احمد یار ملک: تمھارے ساتھ گئیں خوبیاں مقدر کی

 ہوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد یہ معلوم
کہ تُو نہیں تھا ترے ساتھ ایک دنیا تھی

سال 2016کے وسط میں دکھی انسانیت کے بے لوث خادم اور ممتاز سماجی کا رکن احمد یار ملک کی دائمی مفارقت کی اطلاع سُن کر آنکھوں سے جُوئے خوں رواں ہو گئی۔اجل کے بے رحم ہاتھوں نے اس شمع فروزاں کو بجھا دیا جو گزشتہ سات عشروں سے سرِ راہ گزارِ زیست سفاک ظلمتوں کو کافور کر کے نشانِ منزل دے رہی تھی۔ عجز و انکسار ،خلوص و مروّت ،بے لوث محبت ،ایثار اور وفا کا پیکر ہماری بزم و فا سے اُٹھ کر راہِ رفتگاں پر گامزن ہوگیا۔ گزشتہ برس اس کی اہلیہ داغ ِمفارقت دے گئی جس کے بعد وہ عملاً گوشہ نشین ہو گیا تھا اور گھر سے کم کم نکلتا تھا۔ اہلیہ کی اچانک وفات کے بعد احمد یار ملک کی زندگی جا لیوا تنہائیوں کی بھینٹ چڑھ گئی جسے وہ سمے کے سم کا ثمر قرار دیتا اور مشیت ِ ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کر کے صبر وشکر اور تسلیم و رضاکا پیکر بن گیا اور تزکیۂ نفس کے لیے صبر و تحمل کو شعار بنا کر عبادات پر اپنی توجہ مرکوز کر دی۔ اس کے باوجود تنہا ئیوں کے مسموم اثرات اپنا اثر دکھا گئے اور اہلیہ کی وفات کے ایک برس بعد احمد یار ملک کے نہ ہونے کی ہونی دیکھ کر سب عزیز و اقارب اور اہلِ در دپر قیامت ٹوٹ پڑی۔وفا اور ایثار کی پیکر اہلیہ کی دائمی مفارقت کا غم احمد یار ملک کے قلبِ حزیں میں ایسا مہمان ہوا کہ جان لے کر ہی نکلا۔ انسانی ہمدردی کے اس آسمان کو کر بلا حیدری جھنگ کی زمین میں دفن کر دیا گیا۔ اجل کے بے رحم ہاتھو ں سے بے لوث محبت ،خلوص و دردمندی ،ایثار و انکسار اور وفا کے ہمالہ کی ایک سر بہ فلک چوٹی زمیں بوس ہو گئی۔ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کی خاطر دن رات ایک کر دینے والا حریت فکر کا ایسامجاہد اب کہیں نہ ملے گا۔ احمدیار ملک کی کوئی اولادِ نرینہ نہیں تھی صرف دو بیٹیا ں تھیں ۔ احمد یار ملک اور ان کی سلیقہ شعار اہلیہ نے ان بچیوں کی تعلیم و تربیت کا مناسب انتظام کیااور جب ان کی تعلیم مکمل ہو گئی تو اِن کی شادی کر دی۔ایسا محسوس ہوتا تھا کہ بیٹیوں کو گھر سے رخصت کرنے کے بعد دونوں میاں بیوی جذباتی طور پر تنہائی کا شکار ہو گئے اور تنہائی کا یہ جان لیوا غم اُن کے دِل میں مستقل طور پر بس گیا ۔
میں احمد یار ملک کی لحد کے سرہانے کھڑا تھا ، دوسری جانب مرحوم کی دونوں بیٹیاں اپنی والدہ اور والد کی آخری آرام گاہ پر موجود ان کی یا د میں اپنے جذبات حزین کا اظہار کر رہی تھیں۔ ان کے بچے بھی ان کے ساتھ تھے ۔کم سِن بچے اپنے نانا کو یاد کر کے گریہ و زاری کر رہے تھے ۔ احمد یار ملک کے کم سن نواسے نے اپنی ماں سے پُو چھا :
’’ امی ! سچ سچ بتا دو کہ ہماری نانی اور نانا کب گھر واپس آئیں گے ؟
اپنے والد اور والدہ کا ذکر سُن کر احمد یار ملک کی بیٹی نے اپنا دِل تھا م لیا اور معصوم بچے کے سر پر ہاتھ رکھ کر اُسے دلاسا دیا مگر کوئی جواب نہ دیا۔ ظاہر ہے کچھ سوال ایسے بھی ہوتے ہیں جنھیں سُن کر تاب ِ گویائی جواب دے جاتی ہے ، عقل گُم ہو جاتی ہے اورسوچ کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں۔ یہ بات بچے کی ماں کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی کہ اس قسم کے معصومانہ سوالوں کا جواب کیسے دیا جاتا ہے ۔تقدیر ،اجل اور مشیتِ ایزدی کے بارے میں کم سِن بچوں کو کیسے قائل کیا جاتا ہے ۔
اس موقع پر وہاں موجود مایہ ناز ماہر تعلیم،ماہر علم بشریات اور معمر سماجی کارکن پروفیسر غلام قاسم خان نے احمد یار ملک کے کم سِن نواسے کو گلے لگا لیا اور گلو گیر لہجے میں یہ شعر پڑھا:
جو بھی بچھڑے ہیں کب مِلے ہیں فرازؔ
پِھر بھی تُو انتظار کر شاید
جھنگ سے فیصل آباد جانے والی قدیم سڑک جس کے بارے میں مشہورہے کہ یہ شیر شاہ سُوری کے زمانے سے جوں کی توں موجود ہے ،اس سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ایک گاؤں میں ایک دہقان ملک شمیر خان کے گھر جنم لینے والا ہو نہار بچہ احمد یار ملک پورے خاندان کے لیے بے پایاں مسرتوں ،کامرانیوں ،راحتوں ،ترقی اور کامرانی کی نوید لایا ۔اس کے آبائی گاؤں کا ماحول آج بھی پتھر کے زمانے کی یاد دلاتا ہے اور یہاں کے کچے گھروندوں کو لوگ طوفانِ نوح ؑ کی باقیات سمجھتے ہیں۔اپنے آ بائی گاؤں سے پرائمری کا امتحان پاس کرنے کے بعد احمد یار ملک نے اعلا تعلیم کے لیے جھنگ شہر کا رخ کیا اور اس قدیم تاریخ شہر کے ایک مشہور اور عظیم روایات کے حامل ثانوی مدرسے میں داخلہ لیا ۔ اسی تعلیمی ادارے کے باقاعدہ طالب علم کی حیثیت سے لاہور بورڈ کے زیر اہتمام ہونے والے میٹرک(سائنس) کے امتحان میں امتیازی نمبر حاصل کر کے اپنی خدادا دصلاحیتوں اور قابلیت کی دھاک بٹھا دی۔میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد پولی ٹیکنک انسٹی ٹیوٹ سے الیکٹرونکس ،میکانیات،سوفٹ وئیر اور مواصلات کے شعبوں میں اختصاصی مہارت حاصل کی۔گزشتہ صدی کے وسط میں وہ محکمہ ٹیلی فون میں ملازم ہو گیا اور عملی زندگی کا آغاز سرکاری محکمہ ٹیلی فون میں ٹیلی فون آپریٹر کی حیثیت سے کیا ۔ گزشتہ صدی کے ساٹھ کے عشرے میں اس شہر میں مواصلات کی حالت حیران کن تھی۔ ڈائرکٹ ڈائلنگ شروع نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی موبائل فون کا چلن عام تھا ۔ٹیلی فون ایکسچینج سے ملحق پبلک کال آفس اورتار گھر کی عمارت ہوتی تھی۔گھرو ں حتیٰ کہ اکثر سر کاری دفاتر میں لینڈ لائن ٹیلی فون بہت کم تھے۔صرف ٹرنک کال کی سہولت میسر تھی اور اِس کے لیے بھی کال بُک کرانے کے بعد ٹیلی فون ایکسچینج کے آپریٹر کی اعانت نا گزیر تھی۔پبلک کال آ فس میں کال بُک کرانے کے بعدکم از کم دو گھنٹے انتظار کرنا پڑتا تھا تب کہیں جا کر دُور دراز مقام پرواقع دوسرے شہر کا آپریٹر نمبر ملاتا تھا۔اسی زمانے میں ایک مقامی زمین دار جس کے حق میں یونین کونسل کے انتخابات میں اس کے اپنے گھر والوں نے بھی ووٹ نہیں ڈالے تھے پبلک کال آفس پہنچااور کالا شاہ کاکو میں اپنے کسی عزیز سے بات کرنے کے لیے کال بُک کرائی۔دس منٹ کے بعد اس عیاش زمین دارنے پبلک کال آفس کے نگران سے کہا کہ ٹیلی فون آپریٹر سے کہو کہ فوراً میری کال ملائے۔پبلک کال آفس کے مہتمم نے نہایت شائستگی سے کہا کہ جس طرح یہاں موجوددوسرے لوگ اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں آپ کو بھی دوسرے ٹیلی فون صارفین کی طرح کچھ دیر انتظار کرنا پڑے گا ۔یہ سنتے ہی وہ کور مغز زمین دار آگ بگولا ہو گیا اور مغلظات بکتا ہوا ٹیلی فون ایکسچینج میں گُھس گیا ۔احمد یار ملک اس وقت ڈیوٹی پر تھا اس کے ساتھ ٹیلی فون آ پریٹر ملک محمد رمضان بھی سوئچ روم میں موجود تھا ۔ نشے میں دُھت عیاش زمین دار غرایا:
