یار کو ہم نے جا بجا دیکھا - قسط نمبر 7

وہ پچھلے آدھے گھنٹے سے مسلسل رو رہا تھا۔آنکھیں بند تھیں۔ دل کو کسی طور قرار نہیں آ رہا تھا۔پچھلے کچھ عرصہ سے اس کے ساتھ یہی ہو رہا تھا۔ اسے پہلے حیرت کا سامنا کرنا پڑتا پھر تجسس اور آخر میں صدمے سے دوچار ہونا پڑتا۔ وہ وہ جتنا اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کرتا اتنا ہی الجھتی جاتی۔ دل ہر وقت بے سکون سا رہتا۔ کچھ لوگ حقیقت سے ماورا باتوں پہ یا تو دھیان ہی نہیں دیتے یا پھر یقین ہی نہیں کرتے۔ وہ بھی کچھ اسی قسم کی صورتِ حال سے دوچار تھا۔جب کوئی اس کی بات کا یقین نہ کرتا وہ بے بس ہو کر رونے لگتا
ضوفشاں؟؟ اس نے روتے روتے دھیمی سی آواز میں اسے پکارا
کیوں رو رہے ہیں؟؟ وہ اسی وقت اس کے سامنے کھڑی تھی
تم کہاں چلی جاتی ہو؟ اس نے آنکھیں پونچھتے ہوۓ پوچھا
کہیں نہیں میں تو یہں ہوں۔ وہی نرم لہجہ
نہیں تھی تم یہاں۔ یہاں ہوتی تو سب کے سامنے آتی یوں کوئی مجھے جھٹلاتا نہیں۔تم مسلمان ہو ہی جھوٹے تم نے بھی جھوٹ بولا اور ان بابا جی نے بھی۔نہ تم بات پوری کرتی ہو نہ وہ بابا جی نے بات پوری کی۔ وہ روتے ہوۓ اس سے شکائتیں کر رہا تھا
مجھے تو جب آپ نے پکارا میں آ گئی۔ اوربابا جی نے بھی آپ کو منزل کو جانے والے رستے پہ پہنچا دیا۔
کونسی منزل کے رستے پہ پہنچایا؟ وہاں سڑک پہ پھینک دیا تھاانہوں نے مجھے۔ اس نے دکھ اور غصے سے کہا
والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس۔ اس نے جونہی پڑھا سندیپ کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا
یہ کیا منتر پڑھا ہے تم نے؟ ؟ تم کون ہو آخر؟؟ کیا تم انسان نہیں ہو؟؟ پلیز مجھے بتاٶ تم کون ہو؟؟ وہ رو رو کر نڈھال ہو چکا تھا اب آواز بھی دھیمی ہوتی جا رہی تھی اس نے بیڈ کراٶن سے ٹیک لگا لی
یا حی یا قیوم برحمتک استغیث پڑھا کریں دل کو سکون ملے گا۔ وہ اتنا کہہ کر مڑنے ہی والی تھی کے وہ پھر چیخنے لگا
کیوں پڑھوں میں؟؟ تم کب بتاتی ہو مجھے کچھ جو میں تمہاری بات مانوں۔ اور تم تو ہر بار مجھے پہلے سے زیادہ بے سکون کر جاتی ہو تم کیا سکون دو گی۔ضوفشاں نے مڑ کر ایک نظر اسے دیکھا اور پھر اندھیرے میں غائب ہو گئی
تم آخر بتاتی کیوں نہیں ہو کہ تم کون ہو؟؟ پلیز میرے دل کی بے چینی ختم کر دو پلیز مجھے بتا دو پلیز۔ وہ زور زور سے چلا رہا تھا آنکھیں ہنوز بند تھیں اس کے چلانے سے پریشان ہو کر روہت ساتھ والے گھر سے ڈاکٹر کو بلا لایا
