اس ملک کو چھوڑ کر کہاں جائیں؟

چند روز قبل جب رات کے وقت اچانک تیز ہوا چلنے لگی ساتھ ہی بجلی بھی غائب ہو گئی۔ رات کے چند گھنٹے عوام نے مشکل میں گزارے اور ساتھ ہی حکومت وقت کو دعاؤں اور بد دعاؤں سے بھی نوازا گیا۔ صبح کے وقت بازار میں چند افراد ایک دوسرے سے پوچھ گچھ کر رہے تھے کہ اچانک ایک باریش چچا جی فرمانے لگے اس ملک، عوام، حکومت اور اس کے نظام سے بہتر ہے کہ ہم کسی اور ملک میں ہجرت کر جائیں۔یہاں کوئی نظام ہی نہیں ہے۔سخت گرمی ہو اور بجلی غائب ہو اگلے دن روضہ رکھنا ہو تو واقعی انسان ایک بار سوچتا ہے کہ یہ اپنی آزاد زندگی ہے یا کہ کوئی عقوبت خانہ، جہاں نہ انسان کی کوئی رائے ہے نہ مرضی ہے، اور نہ دیانتداری سے کام کرنے دیا جا تا ہے۔ ۔چچا جی نے بات بڑہاتے ہوئے فرمایا کہ یہاں ایک بات کی فراوانی ہے وہ یہ ہے کہ عوام ہوں یا خواص ہر ایک یہ آرزو لے کر سو تا اور صبح کو اٹھتا ہے کہ کس طرح دوسرے کسی شخص کا گلا ، یا پیٹ کاٹ کر اپنا جیب بھرا جائے۔انہوں نے مزید کہا کہ کیا یہ کوئی ملک ہے؟ کیا یہ کوئی عوام ہے؟ یہاں کا کوئی قانون ہے؟ وغیرہ ۔ تو ایسے ملک میں ہم کس لئے رہیں؟

جب غور و فکر کیا جائے تو معلوم ہو تا ہے اس ملک میں ایک انسان جب پیدا ہوتا ہے اس کی رجسٹریشن سے لے کر اچھے سرکاری سکول میں داخلے تک ہر جگہ رشوت ادا کرنا پڑتی ہے یا اچھی سفارش اور جس کی سفارش نہ ہو اس کا بچہ سکول داخل نہیں ہو سکتا۔ ہمارا تعلیم کا نظام ہو ، معیشت ہو،یا کوئی بھی زندگی کا شعبہ ہو ان سب میں کچھ لو کچھ دوکے بغیر حق نہیں مل سکتا۔ یہ حال ان اداروں کا ہے جو عوام کی خدمت کی مراعات لیتے ہیں۔ باقی رہا مسئلہ عوام کا ،عوام تو ویسے بھی گروی رکھے گئے ہیں ، لیکن عوام کو اس کی کوئی فکر ہی نہیں۔ کل کوئی دوسرا اس ملک میں آکر بیٹھ جائے توحکمرانوں کو اس کی فکر نہیں ۔ ملک قرضوں کے بوجھ کے نیچے دبا جا رہا ہے اور عوام کو اتنا بھی شعور نہیں کہ حکمرانوں سے پوچھا جائے کہ ہمیں گروی رکھوا کر رقم جو لی ہے وہ کدھر خرچ ہو رہی ہے ؟کوئی دوسری دنیا کا کوئی سیارہ ہے جس پر کچھ تعمیر ہو رہا ہے؟ یا اسی ملک میں لگ رہی ہے۔ اپنی ملکی پیداوار کہاں جا رہی ہے اور باہر سے لیا جانے والا قرض کس مد میں لیا جا رہا ہے اور کہاں خرچ ہو رہا ہے۔ اور نئے منصوبوں سے ملنے والی رقم کہاں لے جانے کا پروگرام ہے؟ اس کے بجائے خود عوام کا یہ حال ہے کہ اپنا کام کرنے کی بجائے شارٹ کٹ اور بے ایمانی اور دوسروں کی حق تلفی اور کرپشن کو موقع سمجھ کراپنا یا جا رہا ہے۔خوراک ناقص،پانی کی قلت،بچوں کے دودھ میں ملاوٹ، اداروں میں کرپشن وغیرہ یعنی کونسی جگہ رہ گئی ہے جہاں کرپشن نہ ہو؟