’’کالا شاہ کاکو کے لیے میں نے جو کال بُک کرائی ہے وہ ابھی اور اسی وقت ملاؤورنہ میں تم سب کو کالاباغ پہنچا دوں گا۔ مرے والدین کالی کٹ کے جا گیر دار تھے ۔میں بنیادی جمہوریت کا حامی ہوں اور میرے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔‘‘
ملک محمد رمضان نے مسکراتے ہوئے کہا’’ سیاست کے انداز بھی عجیب ہوتے ہیں انتخابات کے وقت تو آپ سب لوگوں کو سبز باغ دکھاتے ہیں ۔جب انتخابات میں شکست ہوتی ہے تو پھر کالاباغ سے ڈراتے ہو ۔یہ سرکاری ادارہ ہے یہ کسی کی ذاتی جاگیر نہیں کہ لمبے ہاتھوں کارعب جما کر کوئی اس پر قابض ہو جائے۔‘‘
’’میں تم سب کی چُھٹی کرادوں گا اور عبرت کی مثال بنا دوں گا۔‘‘ جاہل زمین دار نے کھسیانے بِلّے کی طرح کھمبا نوچتے ہوئے کہا ’’تمھیں میرا حکم ماننا پڑے گا ورنہ۔۔۔۔‘‘
’’ ورنہ! تم کیا کر لو گے؟ تم اُن لوگوں کو کالا باغ سے ڈراتے ہو جن کے آبا و اجداد نے نو آبادیاتی دور کی بھیانک تاریک رات میں کالا پانی کی اذیت و عقوبت برداشت کی ‘‘احمد یار ملک نے مغرور زمین دار کو ٹوکتے ہوئے کہا ’’ سیاستِ دوراں کی اس نیرنگی اور بو العجبی پر دِل خون کے آ نسو روتا ہے کہ منزلوں پر ان موقع پرستوں کا تسلط ہے جن کا آزادی کے سفر میں کوئی کردار ہی نہ تھا۔ قحط الرجال کے موجودہ دور کاالمیہ یہ ہے کہ اس بستی میں جہاں کور مغز اور بے بصر غاصبانہ طور پر قابض ہیں وہاں اہلِ درد آئینے بیچتے پھرتے ہیں۔ بر داشت اور صبر و تحمل کی بھی ایک حد ہوتی ہے ،اب تو ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے ۔ہم وہی کریں گے جو قانون اور قواعد و ضوابط کے مطابق ہے ۔تم سے پہلے جو لوگ اپنی بُک کرائی گئی کال کے منتظر ہیں وہ بھی ہمارے لیے قابل احترام ہیں۔ہم تو باری آنے پر ہی بُک کرائی گئی ٹرنک کال ملا سکتے ہیں ۔تم پبلک کال آفس میں بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کرو۔ تمھیں معلوم ہو نا چاہیے کہ یہ ممنوعہ علاقہ ہے جس میں تم بلا اجازت گُھس آ ئے ہو۔اس سے پہلے کہ ہم حفاظتی عملے کو طلب کریں تم خاموشی سے اپنی راہ لو ۔‘‘
یہ سنتے ہی کالے دھن کے نشے سے مخمور وہ عیاش زمیندار بُڑ بڑاتا ہوا وہاں سے نو دو گیارہ ہو گیا ۔
معاشرتی زندگی میں احمدیار ملک کو جن شعبوں سے دلچپی تھی ان میں ادیانِ عالم، تاریخ، فلسفہ ،طب،نفسیات اور علمِ بشریات شامل ہیں ۔اسے اس بات پر شدید تشویش تھی کہ جزیرۂ جہلا میں ہجوم ِ کر گساں کے نرغے میں پھنسے مفلوک الحال انسانوں کا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ بو سیدہ کھنڈرات کے جامد و ساکت پتھروں ،سنگلاخ چٹانوں اور احساس سے عاری بُتوں کے رُو بہ رُو اور ظالمانہ استحصالی نظام کے پاٹوں میں پِسنے والی دُکھی انسانیت کے مصائب کا احوال بیان کرنا مادی دور کالرزہ خیز اور اعصاب شکن سانحہ بن گیا ہے۔ حرص و ہوس کی بلا خیزی نے وادیٔ خیال میں حُسن و رومان کی فضا کا سارا منظر نامہ گہنا دیا ہے ۔ سماجی زندگی میں شادی شدہ جوڑے کے لیے اس کا سد ایہی مشورہ ہوتا کہ طاؤس کے جوڑے کی مثال کو ہمیشہ پیش ِ نظر رکھیں۔جواں سال نر مور جب شباب کے منھ زور جذبات سے مضطرب ہوتا ہے تو وہ کسی حسین اور پُر کشش مورنی کو مائل بہ کرم کرنے کی خاطر والہانہ انداز میں رقص میں مصروف ہو جاتا ہے ۔جنگل میں ناچتے ہوئے نر مور کا یہ مجنونانہ رقص جنگل میں منگل کی کیفیت کی رمز آ شنا سیکڑوں حسین و جمیل مورنیاں دنیا و ما فیہا سے بے خبر ہو کر پوری توجہ سے دیکھتی ہیں۔ شوقِ نظارہ سے سرشار متعدد مورنیاں قطار اندر قطار نر مور کے اِرد گِرد جمو ہو جاتی ہیں۔ نر مور کے اِس رقصِ بسمل میں کسی در د آ شنا مورنی کے لیے یہ التجا پنہاں ہوتی ہے کہ اے میر ی ہم رقص آگے بڑھ کر میرے بکھرے پروں کے سائے میں دِل کے ارمانوں کو سمیٹ لے اور میرے ڈگمگاتے قدموں کو تھام لے ۔دفعتاً مورنیوں کے جمگھٹ میں سے ایک مورنی آگے بڑھتی ہے اور محو رقص مور کے پھیلے ہوئے خوب صورت ۔دِل کش اور رنگین پروں میں اپنے پُورے وجود کو لپیٹ کر اس سے پیمانِ وفا باندھ لیتی ہے ۔مورنی کے اس والہانہ التفات پر نر مور کے پاؤں توتھم جاتے ہیں مگر اس کی بے تاب نگاہیں مورنی کے حسین و پُر کشش سراپا پر جم جاتی ہیں ۔ اس دوران میں اپنی لا غر ٹانگیں دیکھ کر نر مور کی روح زخم زخم اور دِل کِرچی کِرچی ہو جاتا ہے،فرطِ غم سے نڈھال نر مور کی آ نکھیں بِھیگ بِھیگ جاتی ہیں ۔اس کے ساتھ ہی مورنی کی والہانہ محبت پر ممنونیت کے جذبات کے ساتھ نر مور کی آ نکھیں ساون کے بادلوں کی طرح بر سنے لگتی ہیں۔نر مور کو پُھوٹ پُھوٹ کر روتے دیکھ کر مورنی یہ جان لیتی ہے کہ رقص کے دوران چنچل مورنیوں کی بے التفاتی دیکھ کر شاید اس نر مور کا مقدر پُھوٹ گیا ہے ۔اِس خیال سے کہ کہیں اس اجل گرفتہ نر مور کا دِل نہ ٹُوٹ جائے ، وہ بے ساختہ انداز میں نر مور سے لپٹ کر اس کی آ نکھوں سے بہنے والے آ نسو پی کر اپنے من کی پیاس بُجھاتی ہے ۔نر مور کی آ نکھو ں سے بہنے والے یہ گرم آ نسومادہ مورنی کے دِل میں محبت جذبات کو تحریک دے کر جنسی عمل کو مہمیز کرتے ہیں۔نر مور کی آ نکھوں سے بہنے والے آنسو پینے کے بعد مورنی اسی مور سے جنسی قربت کے لیے بے چین ہو جاتی ہے۔اس کے بعد نر مور اور مورنی کے باہمی جنسی ملاپ کے بعدجب مورنی انڈے دیتی ہے تو نر مور کے آ نسو رنگ لاتے ہیں اور اُس کے انڈوں سے نکلنے والے سب بچوں کو وراثت میں رونے والے نر مور کی شکل و صورت اورخصلت ملتی ہے ۔
احمد یار ملک کو علم نجوم اور فلکیات سے بھی گہری دلچسپی تھی ۔انسانی ہاتھ کی لکیروں کے بارے میں اس کا تاثر یہ تھا کہ ان پُر اسرار لکیروں کا انسان کی کتابِ زیست کی تحریروں سے گہر ا تعلق ہے ۔سال 2008میں میرا چھوٹا بھائی عالمِ شباب میں ایک ٹریفک حادثے میں زخمی ہوا اور زخموں کی تاب نہ لا تے ہوئے دائمی مفارقت دے گیا۔ اس الم ناک سانحہ کی خبر سن کراحمد یار ملک اور اس کے اہلِ خانہ سو گوار خاندان کا غم بانٹنے کے لیے پہنچے ۔جس وقت ہم اپنے چاند کو لحد میں اتاررہے تھے احمد یار ملک ہمارے ساتھ تھا۔ لرزتے ہاتھوں سے لحد میں مٹی ڈالنے کے بعد جب خاکِ مر قد پر پھول بکھیرے گئے تو ہم سب نے اپنے ہاتھ اُٹھائے اور دائمی مفارقت دینے والے بھائی کی مغفرت کی دعا کی ۔اس موقع پر احمد یار ملک نے میرا خالی ہاتھ تھا م لیا اور غور سے میرے ہاتھ کی لکیروں کو دیکھنے لگا۔اس نے اچانک اپنے دِل پر ہاتھ رکھا اور زار و قطاررونے لگا۔وہ فرطِ غم سے نڈھال تھا ،مگرجذباتِ حزیں کا اظہار کرنے کے لیے الفاظ اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد اس نے میرے خالی ہاتھ کی لکیروں کو نہایت توجہ سے دیکھتے ہوئے گلو گیر لہجے میں اردو کے ممتاز شاعر احمد فرازؔ کا یہ شعر پڑھا تو وہاں موجود ہرشخص کی آ نکھیں پُر نم ہو گئیں:
خالی ہاتھوں کو کبھی غور سے دیکھا ہے فرازؔ
کِس طرح لوگ لکیروں سے نکل جاتے ہیں
