ہندوستان میں ادبی تاریخ کے حوالے سے شاعری ہو یا
فکشن یا پھر دیگر اصناف ادب سبھی میں اتر پردیش کو اولیت حاصل رہی ہے ۔اتر
پردیش میں سنبھل روہیل کھنڈ کے نوضلعوں میں سے ایک ضلع ہے ۔ جب شہر سنبھل
پر مہاراجہ پرتھوی راج کا تسلط قائم ہوا تو اس نے اسی شہر کو اپنا دار
الحکومت بنایا تھا ۔ہندو مذہب کے لئے یہ پاکیزہ تیرتھ استھان کے طور پر بہت
اہم ہے ۔ سر زمین سنبھل پر ادب کے حوالے سے بات کی جائے تو تو ہمیں مایوسی
نہیں ہوگی یہاں سوائے تحقیق کی کمی کے اور کوئی کمی نظر نہیں آتی ۔ہر دور
میں بے شمار قادر الکلام قلم کاروں کے ذریعے یہاں ہر صنف پر قابل ذکر کام
ہوتا رہاہے ۔شاعری کے میدان میں حمد،نعت ،منقبت ، مرثئے ،گیت ،نظم ،ماہئے ،غزل
،مثنوی غرض کوئی بھی صنف ہو اس زمین پر نظر انداز نہیں کی گئی ۔ اس خطے کی
علمی اور ادبی حیثیت ہر دور میں مسلم رہی ہے ۔یہاں تذکرہ نگار ،مورخ،صحافی
ادیب ہمیشہ سے ہی اپنی لگن اور ذوق و شوق سے اس بنجر زمین کی آؓبیاری میں
مصروف رہے ہیں ۔
سنبھل کے عہد ِ قدیم پر نظر کریں تو یہاں’ مدرسۃ الشرع‘ جس میں ابو حنیفہ
ہند مولانا شاہ حاتم اسرائیلی درس دیتے تھے اور حاتم سرائے میں بعہد مغل
ایک’ دارالعلوم ‘جس کی تعلیم اتنی مشہور تھی کہ دور دور سے علم کی لگن
رکھنے والے اپنے ذوق مطالعے کی تشنگی کو سیراب کرنے کے لئے یہاں آتے تھے
بہت فیض بخش ادارے رہے ہیں ۔ تصانیف و تخالیق کے زمرے میں شیخ مکھن
عشقیؔ،ہری ہر پرساد شاد سنبھلیؔمصنف ’بدیع الفنو ن ‘،میر حسین دوست ذاکرؔ
سنبھلی مؤ لف ’تذکرہ حسینی ‘،قدرت اﷲ شوق ؔ مؤلف ’طبقات الشعراء‘ جیسے
کاملان فن، اساتذہ سخن نے اپنی نگارشات و تخلیقات سے اس چمن کی خوشبو کو
ہمیشہ تر و تازہ رکھا ہے۔صاحب دیوان شاعروں کی صف میں حکیم کبیر علی کبیر ؔ
سنبھلی ،چھوٹے بھائی حکیم احمدعلی حسرتؔ، صاحب زادے حکیم صغیر علی مروتؔ جو
جرات ؔکے شاگرد بھی تھے ان کی تصنیف ’گلدستہ عجائب رنگ داستان نثر اردو
‘جیسے قادر الکلام شعرا کا ذکر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔دیگر مشہور
شعرا جن کا قدیم تذکروں میں نام ملتا ہے صبیح عالم خاں نیازؔ سنبھلی ،میر
خواجہ بخش منتظرؔ سنبھلی ،قادر بخش قادر ؔ سنبھلی ،شیخ علی بخش
بیمارؔ،مولوی محمد ہادی ہادیؔ،احمد حسن خاں شاکرؔ،محمداسحق ؔخاں سنبھلی
وغیرہ کے علاوہ بھی کتنے ایسے ہیں جو قابلٖٖ فخر تھے لیکن عدم توجہی کی نظر
ہو گئے ۔کتنوں کے کلام محفوظ نہ کئے جاسکے۔ بہت ایسے ہیں جنھیں زمانے کی
