورت گھر میں اچھی لگتی، عورت گھر کے کام کاج میں ہی
سجتی ہے۔ عورت کو تعلیم دینا عبث ، بے کار اور بے سود ہے۔ جب یہی عورت بچوں
کی تربیت اچھی نہیں کرپاتی تو مجرم بھی یہی ٹھہرتی ہے۔ دوسری طرف بعض جدت
پسند اس بات پر زور دیتے ہیں کہ عورت کو مردوں کی طرح جدید سے جدید تعلیم
سے آراستہ کرنا وقت کا تقاضا ہے۔
اسلام ان دوانتہاؤں کے درمیان ایک ’’اعتدال کی راہ ‘‘ دکھاتا ہے۔ اسلام
عورت کو زینت خانہ بھی دیکھنا چاہتا ہے اور تعلیم وتربیت کی زیور سے آراستہ
ماں کی صورت میں ایک ایسی مقدس ہستی بھی، جو اپنی اولاد کی تربیت درست طور
پر کر کے اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے دنیا و آخرت کی بھلائی کا سامان
کر جائے۔ زینت خانہ کا مفہوم قرآن نے مختصر الفاظ میں یوں بیان فرما دیا:
﴿وقرن فی بیوتکن﴾ (سورہ احزاب، آیت:۳۳)
’’کہ تم اپنے گھروں قرار کے ساتھ رہو‘‘
(آسان ترجمہ قرآن)
اس آیت کی تشریح میں حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی مدظلہ فرماتے ہیں:
’’اس آیت نے واضح کردیا کہ عورت کا اصل مقام اس کا گھر ہے۔ اس کا یہ مطلب
نہیں کہ اس کا گھر سے نکلنا جائز ہی نہیں، کیونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم
کی احادیث نے واضح فرما دیا ہے کہ عورت حاجت کے وقت پردے کے ساتھ باہر
جاسکتی ہے، لیکن اس فقرے نے یہ عظیم اصول بیان فرمایا ہے کہ عورت کا اصل
فریضہ گھر اور خاندان کی تعمیر ہے، اور ایسی سرگرمیاں جو اسمقصد میں خلل
انداز ہوں ، اس کے اصل مقصد زندگی کے خلاف ہیں اور ان سے معاشرے کا توازن
بگڑ جاتا ہے۔ ‘‘(آسان ترجمہ قرآن ، جلد: 3 ، صفحہ: 1294 )
جب بچوں کی تربیت اور امور خانہ داری اس عورت سے متعلق ہوئے تو لازم ہے کہ
اس کے پاس اتنا علم ہو اور اس کی اتنی تربیت ہوچکی ہو جس سے وہ اپنی ذمہ
داری اچھے طورپر انجام دے سکے۔ ایک عورت کی اگر تعلیم وتربیت اچھی ہو جائے
تو اس سے پورا خاندان سنور جاتا ہے، ایک نسل کی اچھی تربیت ہو جاتی ہے۔ ایک
جاہل عورت بعض اوقات اپنے بچے کے لیے بددعا نکال لیتی ہے اور بچے کا مستقبل
خراب ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف اگر ماں کے پاس علم شریعت کانور ہو تو وہ دعا
کے ذریعے اپنے بیٹے کو کعبے کا امام بنا دیتی ہے۔ آج کل جو کعبے کے امام
ہیں، فرماتے ہیں کہ میری والدہ کو جب غصہ آتا تو کہتیں: ’’ اﷲ تعالی تجھے
کعبے کا امام بنا دے‘‘
ایک امریکی فلسفی تھا۔ وہ کہتا تھاکہ تم مجھے پڑھی لکھی مائیں دو میں تمہیں
پڑھی لکھی نسلیں دوں گا۔
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے ایک بار رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے خوشی میں
فرمایا: ’’مانگو عائشہ!
حضر ت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے عرض کیا: ’’میں ابا جان سے مشورہ کرلوں۔‘‘ یہ
علم وحکمت کی بات ہے کہ اپنے شوہر سے مانگنے سے پہلے اپنے باپ سے مشورہ
کرنا ضروری سمجھا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے فرمایاکہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے
پوچھو کہ جب وہ معراج پر گئے تھے تو اﷲ تعالی نے ان سے راز کی باتیں کی
تھیں ، ان میں سے کوئی ایک بتا دیں۔ مانگا بھی تو کیا مانگا؟ علم مانگا۔
چنانچہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے ایسا ہی کیا۔ حضورصلی اﷲ علیہ وسلم سے پو
چھا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اﷲ تعالی نے مجھے بتایا ہے کہ جو
شخص دنیا میں کسی کا دل جوڑے گاوہ بغیر کسی حساب کے جنت میں جائے گا۔‘‘
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کو اﷲ تعالی نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی صحبت، خدمت،
علم کے ذوق اور طلب کی وجہ سے اتنا علم دیا تھا کہ بعض اوقات بڑے بڑے صاحب
علم صحابہ کرم رضی اﷲ عنہم کو بھی جب کبھی ضرورت پیش آتی، خصوصاًحضورصلی اﷲ
علیہ وسلم کی گھریلو زندگی اور ازدواجی زندگی کے متعلق تو وہ حضرت عائشہ
رضی اﷲ عنہا کے پاس آتے اور ان سے پوچھ لیتے۔
دور نبوی میں ہی مستورات کے لیے تعلیم وتربیت کا باقاعدہ آغاز ہو گیا تھا۔
چنانچہ مشکوۃشریف میں بخاری کے حوالے سے ایک روایت نقل کی گئی ہے: حضرت ابو
سعید خدری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس ایک
صحابیہ حاضر ہوئیں اور عرض کیا : یا رسول اﷲ ! آپ کی باتیں مردوں نے خوب
حاصل کر لیں، لہذا ایک دن ہمارے لیے مقرر کر دیں ، جس میں ہم آپ کے پاس
حاضر ہوں اور جو علم اﷲ تعالی نے آپ کو عطا کیا ہے آپ ہمیں بتا دیں۔ یہ سن
کر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اچھا! فلاں دن تم فلاں جگہ پر جمع
ہوجانا۔ چنانچہ مقررہ دن اور جگہ پر صحابیات جمع ہو گئیں ۔ اس کے بعد آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم وہاں تشریف لے گئے اور ان کو اﷲ تعالی کے دیے ہوئے علوم
میں سے بہت کچھ بتایا۔
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ امور خانہ داری کے ساتھ ساتھ صحابیات بھی
علم کے حصول کا ذوق رکھتیں تھیں اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے علم حاصل کیا
کرتیں تھیں۔ دیگر بھی بے شمار روایات ملتی ہیں جن میں صحابیات نے آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر سوالات کیے ، مسائل پوچھے اور آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم نے ان کے جوابات دیے۔
آج جبکہ زمانہ بہت بیت گیا، معاشرہ بگڑ چکا ہے، فحاشی،عریانی اور بے حیائی
عام ہے، گھر سے باہر بھی بچے کو دینی ماحول ملنا مشکل ہے،خود اندازہ لگایا
جاسکتا ہے کہ گھر میں دینی ماحول کی کتنی ضرورت ہوگی۔ |