معاشرتی زندگی میں مصائب و آلام کی زد میں آنے والے بے بس انسانوں کے مسائل حل کرنے کی خاطر احمد یار ملک نے اپنی زندگی وقف کر رکھی تھی۔انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے اس نے مقدور بھر جد و جہد کی۔اس نے ایک صابر ،شاکر ،متحمل مزاج ،مرنجان مرنج اور قناعت پسند درویش کی طرح زندگی بسر کی۔وہ ہر شعبۂ حیات میں مفلوک الحال اور قسمت سے محروم پس ماندہ طبقے کے حقوق کی بحالی کے لیے کوشاں رہا۔وہ مجبور اور دُکھی انسانیت کو معزز،مفتخر ،مکرم و محترم دیکھنے کا صِدقِ دِل سے آرزومند تھا۔وہ اسے حالا ت کی ستم ظریفی سے تعبیر کرتا تھا کہ قحط الرجال کے موجودہ لرزہ خیز اوراعصاب شکن دور میں عقابوں کے نشیمن میں زاغ وزغن ،بُوم و شِپر اور کرگس گُھس گئے ہیں۔مخبوط الحواس مسخرے اور فاتر العقل بونے خود کو باون گزا ظاہر کر کے سادہ لوح لوگوں کی آ نکھوں میں دُھول جھونکتے ہیں ۔ اجلاف و ارذال اور سفہا کے ٹکڑوں پر پلنے والے یہ ابن الوقت رواقیت کے داعی بن کر اپنے منھ میاں مٹھو بن بیٹھے ہیں۔وقت کے اِس سانحہ کو کِس نام سے تعبیر کیا جائے کہ جامۂ ابو جہل میں ملبوس جہلا،گُرگ، گُربہ ،استر اور خر بھی اپنی کور مغزی ،بے بصری اور بے توفیقی کا انعام ہتھیانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں مگرجوہرِ قابل کا کوئی پُرسانِ حال ہی نہیں۔جہالت ،ہوس اور حرص نے یہ دِن دکھائے ہیں کہ ہر طر ف سائے اور سراب کے عذاب مسلط ہیں مگر انسانی ہمدری اور ایثار کے پیکر عنقا ہیں۔گلشنِ ہستی میں جہاں پہلے گل ویاسمین، گلاب ،موتیا ،چنبیلی ، سر و صنوبر ،اثمار و اشجار اور بُور لدے چھتناروں کی فراوانی ہوتی تھی اب وہاں زقوم ،حنظل،تھوہر،پوہلی،جوانہہ،کانگہاری،لیدھا،اکڑا، بھکڑا،کسکوٹا،لانی، لیہہ ،لیٹی،دھتورا جنڈاور باتھو کے سوا کچھ نہیں اُگتا ۔حالات کی زد میں آنے کے بعد گلزار ہستی کے بے آ ب و گیاہ میدان میں حدِ نگاہ تک جو ضماد بکھرا ہے وہ سب چمگادڑ وں کی کار ستانی ہے ۔ آج ان خراباتوں میں اُڑتی ہوئی خاک دیکھ کر کلیجہ منھ کو آ تا ہے ۔ احمد یار ملک کاخیال تھا کہ غریبوں کے روز و شب کے معمولات میں تو کوئی تبدیلی دکھائی نہیں دیتی مگر بے ضمیروں کی پانچوں گھی میں ہیں اور ان کے مفاد پرست اہلِ خانہ کے وارے نیارے ہیں۔وہ اکثر کہاکرتا تھا ظالم و سفاک،مُوذی و مکار استحصالی عناصر ہر دور میں اپنی عیاری،سفاکی اور مکاری کے باعث بازی جیت لیتے ہیں جب کہ فاقہ کش محنت کشوں کی سب آ رزوئیں مات کھا کر رہ جاتی ہیں۔
خزاں کے سیکڑوں مناظر دیکھنے کے باوجود وہ کبھی یاس و ہراس میں مبتلا نہ ہوا بل کہ کٹھن حالات میں بھی سدا طلوع ِ صبحِ بہاراں کی تمنا کی اور حوصلے اور اُمید کی شمع فروزاں کر کے سفاک ظلمتوں کوکافور کرنے کی سعی کی۔کارزارِ ہستی میں شاہراہِ حیات پردُکھی انسانیت کو پائمال،خوار و زبوں اور پریشان حال دیکھ کر وہ تڑپ اُٹھتا۔وہ اس بات پر دِل گرفتہ رہتا کہ چاک گریباں اور درماندہ انسان اپنی زندگی ایک پیہم جبر کی صورت میں بسر کرنے پر مجبور ہیں۔یہ جگر فگار اور الم نصیب انسان اپنی زندگی کی حسرتوں ،مجروح تمناؤں اور ارمانوں کی سسکتی لاش اپنے کندھے پر اُٹھائے شقاوت آمیز نا انصافیوں پر داد طلب ہیں ۔ایک حساس انسان کی حیثیت سے وہ معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی بے اعتدالیوں ،تضادات ،کجیوں اور انصاف کُشی کی قبیح کیفیات کو دیکھ کر شدید اضطراب کاشکار ہو جاتا۔وہ وقت کے فراعنہ کومتنبہ کرتا کہ وہ فطرت کی سخت تعزیروں سے غافل نہ رہیں۔سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے اس کے بعد جاہ و جلال ،مال و منال، قوت و ہیبت ،عظمت و سطوت ،کِبر ونخوت اور شان و شوکت کے سب سفینے ،کالے دھن اور سِیم و زر کے سب دفینے غرقاب ہو جائیں گے۔دُکھی انسانیت پر کوہِ ستم توڑنے والے سب خون آشام عیاروں کی داستان تاریخ کے طوماروں میں دب جائے گی۔وہ یہ بات زور دے کر کہتا تھا کہ قصرِ فریدوں اور در کسریٰ پر آج اُلّو بول رہے ہیں اور کوئی انسان وہاں صدا نہیں کرتا ۔سب لوگ جانتے ہیں کہ ان عفونت زدہ کھنڈرات میں بد روحیں ،آسیب ،ڈائنیں ،چڑیلیں اور بُھوت قیام کرتے ہیں۔یہ بُھوت محل اپنی ویرانی کی عبرت ناک داستان سناتے ہیں جن کے اندر جامد و ساکت بُت،حنوط شُدہ لاشیں،بھبوت مَلے ہوئے بُھوت اور گِرد و نواح میں چلتے پِھرتے ہوئے مُردے دکھائی دیتے ہیں جو زندہ انسانوں کے دُکھوں کا مداوا کرنے سے قاصر ہیں۔
احمد یار ملک ایک ا یسا ہر دل عزیز رانجھا تھا جو سب کا سانجھا تھا۔اپنے شہر کے دردمندوں اور ضعیفوں سے اس نے جو عہدِ وفا استوار کیا اسی کو سدا علاجِ گردشِ لیل و نہار سمجھا۔مجبور انسانوں کے ساتھ درد و غم کے رشتے کو حساس انسانوں کے لیے وہ سب سے موقر اور معتبر قرار دیتا تھا۔احمد یار ملک نے ا پنے معتمد ساتھیوں سے مِل کر معاشرتی زندگی میں اصلاح اور خدمتِ خلق کا ایک قابلِ عمل منصوبہ بنایا تھا ۔انسانیت سے قلبی وابستگی ،والہانہ محبت اور بے لوث خدمت کے مقصد کے لیے اسے اﷲ دتہ حجام(ایک آنہ لے کر حجامت کرنے ولا حجام)،حاجی محمد یوسف،حامد علی شاہ،حکیم احمد بخش نذیر (چونی وصول کر کے علاج کرنے والا حکیم)،عبدالغنی بھانڈیاں والا، بختاور خان ،عبداﷲ خان،کرم دین موچی،نُورا قصاب،بُھورا ماشکی،رام ریاض ،گدا حسین افضل،محمد شفیع ہمدم،محمد بخش گھمنانہ،عاشق حسین فائق،فیض محمد خان سیال،دیوان احمد الیاس نصیب،رانا سلطان محمود ، رجب الدین مسافر،شیر خان ،منیر حسین ،اﷲ دتہ سٹینواور غلام علی خان چین کا تعاون حاصل تھا۔اپنے ان احباب کے ساتھ مِل کر احمد یار ملک نے شہر کے بے سہارا ، غریب اور یتیم بچوں ،بچیوں کی تعلیم و تربیت کا معقول انتظام کیا ۔معذور افراد کی بحالی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔تعلیمِ نسواں کے فروغ کو اپنا مطمحِ نظر بنایا اور فاقہ کش خاندنوں سے تعلق رکھنے والی نوجوان بچیوں کی شادی کے انتظامات اوراخراجات کے سلسلے میں ہمیشہ دستِ تعاون دراز کیا۔تعلیم یافتہ بے روزگار نو جوانوں کو ہنر سیکھنے پر مائل کیا اور اس طرح اُن میں اپنے لیے خود روزگار کے مواقع تلاش کرنے کااعتماد پیدا کیا۔احمد یار ملک کے ایما پر جھنگ شہر میں حاجی محمد یوسف نے سال 1960میں پہلاٹائپ کالج قائم کیا جس میں طلبا و طالبات کو ٹائپ اور شارٹ ہینڈ کی تربیت دی جاتی تھی۔اس ادارے میں غریب طلبا و طالبات سے کوئی فیس وصول نہیں کی جاتی تھی ۔بیس سال بعد اس ادارے میں کمپیوٹر سکھانے کا انتظام بھی کر دیا گیا۔اس ادارے سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبا و طالبات کو مختلف اداروں میں ملازمت مل گئی۔ احمد یار ملک کی اہلیہ نے اپنی محرم راز خواتین کے اشتراک سے کم آمدنی والے گھروں سے تعلق رکھنے والی خانہ دار خواتین کو مختلف ہنر سیکھ کر گھر کی آ مدنی میں اضافہ کرنے پر مائل کیا ۔ اپنی مدد آپ کے تحت گھروں میں خانہ دار خواتین کو جو ہنر سکھائے گئے ان میں قالین بافی ، چارپائیاں بُننا ،کر سیاں بُننا ،بچوں کے ملبوسات کی سلائی،خواتین کے ملبوسات کی سلائی ،کشیدہ کاری، مطبخ کے لذیذ کھانے بنانا ،رومال بنانا،کاغذ اور پلاسٹر آف پیرس سے کھلونے بنانا، گھریلو استعمال کے لیے صابن اور کپڑوں کی دھلائی کے پاؤڈر کی تیاری ،پراندے بنانا ،اونی جر سیاں سوئیٹر،دستانے ،ٹوپیاں اور مفلر بُننا،ازار بند بنانا، کاجل اور مہندی کی تیاری، بچوں کے لیے کپڑے کی گُڑیاں اور گُڈے اور کھلونے تیار کرنا ،جھالر بنانا، اور سنہری اور رو پہلی تاروں سے کُرتے ،شال اور دوپٹے پر بیل بُوٹے بنا نا شامل ہیں ۔ خواتین کی گھریلو دست کاریوں کی مقبولیت میں رفتہ رفتہ اضافہ ہونے لگا ۔سال 2000میں جھنگ کی ان خواتین کی تیار کردہ مصنوعات کو لوک ورثہ اور متعدد دیگر اداروں نے قدر کی نگاہ سے دیکھا اور ان ہنر مند خواتین کے کام کی خوب پزیرائی کی۔ بچوں کی مزدوری،کُوڑے دانوں سے کچرا چُننے اور خواتین کے بھیک مانگنے کے خلاف احمد یار ملک اور اس کے ساتھیوں نے ایک مہم شروع کی ۔ بچوں کے والدین کے تعاون سے متعدد کم سِن بچوں کو چائلڈ لیبر سے ہٹا کر تعلیمی اداروں میں داخل کرایا گیا ۔در در کی ٹھوکریں کھانے والی اور گلی کوچوں میں بھیک مانگنے والی عورتوں کو ہنر مند بنا کر با عزت زندگی بسر کرنے پر مائل کرنا جُوئے شیر لانے کے مترادف تھا مگر احمد یار ملک اور اس کے ساتھیوں نے یہ کام بھی کر کے دکھا یا۔توانا اور ہٹے کٹے بھکاریوں کو اس قبیح دھندے سے باز رکھنے کی خاطر احمد یار ملک نے مقامی پاور لو مز کے صنعت کارو ں سے رابطہ کر کے ان کے لیے با عزت روزگار کے مواقع فراہم کیے۔گداگری ،چائلڈ لیبر ،عریانی ،فحاشی ،اخلاقی بے راہ روی ،منشیات ،فیشن ،فضول خرچی ، نمود و نمائش اور دیگر سماجی برائیوں کے خلاف شہر کے جن مصلحین نے احمد یار ملک کا بھر پور ساتھ دیا ان میں محمد کبیر بھٹی،محمود بخش بھٹی،ملک شمیر خان ،ملک اﷲ یار خان،محمد منیر ،شیر محمد ،احمد بخش بھٹی،رانا سلطان محمود ،مرزا محمد وریام،ملک عمر حیات ،غلام علی خان چین،محمد بخش آڑھتی،اقتدار واجد،معین تابش،گدا حسین افضل ،حاجی حافظ محمد حیات اور اﷲ داد کے نام قابل ذکر ہیں ۔ ان سب کا اس بات پر اتفاق تھا کہ جب تک معاشرے میں بھکاری ،جواری اوراخلاق سے عاری لوگ موجود ہیں افرادِ معاشرہ کو ذلت اور خواری کے عفریت سے نجات نہیں مِل سکتی۔ ان لوگوں کے اصلاحی اقدامات کے معاشرتی زندگی پر دُور رس اثرات مرتب ہوئے ۔ انھوں نے معاشرے کے دھتکارے ہوئے لوگوں کی صلاحیتوں کو اس طرح صیقل کیا کہ ان کی عزت نفس کی بحالی کے امکانا ت پید ا ہو گئے۔ ماضی کے کئی بھکاری ، رِند، ٹھگ ،مے خوار ،چور اور اُچکے اپنی قبیح عادات سے تائب ہو کر اپنا حال بدلنے پر کمر بستہ ہو گئے ۔اس کے ساتھ ہی یہ لوگ اپنے آبائی گاؤں سے نقل مکانی کر کے ملک کے بڑے صنعتی شہروں میں جا بسے ۔ وہاں محنت مزدوری اور رزق حلال کی برکت سے ان کی دنیا ہی بدل گئی۔دولت کی ریل پیل سے نہ صرف ان کی ذات اور اوقات بدل گئی بل کہ اِنھیں نئی شناخت بھی مِل گئی۔داناؤ ں کا کہنا ہے کہ پتھر کو بھی اگر صدق ِ دِل سے تراشا جائے تو اُس کی تقدیر بدل جاتی ہے ۔احمد یار ملک کی روحانیت کے معجز نما اثر سے پائمال و خوار و زبوں انسانوں کو نشانِ منزل مِل گیا ۔ اﷲ کریم کی رحمت سے اب ان کے گھر میں ہُن برستا ہے اور ان کا شمار اپنے علاقے کے متمول،معزز اور مخیر افراد میں ہوتا ہے ۔ احمد یار ملک اور اس کی اہلیہ نے محنت کش اور خانہ دار خواتین کوبچت کے انداز بتائے اور گھریلو بجٹ کی تیاری میں رہنمائی کی ۔ آمدنی اور خرچ میں توازن اور وسائل کی حد میں رہ کر اخراجا ت کے بعد بچت کی صورت تلاش کرنے سے ان خواتین کے حالات کی کایا پلٹ گئی ۔ان کی بتائی ہوئی معاشی حکمت عملی کے نتیجے میں کئی خانہ دار خواتین نے قومی بچت کے دفتر میں اپنے کھاتے کھولے ۔مشکل وقت کے لیے پس انداز کی جانے والی سلیقہ شعار خواتین کی یہ رقم بعض اوقات پانچ چھے لاکھ تک جا پہنچتی جس سے وہ اپنی نو جوان بیٹیوں کے لیے جہیزکا ضروری سامان خرید لیتیں یا سر چھپانے کے لیے اپنا جھو نپڑا تعمیر کر لیتیں ۔ خدمت ِ خلق کے جذبے سے سرشار ان بزرگوں کے بارِ احسان سے اس شہر کے محنت کشوں کی گردن ہمیشہ خم رہے گی۔
گھوگھے والا جھنگ کی ایک قدیم کچی آبادی ہے جہاں گزشتہ بارہ صدیوں سے ماحول جوں کا توں ہے ۔ یہاں کے کچے شکستہ گھروندے طوفان نوحؑ کی شکست و ریخت کی یاد دلاتے ہیں۔گزشتہ صدی کے ساٹھ کے عشرے میں اس بستی میں بے سروپا توہمات اور فرسودہ رسوم و رواج کا چلن اس قدر بڑھ گیا کہ لوگوں کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ۔ یہاں تک کہ بیماری ،آفاتِ نا گہانی اور موت کو بھی توہم پرست لوگ مافوق الفطرت طاقتوں، آسیب ،بُھوت،جِن ،ڈائن،چڑیل یا پری کی ایذا رسانی خیال کرتے ۔گندا ٹوڑا اور گندا نالہ کے درمیان خانہ بدوشوں کی جھگیا ں تھیں ۔ منشیات اور اخلاقی بے راہ روی کے باعث یہ علاقہ منشیات گوٹھ کے نام سے پہچانا جاتا تھا ۔اسی پُر اسرار مقام پر ناصف بقال نامی مشکوک نسب کا ایک جعلی عامل رہتا تھا۔اس کی اہلیہ شباہت شمر بھی اس کی شریکِ جُرم تھی۔ شباہت شمر ایک مکار کٹنی تھی جس نے سادہ لوح خواتین کو گنڈے ،جادو ،ٹونے ،ٹوٹکوں اور سفلی علم کے نام پر فریب دے کر بے دردی سے لوٹا۔یہ ایک ما فیا تھا جو دیہی علاقوں کے سادہ لوح لوگوں کو پیچیدہ امراض ،مقدمات اور خاندانی تنازعات سے نجات دلانے کی آڑ میں اپنے اوچھے ہتھکنڈوں سے زرو مال بٹو ر لیتا۔ناصف بقال اور شباہت شمر نے کئی اُجرتی بد معاش اور پیشہ ور لُٹیرے پا ل رکھے تھے ۔ ان جعل ساز مسخروں کی ٹھگی اور سفلگی کے متعد روپ تھے۔ایک مشاطہ اور رقاصہ جس کا نام ظلو تھا وہ بھی ٹھگوں کے اس گروہ میں شامل تھی۔اس چرب زبان طوائف نے خانہ دار خواتین کو بچت کرنے کی ترغیب دی اور ہر گھر سے روزانہ تیس روپے کی کمیٹی وصول کرتی ۔اس نے یہ تاثر سے رکھا تھا کہ یہ کمیٹی ہرہفتے نکلا کر ے گی۔کئی ماہ تک علاقے کے پانچ سو گھروں سے یومیہ تیس روپے وصول کرنے کے بعد جب کسی گھرانے کی کمیٹی نہ نکلی تو سب خواتین تشویش میں مبتلا ہو گئیں ۔جلد ہی یہ راز کُھلا کہ شباہت شمر اور ظلو کے ایما پر ان کی پر وردہ کٹنیاں کمیٹی کی آڑ میں ہر گھر سے بھتہ وصول کرتی تھیں۔محلے کی خواتین نے اس صریح جُھوٹ ،فریب کاری اور لُوٹ مار کے خلاف بھر پُور احتجاج کیا مگر ان کا کوئی پُرسانِ حال نہ تھا۔اس مافیا کے ہاتھ بہت لمبے تھے اور کوئی بھی ان کی کلائی نہ مروڑ سکا۔اس مافیا کی سر کوبی کے لیے رازداری سے ایک منصوبہ بنایا گیا۔شادی کی ایک تقریب میں رقص کے لیے شہر سے دس خواجہ سرا مدعو کیے گئے تھے۔یہ تنو مند ،حسین و جمیل اور رقص کے ماہر خواجہ سرا ناچتے تو ان کی کڑی کمان جیسی چال ،سُر ،تال اور دھما ل دیکھ کر تماشائیوں کی آ نکھیں کُھلی کی کُھلی رہ جاتیں اور وہ ان پر بے دریغ کرنسی نوٹ نچھاور کرتے تھے۔ شادی کی اسی تقریب میں ظلو اور شباہت شمر بھی اپنے ساتھی بھڑووں کے ساتھ موجود تھیں۔رقص کے دوران میں ناصف بقال مافیا کے اُجرتی بد معاشوں نے سازندوں اور طبلہ نوازوں سے بد تمیزی کی اور رقص کرنے والے خواجہ سراؤں سے رقم چھیننے کی کوشش کی ۔