ناقدری کے ہاتھوں خا طر خواہ پذیرائی نہ ملی ۔
جدید شعرا کی کھیپ میں مصور سبزواری ،عقیل سنبھلی،جلال افسر وغٰیرہ یہاں کے
معروف نام ہیں ۔ادبی ذوق اور بے لوث اردوخدمت کے لئے ان کی پہچان تا قیامت
قائم رہے گی ۔سنبھل کی ادبی روایت کا ایک اہم نام ڈاکٹروجاہت حسین عندلیبؔ
شادانی کا ہے ۔محمود خاں سرائے کے ایک صدیقی گھرانے میں پیدا ہوئے والد کا
نام اشتیاق حسین تھا۔سنبھل رام پور اور علی گڑھ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد
لندن سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔آپ کو نظم و نثر پر مکمل دسترس تھی ْشاعری
کے علاوہ افسانہ نگاری میں بھی بہت شہرت ملی ۔بنیادی طور پر شادانی کا کام
تحقیق و تنقید کے زمرے میں شامل ہے ۔تحقیق کے حوالے سے ادب کی گراں قدر
خدمات کے عوض ا ردو ادب میں ا نھیں ہمیشہ یاد کیا جاتا رہیگا ۔ان کے کلام
سے بہت سی غزلیں فلموں کے مشہور نغمے بنے ۔ان کی مشہور غزل۔
دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو
آ س نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا پہلے ہم گھبرائے تو
چاہت کے بدلے میں ہم تو بیچ دیں اپنی مرضٰی تک
کوئی ملے تو دل کا گاہک کوئی ہمیں اپنائے تو
عہد حاضر کا ذکر کریں تو سیکڑوں ادباء اور شعرا اپنی محنت اور لگن سے ابی
خدمت میں لگے ہوئے ہیں ۔ حال ہی میں ڈاکٹر کشور جہاں زیدی صاحبہ نے سنبھل
کے نامور شعرا کا ایک انتخابی تذکرہ تالیف کیا ہے۔مشہور شاعرعقیل سنبھلی کی
پیدائش ۱۹۴۲ کو خانوادے سید فضل احمد کے گھر ہوئی۔ بچپن سے ہی ادبی ماحول
ملنے کی وجہ سے شاعری سے شغف رہا۔ ان کا مجموعہ کلام ’جرس گل ‘قطعات کا
مجموعہ ’جرس احساس ‘شائع ہو کر منظر عام پر آچکے ہیں ۔ اس کے علاوہ ان کی
وفات کے بعد بھی ان کے بیٹے جوعہد حاضر کے مشہور شاعر بھی ہیں ڈاکٹر طارق
قمرؔ نے ایک مجموعہ ترتیب دے کر ’ جرس سخن ‘ شائع کرایا ہے۔کلام کا نمونہ ۔
اف یہ جبین شوق کے سجدوں کی لذتیں
آواز دے رہا ہے ترا سنگِ در مجھے
بہت ناز ہے تم کو جس داستاں پر
ہمیں ہیں سپرد ِ قلم کر نے و ا لے
عہد کے مشہور شاعر سید ظفر حسین نقوی مصوؔر سبزواری چودھری سرائے میں ۱۹۳۲
ء کو پیدا ہوئے والد کا نام سید حامد علی تھا ۔ فکشن کے ساتھ ساتھ شاعری
میں بھی اپنی پہچان بنانے میں کامیاب رہے ۔ان کا مجموعہ کلام ’ خزینہ سخن
کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ بصیرت اور حسیت نے انھیں ہم عصر شعرامیں
منفرد لہجہ عطا کیا ۔ مصور کی شاعری میں تصوف کا عکس نظر آتا ہے۔
