فتح مکہ کے دن حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی تواضع وانکساری اورعظیم تاریخی خطبہ

فتح مکہ : جس نے جزیرۃ العرب سے بت پرستی کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا

ماہ رمضان ۸ ھ بمطابق جنوری ۶۳۰ ء تاریخ ِ نبوّت کا نہایت ہی عظیم الشان عنوان ہے اور سیرت ِ مقدسہ کا یہ وہ سنہرا باب ہے کہ جس کی آب وتاب سے ہرمومن کا قلب قیامت تک مسرّتوں کا آفتاب بنارہے گا کیوں کہ تاجدار دوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس تاریخ سے آٹھ سال قبل انتہائی رنجیدگی کے عالم میں اپنے یارِ غارکو ساتھ لے کر رات کی تاریکی میں مکہ سے ہجرت فرماکر اپنے وطن عزیز کو خیر باد کہہ دیا تھا اور مکہ سے نکلتے وقت خدا کے مقدس گھرخانہ کعبہ پر ایک حسرت بھری نگاہ ڈال کر یہ فرماتے ہوئے مدینہ روانہ ہوئے تھے کہ’’ اے مکہ! خدا کی قسم ! تومیری نگاہ ِ محبت میں تمام دنیا کے شہروں سے زیادہ پیارا ہے اگر میری قوم مجھے نہ نکالتی تو میں ہرگز تجھے نہ چھوڑتا‘‘ ۔لیکن آٹھ برس کے بعد یہی مسرت خیز تاریخ ہے کہ آپ نے ایک فاتحِ اعظم کی شان وشوکت کے ساتھ اسی شہر مکہ میں نزولِ اجلال فرمایا اور کعبۃ اﷲ میں داخل ہوکر اپنے سجدوں کے جمال وجلال سے خدا کے مقدس گھر کی عظمت کو سرفراز فرمایا۔

حضور صلی اﷲ علیہ وسلم جب فاتحانہ حیثیت سے مکہ میں داخل ہونے لگے تو آپ اپنی اونٹنی ’’قصواء‘‘ پر سوار تھے۔ ایک سیاہ رنگ کا عمامہ باندھے ہوئے تھے ۔ بخاری میں ہے کہ آپ کے سرپر ’’مغفر‘‘ تھا۔ آپ کے ایک جانب حضرت ابوبکر صدیق اور دوسری جانب اُسید بن حضیر رضی اﷲ عنہما تھے اور آپ کے چاروں طرف جوش میں بھراہوا اور ہتھیاروں میں ڈوبا ہوا لشکر تھا جس کے درمیان کوکبۂ نبوی تھا۔ اس شان وشوکت کو دیکھ کر ابوسفیان نے حضرت عباس رضی اﷲ عنہ سے کہا کہ اے عباس! تمہارا بھتیجہ توبادشاہ ہوگیا۔ حضرت عباس رضی اﷲ عنہ نے جواب دیا کہ تیراا برا ہو، اے ابوسفیان ! یہ بادشاہت نہیں ہے بلکہ یہ ’’نبوّت‘‘ ہے۔ اس شاہانہ جلوس کے جاہ وجلال کے باوجود شہنشاہ ِ رسالت کی شان ِ تواضع کا یہ عالم تھا کہ آپ سورۂ فتح کی تلاوت فرماتے ہوئے اس طرح سرجھکائے ہوئے اونٹنی پربیٹھے ہوئے تھے کہ آپ کا سراونٹنی کے پالان سے لگ لگ جاتاتھا ۔ آپ کی یہ کیفیت تواضع خداوندقدوس کا شکر اداکرنے اور اس کی بارگاہِ عظمت میں اپنے عجز و نیاز مندی کا اظہار کرنے کے لیے تھی۔ (سیرت مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم،ص؍۳۲۶)

تاجدار دوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے مکہ کی سرزمین میں قدم رکھتے ہی جو پہلا فرمان جاری فرمایاتھا اس کے لفظ لفظ میں رحمتوں کے دریا موجیں ماررہاہیں،وہ اعلان یہ ہے: ’’جو شخص ہتھیار ڈال دے گا اس کے لیے امان ہے، جو شخص اپنا دروازہ بند کرے گا ا س کے لیے امان ہے، جو کعبہ میں داخل ہوجائے گا اس کے لیے امان ہے ۔ اس موقع پر حضرت عباس رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا کہ یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم! ابوسفیان ایک فخرپسند آدمی ہے اس کے لیے کوئی ایسی امتیازی بات فرمادیجئے کہ اس کا سرفخر سے اونچا ہوجائے تو آپ نے فرمایا کہ :’’جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے اس کے لیے امان ہے۔‘‘

فتح مکہ کے دوسرے دن بھی آپ نے ایک خطبہ دیا جس میں حرمِ کعبہ کے احکام وآداب کی تعلیم دی کہ حرم میں کسی کا خون بہانا، جانوروں کومارنا،شکارکرنا، درخت کاٹنا، اِذْخر کے سواکوئی گھاس کاٹنا حرام ہے اور اﷲ نے حرمت والی جگہ گھڑی بھر کے لیے رسول کو حرم میں جنگ کرنے کی اجازت دی، پھر قیامت تک کے لیے کسی کو حرم میں جنگ کی اجازت نہیں ہے۔ اﷲ نے اس کو حرم بنادیا ہے۔ نہ مجھ سے پہلے کسی کے لے اس شہر میں خوں ریزی حلال کی گئی نہ میرے بعد قیامت تک کسی کے لیے حلال کی جائے گی۔ (بخاری، جلد ۲،ص؍۶۱۷ )

فتح مکہ پر ابن قیم نے اپنا اظہارخیال یوں کیا کہ ’’یہ وہ فتح اعظم ہے جس کے ذریعہ اﷲ نے اپنے دین کو ، اپنے رسول کو، اپنے لشکر کواور اپنے امانت دار گروہ کو عزت بخشی ۔ اپنے شہرکو اور اپنے گھر کو جسے دنیا والوں کے لیے ذریعۂ ہدایت بنایا ہے کفارومشرکین کے ہاتھوں سے چھٹکارا دلایا ۔ اس فتح سے آسمان والوں میں خوشی کی لہردوڑگئی اور اس کی عزت کی طنابیں جوزاء کے شانوں پر تن گئیں ۔ اس کی وجہ سے لوگ اﷲ کے دین میں فوج درفوج داخل ہوئے اور روئے زمین کا چہرہ روشنی اور چمک دمک سے جگمگااٹھا۔ فتح مکہ ایک عظیم فتح ہے جس نے بت پرستی کو جزیرۃ العرب سے ہمیشہ کے لیے ختم کردیا ۔ کیوں کہ عام قبائل عرب اس بات کے منتظر تھے کہ کفرواسلام کی جنگ میں فتح کس کی ہوتی ہے؟ انہیں یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ حرم پر وہی مسلط ہوسکتا ہے جو حق پرہواور اس یقین میں پختگی نصف صدی پہلے اصحاب فیل ، ابرہہ اور اس کے ساتھیوں کے واقعہ سے آگئی تھی۔ یہ بھی اپنی جگہ سچائی لیے ہوئے ہے کہ صلح حدیبیہ اس فتح کا پیش خیمہ اورتمہید تھی۔
٭٭٭

Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 731931 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More