اس پر اچانک ہنگامہ ہو گیا اور خواجہ سرا مشتعل ہو کرشباہت شمر اور ظلو پر ٹُوٹ پڑے ۔خواجہ سرا اور ان کے ہم نوا غیظ و غضب کے عالم میں اس ننگِ انسانیت مافیا کی بے غیرتی اور بے ہُودگی کے خلاف ڈٹ گئے اور ان کی خوب دُرگت بنائی۔مشتعل ہجوم جس میں خواتین کی بڑی تعد اد شامل تھی ،نے شباہت شمر اور ظلو پر پُرانے جُوتوں،گندے انڈوں ،گلے سڑے پھلوں اور عفونت زدہ سبزیوں کی بو چھاڑ کر دی اور ان کٹنیوں کے چہرے پر کالک مَل دی۔ناصف بقال ما فیا کے سب درندے لہو لہان ہو گئے اور وہاں سے دُم دبا کر بھاگ نکلے۔ اگلے روز یہ سب نا بکار ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔اس کے بعدان مُوذیوں کا کہیں اتا پتا نہ ملا۔واقفِ حال لوگوں کی یہ متفقہ رائے تھی کہ حاجی حافظ محمد حیات اوراحمد یار ملک نے علاقے کے معززین اور ذہین خواتین کے تعاون سے سادیت پسندی کے مرض میں مبتلا مسخروں پر مشتمل ناصف بقال مافیا کے اس بد نام گروہ کے مکر کا پردہ فاش کیا اور لوگوں کو ان نا بکاروں کی خست و خجالت سے نجات دلائی۔
ایک صدی قبل دُھپ سڑی ایک ایسی آبادی تھی جہاں حد ِ نگاہ تک شجرِ سایہ دار کا کہیں نام و نشاں نہ ملتا تھا ۔آزادی کے بعدیہاں ایک خستہ ،شکستہ اور بو سیدہ سی جھونپڑی میں ایک تارک الدنیا ضعیف راہبہ ظلی رہتی تھی۔ اس عیار کٹنی نے قحبہ خانہ ،چنڈو خانہ اور قمار خانہ کھول رکھا تھا ۔اس نے یہ بے پر کی اُڑا رکھی تھی کہ جب کسی عورت کو طلاق ملتی ہے یا وہ بیوہ ہو جاتی ہے تو اس کے لیے مناسب یہ ہے کہ وہ دنیا کو تج دے اور باقی زندگی تنہائی اور گوشہ نشینی کے عالم میں بسر کرے۔ظلی راہبہ جسے سب لوگ جنگلی بلی کہہ کر پکارتے تھے ، وہ اس مفروضے پر اصرار کرتی کہ کسی عورت کی طلاق یا بیوگی کا سبب خلائی مخلوق اور بد روحوں کی ناراضی ہے ۔اگر ایسی عورتیں عقدِ ثانی کریں گی تو ان کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔شہر کے ممتاز سماجی کارکن شمشاد، حاجی احمد بخش ،رفیع ،محسن اور مولا بخش نے اس مکار بڑھیاکی جعل سازی کا توڑ تلاش کیااورعلاقے کی ہر بیوہ اور مطلقہ عورت کی رضامندی سے ان کے لیے موزوں رشتے تلاش کیے ۔مخیر خاندانوں کے تعاون سے بیس بے سہارا مطلقہ اور بیوہ عورتوں کے گھر نئے سرے سے آباد کیے۔صر ف دو برس کے بعد آلام ِ روزگار کے مہیب پاٹوں میں پِسنے والی ان بے بس و لاچار خواتین کے آ نگن میں پُھول کِھل اُٹھے اور ان کی عطر بیزی سے قریۂ جاں معطر ہو گیا ۔اس نیک کام میں احمد یار ملک نے اس رازداری سے تعاون کیا کہ کسی کو اس نیک کام کی مؤثر منصوبہ بندی کی بھنک بھی نہ پڑنے دی۔نیکی کر اور دریا میں ڈال زندگی بھراحمد یار ملک کا شیوہ رہا ۔
روحانیت اور ما بعد الطبیعات سے احمد یار ملک کو گہری دلچسپی تھی۔اس تہجد گزار بزرگ کی دعائیں ہمیشہ قبولیت کے درجہ حاصل کرتی تھیں۔ اﷲ کریم نے اُسے خاص نو عیت کی بصیرت سے نوازا تھا جس کے اعجاز سے اس کی نگاہیں مستقبل کے امکانات کو دیکھ سکتی تھیں۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ زرقا الیمامہ کی طرح اس قسم کی خداد اد صلاحیتیں بہت کم لوگوں کو ملتی ہیں جو مستقبل قریب میں رُونماہونے والے حادثات ،سانحات اور واقعات کی پیشین گوئی کر سکیں۔شہر کا ضعیف معمار مستری کمال بھی کما ل کا آدمی تھا ۔ تقدیر اگر ہر لمحہ ہر گام انسانی تدبیر کی دھجیاں اور مستقبل کے منصوبوں کے پر خچے نہ اُڑا دے تو اُسے تقدیر کیسے کہا جا سکتا ہے؟مستری کمال نے فن تعمیر میں اپنی مہارت سے بے پناہ دولت کمائی،اپنا کشادہ اور خوب صوررت گھر تعمیر کیا مگر اولاد کی نعمت سے محروم رہا۔ جب وہ اپنی حیات مستعار کی اسی خزائیں دیکھ چکا تھا تو اس کی چھے بیویاں کوہِ ندا کی صدا سُن کر ایک ایک کر کے ساتواں در کھول کے عدم کو سُدھار چُکی تھیں۔وہ تو اپنی باری بھر کے چل دیں مگر ہوس اور جنسی جنوں میں مبتلامستری کمال شادی کے لیے اب اپنی ساتویں باری کے لیے بے قرار تھا۔جنسی ہوس کی نشاطِ کار بھی عجب گُل کِھلاتی ہے کہ جہاں فہم و ادراک بھی انسان کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں ۔اس بار اس نے احمد یار ملک سے مشورہ کیا تو اس نے مستری کمال کو متنبہ کیا کہ اس بے ہنگام عشق بازی اور مہم جوئی سے باز رہے ۔ مستری کمال نے سُنی ان سُنی کر دی اور اپنے جذباتی اور غیر دانش مندانہ فیصلے پر ڈٹ گیا۔احمد یار ملک نے پیشین گوئی کی کہ مستری کمال کے پاس دانے اور سامان تعیش کی فراوانی ہے کوئی نہ کوئی فاختہ ضرور دانہ چگنے کے لیے اس کے آ نگن میں اُتر ے گی ۔اس بار وہ فصلی فاختہ سب کچھ اُڑا لے جائے گی اور مستری کمال نہایت بے سروسامانی کے عالم میں پیوندِ خاک ہو گا۔مستری کمال نے اس تنبیہہ پر کان نہ دھرے اور ثباتی نام کی ایک ادھیڑ عمر حسینہ سے عقد ہفتم کر لیا۔ ثباتی کے بارے میں مُرلی خواجہ سرا کا کہنا تھا کہ اِس بیاہ سے ثباتی نے متمول ،تنہا عقل کے اندھے اور گانٹھ کے پُورے بُڈھوں کے ساتھ ہوسِ زر و مال کی خاطر کی جانے والی بے جوڑ شادیوں کی سنچری مکمل کر لی ۔ایک ماہ بعد ثباتی کی فرمائش پر مستری کمال نے قصبے میں اپنا کشادہ مکان بیچ دیا اور اپنی ساری جمع پُونجی اور بیش قیمت سامان تین بڑے ٹرکوں میں لاد کر گاؤں کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ کر نزدیکی شہر میں اپنے سسرال جا پہنچا۔ایک ماہ بعد مستری کمال کی بے گور و کفن لاش دریائے چناب کے کنارے پائی گئی۔خاک نشینوں کا خون رزق ِخاک ہو گیا اور صرف چار ماہ بعدثباتی نے مضافاتی قصبے کے ایک متمول اور تنہا بُوڑھے سے چوتھی شادی کر لی۔
دُکھی انسانیت کے ساتھ قلبی محبت احمد یار ملک کے ریشے ریشے میں سما گئی تھی۔ہر ملاقاتی کے ساتھ اخلاق ،اخلاص اورانکسار کے ساتھ پیش آنااحمد یار ملک کا شیوہ تھا۔ اس نے شہر بھر میں مقیم اپنے احباب سے زندگی بھر معتبر ربط بر قرار رکھا اور ہر شخص کی خوشی اور غم میں شرکت کی۔ بیماروں کی تیمارداری کو اس نے ہمیشہ اولیت دی۔ گر د و نواح میں مقیم سب احباب کا درد اس کے دِل و جگر میں سما گیا تھا۔ احمد یار ملک کی ایک نواسی مقامی شفاخانے میں نرس کی حیثیت سے خدمات پر مامور ہے ۔انسانیت کے مونس و غم خوار اپنے نانا اور نانی کی تربیت اور فیضانِ نظر کے اعجاز سے یہ ایثار پیشہ نرس علیل خواتین اور بیمار بچوں کی دیکھ بھال اور ابتدائی طبی امداد کے لیے ہمہ وقت مستعد رہتی ہے ۔فاقہ کش اور مفلس و نادار مریضوں سے کوئی فیس وصول نہیں کرتی بل کہ ان کے لیے معالج کی تجویز کردہ ادویات کی بلاقیمت فراہمی کے لیے بھی پڑوس میں مقیم مخیر خواتین کے تعاون سے کوئی سبیل تلاش کر لیتی ہے اور مریضوں کے علاج میں آسانیا ں تلاش کر لیتی ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ اپنے نانا اور نانی کے نقش ِ قدم پر چلتے ہوئے جذبۂ خدمت سے سر شار اس نرس نے ایثار اور دردمندی کا جو ارفع معیار اپنایا ہے وہ اوروں سے تقلیداً بھی ممکن نہیں۔احمد یار ملک اور اس کی اہلیہ نے دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے فیض کا یہ ایسا فقیدالمثال منبع بنا دیا ہے جو ہمہ وقت ان کے لیے دعاؤں کا وسیلہ ثابت ہو گا۔احمد یار ملک کی نواسی یہ نرس جو جذبۂ خدمت اور انسانی ہمدردی سے سرشار ہے اپنے گھر کی طر ح ہرگھر میں صحت اور راحت دیکھنے کی تمنا رکھتی ہے ۔