آخری بار اس کو دیکھے بھی زمانے ہوگئے
وحشتیں پاگل ہو گئیں جنگل پرانے ہو گئے
خوش نظر نکلا نہ مجھ کو خوش گماں رہنے دیا
درمیاں اس نے یہ پردہ بھی کہاں رہنے دیا
اظہر حسین آہ ؔ سنبھلی والد پیر ظفر حسن قادری عابد شب زندہ دار عاشق رسول
ولی صفت انسان تھے ۔شاعری کا شوق ننہال کی طرف سے ورثے میں ملا تھا ۔مامو
مشہور شاعر تھے ۔متعدد اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ۔ دو مجموعہ کلام
’’بھیگے موسموں کی مہک‘‘اور عدالت لفظوں کی عوام و خواص میں بہت مشہور
ہوئے۔شاعری میں اپنے تجربوں ،تفکر و تخیل کو پیش کیا ہے۔نمونہ کلام ۔
مجھے بھی پڑھ لو حرف ثواب بن جاؤں ورق ورق ہوں کسی دن کتاب بن جاؤں
ہر ایک لٹ سے کئی بجلیاں جھانکتی ہیں تم اپنے بال کھلی چھت پہ مت کھلے
رکھنا
نئی نسل کے مشہور نو جوان شاعر ڈکٹر طارق قمر عقیل ؔ سنبھلی کے بیٹے ہیں ای
ٹی وی اردو کے ہیڈ اور نظم و نثر میں بہترین تصانیف کے طور پر جانے جاتے
ہیں ۔ ۱۹۷۲ ء کو سنبھل کے معتبرگھرانے میں پیدا ہوئے ۔ خاندانی ادبی سرمائے
کے وارث ہونے کا پورا پورا حق ادا کر رہے ہیں ۔ شعری مجموعہ’’ شجر سے لپٹی
ہوئی بیل‘‘ اور ’’ پتوں کا شور ‘‘ادبی دنیا میں بہت مشہور مانے جاتے ہیں ۔ان
کی شاعری فکر و تجربات سے مزین ہے ۔
ملو جس سے و ہی ظل الٰہی جسے دیکھو قصیدہ مانگتا ہے
میرے تو درد بھی اوروں کے کام آتے ہیں
میں رو پڑوں تو کئی لوگ مسکراتے ہیں
رعونتیں چلی آئیں گھروں سے قبروں تک ‘ یہاں بھی نام کے پتھر لگائے جاتے ہیں
مفلسی میں اپنا بھرم رکھنے والے شاعر نصرت ؔسنبھلی عہد حاضر کے نمائندہ اور
ممتاز شعرا میں شمار کئے جاتے ہیں ۔ زمین دار گھرانے سے ہونے کے بعد بھی
غریبی اور افلاس ان کی شاعری میں اپنا دردو کرب بیا ن کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
آپ کی غزل صرف دیار محبوب تک محدود نہیں ہوتی بلکہ یہ واقعات اور معاشرے کی
گہرائیوں میں سے اپنا موضوع نکالتی ہے ۔
ہم نے رکھا مفلسی میں اس طرح اپنا بھرم
واسطے کم کر دئے مغرور کہلانے لگے
کس کو فرصت تھی کہ دیکھے کس کا گھر جلتا رہا
میرے گھر کی روشنی میں راستہ چلتا رہا
وقار رومانی ؔدیپا سرائے سنبھل کا ایک معروف شاعر اور صحافتی دنیاں میں سب
ایڈیٹر کے طور پر پہچانا جانے والا ایک اہم نام ہے ۔ آپ ہند انٹر کالج
سنبھل کے سابق پرنسپل کی حیثیت سے بڑے اور مشکل کام کالج کے لئے انجام دے
چکے ہیں ۔ ان کی ولادت ۴ ۱۹۴ ء کو آفتاب احمد کے یہاں ہوئی ۔تصانیف میں ’