آنکھیں کھولو دیپ بیٹا مجھے بتاٶ کون نہیں بتاتی آپ کو اپنے بارے؟؟ ڈاکٹر صاحب اس کا گال تھپتھپا کر اسے جگانے کی کوشش کر رہے تھے
آپ یہاں کیسے آ گئے؟؟ وہ کہاں چلی گئی؟؟وہ کیوں چلی جاتی ہے ہر بار بنا کچھ بتاۓ؟؟وہ ابھی یہاں تھی اب کیوں چلی گئی؟؟میرا دل کیوں اٹک گیا ہے اس پہ آخر کیوں نہیں بھول جاتا میں اس کو آخر کیوں چین نہیں آتا مجھےکیوں میرا دل اسے سوچے جاتا ہے کیوں آخر کیوں؟؟ وہ بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہا تھا
یہ کسی شدید صدمے میں ہے ابھی۔ بہتر ہے آپ لوگ اسے آرام کرنے دیں۔یہ کچھ سکون کی دوائیں میں نے لکھ دی ہیں یہ آپ اسے کھلا دیں فی الحال اور بہتر ہو گا کہ آپ اس کو کسی اچھے سائیکاٹرسٹ کو دکھائیں۔ ڈاکٹر نے روہت کو پرچی تھماتے ہوۓ کہا
مجھے آپ سکون نہیں دے سکتے کبھی نہ یہ دوائیاں بلکہ کوئی بھی سکون نہیں دے سکتا مجھے۔میں کیا کروں سکون کہاں ڈھونڈوں بلکہ مجھے ڈھونڈنےکی کیا ضرورت ہے اس نے کہا تھا کہ..... یا حی یا قیوم پڑھنا ہاں بالکل یہی کہا تھا یا حی یا قیوم۔ یا حی یا قیوم۔ یا حی یا قیوم۔ اس نے کچھ دیر دعا یاد کرنے کی کوشش کی یاد نہ آنے پر آدھی دعا کا ہی ورد کرنے لگا
یا حی یا قیوم۔ یا حی یا قیوم۔ یا حی یا قیوم۔ وہ زور دار آواز میں پڑھ رہا تھا ساتھ ساتھ زور زور سے ہلتا جا رہا تھا۔ آہستہ آہستہ اس کی آواز اور ہلنے میں تیزی آتی جا رہی تھی یوں جیسے اس پہ وجد طاری ہو۔ روہت اور ماں اسے سنبھالنے کی کوشش میں ہانپ گئے تھے لیکن وہ ان کے قابو میں نہیں آ رہا تھا آخر آواز دھیمی ہوتی گئی اور وہ نڈھال ہو کر بے ہوش ہو گیا۔
اسے خود نہیں پتا وہ کتنے دن سویا رہا مگر جب ہوش میں آیا تو خود کو بہت پرسکون اور فریش محسوس کر رہا تھا نہا کر کمرے سے باہر نکلا تو ماں کے پاس کچن میں ہی چلا آیا وہ سبزی کاٹ رہی تھیں ان کے پاس ہی بیٹھ گیا
کیا بنا رہی ہیں آج؟؟ وو ایک آلو اٹھا کر کھیلنے لگا
کیا کھاٶ گے؟؟ ماں نے پیار سے پوچھا
ام م م م کچھ بھی جوآپ پیار سے کھلا دیں۔ اس نے شرارت سے مسکراتے ہوۓ کہا
پیار سےتو جوتے بھی کھلا سکتی ہوں میں۔ ماں اسے فریش اور مسکراتا دیکھ کر خوش ہو گئی اس لیے وہ بھی اسے ہنسانے کےلیے چھیڑنے لگیں
اب آپ کے سارے پیا پہ صرف میرا ہی حق تھوڑی نہ ہے تھوڑا پاپا کے لیے بھی بچا لیں۔ اس نے شرارت سے آنکھ مارتے ہوۓ کہا