احمد یار ملک اور اس کے معتمد ساتھیوں کی متفقہ رائے تھی کہ معاشرتی زندگی میں راہ پا جانے والی تمام بُرائیوں کاسبب بے راہ روی اور اخلاقی زبوں حالی ہے ۔احمدیار ملک اور اس کے ہم خیال ساتھیوں نے نوجوان لڑکیوں کو پردے کا پابند بنانے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔شہر میں واقع کپڑے کی دکانوں سے برقعے کا کپڑا یا چادریں خرید کر مستحق خواتیں کو مفت فراہم کی جاتی تھیں۔قدیم جھنگ شہرمیں کپڑے کے تاجر،بزاز،خیاط اور مخیر حضرات اس سلسلے میں بھر پور تعاون کرتے تھے۔احمد یار ملک کے معتمد ساتھی بے سہارا بیواؤں ،یتیم بچیوں ،فاقہ کش ضعیفوں اور غریب بیماروں کی اس رازداری سے مدد کرتے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی۔وہ سب اس بات کو یقینی بناتے تھے کہ امداد لینے والے کی عزت نفس مجروح نہ ہواور کسی طرح بھی اس کی سبکی نہ ہو۔توہم پر ستی ،بد شگونی اور خام خیالی سے احمد یار ملک کو سخت نفرت تھی۔اس کے ایک پڑوسی گامن سچیارنے اپنے گھر کے آ نگن میں سُنجاونا کا ایک سدا بہار پودا لگایا ۔سنجاونا کے پھولوں اور پھلیوں سے اچار بنتا ہے اور گرمی کے موسم میں اس کی گھنی چھاؤں میں د و پہر کے وقت لوگ آرا م سے سوتے ہیں۔ احمد یار ملک نے اس سر سبز و شاداب، نرم و ناز ک اور خوب صورت پودے کو بہت پسند کیا اور اس کی نشو نما کے لیے دعا کی۔اس موقع پر زاہدو لُدھڑ جس کے سبز قدم اور کالی زبان کی نحوست سے لوگ عاجز آ چکے تھے وہ بِن بلائے وہاں آ دھمکااور غرایا:
’’یہ پودا کیوں لگا رہے ہو ؟اونہہ یہ سُنج آونا ہے !سمجھ گئے اس کا مطلب ۔سُنج آونا ! یعنی جس گھر میں یہ پودا آتا ہے اس کے ساتھ ویرانی اور بربادی خود بہ خود چلی آتی ہے ۔میری مانو اور اس منحوس پودے کو جڑ سے اُکھاڑ کر ویرانے میں پھینک د و۔اگر یہ پودا تمھارے گھر میں پروان چڑھنے لگا توتمھارے گھر کو اُجاڑ کر ویران اور تباہ و برباد کر دے گا۔سُنج آونا اپنے نام کی طرح منحوس اور تباہیوں کا امین ہے ۔جن علاقوں میں یہ پودا اُگایا جاتا ہے وہاں قحط سالی کے باعث فاقہ کشی کی نوبت آ گئی ہے ۔سُنج آونا جیسے جہنمی پودے کا گھر میں اُگانا بہت بُرا شگون ہے ۔‘‘
احمد یار ملک نے زاہدو لُدھڑ کی توہم پر ستی پر مبنی یہ بے سر و پاباتیں سُن کر اُسے اپنے روایتی انداز اور اپنے دھیمے مزاج کے مطابق خاص نرم لہجے میں سمجھایا:
’’یہ بات کان کھول کر سُن لو ہنستے بستے گھروں میں ویرانیاں ،تباہیاں ،بربادیاں اور نحوستیں لانے میں ’’سُنجاونا ‘‘یا دوسرے پودوں کا ہر گز کوئی کردار نہیں۔اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ یہ کرۂ ارض کسی نا گہانی آفت یا زلزلے کی زد میں آ کر ملیا میٹ ہونے والا ہے۔ فکرِ فردا کا کوئی رمز آ شنا یہ بتا دے کہ سیلِ زماں کے تھپیڑ وں کی زد میں آ کر آب و گِل کا یہ سارا کھیل ختم ہونے والا ہے تب بھی حوصلے اور اُمید کا شجر کِشت ِ جاں میں ضرور اُگانا چاہیے ۔جب کسی گھر یا بستی کے مکین انصاف کُشی کو معمول بنا لیں اور اخلاق باختہ حرکات کرنے لگیں، بے شرمی کو وتیرہ بنا لیں اور اپنی عزت و ناموس کو ملحوظ نہ رکھیں تو وہاں ہر طرف ذلت ،تخریب ،نحوست،بے برکتی ،بے غیرتی ،بے توفیقی اور بے حیائی کے کتبے آویزاں ہو جاتے ہیں۔ایسے مکان قبرستان کا منظر پیش کرتے ہیں اور وہاں دِن کے اُجالے میں بھی شب تاریک کی جان لیوا ظلمتیں اور مہیب سناٹے سو ہانِ روح بن جاتے ہیں۔ جس بد قسمت معاشرے سے عدل و انصاف اورحرف ِصداقت کو بارہ پتھر کر دیا جائے تو وہاں ایسی نحوست مسلط ہو جاتی ہے جو پورے معاشرتی ڈھانچے کو تہس نہس کر دیتی ہے ۔ اس کے نتیجے میں ایسی تمام بستیاں مو ہنجو دڑو ،ہڑپہ اور ٹیکسلا کے ساتھ مِل جاتی ہیں ۔ معاشرتی زندگی میں پودے نہیں بل کہ جورو ستم اور شقاوت آمیز نا انصافیاں شہروں کو ویران اور گھروں کوسنسان کر دیتی ہیں۔ محنت کش دہقان گامن سچیار کے گھر میں سنجاونا کا یہ نو خیزپودا یقیناً پھولے پھلے گا اوریہ سدا بہار پودا مکان کے مکینوں کے لیے راحتوں ،خوشیوں اور کامرانیوں کا نقیب ثابت ہو گا۔ یہاں گل ہائے رنگ رنگ کی بہار سے ہر طرف خوشبو پھیل جائے گی۔‘‘
احمد یار ملک کی دعا قبول ہوئی اور گامن سچیار کے گھر میں سنجاونا کے پودے پر پہلے ہی سال پُھول اور پھلیاں لگ گئیں۔ اگلے سال موسمِ گرما میں گامن سچیار کی بیٹی اور بیٹے کی شادی ہوئی اور مہمانوں نے سنجاونا کے درخت کی گھنی چھاؤں میں دھمالیں ڈالیں اور اسی جگہ پُر تکلف ضیافت سے لطف اندوز ہوئے۔ایک سال بعد گامن سچیار کے گھر جڑواں پوتے پیدا ہوئے تو سنجاونا کے اسی درخت کے سائے میں دھریس،بھنگڑا ،جھومر اور لُڈی سے سماں بندھ گیا۔ ہوا چلتی تو ایسا محسوس ہوتا کہ خوشی کے ان لمحات میں وفور مسرت سے سنجاونا کی شاخیں بھی محو رقص ہیں ۔ وقت تیزی سے گزرتا رہا اور سنجاونا کا پودا اب نخل تناور بن چکا ہے جس کی شاخوں سے رسی باندھ کر گامن سچیار کے پوتے اور پوتیاں جُھولا جُھولتے ہیں۔گاؤں کے لوگ اس سنجاونا کے پھول اور پھلیا ں بلاقیمت لے جاتے ہیں اور ان سے چٹخارے دار اچار تیار کرتے ہیں اور وہ احمدیار ملک اورگامن سچیار کے اہل خانہ کے لیے صدق دل سے دعا کرتے ہیں۔خالقِ کائنات نے احمد یار ملک کی دعا سے گامن سچیار کو راست بازی اور انصاف پسندی کا صلہ دیا جب کہ زاہدو لُدھڑ کے ویران گھر میں ہر طر ف تھوہر، دھتورا، زقوم اور اکڑا اُگاہوا ہے ۔ گامن سچیار جو احمد یار ملک کا بہت بڑا مداح ہے اپنے حقیقی محسن اور خیر خواہ کی رحلت پر زار و قطار رو رہا تھا ۔