غالب کچھ جائزے ‘ شعری مجموعہ ’’دشت نو ‘‘ جسے ا تر پردیش اردو اکیڈمی کی
طرف سے انعام سے نوازا جا چکا ہے ۔ان کا کلام اپنی زبان و اسلوب میں بے
نظیر ہے۔ ذیل میں نمونہ کلام کی جھلکیاں ملاحظہ ہوں ۔
دل میں ایک شورش جذبات جگا جائے ہے
جب بھی آئے ہے تیری یاد رلا جائے ہے
کوہ چھوڑا نہ کوئی دشت نہ دریا کوئی
طالب ِ دید ملا ہوگا نہ ہم سا کوئی
اس کے علاوہ بھی بہت سے ممتاز شعرا سنبھل کا نام ادبی خدمات کے ضمن میں درج
کرا رہے ہیں ۔جن میں سید محمد ظفر اشکؔ سنبھلی،مجاہد حسین قفس ؔسنبھلی، سید
عبد الاحد زیدی احد ؔ سنبھلی، مواحدحسین طلعت ؔسنبھلی ،مزمل ؔ سنبھلی، مظہر
حسین ناظم ؔ سنبھلی، تمکین سنبھلی،معجز ؔسنبھلی، ملکہ آفاق زمانی آفاقؔ ِ،
اعجاز حسین وارثی اعجازؔ ، نوجوان شاعر امیر حسین امام امیرؔ ِ،ریاست حسین
ریاستؔ، بہار حسین بہارؔ، ڈاکٹر وصی اﷲ انجمؔ، شفیع وارثی ،استاد نسیم
الظفر نسیم ؔ ،عبد لرحمن وارثی نورؔ وغیرہ کی روشنی نئی نسل کے لئے مشعل
راہ ہے اور اس روشنی میں آئندہ کے خوش آئند امکانات واضح ہو رہے ہیں اور
ہوں بھی کیوں نہ جہاں کا ماضی اتنا خوشگوار رہا ہو وہاں حال کی سیرابی اور
مستقبل کے امید افزا امکانات خاطر خواہ کیوں نہ ہونگے۔ سنبھل یوں تو علمی
وادبی اعتبار سے ہر عہد میں ممتاز ہے لیکن فکشن کے میدان میں بہت کم فنکار
نظر آئے،اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کے اساتذہ نے نئی نسل کو اس جانب متوجہ ہی
نہیں کیا ۔اس کے باوجودفکشن نگاری میں بھی نصف درجن کے قریب مصنفین اس خطے
کا نام عالمی پیمانے پر روشن روشن کر رہے ہیں ۔ سید نفیس احمد کے افسانے
پورے ہندوستان میں پڑھے جاتے ہیں ۔ڈاکٹر محمد فرقان سنبھلی لکچرر علی گڑھ
مسلم یونیورسٹی کا نام آج ادبی دنیاں میں ان کے افسانوں کے حوالے سے بیرون
ممالک میں بھی عزت و احترام سے لیا جاتا ہے ۔محمد یامین سنبھلی کے دو
مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں ۔ گو کہ یہ جامع تذکرہ نہیں ہے تاہم اس میں
بہت کچھ سنبھل کے ادبی منظر پر روشنی پڑتی ہے ۔ چونکہ اس مختصر مضمون میں
سب کو شامل کرنا کسی طرح بھی ممکن نہیں تھا ۔ اس لئے اختصار کو ملحوظ خاطر
رکھتے ہوئے اپنی بات کو استاد نسیم الظفر کے اشعار کے ساتھ ختم کرتے ہیں ۔
کوئی جگنو نہ ستارہ نہ دیا کچھ بھی نہیں شب سے کیا ڈرنا ہونے کو بچا کچھ
بھی نہیں
آ،یونہی چلتے چلتے بات کریں یہا ں فر صت کسے میسر ہے
وہ ڈھونڈتا ہے مجھے راہ جب بدل کے چلوں
جب اس کی سمت بڑھوں پیچھے ہٹنے لگتا ہے |