ملک میں دو قسم کے نظام تعلیم ہیں ایک دینی اور دوسرا عصری یا سائنسی،ایک وقت تھا جب معمولی خرچ پر معیاری تعلیم غربا کے بس میں ہوا کرتی تھی اور مولوی کی جگہ سائنس دان پیدا ہو تے تھے۔اب مولوی ، مفتی بنتا ہی نہیں جو اپنے اپ کو ایک نمبر جنتی نہ کہلوائے اور دوسروں کے دائرہ اسلام سے خارج نہ سمجھے۔ مسلک پرستی، استاد پرستی کو ہی دین دنیا کا ٹھیکہ سمجھ رکھا ہے۔ جس سے نفرتیں اور کدورتیں جنم لیتی ہیں۔ دوسری طرف سائنسی تعلیم ہے اسے حاصل کرنے کے لئے اے کلاس، بی کلاس، سی کلا اور نہ معلوم یہ درجہ بندیاں کہاں تک جاتی ہیں جو آنے والی نسلوں کو مختلف گروپوں میں تقسیم کرتی ہیں جن کے احساسات اور جزبات بھی منقسم ہو تے چلے جاتے ہیں۔ اور معاشرہ دو گروپس یعنی امیر اور غریب کے کالبوں میں تقسیم ہو تا چلا جا تا ہے۔ غریب کی تعریف یہی ہے کہ جو اپنے بچے کواچھے سکول میں نہ پڑھا سکے اور امیر کا حق یہی ہے کہ اس کا بچہ ہر قوم کے ناز و نخرے کے ساتھ اعلی تعلیم حاصل کرے یا ڈگری خرید کرجہاں چاہے بیٹھ جائے کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔ نقل کو عیب نہیں بلکہ ایک بزنس سمجھا جانے لگا ہے۔ والدین فخر سے پوچھتے ہیں بیٹا کوئی نقل ہوئی ؟ کسی استاد نے تعاون کیا؟ڈیل کھانے کی دعوت سے لیکر لاکھوں میں جاتی ہے بسا اوقات امیر زادہ کی جگہ کوئی دوسرا متحان دے رہا ہو تا ہے وغیرہ۔ استاد با قاعدہ ریٹ لگا تے ہیں۔نہ تعلیم حاصل کرنے والے، نہ تعلیم دینے والے اور نہ والدین نقل کو گناہ سمجھتے ہیں۔ کیا زمانہ تھا صرف استاد شاگرد کا زمانہ تھا اور بس۔۔!

زندگی کے ہر شعبے میں خواہ وہ محنت کش ہو، افسر ہو، میڈیا کا کوئی فرد ہو یا عدلیہ کا کوئی حصہ ہو امید کی کرن ہو ا کرتا تھا۔ دوکاندار تھا توناپ تول کے وقت اس کے ہاتھ کانپتے تھے کہ کہیں جہنم کا ایندھن نہ بن جائے۔نوکری کرنے والا تھا تو وقت سے پہلے کام شروع کرتا اور وقت ختم ہونے کے بعد چھٹی کرتا۔ محافظ تھا تو حفاظت کو اپنا فرض سمجھتا تھا۔ حکمران تھا تو اپنے اپ کو عملاًخادم سمجھتا تھا۔ اور سکون ہی سکون ہو ا کرتا تھا برکت ہی برکت ہوا کرتی تھی۔ جب ہر شخص دولت کی دوڑ میں آگے نکلنے لگا ہے اورکسی بھی شارٹ کٹ سے دوسروں کو بیوقوف بناتے ہوئے دوسروں کا حق مارنا اپنی ہوشیاری سمجھنے لگا ہے تو لازمی بات ہے کچھ لوگ بہت زیادہ ظلم کا شکار ہوں۔ اگر ساری غلطی حکمرانوں ہی کی ہوتی تو عوام اٹھ کھڑے ہوتے اور چند قربانیوں کے نتیجے میں نظام کی درستگی ہو جاتی۔ عوام ملکی قوانین کو دل و جان سے مانتے اور عمل کرتے۔ مگر عوام جب خود کرپٹ ہو جائیں تو چند حکمرانوں سے گلہ شکوہ کیسا؟ چند صحافیوں ، چند ٹی وی چینلز کوبرا بھلا کہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ جب گاہک دوکاندار کو اور دوکاندار گاہک کو بیوقوف بنانے کے چکر میں ہوتا ہے اور ناجائز ذرائع کو اپنے بیوی بچوں کے لئے درست سمجھتا ہے تو اس کا مطلب کرپشن کا راستہ ہموار کر نا ہے۔