اپنی تہذیب ،ثقافت اور معاشرت سے احمد یار ملک کو بہت محبت تھی اس کے باوجودسائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کو وہ بہت پسند کرتا تھا۔گاؤں میں اس کے کئی احباب اس بات پر تشویش کا اظہار کرتے کہ نئی تہذیب و ثقافت کے سیلِ رواں میں صدیوں پرانی تہذیبی و ثقافتی نشانیاں خس و خاشاک کے مانند بہہ گئی ہیں۔وہ اس بات پر گہرے دکھ اور اضطراب کا اظہار کرتے کہ ماضی کے متعدد پیشے اور ہنر جدید دور کی حیران کن سائنسی ایجادات اور صنعتی ترقی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ احمد یار ملک اپنے قریبی احباب کی باتوں کو نا سٹلجیا پر محمول کرتا تھا ۔وہ سمجھتا تھا کہ اگرچہ یہ سادہ لوح لوگ آئین ِنو سے ہراسا ں نہیں تھے اور نہ ہی وہ طرزِ کہن پر اڑناپسند کرتے تھے مگر اپنے ماضی کی حسین یادوں کے سِحرسے بچ نکلنا ان کے بس کی بات نہ تھی۔دیہاتوں کے دہقانوں نے اپنی دنیا آ پ پیدا کی تھی اور حقیقی معنوں میں وہ جفاکش انسان تھے ۔انھوں نے کٹھن حالات میں بھی حوصلے ،اُمید اور عزم و استقلال سے کام لیا اورکبھی حرفِ شکایت لب پر نہ لائے۔ اُن کا خیال تھا کہ سائنس کی نئی نئی ایجادات کے بعد صدیوں پرانے پیشے اور ان سے وابستہ افراد ماضی کی یاد بن گئے ہیں۔ اب سقہ ،ماشکی ،نان بائی،کنجڑا،دُھنیا،رفوگر،بھٹیارا، کھوجی، نقارچی،صراف،خیاط،پنواڑی،تیلی،مالشیا،جراح،ماندری،عامل ،نجومی،رمال،جوتشی،سنیاسی،جوگی،بازی گر،مداری،کوزہ گر ،آ ہن گر،نقاش ،سنگ تراش،مشاطہ،شتر بان،کوچوان،رتھ بان ،فِیل بان، موہانہ ،قلعی گر،کہار، ٹھٹھیرا ،رنگ ریز،چُوڑی گر،پُتلی تماشا دکھانے والا،ریچھ اور بندر کا ناچ دکھانے والا،جو لاہا اور نہاراکہیں دکھائی نہیں دیتا۔ قدیم اشیا سے محبت ایک فطری بات ہے ،گاؤں کے با شندے اس بات پر فکر مند تھے کہ ماضی میں روزمرہ استعمال میں آنے والی متعدد چیزیں اب صرف عجائب گھروں میں ملیں گی مثال کے طور پر کنواں ، گھڑاٹھی ،گھڑونچی،سُبی ،سروچا،مِسی ،مُساگ،بوہکر ،مانجا،پُھونکنی،دھونکنی،کُنی،پالیاں ،ماہل، کھوہی ،رسی اور ڈول ،پنگھٹ ،پینگاں،کشتیاں ،پتن ،تانگہ،رتھ،بیل گاڑی،ہتھ گاڑی،سائیکلرکشا،ڈولی،پالکی،بگھی،چرخہ،تکلا ،اٹیرن،بیلنا ،ترینگل،سو ہاگہ،ہل ،پنجالی،جندرا،کراہ،تانی، کِرچ ،تَندی،زین ،گادھی،کچاوے،واہنگہ، مدھانی ،چھاج،چھلنی،ڈوئی، صحنک ،گھڑا ،چٹورا،کلہوٹی،پڑ چھتی،کُچِن ،خراس،ہتھ چکی، شیشوں والی پنکھی ،چوپال ،ہاون دستہ،فسد ،جونک ،مسہل،قاصد کبوتر اور نامہ و پیام سب کچھ خیالِ خام بن کر رہ گیا ہے ۔ ماضی کی کیسی کیسی حسین یادیں زمانۂ حال میں قلب ِحزیں کی فریادیں بن کر رہ گئی ہیں۔ دیار ،مغرب کے مکینوں کی بھونڈی نقالی میں فاسٹ فوڈ کی بھرمار نے ہمیں اپنے آبا کے پسندیدہ کھانوں اور مر غوب غذاؤں سے محروم کر دیا ہے۔ہماری نئی نسل کو چِینے کا باٹ ، گندم کے بھت ،کِھچڑ،بُھسری ،ٹِکڑے ،ٹانگری، پتاشے،الائچی دانہ،تاندلے کی روٹیوں ،منڈوے کے پراٹھے،ستُو اور گُڑ کے شربت اورپنجیری کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ،کئی خو د رو سبزیوں جیسے الونک ،اکروڑی،گنار،باتھو،ڈیہلے،پِیلوں اورپیلکاں کا اب کہیں سراغ نہیں ملتا۔ ہماری جنم بھومی کے صدیوں پرانے کھیل دولت کی ریل پیل میں گردِ راہ بن گئے ۔اب تو نئی نسل کو کبڈی،گُلی ڈنڈا ،کشتی،کُھدو کُھونڈی،رسہ کشی،سٹاپو،ککلی ،کو کلا چھپاکی،لُکن مِیٹی ،بندر کِلا،لَک بَھننا،پِٹھو گرم،اکڑ بکڑاور لنگڑ ا شیر جیسے مشاغل کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ گاؤں سے تعلیم کی خاطر شہر پہنچنے والے نو جوان یہ بھی بُھول جاتے ہیں کہ اُن کی ماں نے اپنے لختِ جگر کوز یور ِتعلیم سے آ راستہ کرنے کی خاطر اپنا کتنا چاندی اور سونے کا زیور فروخت کیا۔کاش دیہی علاقوں کے نو جوان بڑے شہروں میں گُل چھرے اُڑانے سے پہلے یہ سوچ لیں کہ ان کے ضعیف والدین کس طرح اپنا پیٹ کاٹ کران کے اخراجات پُورے کر ر ہے ہیں۔
احمد یار ملک اپنے سادہ لوح دیہاتی احباب کی باتیں توجہ سے سنتا اور ان پر واضح کر دیتا کہ تاریخ کا ایک مسلسل عمل ہوتا ہے ۔وقت کی مثال سیلِ رواں کی مہیب موجوں کی سی ہے ۔اس عالمِ آب و گِل میں کوئی بھی شخص اپنی شدید تمنا اور دلی خواہش کے با وجود بیتے لمحات اور آب ِ رواں کے لمس سے دوبارہ کسی صورت میں فیض یاب نہیں ہو سکتا۔ماضی کی یہ سب نشانیاں بلا شبہ اب تاریخ کے طوماروں میں دب چکی ہیں۔اب ان کی یاد میں دِل بُرا کرنے کے بجائے اپنے دِل میں نئی ایجادات کو جگہ دینی چاہیے۔جدید دور میں سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کے ذریعے انسان سورج کی شعاعوں کو گرفتار کر کے ستاروں پر کمند ڈال چکا ہے۔پرِ زمانہ کے بارے میں اس کا خیال تھا کہ اس کی رفتار تو پروازِ نُورسے بھی کہیں بڑھ کر ہے۔ماضی میں زندگی سنگ پشت پر سوار تھی مگر جدید دور میں تو زندگی ہوا کے دوش پر سوار ہے اور بادل کا ہاتھ تھام کراس محیر العقول انداز سے خلا کو مسخر کر رہی ہے کہ نجومِ فلک بھی کاروانِ ہستی کی گردِ راہ ہیں۔
احمد یار ملک نے جدید ذرائع مواصلات میں اختصاصی مہارت حاصل کر رکھی تھی۔ایک محنتی ،دیانت دار اور فرض شناس پر وفیشنل کی حیثیت سے محکمہ ٹیلی فون کے اعلا افسر اس کی خدمات کے معترف تھے۔جدید دور کی سائنسی ایجادات جن میں وائرلیس،براڈ بینڈ ،انٹر نیٹ ،سمارٹ ٹیلی ویژن،برقی ڈاک،برقی کتب ،ڈیجیٹل کتب خانے ،سائبر کتب خانے ،مختصر پیغام کی خدمات(SMS)،سکین ،پر نٹنگ ،ویب کیم ،واٹس ایپ اور سکائیپ وغیرہ شامل ہیں ان سب کے استعمال کے بارے میں اسے کا مل آ گہی حاصل تھی۔ روزانہ اخبارات ، علمی و ادبی رسائل اور کتب کا مطالعہ وہ با لعموم انٹر نیٹ پر کرتا تھا۔علامہ اقبال سائبر کتب خانہ کی بیش تر کتب کا اس نے مطالعہ کیا ۔اس کتب خانے کو وہ دنیا بھر میں علم کے فروغ کی جانب ایک عظیم جست سے تعبیرکرتاتھا۔قرآن حکیم کی تفسیر ،احادیث کی کتب،تاریخ اسلام کی کتب،ادبیات عالم ،عالمی کلاسیک،علوم شرقیہ ،نفسیات ،علم بشریات،طب اور فلسفہ کی سیکڑوں کتب انٹر نیٹ پر اس کے زیر مطالعہ رہیں ۔قرأت ،حمد و نعت اور قوالی سننے کااسے بہت شوق تھا ۔اپنے ذوق سلیم کی تسکین کے لیے اس نے یو ٹیوب کو وسیلہ بنایا۔احمد یار ملک نے پیرا سا ئیکالوجی کو ہمیشہ ناقابل عمل، غیر معتبر اورجعلی سائنس قرار دیا مگر اس کے بعض پر اسرار اثرات کے بارے میں وہ خود حیرت زدہ تھا۔اس کا خیال تھا کہ شاہراہ ِ حیات کے آبلہ پا مسافروں کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ مصائب و آلام اور غم و اندہ کا بارِ گراں تن تنہا اُٹھا کرسُوئے منزل رواں دواں رہیں۔وہ تعلق ِ ذہنی،دُور اندیشی،دُور بینی،دروں بینی،پیش بینی ،تزکیۂ نفس ،نفسی تحریک اور جہد للبقا کے بارے میں اس قدر ثقاہت سے اظہار ِ خیال کرتا کہ اس کی باتیں نوائے سروش محسوس ہوتیں ۔وہ اس بات پر اکثر زور دیتا کہ یہ کا ئنات ابھی تکمیل کے مراحل میں ہے ۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ باطنِ ایام پر نظر رکھنے والے بصیرت سے متمتع لوگ پیہم صدائے کن فیکون سُن رہے ہیں۔