بدمعاش کہیں کے ٹھہر جاٶ زرا تم۔ ماں نے آہستہ سے اس کا کان مروڑا
اچھا بابا نہ کریں آپ انہیں پیار میراکان تو چھوڑ دیں۔ اس نے کان چھڑانے کی کوشش کی
بہت بدمعاش ہو گئے ہو۔ ماں نے ہلکی سی چپت سر میں لگاتے ہوۓ کہا
اچھا مما میں زرا روہت کی طرف جا رہا ہوں 10 بجے تک آ جاٶں گا۔ وہ کہتے ہوۓ باہر نکل گیا ماں دیپ دیپ پکارتی ہی رہ گئی
روہت کے گھر پہنچ کے دیکھا سب مووی دیکھ رہے تھے وہ بھی سب سے مل کر پاس بیٹھ گیا۔سب اس کے آنے پہ بہت خوش تھے سب نے بہت گرم جوشی سے اس کا ویلکم کیا تھا مووی دیکھنے کے بعد سب کلب جا پہنچے روہت اس کے بہتر ہو جانے پر بے حد خوش تھا وہ فل مزا کر رہا تھا اس نے ایک گلاس خود پکڑا اور دوسرا سندیپ کو تھماتے چئیرز کا نعرہ لگایا
باہر نکلیں دیپ کسی کو آپ کی ضرورت ہے۔ وہ جونہی گلاس منہ کو لگانے لگا اس کے کانوں میں ضوفشاں کی آواز گونجی اور اس کے بعد جیسے نہ اسے کچھ دکھائی دے رہا تھا نہ سنائی دے رہا تھا وہ گلاس رکھتے ہی آٶ دیکھا نہ تاٶ باہر کی طرف بھاگ رہا تھا
چند منٹ ادھر ادھر گلیوں میں پھرنے کے بعد ایک جگہ اسے ایک لڑکی سڑک کنارے روتی ہوئی نظر آئی پاس ہی بینچ پر ایک بوڑھی اماں لیٹی کراہ رہی تھی
کیا میں آپ کی کچھ مدد کر سکتا ہوں؟؟ اس نے لڑکی کے پاس پہنچ کر جیسے ہی پوچھا لڑکی نے چہرہ تھوڑا ڈھانپ لیا
جی وہ میری دادی بیمار ہیں انہیں ہاسپٹل لے کر جانا ہے کوئی لفٹ دینے کو تیار ہی نہیں۔ اتنا کہہ کر لڑکی زور زور سے رونے لگی
آپ پلیز روئیں مت میں دیکھتا ہوں۔ وہ اسے تسلی دےکر ٹیکسی دیکھنے لگا تھوڑی ہی دیر میں اسے ٹیکسی مل گئی وہ ان دونوں کو لیکر ہاسپٹل گیا چیک اپ کروانے کے بعد دوائیاں لیکر کر لڑکی کے ہاتھ میں تھمائیں اور ٹیکسی میں بٹھا کر گھر کی طرف روانہ کیا
آپ کا بہت بہت شکریہ میں آپ کا یہ احسان کبھی نہیں بھولوں گی۔ بات کرتے کرتے لڑکی کا نقاب تھوڑا نیچے ڈھلک گیا
ضوفشاں؟؟؟ اس کی نظر جیسے ہی لڑکی کے چہرے پہ پڑی اس کا منہ حیرت سے کھل گیا
ضوفشاں؟؟ ضوفشاں؟؟ ضوفی پلیز میری بات سنو۔ ضوفی ؟؟وہ آوازیں دیتا ہوا دیوانہ وار ٹیکسی کے پیچھے بھاگنے لگا دیکھتے ہی دیکھتے ٹیکسی غائب ہو گئی وہ بھاگتے بھاگتے ہانپ گیا جب کچھ نہ بن پڑا تو سڑک کنارے بینچ پر بیٹھ کر رونے لگا
 

Adeela Chaudry
About the Author: Adeela Chaudry Read More Articles by Adeela Chaudry: 24 Articles with 51217 views I am sincere to all...!.. View More