جب پورا پاکستان ہی کرپشن کے راستوں کو ہموار کر رہا ہے تو اصلاح کون کرے گا کہاں سے اصلاح ہوگی؟ یا امید کی کوئی کرن باقی ہوگی؟ نہ مذہبی پیشوا ایک قدم پیچھے ہٹ کر ایک قوت بننے کو تیا ر ہیں اور نہ ذخیرہ اندوزوں کو خود رازق بننے کا شوق کم کرنے کی سمجھ آ رہی ہے۔ جب قبلہ و کعبہ امریکہ، چائنہ، اور دوسرے ممالک ہوں گے تو اپنی مٹی کو ترجیح کون دے گا۔ ترقی کی راہ میں دوڑنے کی بجائے کرپشن میں نام پیدا کئے جانے کا مطلب یہی ہے کہ جو لوگ دیانتداری کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں وہ اپنے لئے کوئی اور ملک کوئی اور عوام تلاش کریں۔

المیہ یہ ہے کہ ہمارا پڑھا لکھا طبقہ ، یا ہماری حکومت عوام کو یہ احساس دلانے کو تیار ہی نہیں کہ زندگی کوبہتر طور پر رواں رکھنے کیلئے دیانتداری ، محنت نقل مافیا اور کرپشن سے پاک ہونے کی جدو جہد کرنی چاہئے۔ جن لوگوں کو شعور نہیں انہیں شعور دینے کا کوئی نظام ہی نہیں۔ نہ قانون ہے نہ انصاف سستا ہے۔ رشوت کے بل بوتے پر خوراک میں جو بھی زہر ملائی جائے چلتا ہے۔ رشوت کے بل بوتے پر عوام کو نا قص اشیا مہنگی بیچی جا رہی ہیں۔ بجلی کا بل پورا وصول کیا جا رہا ہے مگر جان بوجھ کر عوام کو بجلی سستی فراہم نہیں کی جا رہی۔ طاقتور اگر بجلی کا بل ادا نہ کرے تو سال کے آخر میں ایڈجسٹمنٹ میں غریب عوام سے وصول کر لیا جا تا ہے۔ طاقت ور مولوی غریب مولوی کو برداشت نہیں کر رہاہے۔ مزدور کی دیہاڑی مختلف اداروں میں مختلف ہے۔چوری ڈاکہ زنی وغیرہ تو روا ج بن چکا ہے۔ جو طاقت میڈیا کو خرید لے اس کے خلاف کوئی خبر شایع نہیں ہو سکتی ۔جس کے پاس گن ہو اور رقم ہو اس کا صحافی بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔ صحافیوں کو لے دے کر وہ غریب غربا نظر آتے ہین جن کے کرتو توں کو شہ سرخیوں میں پرو یا جا تا ہے۔ یہ سارے حالات اس باریش نامعلوم چچا جی کے سامنے تھے جس نے کہا کہ ایسی عوام، ایسی حکومت اور ملک سے بہتر ہے بندہ کسی دوسرے ملک میں چلا جائے جہاں اگر حکمران اچھے نہ ہوں تو عوام کم ازکم اچھے ہونگے یا عوام نہ ہوں تو قانو ن تو ہوگا۔

Khawaja Bashir Ahmed
About the Author: Khawaja Bashir Ahmed Read More Articles by Khawaja Bashir Ahmed: 4 Articles with 2152 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.