وہ اس بات کی جانب اکثر متوجہ کرتا کہ ساری دنیا میں سائنسی، تہذیبی ،ثقافتی ،معاشی اور معاشرتی انقلاب کی دستک زنی کا غیر مختتم سلسلہ جاری ہے ۔گردشِ افلاک کے نتیجے میں زمین بھی تغیر و تبدل کی زد میں ہے مگر آلامِ روزگار کے پاٹوں میں پِسنے والی دُکھی انسانیت کے حالا ت جوں کے توں ہیں۔احمد یار ملک کے پڑوسیوں اور احباب کی نو جوان اولاد نے محنت مزدوری اور حصول روزگار کے سلسلے میں ملک کے بڑے شہروں یا بیرونِ ملک قیام کر لیا۔وقت انسان کو کس قدر مجبور کر دیتا ہے کہ بُوڑھے والدین نے اپنی نو جوان اولاد کو دِل پر ہاتھ رکھ کر جُداکیا اور ان کی صحت و سلامتی کے لیے سدا دعا کی۔جب ان ضعیف والدین کواپنی نوجوان اولاد کی یا دستاتی تو وہ فوراً احمد یار ملک کے گھر پہنچ جاتے ۔احمد یار ملک کے پاس ان بزرگوں کی پریشانی اور اضطراب کا نہایت مؤثر علاج تھا۔وہ پہلے تو واٹس ایپ پر ان معمر والدین کی ان کی اولاد کے ساتھ بات چیت کا انتظام کرتا ۔اس کے بعد وہ سکائیپ یاکسی اور دستیاب سروس پر ان کی با لمشافہ گفتگو کر ا دیتا۔ اس با لمشافہ گفتگو کے بعدہر قسم کے تفکرات ،اضطراب اور بے چینی کا خاتمہ ہو جاتا۔احمد یار ملک کے گھر میں موجود ٹیلی فون کا کنکشن ،کمپیوٹر ،ویب کیم اور دیگر آلات ان لوگوں کے لیے ہمہ وقت بلا معاوضہ دستیاب تھے۔ جو لوگ جدید دور کی ان مواصلاتی سہولتوں تک رسائی کی استعداد نہیں رکھتے ان کے لیے یہ ایک بہت بڑی نعمت تھی ۔ وطن عزیز کے دُور دراز علاقوں اور بیرونِ ملک مقیم نو جوان اپنے ضعیف والدین سے ملنے کے لیے جب بے چین ہوتے تو وہ بلاتامل احمد یار ملک کو اس سے آ گاہ کرتے اور وقت بھی بتا دیتے۔مقررہ وقت پر احمد یار ملک ان نوجوانوں کے ضعیف والدین کو اپنے گھر بلاتا اور اپنا کمپیوٹر ،انٹر نیٹ اورویب کیم چلا تا۔اس کے ساتھ ہی سکائیپ وغیرہ پر جب ان کی با لمشافہ بات چیت ہوتی توسب کے دِل کی کلی کِھل اُٹھتی۔احمد یار ملک کی زندگی شمع کے مانند گزری جس کا ایک ہی مقصد رہاکہ ہر دِل میں اُمید کی مشعل فروزاں کی جائے اور پریشانی کی تاریکی کافور کی جائے۔ اگر کسی نوجوان کے ضعیف یا معذور والدین احمد یار ملک کے گھر تک پیدل چل کر نہ آ سکتے تو ان کے لیے وہ اپناذاتی 4Gکنکشن والا موبائل فون تھامے اپنے گھر کے WIFIسے رابطے کے ذریعے باہمی بالمشافہ ملاقات کا اہتما م کر دیتا ۔یہ ایسی بے لوث خدمت ہے جس میں کوئی اس کا شریک و سہیم نہیں۔
ہمارے معاشرے میں بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہین جن سے ملاقات کرنے کے بعد زندگی کی حقیقی معنویت کی تفہیم میں مدد ملتی ہے اور زندگی سے والہانہ محبت کے جذبات نمو پاتے ہیں۔ایسے لوگوں کا وجود اﷲ کریم کا بہت بڑا انعام سمجھا جاتا ہے ۔ خا زارِ حیات میں اہلِ زمانہ کے لیے ایسے لوگ شجرِ سایہ دار ثابت ہوتے ہیں جو آبلہ پا مسافروں کو آلام روزگار کی تمازت سے محفوظ رکھتے ہیں ۔احمد یار ملک کاشمار ایسے ہی نادر و نایاب لوگوں میں ہوتا تھا۔حج بیت اﷲ کی سعادت حاصل کرنے کے بعد احمد یار ملک نے ایران ،عراق ،شام ،سوڈان،مراکش،لیبیا،اُردن اور سپین کا مطالعاتی سفر کیا ۔زندگی کے آخری ایام میں احمد یار ملک کا رجحان تصوف ،روحانیت اور ما بعد الطبیعات کی طرف ہو گیاتھا ۔ وہ سمجھتاتھا کہ فغانِ صبح گاہی ،دعائے نیم شبی اور اﷲ ہُو کے وِرد سے انسان اپنے خالق کو پہچان سکتا ہے اور محتاج ِ ملوک بننے سے بچ جاتا ہے ۔ عبادات ،زہد و تقویٰ اور انسانی ہمدردی کو وہ ایسا زادِ راہ سمجھتا تھا جو عدم کے کوُچ کے وقت بہت مفید ہے۔ ایک راسخ العقیدہ مسلمان،حق پرست انسان اور مردِ مومن کی حیثیت سے اس نے وہ ارفع مقام حاصل کیا کہ اس کی نگاہ سے لوگوں کی مقدر بدل جاتے تھے۔اس کے کشف و کرامات اور محیر العقول کر شمات کا ایک عالم معتر ف تھا۔وہ قدرت ِکاملہ کے متعدد پوشیدہ اور پُر اسراررازوں کا ایسا محرم تھا کہ کسی کو اس کی حقیقت کا علم نہ ہو سکا ۔یہ راز کسی کو معلوم نہ تھا کہ یہ مردِ مومن جو بادی النظر میں قرآن اور حدیث کاقاری دکھائی دیتاتھا در اصل اس کی پُوری زندگی قرآن حکیم ،حدیث نبویﷺ اور اسلامی تعلیمات کے سانچے میں ڈھل گئی تھی۔ وہ توحید و رسالت کاسچا شیدائی اور ملت اسلامیہ کا بیش بہا اثاثہ تھا۔اُسے سیکڑوں قرآنی آیات،بہت سی سورتیں اور متعدد احادیث نبویﷺ زبانی یاد تھیں ۔عملی زندگی میں موقع اور محل کی مناسبت سے وہ ناصحانہ انداز میں جب قرآنی آیات اور احادیث نبوی ﷺ کا فی البدیہہ حوالہ دیتا تو سامعین اس کے انداز تخاطب سے گہرا اثر قبول کرتے اور اپنی اصلاح پر مائل ہو جاتے ۔ایسا محسوس ہوتا کہ یہ مردِ حق پرست بولتا ہے تو اس کی باتوں سے پُھول جھڑتے ہیں۔اگرچہ و ہ قرآن حکیم اور احادیث نبوی ﷺ کا مکمل حافظ نہیں تھا مگر جس تسلسل ،صراحت اور بھر پور اعتماد کے ساتھ وہ قرآن حکیم کی سورتیں اور احادیث نبویﷺ قرأت سے پڑھتا تھا اُنھیں سُن کر اکثر لوگوں کو گمان گزرتا کہ احمد یار ملک قرآن حکیم اور احادیث نبوی ﷺ کا حافظ ہے ۔
سردیوں کی ایک خاموش اوراُداس صبح تھی سامنے درخت پر کوئل کُو کُو کر ر ہی تھی اور پپیہا پی کہا ں !پی کہاں پکار رہا تھا ۔ درختوں پر کئی اور طیور بھی بلند آواز سے چہچہا رہے تھے۔ایسا محسوس ہوتا تھا کہ زمین بھی دِل کے مانند دھڑکنے لگی ہے۔ حسب معمول احمد یار ملک نماز فجر ادا کر کے تلاوت مکمل کر چکا تھا ۔اس کے بعد اس نے بچوں کو درس ِ قرآن دیا اور دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے۔اس کی دونوں بیٹیاں اور ان کی اولاد اپنے روزمرہ کے معمولات میں مصروف ہو گئے مگر ایک ان جانے خوف سے احمد یار ملک کی بہن نے اپنا دِل تھام لیا ۔ اس اثنا میں اچانک احمد یار ملک نے سب عزیزوں کو اپنے پاس بُلایا اور انھیں بتایا کہ اس کا دمِ آخریں بر سرِ راہ ہے ۔اس نے سب کو اﷲ حاٖفظ کہا اورقبلہ رُو ہو کر چارپائی پر لیٹ گیا۔اس کے لبوں پر کلمۂ طیبہ کا وِرد جاری تھا کہ اچانک اس کی آواز بند ہو گئی ۔یہ مردِ مومن اپنے خالق کے حضور پہنچ چکا تھا اور اس کے چہرے پر حوصلے اور اطمینان کی عکاس سدا بہار مانوس مسکراہٹ تھی۔انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔
احمد یار ملک نے جب عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب رخت سفر باندھا تو شہر کا شہر سوگوار تھا ۔محلہ حسین آباد،مرضی پورہ اورنواحی بستیوں کے ہر گھر میں صفِ ماتم بچھ گئی تھی ۔ہر آنکھ اشک بار تھی اور ہر دِل سے ہُوک سی اُٹھ رہی تھی۔جنازے کے بعد میّت جھنگ شہر کے کربلا حیدری پہنچائی گئی ۔لحد تیار تھی اور احمد یار ملک کو اس کی اہلیہ کی آخری آرام گاہ کے قریب سپر دِ خاک کیا گیا ۔سب احباب نے اس عظیم انسان کی قبر پر گلاب کے پُھول نچھاور کیے ۔قاری اﷲ رکھا نے دعائے مغفرت کرنے کے بعد گلو گیر لہجے میں کہا ’’اﷲ حافظ احمد یار۔‘‘
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ موت ہر انسان کودردِ لادوا دے جاتی ہے اور پس ماندگان کی باقی زندگی دائمی مفارقت دینے والوں کی حزیں یادوں کے باعث وقفِ خزاں ہو کر رہ جاتی ہے ۔کر بلا حیدری میں احمد یار ملک کی لحدگُلاب کے پُھولوں سے ڈھک گئی تھی۔ احمد یار ملک کی لحد کے کنارے کھڑاہر سوگوارشخص اپنے حقیقی محسن،بہی خواہ اور دیرینہ مونس و غم خوار کی تربت پر پُھول نچھاور کر رہا تھا۔ ایک ہزار سال قدیم اس شہرِ خموشاں میں احمد یار ملک کی مانوس آواز سب نے سُنی جس نے ساغر صدیقی کا یہ شعر دہرایا۔اس شعر کی باز گشت آج بھی نہاں خانۂ دِل میں سنائی دیتی ہے ۔
یاد رکھنا ہماری تُربت کو
قرض ہے تم پہ چار پُھولوں کا
 

Prof.Dr.Ghulam Shabbir Rana
About the Author: Prof.Dr.Ghulam Shabbir Rana Read More Articles by Prof.Dr.Ghulam Shabbir Rana: 80 Articles with 257199 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.