جامعات کی تنزلی

 ہم لوگوں کو اپنی جامعات کی تنزلی کا رونا کچھ ہی عرصہ بعد رونا پڑتا ہے۔ معمول کے مطابق تو ہم لوگ یہ کارِ خیر سرانجام دیتے ہی رہتے ہیں، مگر ہر چند ماہ بعد کوئی نہ کوئی بین الاقوامی سروے ہمیں باقاعدہ رونا رونے پر مجبور کردیتا ہے۔ اپنے سر شرم سے جھک جاتے ہیں، کچھ لکھا جاتا ہے، کچھ بولا جاتا ہے اور وقت کی دھول سب کچھ چھپا لیتی ہے، خاموشی چھا جاتی ہے، تاآنکہ کوئی نیا سروے سامنے آجاتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ تمام تر سروے ہمیں احتجاج وغیرہ پر تو مجبور کردیتے ہیں، مگر ہمارے ذمہ داروں کو بہتری کی منصوبہ بندی کرنے کی ترغیب نہیں دلاتے۔ اسی لئے کسی شرمساری وغیرہ پر بھی کوئی بہتری یا تبدیلی نہیں آتی۔ تازہ رپورٹ ایک مرتبہ پھر منظر پر آئی ہے، جس میں دنیا بھر کی پانچ سو جامعات میں پاکستان کی ایک (نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ’نسٹ‘) شامل ہے۔ جبکہ پاکستان ایشیائی اور اسلامی ممالک سے بھی پیچھے رہ گیا ہے۔ واضح رہے کہ درجہ بندی کے لئے چھ عوامل کو مد نظر رکھا جاتا ہے،ان میں اکیڈمک شہرت، ملازمین کی شہرت، فیکلٹی کی تحقیق، طالب علم فیکلٹی کی شرح، بین الاقوامی طلبہ اور فیکلٹی کی تعداد شامل ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ برس بھی پاکستان کی چھ جامعات اک ہزار بہترین جامعات میں شامل تھیں، اب بھی ان کی تعداد چھ ہی ہے، گویا ایک سال میں کسی یونیورسٹی نے اپنی پوزیشن بہتر نہیں کی۔

پاکستان میں ہر میدان میں سیاست کا عمل دخل بہت بڑھ چکا ہے، یہ بھی ستم ظریفی ہی ہے کہ خود سیاست ابھی پختہ کاری تک نہیں پہنچ پائی، سیاستدان ایک دوسرے کے ساتھ دست وگریبان ہیں، مخالفت میں ذاتیات تک اتر آتے ہیں، اخلاقیات کا جنازہ دھوم سے نکلتا ہے، ایک دوسرے کو سننے اور دلیل سے جواب دینے کی بجائے ٹکراؤ اور للکارنے کی پالیسی بروئے کار ہے، سیاست میں مولا جٹ کلچر فروغ پارہا ہے، ترقی یافتہ اور آئی ٹی کے زمانے میں بھی قدامت پرستانہ انداز میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا سلسلہ جاری ہے۔ مگر مقتدر طبقہ جب اقتدار کے نشے میں سرشار ہوتا ہے تو اصول، میرٹ اور معیار کو بھول جاتا ہے۔ تاہم اس بات کا خیال ضرور رکھا جاتا ہے کہ نعرے میرٹ کے ہی لگائے جاتے ہیں اور دعوے معیار کے ہی ہوتے ہیں۔ اول تو بہت سی جامعات میں رئیس الجامعہ کا انتخاب بھی جلد عمل میں نہیں لایا جاتا، اور جب ایسا ہوتا ہے تو پھر پسند ناپسند کا بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جب معاملہ پسند نا پسند کا آئے گا تو پھر مرضی بھی اپنی چلائی جائے گی، اور یہ بھی کہ میرٹ کے بغیر آگے لائے گئے لوگ صلاحیتوں سے بھی عاری ہوتے ہیں۔ اگر وہ کچھ کرنا بھی چاہتے ہیں تو وہ پابند اور مجبور ہوتے ہیں۔

اگرچہ پاکستان میں جامعات کے سربراہوں کے انتخاب کے لئے بورڈ قائم ہوتا ہے، ہائر ایجوکیشن کمیشن کی آنیا ں جانیاں بھی اپنی جگہ ہیں، اربوں روپے کے فنڈزکے دعوے بھی عام ہیں، جامعات پر اخراجات ہوتے بھی دکھائی دیتے ہیں، جس ملک میں دو کروڑ سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہوں، وہاں پرائمری ایجوکیشن کی بجائے ہائر ایجوکیشن پر اربوں روپے لٹانا سمجھ سے بالا تر ہے، مگر اعلیٰ دماغوں کے سامنے کوئی دلیل کام نہیں کرتی۔ سہولتیں ہوں، وظائف ہوں، سنگ وخشت سے بنی عمارتیں ہوں یا پھر وزیراعلیٰ پنجاب کا خواب، لیپ ٹاپ ہوں، ہر طرف دھوم مچی ہے، مگر معیار نہ ہونے کے برابر۔ جامعات میں زیر تعلیم طلبا وطالبات کی علمیت محدود ہے، بات صرف نوٹسز وغیرہ تک محدود ہے، برا نہ منایا جائے تو اساتذہ کا معاملہ بھی آئی ٹی کے دائرے میں سمٹ کر رہ گیا ہے۔ نہ طلبا وطالبات کو سوال کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور نہ ہی اساتذہ چاہتے ہیں کہ کوئی طالب علم کوئی سوال کرے۔بہت سی جامعات کے سربراہ وائسرائے کا کردار ادا کرتے ہیں، مراعات کے نام پر عیاشیاں جاری ہیں، کرپشن کی کہانیاں بھی موجود ہیں، مردم بیزاری کی داستانیں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ سارے منفی معاملات اپنی جگہ اور معیار کی تنزلی کی کہانی اپنی جگہ۔ ستم تو یہ ہے کہ جامعات میں جہاں درجہ بندی میں پاکستان نہ ہونے کے برابر ہے، وہاں جامعات میں اخلاقی اقدار بھی نہیں، ڈسپلن بھی نہیں، طلبہ کو مستقبل کے معمار بنانے کی بھی کوئی کوشش دکھائی نہیں دیتی، جن بچوں کو شاہین کے بال وپر چاہیئں تھے، وہ کرگسوں کی مانند بھٹکتے پھر رہے ہیں، بے مقصد قوم تیار ہورہی ہے، انجام کیا ہوگا؟ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 427815 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.